جناب جاوید احمد غامدی کی دینی سیاسی فکرکا ارتقائی جائزہ

Published On December 29, 2023
انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط لگانا روافض و خوارج کی ایجاد ہے۔ اہل علم نے ہمیشہ اس موقف کی تردید کی ہے۔ ان اہل علم کا تعلق صرف اہل ظاہر سے نہیں بلکہ ان میں کثرت سے مذاہبِ اربعہ کے فقہاء بھی شامل ہیں۔ چنانچہ امام بخاری نے اپنی...

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

محمد خزیمہ الظاہری دین کی ہر ہدایت کا تواتر سے منتقل ہونا ضروری نہیں ہے اور نا ہی کسی نقل ہونے والی چیز کے ثبوت کا اکلوتا ذریعہ تواتر ہے.. سب سے پہلی اصل اور بنیاد کسی بات کے ثبوت پر اطمینان ہے اور اسکے لئے ہمہ وقت تواتر کا احتیاج نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی لٹریچر کو...

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

محمد خزیمہ الظاہری منکرین حدیث جس تواتر کا چرچا کرتے ہیں یہ از خود ہمیشہ ان اخبار و روایات کا محتاج ہوتا ہے جسے ظن و آحاد قرار دے کر انکی اہمیت گھٹائی جاتی ہے۔ متواتر چیز سے متعلق جب تک روایات اور اخبار کے ذریعے سے یہ بات معلوم نا ہو کہ گزشتہ تمام زمانوں میں وہ بات...

پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

 ڈاکٹر سید متین احمد شاہ

بیسویں صدی میں مسلم دنیا کی سیاسی بالادستی کے اختتام اور نوآبادیاتی نظام کی تشکیل کے بعد جہاں ہماری سیاسی اور مغرب کے ساتھ تعامل کی پالیسیوں پر عملی فرق پڑا ، وہاں ہماری دینی فکر میں بھی دور رس تبدیلیاں آئیں۔دینی سیاسی فکر میں سب سے بڑی تبدیلی اسلام کے نظام اجتماعی کی وہ تعبیر ہے، جسے ہندوستان کے مولانا وحید الدین خان نے ’’دین کی سیاسی تعبیر‘‘کا  نام دیا۔اس تعبیر کے برصغیر میں نمایاں حامل مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور عرب دنیا میں اخوان المسلمون کی فکر ہے۔اس فکر کے مقابلے میں خاص طور پر برصغیر میں ایک دوسری فکر ابھری  جس کے نزدیک اسلام کا نشانہ کوئی نظام نہیں بلکہ اصلا فرد ہے۔ اس فکر کا اثر اسلامی سیاسی فکر پر بہت نمایاں طور پر مرتب ہوا جس کے نتیجے میں تصورِ خلافت، تصورِ جہاد وغیرہ جیسے امور کی تعبیر پر دور رس اور عمیق تبدیلیاں مرتب ہوئیں۔اس مقابل فکر کے حاملین میں  سب سے زیادہ اور نمایاں شخصیت مولانا وحید الدین خان مرحوم کی ہے۔ ان کی فکر سے جن لوگوں نے اثرات قبول کیے ان میں نمایاں ترین  جناب جاوید احمد غامدی ہیں اور آج کی جہادی فکر کے مقابلے میں ان کی فکر نمایاں طور پر ایک متوازی اور مخالف فکر کے طور پر واضح ہے جس کے فکری اور عملی اثرات سے اہلِ نظر آگاہ ہیں۔تاہم غامدی صاحب کی یہ فکر موجودہ شکل میں پہنچنے سے پہلے ارتقائی مراحل سے گزری ہے اور ان کی اس موضوع سے متعلق جملہ تحریروں  پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے  کہ اس میں بہت نمایاں اور جوہری نوعیت کا فرق پایا جاتا ہے۔زیرِنظر تحریر میں ان کی فکر کے ارتقائی مطالعے کو پیش  کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس مقصد کے لیے غامدی صاحب کی ادارت میں شائع ہونے والے  مجلے ’’اشراق‘‘ کے آغازِ اشاعت سے لے کر بعد کے دور کی اشاعتوں  اور ان کی دیگر تحریروں کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے جس کا ذکر حوالہ جات میں موجود ہے۔

غامدی صاحب کی فکر کے ابتدائی نقوش

جناب غامدی صاحب کی  فکر کے ابتدائی عہد کی تحریروں سے ان کی معاشرتی سیاسی فکرSocio Political Thought  کے حوالے سے جو باتیں مختصر طور پر ثابت ہوتی ہیں اور جن سے ان کی آج کی فکرتقریبا مکمل طور پر مختلف ہے ، ان کو مختصرا حسبِ ذیل نکات کی شکل میں بیان کیا جا سکتا ہے:

  • اسلامی حکومت کے قیام کی کوشش مسلم سماج کے ہر فرد پر واجب ہے۔
  • قرآنِ مجید کے لفظِ ’خلیفہ‘سے مراد صاحبِ اقتدار مراد ہے اور خلافت ایک دینی اصطلاح ہے جس کی اقامت ایک دینی ذمے داری ہے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ایک شاخ ہے۔
  • سورۂ توبہ کی تعلیمات اس باب میں صریح ہیں کہ دنیا میں جو لوگ اللہ کے احکام کے تابع نہیں ، وہ زمین پر اقتدار کا کوئی حق نہیں رکھتے۔
  • کسی مسلمان حکومت کے اربابِ اقتدار اگر قرآن وسنت کے مطابق نظام کا نفاذ نہیں کرتے تو اس طرح وہ حقیقت میں کفر کا ارتکاب کر رہے ہیں اور ان کا اسلام قیامت کے دن اللہ کے ہاں معتبر نہیں ہوگا۔
  • اتمامِ حجت کسی مسلم حکومت کے ذریعے بھی ہوسکتا ہےاور اس کے نتیجے میں کسی کی تکفیر بھی جائز ہے۔
  • مخلوط تعلیم جیسی چیزوں سے اجتناب لازم ہے اور نوجوانوں کو جہاد وقتال کی تربیت دینی چاہیے ، وغیرہ۔

یہ نکات واضح کرتے ہیں کہ غامدی صاحب کی فکر آغاز میں بنیادی طور پر ’دین کی سیاسی تعبیر ‘ ہی کا اپنے الفاظ میں اعادہ ہے۔مذکورہ بالا امور کو انھی کی تحریروں کی روشنی میں یہاں  پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی جس سے یہ اندازہ ہو سکے کہ ان کی فکر میں غیر معمولی ارتقا  ہوا ہے  ۔

دینی  سیاسی فکر کے حوالے سے مولانا امین احسن اصلاحی ؒ کے پس منظر پر ایک نظر

محترم جاوید صاحب کے فکری ارتقا کو سامنے رکھنے کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں  ان  کے استادِ محترم مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی فکر پر ایک طائرانہ نظر بھی ڈال لی جائے، کیوں کہ  جاوید صاحب کی فکر موجودہ حالت تک پہنچنے تک ظاہر ہے کہ اس سرچشمے سے مستغنی نہیں رہی ہے۔

مولانا امین احسن اصلاحیؒ 1940ء کی دہائی میں جماعتِ اسلامی میں شامل ہوئے اور تقریبا سترہ سال مولانا مودودی ؒ کی رفاقت میں  ایک سرگرم کارکن کی حیثیت سے گزارے۔1956ء میں دونوں شخصیات کے درمیان امیر اور شوریٰ کے اختیارات کے مسئلے پر اختلافات شروع ہوئے جو بالآخر جدائی کا سبب ہوئے۔چناں چہ  18ء جنوری 1958ء کو مولانا اصلاحی ؒ نے ایک خط میں مولانا مودودیؒ کو جماعت سے علاحدگی کے فیصلے سے آگاہ کر دیا۔([1]) جماعت سے وابستگی کے عرصے میں مولانا امین احسن اصلاحیؒ علمی قد کاٹھ کے لحاظ سے مولانا مودویؒ کے بعد دوسری شخصیت تھے اور ان کے علم وفکر سے جماعت میں مقدور بھر استفادہ کیا گیا۔دعوتِ دین اور اس کا طریقِ کار جیسی عظیم الشان کتابیں اسی دور کی یادگار ہیں  جو جماعت کے تربیتی نصاب میں شامل رہی ہیں۔اس کتاب میں دین کو وہ جس حیثیت سے دیکھتے ہیں، اس کا اظہار اس کتاب کے آغاز ہی میں یوں کرتے ہیں:’’میں نے اس کتاب میں دین کو بحیثیت ایک نظامِ زندگی (جیسا کہ وہ فی الواقع ہے) سامنے رکھا ہے اور اسی حیثیت سے اس جدوجہد کے تمام تقاضوں اور اس کے تمام مراحل کی تفصیل کی ہے جو اس نظام کو برپا کرنے کے لیے اختیار کرنی پڑتی ہے۔‘‘([2])جماعت کے حلقے میں معروف ترین اصطلاح’’اقامتِ دین‘‘ بنیادی طور پر مولانا امین احسن اصلاحیؒ ہی کی متعارف کردہ ہے۔([3])

