محمد حسنین اشرف نظم:۔ پہلے نظم کی نوعیت پر بات کرتے ہیں کہ یہ کس نوعیت کی شے ہے۔ غامدی صاحب، میزان میں، اصلاحی صاحب کی بات کو نقل کرتے ہیں:۔ ۔" جو شخص نظم کی رہنمائی کے بغیر قرآن کو پڑھے گا، وہ زیادہ سے زیادہ جو حاصل کر سکے گا ، وہ کچھ منفرد احکام اور مفرد قسم...
غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط چہارم )
حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (3)
مولانا مجیب الرحمن تیسری حدیث ، حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ:۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ۔ يكون في هذه الأمة بعث إلى السند والهند، فإن أنا أدركته، فاستشهدت فذلك وإن أنا رجعت وأنا أبو هريرة المحرر قد...
حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (2)
مولانا مجیب الرحمن دوسری حدیث ، حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ :۔ اس بارے میں دوسری حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس کی سند اور راویوں پر غور فرمائیں ، امام نسائی فرماتے ہیں: أخبرنا أحمد بن عثمان بن حكيم، قال حدثنا ر كريا بن عدى، قال: حدثنا عبد الله من عمر...
حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق
مولانا مجیب الرحمن غامدی صاحب کی ویب سائٹ پر موجود ایک کتاب کا مضمون بعنوان : غزوہ ہند کی کمزور اور غلط روایات کا جائزہ ایک ساتھی کے ذریعہ موصول ہوا ۔ بعد از مطالعہ یہ داعیہ پیدا ہوا کہ اس مضمون کو سامنے رکھ کر حدیث غزوہ ہند پر اپنے مطالعہ کی حد تک قارئین کے سامنے...
سرگذشت انذار کا مسئلہ
محمد حسنین اشرف فراہی مکتبہ فکر اگر کچھ چیزوں کو قبول کرلے تو شاید جس چیز کو ہم مسئلہ کہہ رہے ہیں وہ مسئلہ نہیں ہوگا لیکن چونکہ کچھ چیزوں پر بارہا اصرار کیا جاتا ہے اس لیے اسے "مسئلہ" کہنا موزوں ہوگا۔ بہرکیف، پہلا مسئلہ جو اس باب میں پیش آتا ہے وہ قاری کی ریڈنگ کا...
کیا مسئلہ “ربط الحادث بالقدیم” کا دین سے تعلق نہیں؟ غامدی صاحب کا حیرت انگیز جواب
ڈاکٹر محمد زاہد مغل محترم غامدی صاحب سے جناب حسن شگری صاحب نے پروگرام میں سوال کیا کہ آپ وحدت الوجود پر نقد کرتے ہیں تو بتائیے آپ ربط الحادث بالقدیم کے مسئلے کو کیسے حل کرتے ہیں؟ اس کے جواب میں جو جواب دیا گیا وہ حیرت کی آخری حدوں کو چھونے والا تھا کہ اس سوال کا جواب...
مولانا صفی اللہ
مظاہر العلوم ، کوہاٹ
احکامات اسلام اور خطابات قرآنیہ کی عمومیت:۔
غامدی حضرات کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اقدامی قتال یا اسلام ، جزیہ اور قتل کا مطالبہ سامنے رکھنا عام خلاقی دائرے سے باہر ہے اس لیے وہ آیات واحادیث جن میں اس قسم کے احکامات مذکور ہیں ان کے مخاطب اور مکلف صرف نبی ﷺ اور صحابہ ہیں … یہ انتہائی کمزور بات ہے اور ایک ایسی رائے ہے کہ شاید ہی چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ میں کسی مسلمان نے اس طور پر کہی ہو۔ حافظ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:۔
