غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط اول)

Published On January 4, 2024
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...

ڈاکٹر خضر یسین

یہ خالصتا علمی انتقادی معروضات ہیں۔ غامدی صاحب نے اپنی تحریر و تقریر میں جو بیان کیا ہے، اسے سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنی معروضات پیش کر رہے ہیں۔ محترم غامدی صاحب کے موقف کو بیان کرنے میں یا سمجھنے میں غلطی ممکن ہے۔ غامدی صاحب کے متبعین سے توقع کرتا ہوں، غلطی بیانی یا غلط فہمی کی ضرور نشاندہی کریں گے۔

سب پہلے تصور “ماخذ دین” آتا ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک دین کا واحد ماخذ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ “دین حق” وہی ہے جسے آنجناب علیہ السلام اپنے قول، فعل اور تقریر و تصویب دین قرار دیں۔

ہماری گزارش یہ ہے

“دین” کا ماخذ آنجناب علیہ السلام کی ذات گرامی نہیں ہے، آپ علیہ السلام کی ذات شریف “مہبط وحی” ہے۔ دین کا ماخذ “وحی خداوندی” ہے۔ آنجناب علیہ السلام اس وحی کے پہلے مکلف و مخاطب ہیں اور آنجناب کی اطاعت و اتباع میں آپ علیہ السلام کی امت اس کی مخاطب و مکلف ہے اور بالکل اسی طرح سے مکلف و مخاطب ہے جس آنجناب علیہ السلام خود ہیں۔ آنجناب علیہ السلام نے اپنے قول، فعل اور تقریر و تصویب سے دین نہیں بنایا۔ دین مکمل طور آنجناب علیہ السلام پر اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوا ہے۔

“دین” کتاب و سنت پر مشتمل ہے اور کتاب و سنت دونوں یکساں منزل من اللہ ہیں۔ دونوں الامۃ من حیث الامۃ  کا “مجمع علیہ” ہیں۔ “دین” صحابہ کرام کا یا کسی خاص زمانی و مکانی گروہ کا “مجمع علیہ” نہیں ہے بلکہ الأ مة من حيث الأمة کا “مجمع علیہ” ہے اور “نقل الكافة عن الكافة” کے ذریعے قیامت تک ایک دائمی استحضار eternal presence کے طور پر موجود و مشھود invisibly existent حقیقت ہے۔

محترم غامدی صاحب کا خیال ہے؛ دین کتاب و سنت ہے۔ کتاب سے مراد قرآن مجید ہے اور “سنت” سے ان کی مراد، دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے؛ جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تجدید و اصلاح کے بعد اور بعض اضافوں کے ساتھ، اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔

ہماری معروضات

 کتاب سے متعلق غامدی کے دینی فکر کا جائزہ بعد میں لیا جائیگا۔ یہاں ہم ان کے تصور “سنت” کے متعلق کچھ کہنا چاھتے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے؛ دین کی وضع و تشکیل میں آنجناب علیہ السلام کو قطعا دخل نہیں ہے۔ آپ علیہ السلام کسی حیثیت سے اپنے اختیارات یا اپنی صوابدید سے دین میں مداخلت نہیں فرما سکتے تھے۔ دوسری بات یہ ہے؛ آنجناب علیہ السلام کی ہستی میں محمد بن عبداللہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرق لایعنی ہے۔ نزول وحی کے بعد محمد بن عبداللہ والی کہانی ختم ہو جاتی ہے، نزول وحی کے بعد آپ علیہ السلام صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ رسالت صوابدیدی منصب نہیں ہے، تنزیلات ربانیہ کو بلا کم و کاست انسانوں کے سامنے پیش کر دینا ہے۔

“سنت” آنجناب علیہ السلام پر اسی طرح نازل ہوئی ہے جس طرح کتاب نازل ہوئی ہے۔ “سنت” منزل من اللہ، اعمال ہیں۔ انہیں مناسک دین بھی کہا جاتا ہے۔ جس طرح قرآن مجید ماقبل کتب سماوی سے ممتاز و منفرد ہے، اسی طرح آنجناب علیہ السلام پر نازل ہونے والی سنت/ مناسک عبادت بھی ممتاز و منفرد ہیں بلکہ ناسخ ہے۔ الصلوۃ کا لفظ اہل عرب کے نامانوس نہ تھا، لیکن اس کا وہ مدلول جو “نبوت محمدیہ” میں بتایا گیا ہے، عرب واقف تھے اس سے اور نہ غیرعرب واقف تھے۔

غامدی صاحب کے بیان سے یہ بات عیاں ہو رہی ہے جیسے “سنت” کی وضع و تشکیل میں آنجناب علیہ السلام کے صوابدیدی اختیارات اصل الاصول ہیں۔ ظاہر ہے یہ سو فیصد غلط موقف ہے۔ “دین” روایت نہیں ہے بلکہ “تنزیل” ہے۔ روایت اور تنزیل میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ روایت انسان سے انسان تک ہوتی ہے اور “تنزیل” اللہ تعالی سے انسان تک ہوتی ہے۔ دین ابراہیمی کی روایت کا یہ تصور نبوت کو نظریہ بنا دیتا ہے۔ حق یہ ہے؛ “نبوت” نہ نظریہ ہے اور نہ اسے نظریہ بنایا جا سکتا ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…