جماعتِ اسلامی کے چھوڑنے کے بعد مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی دینی سیاسی فکر میں کوئی خاص اور جوہری تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملتی، چناں چہ اس کے تقریبا اٹھارہ سال بعد ان کی شائع ہونے والی کتاب اسلامی ریاست (اس کا دیباچہ مولانا اصلاحیؒ کے قلم سے 6 اکتوبر 1976ء کو لکھا گیا ہے۔)میں خلافت اور اس کے نظام کی وہی تعبیر و تشریح ملتی ہے جو ہمارے ہاں عام معروف ہے۔([4])

ڈاکٹرا سراراحمد اور مولانا اصلاحی کے تعلقات میں کشیدگی

ڈاکٹر اسرار احمدؒ  اور مولانا اصلاحیؒ دونوں جماعتِ  اسلامی کی تاریخ کے دوسرے بڑے بحران میں جماعت سے نکلے تھے جس کی طرف اشارہ اوپر مولانا اصلاحی کی جدائی کے سلسلے میں کیا جا چکا ہے۔ بعد میں مولانا اصلاحیؒ تصنیف و تالیف میں منہمک ہوئے  اور اسی دور میں اپنا حلقۂ تدبرِ قرآن وحدیث قائم کیا جس نے ادارہ تدبرِ قرآن وحدیث کی شکل اختیار کی۔اس حلقے سے استفادہ کرنے والوں میں محترم جاوید صاحب کی شخصیت بھی ہے جن کا سلسلۂ تلمذ مولانا اصلاحی سے 1973ء میں قائم ہوا۔ ([5])

ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اس دور میں مولانا اصلاحیؒ کی کتابوں کی اشاعت کرتے تھے۔1976ء  میں دونوں شخصیات کے تعلقات میں انقطاع پیدا ہوگیا تاہم تصانیف کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہا جو کہ 82ء میں منقطع ہو گیا، جس کی داستان ڈاکٹر صاحب نے میثاق میں ’فصل و وصل‘کے عنوان سے لکھی۔اس کی بنیادی وجہ   مسئلۂ رجم پر وہ معروف اختلاف ہے جو مولانا اصلاحی نے سورۂ نور کی تفسیر کے ضمن میں پیش کیا۔اس پر ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے لکھا کہ اس موقف نے انھیں ہلکے درجے کے منکرین حدیث کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔([6]) یہ اختلاف بہت گہرا ہوا اور بعض اوقات ذاتیات پر حملوں کی شکل میں بھی سامنے آیا جن میں دونوں طرف سے افراط و تفریط کا معاملہ ہوا۔ مولانا اصلاحیؒ کی وفات پر سہ ماہی تدبر کی خاص اشاعت میں ان کے جو خطوط شائع ہوئے ہیں ان میں سے جناب خالد مسعود مرحوم کے نام ایک خط میں ڈاکٹر صاحب کو موذی کہا گیا ہے۔([7])

’دین کی سیاسی تعبیر ‘کے قرآنی  مستدل سے اختلاف: جاوید صاحب کے اختلاف کا آغاز

جناب جاوید صاحب کی مولانا اصلاحی سے وابستگی کا ذکر اوپر آ چکاہے اور اسرار احمد صاحب  اور مولانا اصلاحیؒ کے تعلقات کی کشیدگی پر بھی روشنی پڑ چکی ہے۔راقم کا احساس ہے کہ محترم جاوید صاحب کے فکری اختلاف  کی تشکیل میں اس نفسیاتی اختلاف کا عنصر بھی شامل ہے اور  وہ بنیادی طور پرڈاکٹر  اسرار احمد صاحب سے شروع ہوتا ہے اور اس میں کسی حد تک ردِ عمل کا عنصر بھی شامل ہے۔چناں چہ اس کی شاہد محترم جاوید صاحب کی ایک تحریر کا مندرجہ ذیل اقتباس ہے جو انھوں نے ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے رد میں ایک مضمون میں لکھا ہے

اسلام پر جو حوادث اس زمانہ میں گزررہے ہیں، ان میں سے ایک بڑا حادثہ یہ بھی ہے کہ بعض لوگ جو دینی علوم سے ناواقفِ محض اور ہمارے قدیم فنون کی امہاتِ کتب میں سے دو حرف بھی پڑھ دے سکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے،محض اپنی سخن پردازی کے بل بوتے پر دین کی شرح و تعبیر فرماتے اور اس کے امہات مسائل پر کلام کی جسارت کرتے ہیں۔

اس طرح کے برخود غلط لوگ یوں تو لیڈروں اور دانش وروں کی ہر مجلس میں مل جاتے ہیں،لیکن ان میں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کا مقام غالبا سب سے اونچا ہے۔موصوف کے مبلغِ علم کی حدود خود ان پر دوسروں سے زیادہ واضح ہیں۔چنانچہ اپنی جہالت پر پردہ ڈالنے کے لیے وہ خود کو ’امی‘کہتے اور اس طرح اپنے مریدوں کو اطمینان دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔([8])

اس تحریر میں ردِ عمل کے عنصر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا  اور اختلاف  میں فکری کے ساتھ ذاتی رنجش کا عنصر واضح طورپر کارفرما معلوم ہوتا ہے، جس کی اساسات راقم کے نزدیک اس چپقلش میں موجود ہیں جو ڈاکٹر صاحب اور مولانا اصلاحیؒ کے درمیان پیدا ہوئی۔ایک شاگرد کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اپنے استاد کی عقیدت سے بالاتر ہو جائے اور اختلاف میں اس کا اثر شامل نہ ہو سکے، تاہم  یہ  اختلاف  نفسیاتی ہونے سے زیادہ  فکری ہے ([9])اور اسی محولہ بالا مضمون میں اسی کی وضاحت کی گئی ہے، لیکن یہ اختلاف   غلبۂ دین کی اصل فکر میں جوہری نوعیت کا نہیں ، بلکہ بنیادی طور ان کا اختلاف کچھ جزوی قسم کے امور میں نظر آتا ہے جن کا تعلق غلبۂ دین کی فکر کی قرآنی اساسات کے ساتھ  یا بعض عملی اقدامات کے ساتھ ہے۔یہ باتیں بنیادی طور پر دو ہیں

  • غلبۂ دین کی فکر کا قرآنی مستدل کیا ہو؟
  • بیعت سمع وطاعت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

چناں چہ نفسِ اقامتِ دین (بمعنی غلبہ) سے تو انھیں انکار نہیں، لیکن قرآن سے اس کی بنیاد کے لیے وہ أنْ أَقيموا الدين جیسی آیات کو بنیاد نہیں مانتے، جن کی دعوت مولانا مودودیؒ کی اتباع میں ڈاکٹر اسرار صاحب کی تحریروں میں پوری قوت کے ساتھ گونج رہی تھی، جیسا کہ آگے اس کے دو مراحل کے بیان میں وضاحت کی گئی ہے۔گویا اس عہد میں ان کا اختلاف مستدل سے ہے، نفسِ استدلال سے نہیں۔استدلال کی بنیاد کے بارے میں  ایک جگہ لکھتے ہیں

ڈاکٹر صاحب نے اپنی مساعی کا ہدف غلبۂ دین کو قرارد یا ہے۔ اور مسلمان حکومت اس جہاد و قتال کے لیے تیار ہو جائے جس کی غایت قرآن مجید میں یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ قومیں جو دینِ حق کو اختیار کرنے سے گریزاں اور فتنہ فساد کے درپے ہوں،انہیں منصبِ امامت سے معزول کر دیا جائے ،ان کی خود مختاری ختم ہو جائے اور وہ اسلام کے پیروکاروں کے زیر دست بن کر رہیں۔

ڈاکٹر صاحب کا خاص موضوع یہی جدوجہد ہے، اور اس کے بارے میں ان کی بیسیوں تقریریں ہم نے اس ملک میں سنی اور’میثاق ‘ کے صفحات میں پڑھی ہیں،لیکن باعثِ تعجب ہے کہ ان آیات کا ذکر شاید ہی کبھی انہوں نے کیا ہو۔وہ اس عنوان کے تحت جو آیتیں اپنے دروس اور اپنی تقریروں میں دن رات پیش فرماتے ہیں، ان کے معتقدین کو حیرت ہو گی کہ ان کا اس حکم کے ساتھ، جسے وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں، سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔‘‘([10])

اس کے بعد غامدی صاحب نے اظہار دین والی آیات(هو الذي أرسل رسوله بدين الهدى) پر تفسیری پہلو سے نقد کیا ہے کہ اس میں دین کے غلبے کا  تعلق صرف جزیرۃ العرب سے ہے،  جس کی تفصیلی بحث مولانا وحید الدین خان نے  تعبیر کی غلطی میں واضح کی ہے اور اس وقت وہ سامنے آ چکی تھی۔ غامدی صاحب کی گفتگو پر اس کی گہری چھاپ ہے،لیکن یہاں اصل چیز غلبۂ دین کا وہ  تصور ہے کہ دین کے اس انقلابی تصور، جو بعد میں ان کے ہاں سخت تنقید کا نشانہ بناہے اور اسلام اور ریاست : ایک جوابی بیانیہ کی بحث میں اس کے خدوخال مزید نکھر کر سامنے آئے ہیں، کی قرآن میں آیا اس کی کوئی گنجائش ہے بھی یا نہیں ؟ غامدی صاحب غلبۂ دین، اقامتِ خلافت وغیرہ امور کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس کا ماخذ قرآنِ کریم ہی کو  بناتے ہیں ۔البتہ ان کے اختلاف کا زیادہ تر تعلق، جیسا کہ اوپر گزرا،  ڈاکٹر اسرار احمدصاحب کے جزوی استنباطات (جو ظاہر ہے کہ بہ تمام وکمال مولانا مودودی کی فکر ہے۔) اور پھرعملی اقدامات میں سے سمع و طاعت کی بنیاد پر بیعت سے ہے۔غلبۂ دین کی فکر سے  وہ بنیادی طور پر پورے طور پر متفق ہیں۔

