رعایتِ صلاۃ میں غامدی صاحب کے قطعی الدلالۃ کا حال

Published On November 27, 2023
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...

ڈاکٹر زاہد مغل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قطعی الدلالۃ کے موضوع پر مکتب فراہی کے ابہامات پر متعدد انداز سے بات ہوچکی۔ ایک مثال لیجیے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا کہ جب تم سفر کے لئے نکلو تو تمہارے لئے نماز قصر کرنے میں کچھ حرج نہیں۔ اس آیت سے ماخوذ دیگر احکام کے علاوہ غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ
نماز میں تخفیف کی اِس اجازت سے رسول اللہ ﷺ نے اِس کے اوقات میں تخفیف کا استنباط بھی کیا ہے اور اِس طرح کے سفروں میں ظہر وعصر ،اور مغرب اور عشا کی نمازیں جمع کر کے پڑھائی ہیں۔

ان کے نزدیک اس استنباط کا اشارہ خود قرآن میں موجود ہے ۔ سورۂ نساء میں یہ حکم جس آیت پر ختم ہوا ہے ، اُس (آیت) میں ’ اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلٰی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا‘ کے الفاظ عربیت کی رو سے تقاضا کرتے ہیں کہ اِن سے پہلے ’اور وقت کی پابندی کرو‘ یا اِس طرح کا کوئی جملہ مقدر سمجھا جائے۔ اِس سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہوتی ہے کہ قصر کی اجازت کے بعد یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ نماز کی رکعتوں کے ساتھ اُس کے اوقات میں بھی کمی کر لیں ۔ چنانچہ ہدایت کی گئی کہ جب اطمینان میں ہو جاؤ تو پوری نماز پڑھو اور اِس کے لیے مقرر کردہ وقت کی پابندی کرو ، اِس لیے کہ نماز مسلمانوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے۔”

غامدی صاحب کی جانب سے یہاں نماز کے اوقات جمع کرنے (یعنی اوقات نماز میں قصر) کے لئے جس منھج استدلال کو برتا گیا ہے، اصول فقہ کی زبان میں اسے “مفہوم مخالف” کہتے ہیں۔ ان کے استدلال کی ساخت یوں ہے:

• ایک آیت میں آیا کہ جب خوف کی حالت میں ہو تو نماز میں قصر کرو
• دوسری آیت میں آیا کہ جب اطمینان کی حالت میں ہو تو وقت کی پابندی کا خیال کرنا لازم ہے
• نتیجہ: دوسری آیت کا مفہوم مخالف یہ بنا کہ “جب اطمینان کہ حالت میں نہ ہو تو وقت کی پابندی کا خیال کرنا لازم نہیں”۔ پس حالت سفر میں نمازوں کو جمع کرنا آیات قرآنی سے ثابت ہے

یہاں تکنیکی تفصیلات میں جانے کا موقع نہیں، اہل علم جانتے ہیں کہ علم و منطق کی رو سے مفہوم مخالف کا حجت ہونا از خود محل نزاع ہے چہ جائیکہ یہ قطعی بھی ہو۔ احناف اس کے قائل نہیں اور جو اصولیین اس کے قائل ہیں وہ بھی متعدد شرائط کے ساتھ اسے آخری درجے کی دلیل کے طور پر قبول کرتے ہیں۔ یہ مباحث اصول فقہ کی کتب میں ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔ گویا ایک حنفی کے نزدیک غامدی صاحب کی جانب سے الفاظ قرآنی سے کیا جانے والا یہ استدلال سرے سے معتبر ہی نہیں چہ جائیکہ یہ قطعی الدلالۃ بھی کہلا سکے۔

اب آپ درج ذیل آیات پر غور کیجئے

 قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا

بتائیے کہ پہلی آیت کے الفاظ سے “الہ کے ایک ہونے”، دوسری آیت کے الفاظ سے “روزے کی فرضیت” اور تیسری آیت سے “یتیم کے مال کو ڈبو کر ضائع کرنے کی ممانعت” جس درجہ یقین میں ثابت ہورہی ہے، کیا اسی درجے میں وہ بات بھی ثابت ہورہی ہے جو غامدی صاحب نے مفہوم مخالف سے نماز کے اوقات میں قصر کے لئے ثابت کی ہے؟ دنیا کا ہر عقلمند انسان جانتا ہے کہ ایسا نہیں ہے اس لئے کہ یہ مفہوم جس عقلی طرز استدلال سے وضع کیا گیا ہے وہ طرز استدلال از خود منطقی طور پر کمزور و محل نزاع ہے۔ لیکن اس کے باوجود غامدی صاحب کے نزدیک سب کچھ قطعی ہے

غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ آیت “’ اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلٰی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا‘ کے الفاظ عربیت کی رو سے تقاضا کرتے ہیں کہ اِن سے پہلے ’اور وقت کی پابندی کرو‘ یا اِس طرح کا کوئی جملہ مقدر سمجھا جائے۔ اِس سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہوتی ہے کہ قصر کی اجازت کے بعد یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ نماز کی رکعتوں کے ساتھ اُس کے اوقات میں بھی کمی کر لیں۔” ان محذوف الفاظ کو مقدر ماننا ان کا فہم ہے جو انہوں نے مفہوم مخالف سے کئے گئے اپنے استدلال کو ایک خاص بنا پر قوی بنانے کے لئے فرض کئے ہیں، ان الفاظ کو فرض کیا جانا نہ اس خاص آیت کے اور نہ کسی دوسری آیت کے صریح الفاظ کا تقاضا ہے۔ امام رازی نے دلائل نقلیہ کے ظنی ہونے کے لئے جن دس وجوہات کا ذکر کیا ہے ان میں سے ایک وجہ محذوفات کا احتمال ہے، یعنی کلام میں بسا اوقات الفاظ محذوف ہوتے ہیں اور ان مقدر الفاظ کی بنا پر عبارت کے مفہوم پر اثر پڑتا ہے یہاں تک کہ محذوف الفاظ کے انتخاب سے بعض اوقات اثبات و نفی تک کا فرق پڑ جاتا ہے۔ غامدی صاحب کا یہ استدلال امام رازی کی بیان کردہ اس وجہ کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ اے کاش اصولیین کی بات کو غور سے اور سمجھ کر پڑھا جائے۔ اگر اصلاحی و غامدی صاحبان کی تفاسیر نیز کتاب “میزان” کا مطالعہ اصول فقہ کی روشنی میں کیا جائے تو ایسے “قطعی الدلالت” استدلال کی درجنوں مثالیں ملیں گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…