غامدی صاحب کا تصور تاریخ: ایک تنقیدی جائزہ

Published On May 2, 2024
واقعہ معراج، خواب یا حقیقت؟

واقعہ معراج، خواب یا حقیقت؟

یاسر پیرزادہ کسی نے ایک مرتبہ مجھ سے سوال پوچھا کہ کیا آپ واقعہ معراج پر یقین رکھتے ہیں، میں نے جواب دیا الحمدللہ بالکل کرتا ہوں، اگلا سوا ل یہ تھا کہ آپ تو عقل اور منطق کی باتیں کرتے ہیں پھر یہ کیسے مان سکتے ہیں کہ ایک رات میں کوئی شخص آسمانوں کی سیر کر آئے۔ میرا...

’’میری تعمیر میں مضمر ہے اِک صورت خرابی کی‘‘

’’میری تعمیر میں مضمر ہے اِک صورت خرابی کی‘‘

بشکریہ ادارہ ایقاظ   سماع ٹی وی کا یہ پروگرام بہ عنوان ’’غامدی کے ساتھ‘‘مورخہ  27 دسمبر 2013 کو براڈکاسٹ ہوا۔ اس کا ابتدائی حصہ یہاں من و عن دیا جارہا ہے۔ ذیل میں[1] اس پروگرام کا ویب لنک بھی دے دیا گیا ہے۔ ہمارے حالیہ شمارہ کا مرکزی موضوع چونکہ ’’جماعۃ...

مولانا مودودی کے نظریہ دین کا ثبوت اور اس پر تنقید کی محدودیت

مولانا مودودی کے نظریہ دین کا ثبوت اور اس پر تنقید کی محدودیت

ڈاکٹر عادل اشرف غامدی صاحب اور وحید الدین خان کا یہ مفروضہ صحیح نہیں کہ مولانا مودودی کا نظریہ دین ایک یا چند آیات سے ماخوذ ہے اور ان آیات کے پسمنظر اور انکی لغت کے ساتھ جوڑ توڑ کرکے ہم ایک دوسری تشریح اخذ کرتے ہوۓ انکے نظریہ کی بنیادوں کو ہی ڈھا دیں گے! مولانا مودودی...

غامدی صاحب کے جوابی بیانیے پر کچھ گزارشات

غامدی صاحب کے جوابی بیانیے پر کچھ گزارشات

سید ظفر احمد روزنامہ جنگ کی اشاعت بروز جمعرات 22 جنوری 2015ء میں ممتاز مفکر محترم جاوید احمد صاحب غامدی کا مضمون بعنوان ’’اسلام اور ریاست: ایک جوابی بیانیہ‘‘ شائع ہوا ہے، جس میں انہوں نے اس موضوع پر اپنے فکر کا خلاصہ بیان کردیا ہے جو وہ اس سے پہلے اپنی کئی کتب و...

نسخ القرآن بالسنة” ناجائز ہونے پر غامدی صاحب کے استدلال میں اضطراب

نسخ القرآن بالسنة” ناجائز ہونے پر غامدی صاحب کے استدلال میں اضطراب

ڈاکٹر زاہد مغل نفس مسئلہ پر جناب غامدی صاحب بیان کے مفہوم سے استدلال وضع کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاہم ان کا استدلال لفظ “بیان” سے کسی صورت تام نہیں۔ یہاں ہم اسے واضح کرتے ہیں۔ قرآن اور نبی کا باہمی تعلق کس اصول پر استوار ہے؟ کتاب “برھان” میں غامدی صاحب اس سوال کا یہ...

مرزا قادیانی کو مسلم منوانا، جاوید غامدی صاحب کی سعیِ نامشکور

مرزا قادیانی کو مسلم منوانا، جاوید غامدی صاحب کی سعیِ نامشکور

حامد کمال الدین  پاکستان میں قادیانی ٹولے کو غیر مسلم ڈیکلیئر کرنے کا دن آج گرم جوشی سے منایا جا رہا ہے۔ اتفاق سے آج ہی ’دلیل‘ پر جاوید احمد غامدی صاحب کا یہ مضمون نظر سے گزرا۔ اس موضوع پر باقی سب نزاعات کو ہم کسی اور وقت کےلیے اٹھا رکھتے ہیں اور مضمون کے آخری جملوں...