بیعتِ سمع و طاعت کے بارے میں ڈاکٹر اسرار احمد کے تصور پر نقد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’بیعتِ سمع و طاعت کا حکم، زانی اور چور کی سزا کی طرح حکم رانوں ہی سے متعلق ہے۔اس طرح کے احکام کے بارے میں ہمارا فرض یہی ہے کہ ہم اربابِ اقتدار کو ان پر عمل پیرا ہونے کی نصیحت کریں اور اپنی صلاحیت واستعداد کے مطابق خلافت علی منہاج النبوۃ کے قیام کی کوشش کرتے رہیں۔ڈاکٹر صاحب کو بھی چاہیے کہ اپنے جذبۂ بے اختیارِ شوق کو کچھ تھام کر رکھیں۔‘‘([11])

یہاں ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کی ایک راے قابلِ توجہ ہے۔مولانا اصلاحیؒ کی تفسیر تدبرِ قرآن (جو جماعت سے نکلنے کے بعد لکھی گئی) میں  سورۂ عصر تقریبا تمام مولانا حمید الدین فراہیؒ کی ناتمام تفسیر نظام القرآن(اردو ترجمہ  مجموعہ تفاسیرِ فراہی )سے ماخوذ ہے۔اس کی تفسیر میں مولانا فراہیؒ نے  ایک عنوان ’’لفظ وتواصوا سے خلافت کا وجوب‘‘ کے الفاظ میں قائم کیا ہے۔ مولانا اصلاحیؒ نے جہاں باقی تفسیر مولانا فراہیؒ سے نقل کی، اس مقام پر پہنچ کر یہ پورا عنوان اپنےمشمولات سمیت حذف کر دیا۔اس کی توجیہ کے لیے  ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نے  اپنے سورۂ عصر کے درس کے کتابچے کے  آخر میں ایک عنوان’’سورۂ عصر سے خلافت کا اثبات اور صاحبِ تدبرِ قرآن کا اس سےافسوس ناک اغماض‘‘قائم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مولانا اصلاحیؒ جماعت میں تھے تو ان کا دینی فکر خالص قرآنی اور انقلابی تھا لیکن وہاں سے نکلنے کا افسوس ناک واقعہ اور اس کے بعد کسی ہیئتِ اجتماعی کی تاسیس  کی کوشش میں مسلسل ناکامی  نہ  صرف کسی قسم کی جماعت سازی سے بددلی کا باعث بنی، بلکہ ان کی دینی فکر کے زوال کا سبب بھی بن گئی، جس کے نتیجے میں انھوں نے سورۂ عصر  کی مولانا فراہیؒ کی تفسیر سے نظامِ خلافت کے قیام والا حصہ اپنی تفسیر میں شامل نہیں کیا۔([12])اس حصے کا تفسیر میں شامل نہ کرنا یقینا محلِ اشکال ہے لیکن اس کی بنیاد پر ان کی سابقہ دینی فکر کو زوال یافتہ قرار دینا بظاہر محلِ نظر معلوم ہوتا ہے،کیوں کہ مولانا اصلاحیؒ کی کتاب اسلامی ریاست بھی  بہت بعد کی تصنیف ہے، لیکن اس میں انھوں نے اسی نظامِ خلافت کی وضاحت کی ہے جس کے قائل وہ جماعتِ اسلامی کے عہد میں رہے ہیں اور اس اصطلاح سے انھوں کوئی نامانوسیت نہیں ہے۔اس کے علاوہ اقامتِ دین والی آیت کا ترجمہ وغیرہ مولانا اصلاحیؒ نے تدبر میں وہی کیا ہے جس سے بعد میں جاوید احمد صاحب کو اختلاف ہوا۔ اصل میں مولانا اصلاحیؒ کی اس دور (جب کہ  محترم جاوید احمد غامدی صاحب بھی ایک نمایاں شخصیت اور صاحبِ قلم کے طور پر سامنے آرہے تھے) میں ایک سرد مہری کی غیر جذباتی کیفیت ڈاکٹر صاحب کے اس تاثر کا سبب بنی۔ڈاکٹر صاحب کی اس ناراضی کا اظہار اس اقتباس سے عیاں ہے

اب آئیے اس پر کہ ﴿أنْ أَقيموا الدين﴾ کے معنی کیا ہیں! اس پر بدقسمتی سے اس زمانے میں ایک علامہ صاحب نے مورچہ لگایا ہے اور اس ضمن میں سب سے بڑی افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کے ایک کتابچے پر تائیدی مقدمہ ان صاحب نے لکھا ہے کہ جو ’’اقامتِ دین‘‘ کی اصطلاح کو جماعت اسلامی کی تحریک میں متعارف کرانے والے تھے۔ہوتا یہی ہے کہ جب کسی چیز سے کسی سبب سے کوئی بُعد ہوجائے، کوئی بغض پیدا ہوجائے تو اب معاملہ حُبِ علی کا نہیں بلکہ بُغض معاویہ کا ہو جاتا ہے۔اب جو بھی اس کا مخالف ہوگا وہ اس کو اپنے سے قریب محسوس کرتے ہوئے اس کی تائید و توثیق کرنی شروع کر دے گا۔ اس کی بدترین مثال اس دور میں مولانا اصلاحی صاحب  نے قائم کی ہے اور میرے نزدیک

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں

ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق

اس شعر کا اس معاملے میں صد فی صد اطلاق ہوتا ہے۔اس لیے کہ خود انہوں نے پورے قرآنِ مجید میں ترجمہ وہی کیا ہے جس کو وہ علامہ صاحب غلط قرار دے رہے ہیں۔ان علامہ صاحب کی تو ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے، لیکن مولانا اصلاحی صاحب کا ایک علمی مقام ہے اور بڑا  افسوس ہوتا ہے اس پر کہ عمر کے آخری حصے درجے میں آدمی اپنے کیے دھرے پر پانی پھیرنے پر تل جائے۔اصلاحی صاحب یا تو صاف صاف تسلیم کر لیتے کہ اس معاملے میں میرا سابقہ موقف غلط تھا اور آج انشراحِ صدر ہو گیا ہے، لیکن معاملہ یہ بھی نہیں۔([13])

یہی وجہ ہے کہ جب محترم  جاوید احمد غامدی صاحب  نے فکرِ اصلاحی کی نشرواشاعت کا بیڑا اٹھایا تو ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کو اس سے شدید اختلاف تھا کہ یہ فکر وہ نہیں ہے جس کے حامل ساری عمر مولانا اصلاحیؒ رہے ہیں۔ انھوں نے مولانا اصلاحیؒ کو ان کی آخری عمر میں دو خطوط بھی لکھے کہ وہ دعوتِ دین جیسی کتابوں میں پیش کی گئی  اپنی فکر کے بارے میں  لوگوں پر صراحت کر جائیں  ورنہ ان کی فکر مستقبل میں ایک چیستاں بن کر رہ جائے گی۔([14]) ان خطوط کا جواب مولانا اصلاحیؒ نے نہیں دیا۔

مولانا اصلاحیؒ کے حوالے سے مذکورہ بالا گزارشات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی دینی سیاسی فکر میں بنیادی طور پر کوئی تبدیلی نہیں آئی اور انھوں نے اس کی تردید میں کوئی تحریر بھی نہیں لکھی، البتہ اس عہد میں محترم جاوید احمد غامدی صاحب بھی ممتاز ہو رہے تھے اور مختلف تحریروں میں اپنی  فکر کا اظہار کرنے لگے تھے۔جاوید  صاحب کی اس عہد کی فکر میں بھی  ’دین کی سیاسی تعبیر‘ کا اثر نہایت گہرا ہے ۔

مسلم سماج میں حکومتِ اسلامی یا خلافت  کا قیام اور غلبۂ دین کی جدوجہد کا مسئلہ

محترم غامدی صاحب کی فکر میں اس وقت جو امور نمایاں اختلافی نکات کی حیثیت رکھتے ہیں ، ان میں تصورِ خلافت اور غلبۂ دین کی جدوجہد  کا مسئلہ بہت نمایاں ہے۔اس مسئلے کے بارے میں ان کے نقطۂ نظر کا اثر بدیہی طور پردیگر تصورات پر بھی مرتب ہوا ہے۔ دین کو غالب کرنے کا مطلب کیا ہے اور اس کی اہمیت ان کے نظامِ فکر میں ابتدا میں کیا تھی؟ اس کے لیے ان کا یہ اقتباس بالکل واضح ہے