وجمهور العلماء على أن جنس العرب غير من غيرهم …. لكن تفضيل الحملة على الحملة لا يستلزم أن يكون كل فرد افضل من كل فرد، فانه في غير العرب خلق كثير خير من أكثر العرب …. كما قال رسول : ان خير القرون القرن الذي بعدت فيهم، ثم الذين يلونهم . ثم الذين يلونهم، وفي القرون المتأخرة من هو خير كثير من القرن الثاني والثالث . ومع هذاء فلم يخص النبي القرن الثاني والثالث بحكم شرعي ، كذلك لم يخص العرب يحكم شرعی ، بل ولا خص بعض أصحابه بحكم دون سائر أمته، ولكن الصحابة لما كان لهم من الفضل أخبر بفضلهم ، وكذلك السابقون الأولون لم يخصهم بحكم ولكن أخبر بمالهم من الفضل …… . (مجموع الفتاوى ) وما بعدها)۔
جمہور علماء کا مذہب یہ کہ جنس عرب غیر عرب سے بہتر ہے، لیکن مجموعے کی فضیلت اس مجموعے کے ہر ہر فرد کی فضیلت کو مستلزم نہیں۔ اس لیے کہ غیر عرب مین بہت سارے ایسے لوگ ہیں جن کو عربوں پر فضیلت حاصل ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے۔ بہترین صدی وہ ہے کہ جس میں میں مبعوث ہوا ہوں، اس کے بعد دوسری صدی والے اور اس کے بعد تیسری صدی والے لیکن قرون متاخرہ میں ایسے لوگ ہیں جو قرن ثانی اور ثالث والوں سے بدرجہا افضل ہیں۔ اس کے باوجود نبی ﷺ نے قرن ثانی و ثالث کو کسی حکم شرعی کے ساتھ مختص نہیں کیا اور اس طرح آپ ﷺ نے عربوں کو بھی کسی حکم شرعی کے ساتھ خاص نہیں کیا، بلکہ باقی امت کو چھوڑ کر اپنے چند صحابہ کو بھی کسی حکم کے ساتھ خاص نہیں کیا۔ ہے۔ لیکن چونکہ صحابہ کو فضیلت حاصل تھی تو اس کے متعلق بتا دیا۔ اس طرح اسلام لانے میں پہل کرنے والے صحابہ کو بھی کسی حکم کے ساتھ خاص نہیں کیا، بلکہ ان کی جو فضیلت تھی اس سے آگاہ فرمایا۔
قاضی شوکانی اس مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
الخطاب الوارد شفاها في عصر النبي ﷺ نحو : يا أيها الناس و يا أيها الذين امنو ويسمى: خطاب المواجهة قال الزركشي : لا خلاف في شموله من بعد هم من المعدومين حال صدورهم لكن هل بالفظ أو بدليل آخر من اجماع أو قياس . فذهب جماعة من الحنفية والحنابلة إلى أنهم يشملهم باللفظ ، ذهب الأكثرون الى انهم لا يشملهم باللفظ …. قال ابن دقيق العيد في شرح العنوان الخلاف في أن خطاب الشافهة هل يشتمل غير المخاطبين قليل الفائدة، ولا بغى أن يكون فيه خلاف عند التحقيق الانه اما ان ينظر إلى مدلول اللفظ لغة ولا شك انه لا يتناول غير المخاطبين مواما ان يقال: ان الحكم يقصر على المخاطبين الا انه مال دليل على عموم في تلك المسألة بعينها، وهذا باطل الما علم قطعاً من الشريعة أن الأحكام عامة الا حيث يرد التخصيص . انتهى ارشاد الفحول: ۳۲۲/۱]
نبی ﷺ کے زمانے میں براہ راست وارد ہونے والا خطاب ، جیسے یا ایھا الناس اور یا ایھا الذین امنو اس کو خطاب مواجہہ کہتے ہیں۔ زرکشتی کہتے ہیں اسمیں کوئی اختلاف نہیں کہ یہ بعد میں آنے والوں کو بھی شامل ہے، لیکن اختلاف اس میں ہے کہ اس لفظ سے شامل ہوتا ہے یا کسی اور دلیل سے، یعنی اجماع یا قیاس ہے۔ حنفیہ میں سے ایک گروہ اور حنابلہ کا مذہب یہ ہے کہ اس لفظ سے شامل ہوتا ہے، جبکہ اکثر کا مذہب اس کے خلاف ہے ۔ ابن دقیق العید شرح العنوان میں لکھتے ہیں: اس مسئلہ میں اختلاف کا کوئی خاص فائدہ نہیں اور نہ اہل تحقیق کے ہاں اس میں اختلاف مناسب ہے۔ اس لیے کہ اگر لفظ کے لغوی مدلول کا اعتبار کریں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مخاطبین کے علاوہ کسی اور کو شامل نہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ اسکا حکم صرف مخاطبین کے لیے ہے کسی اور کے لیے نہیں ، سوائے اس صورت کے جس میں خصوصی طور اس حکم کے عموم کی دلیل ہو، یہ بالکل غلط ہے، اس لیے کہ یہ قطعی طور پر معلوم ہے کہ شریعت کے احکامات عام ہیں مگر کہیں تخصیص ہوئی ہو تو دوسری بات ہے۔ )۔