محمد حسنین اشرف

غامدی صاحب کی میٹافزکس میں جہاں بہت سے تصورات تنقیح طلب ہیں ان میں سے ایک تصورِ تاریخ بھی ہے۔ یہ ایسا تصور ہے جو ان کے الہیاتی اور فقہی، دونوں فریم ورکس کا حصہ ہے۔ غامدی صاحب اس پر بہت سی عمارتیں بلند کرتے ہیں لیکن یہ ابھی تک نہایت بنیادی شکل میں موجود ہے۔ عین ممکن ہے کہ غامدی صاحب کے متعلقین میں سے کوئی اسے آگے بڑھانے کی سعی کرے۔ غامدی صاحب کے نزدیک مسلمان اپنے تواتر سے بہت سی چیزیں نسل بعد نسل، سینہ بہ سینہ منتقل کرتے آئے ہیں اور مختلف فنون کی کتب سے اس اجماع و تواتر کی تفصیل طلب کی جاسکتی ہے مثلا فقہ کی کتب یہ بتا سکتی ہے کہ فلاں دور سے لے کر فلاں دور تک نماز کی صورت تمام مسلمانوں کے ہاں کیسی تھی۔ ان کے نزدیک، علما کا اجماع اور تواتر کوئی زیادہ غور طلب شے(بایں معنی کہ وہ ہمیں علم میں ثبوت کا فائدہ نہیں دیتا) نہیں ہے لیکن عام مسلمانوں کا اجماع و تواتر ہمیں بہت سے علمیاتی فوائد دیتا ہے۔ ان کے نزدیک تواتر کی تعریف یوں ہے کہ کسی شے کو لوگوں کی اتنی بڑی تعداد نقل کرے کہ ان سب کا جھوٹ پر جمع ہونا محال ہو۔ یاد رہے کہ
جھوٹ پر جمع ہونا مراد ہے نہ کہ حق یا باطل مراد ہے۔

بہ ظاہر یہ تصوراور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا محال ایک صاف شفاف ذریعہ علم معلوم ہوتے ہیں جن پر بہت اطمینان سے کسی بھی عمار ت کو کھڑا کیا جاسکتا ہے۔مزید یہ کہ کوئی بھی شے جو اس تواتر کے توسط سے ہمیں نصیب ہو، اسے قبول بھی کیا جاسکتا ہے۔اس سے قبل کہ اس مقدمہ کو دیکھا جائے کچھ بنیادی سوالوں کے جواب حاصل کرنا نہایت ضروری معلوم ہوتا ہے۔ مثلا یہ کہ تعداد سے کیا مراد ہے؟ کتنی تعداد ہو تو ہم یہ کہہ سکیں گے کہ یہ والی تعداد اتنی بڑی ہے کہ اس کا جھوٹ پر جمع ہونا محال ہے۔ پھر یہ کہ نوے فیصد اور دس فیصد کی تقسیم کی جھوٹ و سچ کا فیصلہ محض تعداد کرے گی؟ کیا اس میں اس امکان کی بھی گنجائش نہیں ہے کہ نوے فیصد نے بزور بازو، دس فیصد کے سچ کو دبا دیا ہو؟

انسانوں کی بڑی تعداد جھوٹ پر جمع نہیں ہوسکتی کے پس پشت غالبا یہ مقدمہ ہے کہ “انسانوں کی بڑی تعداد کو بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا”۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ انسانوں کی بڑی تعداد کو بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا تو اس مقدمہ میں کچھ جان باقی ہے اور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ انسانوں کی بڑی تعداد کو بیوقوف بنایا جاسکتا ہے تو شاید اس کے بعد یہ مقدمہ لایعنی سا ہوکر رہ جاتا ہے کیونکہ اگر انسانوں کی بڑی تعداد بیوقوف بن سکتی ہے تو انسانوں کی بڑی تعداد جھوٹ پر بھی جمع ہوسکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا انسانوں کی بڑی تعداد کو تاریخ میں کبھی بیوقوف نہیں بنایا گیا یا کبھی مستقبل میں بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا؟ دور حاضر میں اور اس سے قبل بھی ہمارے ہاں کافی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جہاں اشرافیہ نے ایک جم غفیر کو بیوقوف بنایا ہو۔

کوئی شخص یہ بات کہنے میں بالکل حق بجانب ہوگا کہ دیکھے صاحب، نظریات سے متعلق تو لوگوں کی بڑی تعداد کو بیوقوف بنایا جاسکتا ہے لیکن شخصیات و واقعات، جیسے ارسطو، ان سے متعلق کوئی قوم کیسے جھوٹ پر جمع ہوسکتی ہے؟ ارسطو کے نظریات کیا تھے ان سے متعلق تو لوگوں میں اختلاف پایا جاسکتا ہے لیکن ارسطو، ایک شخص تھا، اس سے متعلق کوئی کیسے جھوٹ پر جمع ہوسکتا ہے؟

