غامدی صاحب: تصوف اور غارحرا کی روایات

Published On September 24, 2024
تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ شهادت علی الناس:۔ شہادت علی الناس کا سیدھا اور سادہ معروف مطلب چھوڑ کر غامدی صاحب نے ایک اچھوتا مطلب لیا ہے جو یہ ہے کہ جیسے رسول اپنی قوم پر شاہد ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ صحابہ پر شاہد تھے ، ایسے ہی صحابہ کو اور صرف صحابہ کو دیگر محدود...

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟  غامدی صاحب کے دلائل کا جائزہ:۔ ویسے تو کسی نظریے کے غلط ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ امت کے اجتماعی ضمیر کے فیصلے سے متصادم ہے، لیکن اگر کچھ نادان امت کے اجتماعی ضمیر کو اتھارٹی ہی تسلیم نہ کرتے ہوں اور اپنے دلائل پر نازاں ہوں تو...

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد غامدی تصور جہاد کی سنگینی اور انوکھا پن:۔ پوری اسلامی تاریخ میں اہل سنت کا کوئی قابل ذکر فقیہ مجتہد، محدث اور مفسر اس اچھوتے اور قطعی تصور جہاد کا قائل نہیں گذرا، البتہ ماضی قریب میں نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمدقادیانی نے اس قبیل کی...

تصورِ جہاد ( قسط اول)

تصورِ جہاد ( قسط اول)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد کچھ عرصہ قبل راقم نے غامدی صاحب کے شاگر در شید اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کے فرزند من پسند جناب عمار خان ناصر صاحب کے نظریہ جہاد کے نقد و تجزیے کے لیے ایک مضمون سپر د قلم کیا تھا، جو ماہنامہ صفدر میں قسط وار چھپنے کے علاوہ "عمار خان کا نیا...

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

حسان بن علی پہلے یہ جاننا چاہیے کہ قرآن نے اصل موضوع سود لینے والے کو کیوں بنایا. اسے درجہ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے ١) چونکا سود کے عمل میں بنیادی کردار سود لینے والے کا ہے لہذا قرآن نے اصل موضوع اسے بنایا. ٢) سود لینے والے کے لیے مجبوری کی صورت نہ ہونے کے برابر...

سود اور غامدی صاحب

سود اور غامدی صاحب

حسان بن علی غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش...

ڈاکٹر خضر یسین

کیا غار حرا اور اس سے وابستہ واقعات پر مروی احادیث واقعتا صوفیاء کی وضع کردہ ہیں اور محض افسانہ ہیں جیسا کہ غامدی صاحب کا مؤقف ہے؟
کیا واقعی قرآن مجید کی سورہ والنجم کی آیات ان احادیث کی تردید کرتی ہیں جو صحیح بخاری میں “کیف بدء الوحی” کے عنوان کے تحت درج کی گئیں ہیں؟
بالفرض ایسا ہی ہے جیسے محترم غامدی صاحب فرماتے ہیں تو ان کے مقدمے کی سچائی چند ضروری سوالات کا تسلی بخش جواب چاہتی ہے۔
آپ کا یہ مقدمہ کہ غار حرا اور اس سے وابستہ مروی واقعات مثلاََ اعلان نبوت سے قبل آپ علیہ السلام کا اس غار میں خلوت گزیں رہنا افسانہ ہے؟ کس علمی دیانت کے پیش نظر یہ دعوی فرما رہے ہیں؟ آپ علیہ سلام کے غارحرا تشریف لے جانے کو ایک انسانی واقعہ کے طور پر تاریخ و روایات کی کتابوں میں بیان کیا گیا ہے۔ کیا تاریخ کی نفی، استدلال سے کی جا سکتی ہے؟ جی بالکل کی جا سکتی ہے مگر استدلال کے مقدمات کا تاریخی ہونا ضروری ہے۔ آپ کا یہ خیال ہے، استدلال نہیں ہے۔
یاد رہے کہ تاریخی واقعات کا صدق و کذب کسی ایسے استدلال سے ممکن نہیں ہوتا جس میں آپ کا اپنا ان پٹ  ایک فریق کا ہو۔ تاریخ کو تاریخ کی نظر سے ہی دیکھنا ہوگا نا کہ اپنے مزعومہ آئیڈیالوجیز کی بنیاد پر تاریخ کی قطع و برید کی جا سکتی ہے۔ تاریخ  میں ایک واقعہ کا رد ہسٹری کے کسی دوسرے ایسے بیان سے ممکن ہوتا ہے جو خود بھی تاریخی ریکارڈ ہو۔
غامدی صاحب فرماتے ہیں: یہ صوفیاء کا وضع کردہ افسانہ ہے؟ مسلمانوں کی تاریخ اور تاریخی واقعات پر صوفیاء کی گرفت اس قدر مضبوط کب رہی ہے کہ وہ تاریخی ریکارڈ کے خالق و جاعل بن گئے ہوں؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر دور میں علماء، صوفیاء اور حکماء میں مسلسل علمی، فکری اور عملی تصادم چلا آیا ہے جس نے ہر فریق کے وضعیات کو بغیر کسی تردد کے طشت از بام کیا ہے۔
آخری سوال یہ ہےکہ
قرآن مجید کی جن آیات بینات کو آپ نے اپنے مؤقف کی تائید کے لئے پیش کیا ہے، اس میں کس آیت یا اس کے کس جزو سے یہ اشارہ، کنایہ ملتا ہے کہ یہ پہلی وحی کے متعلق ہے؟
پوری سورہ “والنجم” نزول وحی، حصول وحی اور ابلاغ وحی کی کیفیات کا بیان ہے۔ جس سے ان واقعات کی تردید ممکن ہے اور نہ تائید ممکن ہے جن پر آپ خط تنسیخ کھینچ رہے ہیں۔
میری گزارش یہ ہے کہ
تاریخی ریکارڈ کا جائزہ مطالعہ تاریخ کے منہج پر کیا جائے تو منظم مطالعہ ہوتا ہے۔ اس منہج میں کہیں بھی یہ شامل نہیں کہ اپنے ایمانی تصورات کو امام بنا کر جس طرف جی چاہے نکل جائیں۔ تاریخی مطالعات میں جب بھی پری کنسیوڈ آئیڈیاز نے کوئی کردار ادا کیا ہے تو ایک نیا تاریخی مواد وجود میں آیا ہے۔ تاریخ نگاری اس طرح تاریخ نگاری نہیں رہتی بلکہ تاریخ سازی بن جاتی ہے۔
محترم غامدی صاحب میرے محترم بزرگ ہیں، تاریخ نگار کی تاریخ سازی کے نتائج سے مجھ سے بہتر آگاہ ہوں گے۔ ان تاریخ نگاروں کی صف میں شامل نہ ہوں جو تاریخ سازی کرتے ہیں اور ایک نئی تاریخ سامنے اٹھا لاتے ہیں۔ ان کے حق میں بہتر ہے کہ وہ تاریخ اور اس کی تحدیدات کا ادراک پیدا کریں اور محض خیال آرائی سے تاریخ نہ بنائیں۔

نبوت کماھی پر قناعت کرو تو سمجھ آئے

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…