غلبۂ دین کے معنیٰ، قرآن مجید کی رو سے یہی ہیں کہ مسلمانوں کو سیاسی اقتدار دینِ خداوندی کی حاکمیت کو پورے شعور اور کامل ارادے کے ساتھ تسلیم کرلے۔زندگی کے ہر شعبے میں قرآن وسنت کی بالادستی قائم ہو جائے،دین کے جو احکام اجتماعی زندگی میں نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں، وہ فی الواقعی نافذ ہوں۔نظامِ اجتماعی، اصول و فروع، ہر چیز میں نبی کریم ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کا تابع بن جائے۔([15])

دین کو دنیا میں غالب کرنے کو انھوں نے دو مرحلوں میں بیان کیا ہے

  • مسلم معاشرے میں غلبۂ دین
  • ساری دنیا میں غلبۂ دین

مسلم معاشرے میں غلبۂ دین کے لیے وہ سیاسی حیثیت کو تنفیذی قوت کے طور پر استعمال کرنے کی بھرپور تلقین کرتے ہیں جب کہ ساری دنیا میں غلبۂ دین کے مقصد کے لیے ان کے نزدیک  جہاد کا عمل ہے۔ایک ایسے معاشرے میں جہاں مسلمانوں کو سیاسی اقتدار حاصل ہو چکا ہو،وہاں اسلامی نظام کی تنفیذ کی بھرپور تایید نہ صرف غامدی صاحب کی اس عہد کی فکر میں ملتی ہے، بلکہ وہ اس کو ساری دنیا میں قائم کرنے کے حق میں بھی یکساں جذبہ رکھتے ہیں۔ اس کا اظہار ان کی مختلف تحریروں سے ہوتا ہے۔مسلم معاشرے میں حکومتِ اسلامی  یا خلافت کے قیام کے وجوب کی قرآنی بنیادوں کو واضح کرتے ہوئے  غامدی صاحب لکھتے ہیں

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دین کے اس غلبے کی جدوجہد، قرآن وسنت کی رو سے ،ہر مسلمان پر اس کی استطاعت کے مطابق اور اس کی صلاحیت کے لحاظ سے بہر حال واجب ہے۔اس کا پہلا مرحلہ ،جیسا کہ ہم نے عرض کیا، خود مسلمان معاشرے میں دین کے نفاذ اور دوسرا مرحلہ دنیا کی قوموں پر اس کے سیاسی غلبہ کا ہے۔

پہلے مرحلے کا حکم قرآن مجید کی سورۂ آلِ عمران میں بیان ہوا ہے۔ارشادِ خداوندی ہے:

وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ([16]) ’’اور تمہارے اندر ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جو خیر کی دعوت دے،معروف کا حکم کرے اور منکر سے روکے۔‘‘

اس آیت میں ، جیسا کہ اس کے ترجمے سے واضح ہے، مسلمانوں کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ وہ اپنے اندر ایک گروہ کو اس کام کے لیے مقرر کریں کہ وہ لوگوں کو خیر کی طرف بلائے، برائی سے روکے اور بھلائی کا حکم دے۔آیت میں اس کے لیے ’امر‘اور’نہی‘کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔یہ اگر’ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ ‘پر معطوف نہ ہوتے تو عربیت کی رو سے ان کے معنی محض وعظ ونصیحت کے بھی ہوسکتے تھے۔لیکن ’ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ ‘ کے بعد ’امر بالمعروف‘ اور ’نہی عن المنکر‘کا منشا یہی ہے کہ یہ کام اختیار و قوت کے ساتھ کیا جائےجو، ظاہر ہے،اس کے بغیر ممکن نہیں کہ یہ گروہ امت کی طرف سے سیاسی اقتدار کا حامل ہو۔چنانچہ یہ آیت دلیل ہے کہ امت کے اندر ایک راشدہ خلافت کا قیام مسلمانوں پر واجب ہے۔

نبی ﷺ کے بعد مسلمانوں نے اسی ارشاد کی تعمیل میں خلافت علی منہاج النبوۃ کا نظام قائم کیا۔بعد میں یہ خلافت منہاجِ نبوت سے ہٹ گئی تو ہمارے علما ء صلحاء مسلسل اسے اس راستے پر لانے کی کوشش کرتے رہے۔اس وقت دنیا کے دسیوں ممالک میں اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ ان ممالک میں ان کی خلافت قائم ہے۔لیکن بدقسمتی سے منہاج نبوت پر کہیں بھی نہیں ہے۔اس وجہ سے،قرآن مجید کے اس حکم کی رو سے ،ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ انفرادی یا اجتماعی مساعی کے ذریعے سے اسے اس راستے پر لانے کی جدوجہد کرے۔([17])

ایک جگہ لکھتے ہیں

(دین کو غالب کرنے کا ) فرض ہونا، بے شک قرآن وسنت  کی صریح نصوص سے ثابت ہے۔دین کی رو سے یہ اہلِ ایمان کی ذمہ داری ہے کہ انہیں اگر کسی معاشرے میں سیاسی اقتدار حاصل ہو تو وہ نہ صرف  یہ کہ ساری دنیا میں دینِ حق کو غالب رکھیں، بلکہ پوری دنیا میں اسے غالب کرنے کی جدوجہد کریں۔([18])

ان اقتباسات میں صاحبِ تحریر کا موقف بالکل واضح ہے کہ ایک خلافت کا نظام مسلمانوں کے اوپر ایک واجبِ شرعی ہے۔ اس کے لیے غامدی صاحب نے عربیت کی رو سے یہ لطیف استنباط پیش کیا ہے کہ  آیت میں امر و نہی کے الفاظ امرِ دعوت  پر معطوف ہو کر اپنے اندر اپنے اندر قوت و اختیار کے مفہوم کو متضمن ہو گئے ہیں۔اگرچہ عربیت کی رو سے یہ دلالت  کوئی واضح نہیں ہے اور اس کا استنباط ایک تکلف ہی معلوم ہوتا ہے ، تاہم اس سے غامدی صاحب کا موقف بالکل واضح ہے۔

اس عہد میں میزان کے سلسلہ وار دروس میں سے ایک درس میں انھوں نے مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تقاضے مرتب انداز میں بیان کیے ہیں؛ اجتماعی زندگی کے تقاضے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

دوسری قسم کے تقاضے یہ ہیں

  • التزامِ جماعت
  • سمع وطاعت
  • ہجرت
  • جہاد

دین کے یہ تقاضے اہلِ ایمان کی اس حالت سے متعلق ہیں، جب انھیں کسی سرزمین میں سیاسی خود مختاری حاصل ہو جائے۔اس صورت میں جو پہلا حکم انھیں دیا گیا ہے ، وہ یہ ہے کہ وہ منتشر بھیڑ کی صورت میں نہ رہیں، بلکہ ایک منظم جماعت کی حیثیت سے اپنی ریاست کا ایک باقاعدہ نظام قائم کریں جو انھیں ہمہ وقت معروف پر قائم رکھنے اور منکر سے روکنے کی کوشش کرے۔ قرآن کا ارشاد ہے:

وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ.(آل عمران 3: 104)، ’’اور تمھارے اندر ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جو تمھیں خیر کی دعوت دے، معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے۔‘‘اس طرح کی حکومت اگرقائم ہو جائے تو اہلِ ایمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کے ساتھ وابستہ رہیں اور اس سے کسی حال میں الگ نہ ہوں۔۔۔([19])

حکمِ جہاد کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں

اس سلسلہ کا چوتھا اور آخری حکم جہاد کا ہے، اس کی ابتدا شہادتِ حق ہے۔۔۔نبی کریم ﷺ کے بعد اب ہمارے لیے اس شہادت کا طریقہ یہ ہے کہ اہلِ ایمان پہلے اپنی ریاست میں ایک نظامِ حق عملا قائم کریں تاکہ اس کے ذریعے سے یہ حقیقت دنیا کی ہر قوم پر واضح ہو جائے کہ اسلام کیا ہےاور وہ بنی آدم سے ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کن باتوں کا مطالبہ کرتا ہے۔۔۔

اس شہادت کے بعد اگر اہلِ کفر اس دین کو ماننے یا کم از کم اس کی سیاسی بالادستی قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوں تو حکم ہے کہ اہلِ ایمان اگر طاقت رکھتے ہوں تو ان کے خلاف جہاد کریں۔اللہ تعالی نے فرمایا ہے:

قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ.([20])

ان وضاحتوں کے بعد کہتے ہیں

یہ وہ دین ہے جو اللہ نے اپنے نبیوں کے ذریعے نبی آدم کو دیا ہے۔اس سے انحراف کی سزا قرآن کی رو سے جہنم ہے اور اس کو کوئی شخص اگر پورے صدقِ دل سے اختیار کر لےتو اس کا صلہ اس کے نزدیک وہ جنت ہے جہاں نہ ماضی کا کوئی پچھتاوا ہوگا اور نہ مستقبل کا کوئی اندیشہ۔([21])

پاکستان کی نظریاتی اساس اور  نفاذِ اسلام کا مسئلہ

اشراق کے فائل میں قیامِ پاکستان  کے بعد اس میں اسلام کے نفاذ کا مسئلہ بھی بڑے شرح وبسط کے ساتھ زیرِ بحث آیا ہے اور محترم جاوید صاحب اس ملک میں نظامِ اسلامی کے نفاذ کے پرجوش حامیوں میں نظر آتے ہیں۔