اول یہ جانناضروری ہے کہ تاریخ کا کتنے فیصد حصہ محض چند شخصیات پر مبنی ہے؟ واقعات کو اس لیے شامل نہیں کیا کیونکہ کوئی شخص مجرد واقعات بیان نہیں کرتا بلکہ وہ اس شخص کا کسی بھی تجربے یا مشاہدے سے متعلق اپنا بیانیہ ہوتا ہے۔ محض شخصیات والی تاریخ ، مکمل تاریخ کا شاید ایک فیصد بھی نہ ہو۔ سو تواتر شدہ اسٹیبلش تاریخ صرف چند شخصیات کے ناموں تک محدود رہ جاتی ہے اس سے زیادہ یہ ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔ غامدی صاحب، لفظ متواتر کو اسٹیبلش تاریخ سے ملا کر جس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ جوں کا توں باقی رہتا ہے۔ وہ مسئلہ کیوں باقی ہے اس کے لیے مزید تمہید کی ضرورت ہے۔

یہ بات نہایت اہم ہے کہ باقاعدہ تاریخ نویسی کا رجحان بہت نیا ہے اور اس سے بھی نیا رجحان، عام عوام کی طرف سے تاریخ نویسی ہے۔ اس سے قبل لکھی جانی والی تواریخ مختلف مقاصد سے کسی بھی زمانے کی اشرافیہ لکھا اور لکھوایا کرتی تھی۔ اس کی ایک بڑی وجہ پڑھنے لکھنے کی وہ تمام سہولتوں کا موجود نہ ہونا ہے جو آج کل موجود ہیں۔ صرف وہی لوگ پڑھنے لکھنے کا کام کرسکتے تھے جو اشرافیہ کا حصہ تھے اور کاغذ قلم جیسی عیاشی افورڈ کرسکتے تھے۔ تاریخ میں ہمیں جس قدر بھی نام ملتے تھے، جس قدر بھی علما و امام ملتے ہیں یہ تمام لوگ ایک خاص اشرافیہ کا حصہ تھے۔ اشرافیہ سے میری مراد صرف بادشاہ، وزیر اور مشیر نہیں بلکہ وہ خاندان جہاں یا تو پیسے کی ریل پیل کافی ہوا کرتی ہوگی یا پھر وہ اس قدر خوش قسمت ہوں گے کہ دربار یا کسی وزیر و مشیر کی عنایت سے پڑھنا لکھنا سیکھ گئے ہوں۔ جو لوگ پڑھنا لکھنا جانتے وہ بلاواسطہ یا بالواسطہ اشرافیہ کا حصہ بن جاتے تھے۔ عام عوام میں پڑھنے لکھنے کا نہ تو رجحان ہوا کرتا تھا، نہ ہی وقت اور نہ ہی ان کے پاس ایسے وسائل ہوا کرتے تھے کہ وہ اس قسم کے شغل اپنا سکیں۔ اسی لیے ہمارے ہاں فقہ، قانون اور تاریخ کی زیادہ تر کتابیں اسی خاص اشرافیہ کی جانب سے لکھی گئیں اور وہ تمام تر ابحاث جن میں ہم مشغول ہیں، اسی خاص کلاس کی پیدا کردہ ہیں۔ اس میں عام عوام کا حصہ شاید آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ ہو۔

مسلمانوں (عام مسلمانوں) کے کسی بھی قسم کے تواتر کو نقل کرنے اور ہم تک پہنچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ عام مسلمان تواریخ ، قانون اور فقہ کی کتابیں لکھیں۔ اور ان کی یہ آرا ہم تک پہنچیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ عام آدمی اس قابل ہو اور اس میں دلچسپی بھی لے جو آج سے چند سو سال قبل ہونا شروع ہوا ہے۔ مزید سمجھنے کے لیے قرآن کی جمع و تدوین کی تاریخ کو اجمالا دیکھیے۔ ہم بار بار یہ کہتے ہیں کہ قرآن مسلمانوں کے تواتر سے نقل ہوا ہے۔قرآن کی جمع و تدوین کا جو کام حضرت عثمان نے کیا اس میں عام مسلمان کا کس قدر حصہ تھا؟قرآن مجید کی جمع و تدوین کا یہ کام مسلمانوں کی سیاسی، مذہبی اور علمی اشرافیہ نے کیا اور بعد میں اس ایک قرات کو ریاست نے پھیلا دیا۔ اس وقت بیٹھ کر یہ فیصلہ کرنا کہ دور حضرت عثمان کے تمام لوگ یا پچانوے فیصد آبادی اسی قرات پر تھی جس پر یہ قرآن جمع ہوا نہایت مشکل امر ہے اور یہ فیصلہ کن بیان نہایت غیر محتاط ہوگا۔ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید مسلمانوں کی اشرافیہ (عین ممکن کے نوے فیصد اشرافیہ اسی قرات پر ہو) کے اجماع و تواتر سے منتقل ہوا۔