التقرير والتحبیر میں خطاب کے صیغوں کے متعلق امام سبکی کا یہ زرین اقتباس درج ہے:۔
اعلم أنه لا ينبغي أن يعتقد أن التعميم من جهة وضع الصبغة لغة ، ولا أن الشارع لم يحكم بالتعميم حيث لم يظهر التخصيص، بل الحق أن التعميم منتف لغة ثابت شرعاء من حيث أن الحكم على الواحد حكم على الجماعة، ولا أعتقد أن أحدا يخالف في هذا (۱۱۸/۳)۔
جان لو کہ یہ سمجھنا کہ (حکم میں ) عموم ( خطاب کے ) صیغے کا معنی موضوعی ہے صحیح نہیں اور نہ یہ کہنا صحیح ہے کہ جہاں تخصیص کی کوئی دلیل نہ بھی ہو وہاں بھی شارع نے عموم کا کوئی حکم نہیں کیا ہے۔ حق بات یہ ہے کہ عموم لغۃ تو منتفی ہے، شرعا ثابت ہے اس لیے کہ ایک فرد پر حکم پوری جماعت پر حکم ہے۔ میں نہیں سجھتا کوئی اس سے بھی مخالفت کرے گا۔
دکتور صبحی صالح اپنی مایہ ناز کتاب مباحث فی علوم القرآن میں لکھتے ہیں:۔
” واذا خاطب الله نبيه بمثل يا أيها النبي اتق الله ، فخطابه لا يعم الامة بطريق الدلالة الوضعية ولكنه يعمها بدليل اخر ، هو وجوب الاقتداء به صلوات الله عليه ، الا اذا قام على ان الحكم خاص به . [ مباحث في علوم القرآن: ۳۰۷۔
جب اللہ تعالی اپنے نبی کو با ایھا النبي اتق اللہ جیسے تعبیر سے خطاب فرماتا ہے تو یہ دلالت وضعیہ کے طور پر امت کو شامل نہیں بلکہ ایک اور دلیل سے ، اور وہ آپ ﷺ کی اتباع واجب ہے ۔سے شامل ہوتا ہے الا یہ کہ کوئی دلیل اس پر قائم ہو کہ یہ آنحضرت ہی کے ساتھ خاص ہے ۔”
ان تمام عبارات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآن واحادیث میں وارد ہونے والے تمام خطاب کے صیغے عمومی اور دائمی ہیں، یعنی ہر شخص ہر جگہ اور ہر زمانے میں رہنے والا اس کا مکلف ہے اور اس پر پوری امت کا اجماع چلا آرہا ہے اور یہ سمجھنا کہ ان کا تعلق صرف ان لوگوں کے ساتھ ہے جو اس وقت موجود تھے سراسر غلط ہے۔ اگر ان احکامات میں کسی کو کوئی اختصاص یا امتیاز حاصل ہے تو اس کے لیے واضح نص کا ہو نا ضروری ہے۔ جیسے زکوۃ کے باب میں بنی ہاشم کی تخصیص اور خلافت کے حق میں قریش کا امتیاز ۔ لہٰذا اقدام کے متعلق آیات واحادیث بھی جوں کی توں مشروع ہوں گی اس لیے کہ کوئی ایسی نص نہیں جو واضح طور پر اس تفریق کی تائید کرتی ہو بلکہ بکثرت ایسی نصوص موجود ہیں جو اقدام کے عموم اور دو ام پر دلالت کرتی ہیں، جیسا کہ آگے آجائے گا۔ رہی یہ بات کہ اقدامی قتال اور اس کے متعلقہ احکامات عام اخلاقی دائرے میں نہیں آتے ،بے ہودہ سی بات ہے، جو کسی مسلمان کے شایان شان نہیں ۔ جب ایک حکم قرآن وحدیث سے ثابت ہے پھر اس میں اخلاقی اور غیر اخلاقی کی تفریق کے کیا معنی ؟ سوال یہ ہوتا ہے کہ عام اخلاقی دائرہ کیا ہے؟ اس کا معیار کیا ہے؟ اور کیا اس کی مشترکہ تعیین اور تحدید ممکن ہے؟ افسوس کی بات ہے کہ عصر حاضر کے تحقیق اور اجتہاد کے دعویداروں کو اتنی بات بھی سمجھ میں نہیں آئی کہ ہر کمیونٹی ، ملک اور مذہب کی اخلاقیات اور دیگر بہت ساری چیزوں میں معیار مختلف ہوتا ہے۔ آج کا مغربی معاشرہ زنا بالرضا ،عورت کو طلاق کا اختیار اور مردوں کے برابر ہر چیز میں ان کو شانہ بشانہ کھڑا کرنا بہت بڑا اخلاقی فریضہ سمجھتا ہے، جبکہ اسلام اس کی سختی سے تردید کرتا ہے۔ عورت کے پردے کو وہ آج ظلم قرار دے رہے ہیں حالانکہ اسلام اس کے برعکس اس کو ذریعہ حفاظت قرار دے رہا ہے۔ اس طرح کفر کی سر بلندی کو اسلام فساد کہتا ہے اور اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا حکم دیتا ہے۔ واضح رہے کہ جب شریعت ایک حکم دے تو اسے بسر و چشم قبول کرنے کے بعد دیکھیں گے کہ اس کی معقولیت عام لوگوں کے ذہن میں آتی ہے یا نہیں ؟ اگر اسکی معقولیت عام لوگوں کے ہن میں آ رہی ہے تو حسن لعینہ اور اگر نہیں آرہی تو حسن لغیرہ ہے۔ اگر ہم اپنے اکابر کی خدمات اور تحقیقات کو بنظر استخفاف نہ دیکھتے تو آج ان معمولی اعتراضات کی وجہ سے جہالت کی ان گھاٹیوں میں جا کر نہ گرتے ۔ کاش ہم ” کتب عليكم القتال وهو كره لكم وعسى ان تكرهوا شيئا وهو خير لكم … اور والفتنة أكبر من القتل پر غور کرتے تو اس اشکال کا جواب پاتے ۔ بایں ہمہ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ اقدامات بالکل اخلاقی دائرے میں ہے اور اسکی وضاحت ہم مستقل عنوان کے تحت کریں گے۔
نیز احادیث سے بھی اس کی تردید ہوتی ہے کہ جہاد اقدامی صرف منصب شہادت علی الناس پر فائز ہستیوں کے ذریعے رو بہ عمل ہوتا ہے۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:۔
ما من بني بعثه الله في امة قبلي الا وكان له من امنه حواریون و اصحاب يأخذون بسنته ويقتدون بأمره ثم انها تخلف من بعدهم مخلوف يقولون مالا يفعلون ، ويفعلون مالا يؤمرون فمن جاهدهم بيده فهو مؤمن و من جاهدهم بلسانه فهو مؤمن، ومن جاهدهم بقلبه فهو مؤمن ليس وراء ذلك من الايمان حبة خردل . رواه مسلم: ۵۰ واحمد: ۳۳۷۹) والبيهقی: ۱۹۹۶۵] ۔
جونبی بھی اللہ نے اس سے پہلی امتوں میں مبعوث فرمایا اس کے لیے ضرور اس قوم میں چند ایسے حواری اور ساتھی ہوتے جو اس کے طریقوں پر چلتے اور اس کے حکم کی پیروی کرتے۔ پھر ان کے بعد کچھ نا اہل لوگ آتے ، وہ جو کہتے اس کو پورا نہیں کرتے اور جس چیز کا انہیں حکم نہیں دیا گیا ہوتا اس کو کرتے۔ تو جس نے ان سے ہاتھ سے جہاد کیا وہ مؤمن ہے، جس نے زبان سے جہاد کیا وہ بھی مؤمن ہے اور جس نے دل سے جہاد کیا وہ بھی مؤمن ہے۔ اس کے بعد رائی کے دانے برابر ایمان بھی نہیں۔”۔
یہاں انبیاء اور منصب شہادت پر فائز ہستیوں کے بعد آنے والے منکرین کے ساتھ بھی جہادبالید کو اعلیٰ درجہ قرار دیا جا رہا ہے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
نظم، مراد،متکلم اور متن
محمد حسنین اشرف نظم:۔ پہلے نظم کی نوعیت پر بات کرتے ہیں کہ یہ کس...
حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (3)
مولانا مجیب الرحمن تیسری حدیث ، حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ:۔ حضرت ابو...
حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (2)
مولانا مجیب الرحمن دوسری حدیث ، حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ :۔ اس بارے میں...