ایک سوال یوں پوچھا گیا

اس زمانے میں بعض دانش ور ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر اور اسلام کے لیے نہیں بنا تھا۔یہ سب باتیں یہاں نفاذِ اسلام کی جدوجہد کو نقصان پہنچانے کے لیے کی جاتی ہیں۔ہماری خواہش ہے کہ آپ ان لوگوں کی غلطی واضح کریں۔([22])

اس کے جواب میں پہلے یہ فرماتے ہیں کہ پاکستان میں اسلام کے نفاذ کی یہ بنیاد کہ وہ اسلام کے نام پر حاصل کیا گیاتھا،کم زور ہے، البتہ اس کی درست بنیاد واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں

ہمارا مقدمہ یہ ہے کہ ہم چونکہ مسلمان ہیں اور ہمیں اس ملک میں اللہ کی عنایت سے سیاسی خود مختاری حاصل ہےاور چونکہ یہ دین کا قطعی حکم ہے کہ مسلمان اگر کسی سرزمین میں سیاسی طور پر خود مختار ہوں تو وہ وہاں اسلامی قانون نافذ کریں اور اپنی حیاتِ اجتماعی کے ہر شعبہ پر احکام دین کو بالا تر رکھیں، اس لیے یہاں اللہ کا دین نافذ ہونا چاہیے۔اس ملک کے اربابِ اقتدار اور سیاسی زعما ء سے ہمارےمطالبے کی بنیاد یہ ہے۔

ہمارے اس مطالبے کے جواب میں ہمارے مخاطبین کے سامنے صرف تین راستے رہ جاتے ہیں۔ایک یہ کہ وہ اپنے مسلمان ہونے کا انکار کر دیں۔‘‘دوسرا یہ کہ وہ قرآن وسنت کے دلائل کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ اسلام ان سے اس بات کا تقاضا نہیں کرتا ۔تیسرا یہ کہ وہ عملا اس تقاضے کو پورا کرنے سے گریز کرتے رہیں۔

پہلی صورت میں ان کی قیادت و سیادت ان شاء اللہ لمحوں میں ختم ہو جائے گی۔دوسری صورت میں ان کی ہزیمت اور بے بسی کا تماشا ،اگر اللہ نے چاہا تو زمین وآسمان دیکھیں گے۔تیسری صورت میں ہم انہیں بتائیں گے وہ اس طرح درحقیقت کفر کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ان کا اسلام قیامت میں قبول نہ کیا جائے گا۔وہ اپنے آپ کو اس آگ سے بچانے کی کوشش کریں جو دلوں تک پہنچے گی اور جس میں مجرم ستونوں کے ساتھ بندھے ہوں گے وہاں ان کا کوئی  مددگار نہ ہوگا۔وہ اس سے نکلنا چاہیں گے لیکن اس کی کوئی راہ نہ پائیں گے۔وہ اس دن سے ڈریں جس دن گریز کے سب راستے بند  اور فرار کی سب راہیں مسدود ہو جائیں گی اور قرآن اپنی اس حجت کے ساتھ  ان کے سامنے آئے گا کہ:

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ ’’اور جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں،وہی کافر ہیں۔ ‘‘([23])

سیاسی خود مختاری کے حصول کے بعد پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے فرض ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ریاستِ پاکستان میں سیاسی خود مختاری حاصل کر لینے کے بعد یہ بحیثیت قوم ہمارا فرض ہے کہ ہم یہاں اپنے نظام پر دینِ حق کی بالادستی قائم کریں۔اس ملک میں ہر فیصلہ جو کیا جائے اور ہر حکم جو دیا جائے،اس کے بارے میں پہلے یہ بات طے ہونی چاہیے کہ وہ قرآن وسنت کے مطابق ہے یا نہیں اور ہر وہ فیصلہ اور ہر وہ حکم جو ہمارے لیے قرآن وسنت میں بیان ہوا ہے، اسے یہاں بہرحال نافذ قرار پانا چاہیے۔۔۔یہی وہ چیز ہے جو اس سرزمین میں اگر کبھی حاصل ہو گئی  تو یہاں وہ انقلاب برپا ہو جائے گا، جسے اس زمانے میں بعض اہلِ علم نے ’اسلامی انقلاب‘ کی اصطلاح سے تعبیر کیا ہے۔([24])

مسلم حکومت  قائم ہوجانے کے بعد اس  کی شرائط پر جو شہری رہنے کے لیے تیار نہ ہوں، ان کی اس ریاست میں کیا حیثیت ہوگی؟ اس  کی وضاحت میں  لکھتے ہیں

ریاست  کے جو باشندے ان شرائط کو قبول کرنے سے انکار کر دیں، وہ نسلی مسلمان ہوں یا یہود ونصاریٰ یا کسی اور مذہب ومسلک کے پیرو، دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت سے وہ ریاست کی حدود میں رہ سکتے ہیں۔اسلامی حکومت مختلف حالات میں مختلف شرطوں پر، جن کے بیان کرنے کا یہ موقع نہیں ہے، ان سے معاہدات کر سکتی ہے، اور ان معاہدات کی رو سے جو حقوق بھی طے کر دیے جائیں وہ انہیں بہرحال حاصل رہیں گے، لیکن امرا کے عزل و نصب میں شرکت اور پالیسی ساز اداروں میں مشورہ دینے کا حق انہیں کسی طرح بھی نہیں دیا جا سکتا۔([25])

دنیا میں غلبۂ دین کے لیے  جہاد کا مسئلہ  اور اہلِ ذمہ کے حقوق

غلبۂ دین کا دوسرا مرحلہ  محترم جاوید صاحب کے نزدیک ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کا ہے۔اس مقصد کے لیے ان کے نزدیک جہاد وہ چیز ہے جو اہلِ اسلام کا ہتھیار ہے۔مسئلۂ جہاد کے معاملے میں  وہ اتنے حساس معلوم ہوتے ہیں کہ مخلوط تعلیم کے سلسلے کو بند کر کے طلبہ کو بھی جہاد و قتال کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’مخلوط تعلیم کا سلسلہ بالکل بند کر دیا جائے اور طالب علموں کو ہمہ وقت مشغولِ تن رہنے کے مواقع فراہم کرنے کے بجائے جہادو قتال کے لیے ضروری تربیت دی جائے۔‘‘([26])

اس مرحلے کی قرآنی اساسات کو نمایاں کرتے ہوئے لکھتے ہیں

دوسرے مرحلے کا حکم سورۂ توبہ میں آیا ہے۔قرآن کا ارشاد ہے

قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ([27]) ’’ لڑو اہلِ کتاب سے جو نہ اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان لاتے ، نہ اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ حرام ٹھہرایا ہے،اسے حرام ٹھہراتے اور نہ دینِ حق کی پیروی کرتے ہیں۔ان سے لڑو یہاں تک کہ وہ مغلوب ہو کر جزیہ ادا کریں اور زیر دست بن کر رہیں۔‘‘

یہ آیت اپنے مدعا میں بالکل صریح ہے۔اس میں صاف بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ دینِ خداوندی کو اپنا دین بنانے اور اس کے قوانین کی بالادستی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں،وہ اس کا قطعا کوئی حق نہیں رکھتے ہیں کہ خدا کی زمین پر کسی جگہ بھی زمام اقتدار ان کے ہاتھ میں ہو۔اہلِ ایمان، اگر اقتدار اور جہاد کی استطاعت رکھتے ہوں تو ان کا فرض ہے کہ وہ اتمامِ حجت کے بعد ان کے خلاف جنگ کریں اور زمین کے ہر حصے میں ان کی خود مختاری وبالادستی ختم کر کے انہیں مجبور کر دیں کہ وہ نظامِ صالح کے تابع بن کر زندگی بسر کریں۔

یہی آیت ہے ، جس کے حکم کی پیروی میں نبی ﷺ اور صحابۂ کرام نے عرب کے اہلِ کتاب اور روم و ایران کی حکومتوں کے خلاف جہاد کیا اوردینِ خداوندی کو ان کے بحر وبر اور دشت وجبل میں غالب کر دیا۔اس کا حکم لاریب آج بھی باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گا۔مسلمان کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ ہر وقت اس جہاد کے لیے تیار رہے اور اصحابِ امر جب اس کے لیے پکاریں تو زمین کے ذرے ذرے پر دینِ حق کی فرماں روائی  قائم کرنے کے لیے نکل کھڑا ہو۔([28])

اس تحریر سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ زمین پر خدا کی منشا کے خلاف قائم کسی بھی نظام کے خلاف قتال فرض ہے اور اقتدار کی زمامِ کار صرف انھوں لوگوں کا حق ہے جو زمین میں اللہ کی  مرضی کے مطابق زندگی گزارتے ہوں۔جہاد کی یہ صورت ان کے نزدیک نہ صرف رسول اللہ ﷺاور صحابہ  کی زندگی میں سامنے آئی، بلکہ اس کا حکم لاریب طور پر قیامت تک باقی ہے۔

پاکستان میں نفاذِ اسلام کے حوالے سے اوپر جاوید صاحب کا موقف نقل ہوا۔اپنے ملک میں اس کی فرضیت کے اتمام کے بعد کے اگلے مرحلے کے بارے میں کہتے ہیں