جس طرح ہمارے تمام امام و محدثین ایک خاص اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے اسی طرح ارسطو، افلاطون اور دیگران بھی ایک خاص اشرافیہ کے ہی لوگ تھے۔ اس لیے آج بیٹھ کر اس دور کے یونان کا نقشہ بنانا نہایت مشکل کام ہے۔ تاریخ کی یہ مشکل صرف مسلمانوں کو در پیش نہیں ہے بلکہ ہر مکتب فکر، مسلک، قوم، قبیلے اور گروہ کو ہے۔ پاکستان میں چونکہ سوشل سائینسز میں ایمپریکل اسٹڈیز کا اس قدر رواج نہیں ہے اس لیے یہاں وہ تاریخی مسائل آج بھی دیکھے جاسکتے تھے جو قدیم تاریخی دستاویزات اور بیانیوں کو لاحق رہے ہیں۔ مثلا ہمارے ہاں پاکستان کی یا پنجاب کی تاریخ جب بھی لکھی جاتی ہے تو ایک گروہ ہمیشہ نظر انداز ہوجاتا ہے۔ یہ خانہ بدوش ہیں، پاکستانی ہیں، پنجابی ہیں (میں نے چونکہ پنجاب میں اس گروہ کا مشاہدہ زیادہ کیا ہے اس لیے ان کا تذکرہ کر رہا ہوں)۔ میرے مطالعے کی حد تک ان سے متعلق کوئی تاریخی و سماجی مواد ہمیں میسر نہیں ہے اور نہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ یہ گروہ کوئی مربوط تاریخی ریکارڈ رکھتا رہا ہے یا ابھی ان میں اس ریکارڈ کو رکھنے میں کوئی دلچسپی ہے؟ چونکہ یہ لوگ مستقل رہائش پذیر لوگوں کی نسبت کم ہیں اور سماج انہیں غیر اہم رکن مانتا ہے اس لیے ہمارا مورخ بھی اس میں دلچسپی نہیں لیتا۔ آج سے ہزار سال بعد اگر کوئی کہے کہ پاکستانیوں کی فطرت یوں ہے تو وہ لازما پکھی واسوں (خانہ بدوشوں) اور ایسے کئی گروہ و  قبائل کو نظر اندازہ کرتے ہوئے پریزنٹ (موجود)  کی معلومات کے زیر اثر ایک دعوی کرے گا کیونکہ وہ پریزنٹ  میں اکثریت کو ایک پیڑتن پر دیکھ رہا ہے۔ چونکہ اکثریت اس وقت ایک خاص پیڑتن کا شکار ہے اور ایک خاص بیانیہ رکھتی ہے تو یہ تصور محال ہے کہ ماضی میں کبھی ایسا نہیں بھی ہوا ہوگا ۔

تاریخ میں جب بھی کوئی یونیفائی ایکٹیویٹی  ہوتی ہے تو وہ ڈائیورسٹی  کو اوور شیڈو کردیتی ہے یعنی اس کے یا کسی بھی دوسرے بڑے واقعے کے نتیجے میں یہ مشکل ہوجاتا ہے کہ دیگر و مختلف فیہ آرا کو تلاش کیا جاسکے۔ یہ دعوی کہ “مسلمانوں کی اکثریت قرات قریش” پر تھی اس جیسے دعوی کو ثابت کرنے کے لیے یا کسی بھی ایسے دعوی کو ثابت کرنے کے لیے ہمیں اس یونیفائی ایکٹیویٹی کو ڈھونڈنا ہوتا ہے اورا س کے پیچھے جا کر دیکھنا ہوتا ہے جس سے اصل صورتحال کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ مثلا ہمیں حضرت عثمان کے قرآن کی جمع و تدوین کے اس عمل کے پیچھے دیکھنا ہوگا کہ جزیرہ نمائے عرب کی اصل صورتحال کیا تھی اور کتنی تعداد کس قرات پر تھی۔ قرات پر جمع ہونے کے بعد مختلف فیہ روایات بہت کم تعداد میں ہی سامنے آسکتی ہیں اس لیے اس یونیفائی ایکٹیویٹی  کے بعد یہ دعوی کرنا کہ لوگوں کی بڑی تعداد اس ایک شے پر جمع ہے اس لیے ہمیشہ سے ایسا ہی ہوگا بہت آسان ہے اور یہ درست بھی نہیں ہے۔

اس لیے جس تاریخ کو اسٹیبلش تاریخ کہتے ہیں وہ ادوار میں منقسم نہیں ہے یعنی ۳۰۰۰ سال قبل کی تاریخ کو اسٹیبلش کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ تمام تر تاریخ ہمیں معلوم ہے بلکہ اس سے مراد ہے کہ اس دور تک ہمیں تاریخی دوستاویزات ملنا شروع ہوتی ہیں جس سے ہم کسی سماج ، اشخاص یا زمانے سے متعلق کچھ جاننے اور کچھ دعوی کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ۳۰۰۰ ہزار سال قبل کی تاریخ تو اسٹیبلش ہے اور ۴۰۰۰ سال والی اسٹیبلش نہیں ہے۔ ۳۰۰۰ سال کی تاریخ کو اسٹیبلش کہنے کا مطلب صرف ان ثبوتوں کی طرف اشارہ کرنا ہے جو ہمیں ملنا شروع ہوجاتے ہیں اس دور سے متعلق ہیں کچھ دوسرے ثبوت ہمیں اس سے پیچھے بھی میسر ہیں۔ سو ؛

اول ۔ لوگوں کے اس قدر بڑے تاریخی اجماع کی کہ ان کا جھوٹ پر جمع ہونا محال لگنے لگے ہمارے پاس سوائےان کتابوں کے جو اشرافیہ کی طرف سے لکھی گئی ہیں کوئی ثبوت نہیں ہے۔

دوم ۔ آج لوگ جس ایک بات پر جمع ہیں عین ممکن ہے کہ کسی یونیفائی ایکٹیویٹی کے نتیجے وہ اجماع قائم ہوا ہو۔ اکثر ہم اس کو تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور بسا اوقات ہمیں یہ واقعہ مل جاتا ہے جیسے قرآن کی جمع و تدوین کے باب میں یہ واقعہ ہمارے پاس موجود ہے۔ کسی بھی ایسی ایکٹویٹی کے کامیاب ہونے کے لیے بھی ضروری ہوتا ہے کہ کانفلیکٹنگ ایویڈینس  باقی نہ رہے اور بسا اوقات اس کے نتیجے میں خود بہ خود کانفلیکٹنگ ایویڈینس  یا تو پس پشت چلا جاتا ہے یا قابل اعتنا ہی نہیں رہتا۔ چونکہ یہ سارا معاملہ ایک خاص قسم کی اشرافیہ کے مابین ہو رہا ہوتا ہے اس لیے یہ کانفلیکٹنگ ایویڈینس کا ہم تک نہ پہنچنا بہت قرین قیاس ہے۔ اس لیے تاریخی معاملات کو آج پر قیاس نہیں کرنا چاہیے، ایسا نہیں ہوتا تھا کہ کوئی  یونیفائی ایکٹیویٹی ہوئی تو لوگوں نے احتجاج شروع کردیا یا ٹویٹر پر لکھ دی یا آرٹیکل چھپوا دئیے وغیرہ وغیرہ اکثر اوقات عام لوگوں کو کان و کان خبر بھی نہیں ہوتی ہوگی کہ محل سرا اور اس کے گرد و پیش میں کیا ہو رہا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ تلاش کیا جائے کہ وہ اجماع کس نتیجے میں اور کس کے ذریعے پیدا ہوا ہے۔ محض اجماع کو دیکھ کر صحت کا فیصلہ کرنا اور اس کو عام عوام کے کھاتے میں جوڑ دینا درست نہیں ہے۔

سوم ۔ تاریخ جس کو اسٹیبلش تاریخ کہتے ہیں متعدد ذرائع سے اسٹیبلش ہوتی ہے اور مختلف ادوار و واقعات مختلف درجات کی سرٹینٹی  رکھتے ہیں۔ اس لیے محض لفظ اسٹیبلش تاریخ کو بول دینا کافی نہیں ہے۔ اسٹیبلش تاریخ میں بھی جو آپ دعوی کر رہے ہیں اسے متعدد ذرائع سے اسٹیبلش کرنا پڑتا ہے۔

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…