یہ انقلاب اس ملک میں برپا ہونا چاہیے اور اس کے بعد اس پوری امت میں بھی جسے ہم امت مسلمہ کہتے ہیں تاکہ شہادت حق کی جو ذمہ داری ہم پر بحیثیت امت عائد کی گئی ہے،وہ فی الواقع پوری ہوجائے اور قیامت کے دن یہ امت اپنے پروردگار کے حضور میں سرخ رو قرار پائے۔

اپنے نظامِ ریاست پر دینِ حق کے غلبہ کی یہ ذمہ داری ہماری اس قوم پر بحیثیت قوم عائد ہوتی ہے۔([29])

(آگے فرماتے ہیں کہ اس احساس کو اجاگر کرنے کے لیے انذار کا مقصد پورا کرنا ضروری ہے ورنہ ہم قیامت میں اللہ کے سامنے مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے کیے جائیں گے۔ )

اس سے آگے بڑھ کر جماعتی سطح پر ملک میں انقلاب کے قیام کو بھی وہ فرماتے  ہیں کہ حدود میں رہتے ہوئے کوئی ناجائز کام نہیں ہے۔([30])

مقاصدِ جہاد کے حوالے سے محترم جاوید صاحب کی اس عہد کی فکر موجودہ تصور کے مقابلے میں وسعت کی حامل ہے۔ ایک جگہ وہ ان اہداف پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں

قرآن وحدیث میں لفظِ جہاد بھی لام عہد کے ساتھ قتال ہی کے لیے مستعمل ہے۔یہ تین صورتوں میں کیا جا سکتا ہے:

ایک غیر مسلم حکومتوں کے خلاف، دفاع، انتقام، مسلمانوں کی حفاظت یا غلبۂ دین کی غرض سے،

دوسرے باغیوں کی سرکوبی کے لیے ،اگر وہ مصالحت کے لیے تیار نہ ہوں،

تیسرے اس مسلمان حکمران کے خلاف جس نے کھلے کفر کا ارتکاب کیا ہو۔

پہلی صورت کا حکم ہم نے اوپر غلبۂ دین کی جدوجہد کے زیر عنوان وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔دوسری صورت کا حکم سورۂ حجرات میں بیان ہوا ہے۔۔۔تیسری صورت نبی کریم ﷺ کے ارشادات سے ثابت ہے۔اس سوال کے جواب میں کہ حکمران اگر دین کی راہ سے ہٹ جائیں تو کیا ان کے خلاف قتال کیا جا سکتا ہے،آپ نے فرمایا:صرف اس صورت میں جب کہ کھلے کفر کا ارتکاب کریں اور نماز پر قائم نہ رہیں۔۔۔

جہاد ان تینوں صورتوں میں کیا جا سکتا ہے،لیکن ان میں سے ہر صورت میں لازم ہوا ہے کہ جہاد کرنے والی جماعت اور اس کے امیر کو کسی خطۂ ارض میں سیاسی اقتدار حاصل ہو۔ ([31])

اشراق کے شمارہ  ستمبر 1985ء میں ’’اسلام کا سیاسی نظام ‘‘کے عنوان سے ایک خاتون کے مختلف سوالات کے جوابات کا ایک طویل  سلسلہ ہے  جو انھوں نے غلبۂ اسلام اور اسلام کے نظمِ سیاسی کے حوالے سے  ہیں۔ اس میں جاوید صاحب نے تفصیل سے سوالات کے جوابات دیے ہیں ۔اسلامی نظام قائم کرنے والی جماعت کے اوصاف کے ایک طویل بیان میں ضروری اوصاف پر گفت گو کے بعد لکھتے ہیں

یہ اوصاف کسی جماعت میں پیدا ہو جائیں تو قرآن کی رو سے وہ خلافت کی اہل قرار پاتی اور زمین پر سیاسی اقتدار قائم کرنے کا استحقاق اسے حاصل ہو جاتا ہے۔پھر وہ جب چاہے اور جس طرح چاہےقیادت کی زمام اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہے۔اس کی قلمرو میں آسمان اپنے خزانے کھول دیتا اور زمین اپنے دفینے اگل دیتی ہے۔وہ جب تک رہتی ہے، زمین پر خدا کی رحمت اور خدا کی عدالت بن کر رہتی ہے۔لوگ اس کے دامن میں برکت ڈھونڈتے اورآسمان کے فرشتے اس پر درود بھیجتے ہیں۔اس کا وجود نہ ماننے والوں کے لیے خدا کی حجت اور ماننے والوں کے لیے ابدی پادشاہی کا پیغام ہوتا ہے۔([32])

اشراق کے مارچ 90 ء کے شمارے کا خاص عنوان: ’’الانصار المسلمون-قافلۂ دعوت و عزیمت کی تشکیل جدید‘‘ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غامدی صاحب کے پیشِ نظر ایک جماعت کی تشکیل تھی جس کے اہداف ومقاصد ان کے نزدیک یہ ہیں

ہماری یہ جماعت اپنے پیشِ نظر مقصد کے حصول کے لیے جو منہاج عمل اختیار کرے گی، وہ قرآن مجید کی اصطلاح کے مطابق، ابتدا سےا نتہا تک، صرف ’’انذار‘‘ ہو گا، یعنی یہ کہ

ا۔ ہم ہر شخص کو خبردار کردیں کہ دین حق پر ایمان، عملِ صالح اور دوسروں کوحق اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کے سوا نجات کی کوئی راہ نہیں۔

ب۔ اپنی قوم کو خبردار کردیں کہ خدا کی زمین پر اقتدار حاصل کر لینے کے بعد بھی اگر اس کے نظام پر قرآن وسنت کو غلبہ حاصل نہ ہوا ، تو قیامت کے دن، اس کا ہر فرد اپنی ذمہ داریوں کے لحاظ سے خدا کی عدالت میں مجرم قرار پائے گا۔

ج۔ ارباب اقتدار کو خبر دار کر دیں کہ جو لوگ اپنے نظام ریاست میں اللہ تعالی کے نازل کردہ قانون کی پیروی نہیں کرتے، اللہ نے انھیں ظالم و فاسق اور کافر قرار دیا ہے۔([33])

اس جماعت کا مقصود اور ہدف بھی مذکورہ بالا اقتباس سے واضح ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک انذار کی ذمے داری ادا کرنا تھا جس کے فرائضِ منصبی میں اقتدار کے حصول کے بعد قرآن وسنت کی بالادستی  کی جدوجہد کرنا ہے اور اصحابِ اقتدار کو خبردار کرنا ہے کہ  ریاست میں قانون کی بالادستی نہ کرنے کے جرم میں وہ مجرم ہوں گے۔

زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ ستیز

یہاں غامدی صاحب کا ایک قدرے طویل مگر خوب صورت  اقتباس پیش کرنا مناسب ہے جو راقم کے نزدیک ان کے رواں دواں ادبی قلم کا شاہ کار بھی ہے۔اس میں غامدی صاحب ایک خاص کیف کے انداز میں  اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ موجودہ  زمانے کے مسلمانوں کے لیے فکرِ جہاد  اور ممولے کو شہباز سے ٹکرا جانے کے  حقیقی دینی مزاج سے زیادہ نامانوس کوئی چیز نہیں رہی ۔ اشراق – اکتوبر 1986ء کے اداریے میں لکھتے ہیں

طبعے بہم رساں کہ بسازی بعالمے

یا ہمتے کہ از سرِ عالم تواں گزشت([34])

رات سونے سے پہلے ابوالکلام کی ’غبار خاطر‘ دیکھ رہا تھا کہ یہ شعر سامنے آگیا۔مجھے خیال ہوا کہ ابو طالب کلیم نےان دو مصرعوں میں جو حقیقت بیان کی ہے،وہ فرد کے بارے میں جتنی صحیح ہے،اس سے زیادہ، اسے اقوام وملل کے بارے میں صحیح مانناچاہیے۔یہاں ، فی الواقع، ہر قوم کے لیے زندہ رہنے کے لیے دو ہی طریقے ہیں۔وہ دنیا سے لڑے گی اور اسے اس بات پر مجبور کر دے گی کہ اس کے سامنے سرنگوں ہو کر رہے یا اس کے ساتھ سازگاری کی راہیں تلاش کرے گی اور بالآخر اس کے حضور میں سرنگوں ہو جائے گی۔

لیکن ہم مسلمان بھی کیا ان دونوں میں سے جو طریقہ چاہیں، اختیار کر سکتے ہیں؟ میرے خیال ہے کہ ان میں سے دوسرا طریقہ ہمارے لیے کبھی روا نہیں ہوا۔ اس کی وجہ بالکل واضح ہے۔ہمارے وجود کی بنا ہی اس اعلان پر قائم ہوئی ہے کہ پورا حق صرف ہمارے پاس ہے۔ہم اگر اس اعلان سے دستبردار ہو جائیں تو ہمارا وجود باقی نہیں رہتا اور اس پر قائم رہیں تو ہمارے لیے دنیا کے ساتھ سازگاری کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوتی۔

میں نے آج لکھنے کے لیے قلم اٹھایا تو خیال تھا کہ ’توبازمانہ ستیز‘ کی یہ حکایت کچھ شرح و بسط کے ساتھ سناؤں گا۔لیکن اب سوچتا ہوں کہ لوگ یہاں اسے سننے  کے لیے تیار بھی ہوں گے؟ میرا خیال ہے کہ ان کے لیے اب اس سے زیادہ شاید کوئی بات اجنبی نہیں رہی۔پھر کیا کہوں اور کس سے کہوں؟

دریں مے خانہ اے ساقی ندارم محرمے دیگر

کہ من شاید نخستیں آدمم از عالمے دیگر([35])

مذکورہ بالا اقتباس میں محترم جاوید صاحب فرماتے ہیں کہ  ’بازمانہ ستیز‘ کی روش سے زیادہ آج کا مسلمان کسی چیز سے غیر مانوس نہیں ہے اور پھر فارسی شعر میں اس حسرت کا اظہار کرتے ہیں کہ ساقیا! اس مے خانے میں میرا کوئی محرمِ راز نہیں اور شاید اس زمین پر میں پہلا انسان ہوں جو کسی اور جہاں سے آیا ہے۔یہاں ان سے یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ دینی مدرسوں میں یہی فکر(جس کے مولود فساد کا، غامدی صاحب کے بقول، دنیا کو سامنا ہے۔) اس وقت بھی تعلیم کا جز تھی جب آپ نے یہ تحریر لکھی، لیکن اس وقت اس فساد کا کریڈٹ آپ نے مدارس کو کیوں نہیں دیا ؟ اس کے برعکس  ’بازمانہ ستیز‘کی اس نامانوس صدا کا واحد محرم آپ اپنی شخصیت کو قراردے رہے ہیں اور اس پیغام کے بارے میں فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے اس وقت اس سے بڑھ کر کوئی بات غیر مانوس نہیں رہی۔

قانونِ اتمامِ حجت  اور اس سے مربوط بعض مسائل

محترم جاوید صاحب کی موجودہ تعبیرِ جہاد ان کے قانونِ اتمامِ حجت کے ساتھ بہت گہرا ربط رکھتی ہے۔اس قانون کے باب میں  بھی غامدی صاحب کی تحریروں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ  اس میں فکری ارتقا پایا جاتا ہے۔موجودہ صورت میں قانونِ اتمامِ حجت ان کی تحریروں کی روشنی میں واضح ہے کہ رسولوں کی زندگی کے ساتھ خاص ہے اور کوئی  فرد یا جماعت  اس اعلان کا مُجاز نہیں ہے کہ یہ اتمام کس پر ہوا ہے اور کس پر نہیں؛ اس قانون کی رو سے  قرآن میں بیان کیے گئے احکامِ جہاد بنیادی طور پر دو قسم کے ہیں

  • شرک و فتنے کے ختم کرنے کے لیے
  • دفعِ فساد کے لیے

پہلی صورت کا تعلق اتمامِ حجت کے قانون کے تحت  صرف رسول ﷺ کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے ، جب کہ دوسری صورت کا حکم ہمیشہ کے لیے باقی ہے، البتہ اس کے لیے شرط یہ ہے کہ جہاد کسی حکومت کی سرپرستی میں ہو جسے اقتدار حاصل ہو۔ موجودہ فکرِ جہاد میں جاوید صاحب دفعِ فساد کے لیے  جہاد کو بھی اسی صورت کے ساتھ مقید مانتے ہیں۔ قانونِ اتمامِ حجت کے تحت جہاد کی  بعض  مخصوص صورتوں  کے صرف عہدِ نبوی کے ساتھ خاص ہونے کے علاوہ اس قانون کی کا ایک فقہی اطلاق مسئلہ تکفیر کے ساتھ بھی تعلق رکھتا ہے؛ چناں چہ  کسی فرد کی تکفیر کے حوالے سے  ایک جگہ تحریر کرتے ہیں:

(دعوت کی ) دسویں حد یہ ہے کہ کسی فرد یا جماعت کی تکفیر کا حق بھی کسی داعیِ حق کو حاصل نہیں ہے۔یہ ہو سکتا ہے کہ دین سے جہالت کی بنا پر مسلمانوں میں سے کوئی شخص کفروشرک کا مرتکب ہو، لیکن وہ اگر اس کو کفر شرک سمجھ کر خد اس کا اقرار نہیں کرتا تو اس کفر و شرک کی حقیقت تو ، بے شک، اس پر واضح کی جائے گی۔اسے قرآن وسنت کے دلائل کے ساتھ ثابت بھی کیا جائے گا۔اہل حق اس کی شناعت سے اسے آگاہ بھی کریں گے اور اس کے دنیاوی اور اخروی نتائج سے اسے خبر دار بھی کیا جائے گا، لیکن اس کی تکفیر کے لیے چونکہ اتمام حجت ضروری ہے،اس وجہ سے یہ صرف دو ہی صورتیں ہیں جن میں کسی شخص کو کافر قرار دیا جا سکتا ہے:

ایک یہ کہ اللہ کا پیغمبر اس پر حجت قائم کر ے اور پھر ہجرت و برات کے موقع پر اللہ کے اذن سے اس کی تکفیر کا اعلان کردے۔

دوسرے یہ کہ اسلامی حکومت باقاعدہ عدالتی کارروائی کے ذریعے سے اتمامِ حجت کے بعد اس کی تکفیر کا حکم صادر کرے۔

پہلی صورت کی دلیل یہ ہے کہ اللہ کے کسی پیغمبر نے بھی مرحلۂ ہجرت سے پہلے اپنی قوم کو کافر ومشرک کے الفاظ سے مخاطب نہیں کیا۔۔یہ ہجرت ہی کا موقع ہے کہ جب ایک مدت کی دعوت و تبلیغ کے ذریعے سے اللہ کی حجت پوری ہو گئی تو اللہ کے رسولوں نے اپنی قوم کو صاف صاف اے کافرو کے الفاظ سے مخاطب کیا۔([36])

دوسری صورت  کی دلیل یہ ہے کہ رسول کے بعد یہ اتمام حجت اگر ہو سکتا ہے تو صرف ایک اسلامی حکومت کے ذریعے  ہی سےہو سکتا ہے۔یہ اس طرح کی کسی حکومت کے لیے ممکن ہے کہ وہ کسی عقیدے یا نظریے کو کفروشرک قرار دینے کے لیے ’امرہم شوری بینہم‘ کی ہدایت کے مطابق ارباب حل و عقد اور اہل تفقہ کے اجماع کا اہتمام کرے۔پھر جس شخص کی تکفیر کا مسئلہ زیربحث ہو،اس کے خلاف اپنا مقدمہ عدالتی طریقے کے مطابق پیش کرے۔اسے صفائی کے لیے بلائے،اس پر جرح کرے اور اس کے بعد اگر اس کی تکفیر ہی کا فیصلہ ہو جائےتو اس کے متعلق تمام قانونی احکام مثلا اہلِ ایمان سے اس کی علیٰحدگی،مسلمان کی حیثیت سے اس کے تعارف پر پابندی، کسی مسلمان مرد یا عورت سے اس کے نکاح کا ابطال، اس کی میراث کا انقطاع، مسلمانوں کے طریقے پر اس کی تدفین اور جنازہ کی ممانعت وغیرہ، یہ سب اس پر نافذ کرسکے جو اس طرح کے کسی فیصلے کا لازمی نتیجہ ہیں۔

اس سے واضح ہے کہ اس طرح کا کوئی فیصلہ تو کسی شخص یا جماعت کے متعلق کوئی داعیِ حق تو نہیں کر سکتا،لیکن جیسا کہ اوپر بیان ہوا،اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ کفروشرک کے ابطال میں مداہنت کے لیے بھی کوئی گنجائش ہے۔([37])

اس سے واضح ہوتا ہے کہ رسول کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اتمامِ حجت کا اعلان کرنے کی مجاز کوئی اسلامی حکومت بھی ہو سکتی ہے۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قانونِ جہاد کے حوالے سے  اتمامِ حجت کے قانون کو مولانا حمید الدین فراہی ؒ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، لیکن مولانا فراہی کی فکر میں یہ قانون اور اس کی تعبیر اور پھر خاص طور پر اس کے فقہی اطلاقات   واضح او ر صریح کیوں نہیں ہیں  کہ قرآنی احکامِ جہاد اور دیگر امور پر ان  کا اطلاق نہ صر ف خود ان کی فکر میں،بلکہ  مولانا اصلاحی ؒکی فکر میں اور خود محترم جاوید صاحب کی فکر کے ابتدائی خدوخال میں  اپنی متعین اور واضح شکل میں منقح نہیں ہے اور اس کی تفہیم کہیں بہت بعد میں جا کر ہو سکی ہے جس کی حتمی تعبیر ہمیں محترم جاوید صاحب کی فکر کی موجودہ شکل میں ملتی ہے؟([38])

نتائجِ بحث

مذکورہ بالا سطور سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اقامتِ نظامِ خلافت، جہاد، قانونِ اتمامِ حجت اور مسئلہ تکفیر وغیرہ امور پر جاوید احمد غامدی صاحب کی فکر ان کے فکری دور کے عہدِ آغاز میں وہ نہیں ہے جو موجودہ شکل میں ہمارے سامنے ہے اور جس کا جامع نمائندہ ان کی وہ معروف تحریر ہے ، یعنی اسلام اور ریاست ایک جوابی بیانیہ ، جس پر ملک کے جید اہلِ علم کی طرف سے ردعمل سامنے آیا اور یہ موضوع پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا اور مجلات کا موضوع بنا رہا ۔([39])

اس تعبیری فرق کی ایک ممکنہ  وجہ تو وہ ہے جو جو شروع میں ردِ عمل کی فضا پیدا ہونے کے عنصر میں عرض کی گئی جس کا کچھ فرق غامدی صاحب کے استاد مولانا اصلاحیؒ کی فکر پر بھی کسی حد تک مرتب ہوا ہے، اگرچہ  اس میں بہت بنیادی نوعیت کا کوئی فرق سامنے نہیں آتا۔

اس کی ایک ممکنہ اور فطری وجہ بھی ہے کہ  ہرصاحبِ فکر اپنے علمی غور وفکر کے سفر میں ارتقائی منازل طے کرتا رہتا ہے اور جو افکار شروع میں ہوتے ہیں، بسا اوقات مزید غوروفکر اور تحقیق  اسے اپنی فکر پر نظر ثانی کرنے اور اعادۂ افکار پر مجبور کر دیتی ہے۔ غامدی صاحب بھی یقینا اس فطری تبدیلی سے گزرے ہیں اور شروع میں وہ مولانا مودودیؒ کے تعلق سے اسلام کی جس انقلابی تعبیر کے قائل تھے، وہ رفتہ رفتہ بدلتی چلی گئی اور اس کی وہ صورت سامنے آئی  جو موجودہ حالات میں ہمارے سامنے ہے۔

یہاں اس ارتقا کی توجیہ کو تسلیم کرنے اور اس کے ایک فطری مظہر ہونے پر یقینا مجالِ انکار نہیں، لیکن غامدی صاحب کی فکر سے دل چسپی رکھنے والے ایک طالب علم کو یہاں غامدی صاحب کی مختلف مواقع کی گفتگوئیں کچھ تردد میں ڈال دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر یوٹیوب پر سلیم صافی کے ساتھ چار حصوں پر مشتمل ایک طویل گفت گو([40]) میں غامدی صاحب  فرماتے ہیں کہ ان کی یہ دعوت ہمیشہ سے یہی رہی ہے۔حالیہ سفرِ امریکا میں بھی  انھوں نے جو چار نکاتی بیان دیا ہے، اس میں بھی کہتے ہیں کہ  میں افغان جہاد کے وقت بھی یہی کہتا تھا جسے کسی نے نہیں مانا ، لیکن بعد میں سب کو ماننا پڑا۔([41]) تاہم غامدی صاحب کی اس بات کی تردید خود ان کا ایک انٹرویو کرتاہے۔ ڈاکٹر ممتاز احمد ([42])نے   1975 ء میں ان سے ایک انٹرویو لیا جس میں وہ کہتے ہیں:

”مجھے مولانا مودودی کی تعبیرِ دین سے اتفاق ہے لیکن یہ تعبیرِ دین میں نے مولانا مودودی سے نہیں سیکھی بلکہ قرآن وحدیث کے آزادانہ مطالعہ سے  براہ راست حاصل کی  ہے۔بعد میں مولانا مودودی کی تصنیفات پڑھیں تو معلوم ہوا کہ مولانا بھی دین تو اسی طرح سمجھے ہیں  جیسا کہ میں نے سمجھا ہے۔پھر جب ان میں بھی وہی بات دیکھی جو میں نے سمجھی تھی تو ان کے ساتھ شامل ہو گیا۔“([43])

اس فکری ارتقا کی ایک بڑی وجہ  شاید حالات کا جبر بھی ہے۔اسّی کی دھائی میں غامدی صاحب  کی فکرِ جہاد وخلافت کے وہ خد وخال جو تقریبا تمام ہی (سوائے اس نکتے کے کہ انفرادی جتھہ بندی کے بجائے جہاد کسی اسلامی حکومت کی سرپرستی میں ہو) ’دین کی سیاسی تعبیر‘ کی صداے بازگشت  ہی معلوم ہوتے ہیں، لیکن نوگیارہ کے جس روح فرسا واقعے نے عالمی منظرنامے اور مغرب کے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں تصور کو جوہری تبدیلیوں سے روشناس کر دیا، روایتی مذہبی ذہن  اور دینی تعبیر کے معاملے میں مغرب کا ایک واضح نقطۂ نظر سامنے آیا، عالم گیریت یا گلوبلائزیشن   کے تصورات کو زیادہ منقح شکل میں پیش کیا گیا، تہذیبوں کے تصادم کے سابقہ تصورات کی زیادہ مربوط شکل میں صورت گری کی گئی، تعددیت (Pluralism) کا چیلنج زیادہ قوت کے ساتھ  ہمارے درودیوار پر دستک دینے لگا تو مسلم فکر کا اس اجتماعی  عالمی صورت حال سے متاثر ہونا بھی ایک ناگزیر امر ہے۔عہدِ عباسی ہماری مسلم فکر کی تاریخ میںParadigm Shift کا شاید پہلا مرحلہ ہے جس میں مسلم فکر ہمیں نئے سانچوں میں ڈھلتی محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح مغرب کے سیاسی اور علمی استیلا کے باعث مسلم دنیا میں  انیسویں صدی کے نصف سے  مسلم مفکرین کو نئے سوالات اور نئی صورتِ حال کا سامنا ہواتو ان  کے  بعض تصورات (جیسے حدیث و سنت ) کے بارے میں جوہری تبدیلیاں آئیں، اسی طرح تصورِ جہاد میں موجودہ عہد میں تبدیلیاں  مسلم فکر کی جوہری تبدیلیوں  میں سے ایک ہے۔([44]) جناب غامدی صاحب کو بھی بدلتے ہوئے حالات کا سامنا تھاجن سے انھوں نے گہرا اثر قبول کیا جو کہ ان کی فکر میں نمایاں طور پر مرتسم نظر آتا ہے۔اس پہلو سے دیکھا جائے تو غامدی صاحب کی Socio Political  فکر نتائجیت پسندی (Pragmatism) کے منہج پر استوار ہے۔

ان گزارشات پر نظر ڈالی جائے تو غامدی صاحب کی فکر پر ایک جامع تبصرہ وہ الفاظ ہو سکتے ہیں جو محترم عمارخان ناصر صاحب نے اپنی کتاب جہاد ایک مطالعہ میں  مولانا مودودیؒ کی فکر میں ارتقا پر بحث کرتے ہوئے لکھے ہیں :”سابقہ صفحات میں اٹھائے گئے تنقیدی نکات کی روشنی میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ الجہاد فی الاسلام اور تفہیم القرآن میں اسلام کے تصور جہاد کے حوالے سے مولانا مودودی کی پیش  کردہ تعبیرات واضح اور منطقی لحاظ سے مربوط نہیں، بلکہ بڑی حد تک ان کی پریشان خیالی کی غمازی کرتی ہیں۔“([45])

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حواشی

[1] – اس کرب ناک تفصیل کے مطالعے کے لیے دیکھیے: اسرار احمد، تاریخِ جماعتِ اسلامی کا ایک گمشدہ باب، لاہور: انجمن خدام القرآن۔

[2] – امین احسن اصلاحی، دعوتِ دین اور اس کا طریقِ کار ، لاہور: فاران فاؤنڈیشن، 2005ء، ص 14۔

[3] – اسرار احمد، مطالعۂ قرآن حکیم کا منتخب نصاب (2)، حزب اللہ کے اوصاف اور امیر ومامورین کا باہمی تعلق، لاہور: مکتبہ خدام القرآن، 2006ء، ص 14۔

[4] – امین احسن اصلاحی، اسلامی ریاست، لاہور: دارالتذکیر، 2006ء۔

[5] – اختر حسین عزمی، مولانا امین احسن اصلاحی: حیات وافکار، لاہور: نشریات، 2008ء، ص 78۔

[6] – دیکھیے: اسراراحمد، دعوت رجوع الی القرآن کا منظر وپس منظر، لاہور: مکتبہ مرکزی انجمن خدام القرآن، 2001ء، ص 182۔

[7] – مولانا کے الفاظ ہیں:’’بہرحال ڈاکٹر اسرار کی سرکوبی اب ضروری ہے۔اگر اب ان کو ڈھیل دی گئی تو ان کی جسارت بہت بڑھتی جائے گی۔ابرار صاحب کو بھی میں خط لکھ رہا ہوں لیکن آپ ان کو مطلع کریں کہ میں ان کا نہایت ممنون ہوں  کہ انھوں نے اس موذی کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔‘‘(تدبر، شمارہ 61، جولائی 1998ء، 69۔)

[8] – جاوید احمد غامدی،’’ غلبۂ دین کی جدوجہد‘‘ مشمولہ اشراق، اکتوبر 1985ء، ص 7-8۔

[9] – یہاں اس بات کی وضاحت بھی غالبا مناسب ہے کہ مولانامودودیؒ کی دینی تعبیر کو ایک کل کی حیثیت سے سب سے پہلے مولانا وحید الدین خان نے موضوعِ بحث بنایا۔ عام طور پر مذہبی طبقے کی طرف سے ان پر تنقید “خلافت وملوکیت” کتاب سے پیدا ہونے والی تعبیرات اور مولانا کے ’متجددانہ‘ طرز اور بعض دیگر جزوی مسائل  پر ہے، لیکن ان کی فکر کو ایک پوری تعبیر کے انداز میں دیکھنے کا قدم سب سے پہلے مولانا وحید الدین خان نے اٹھایا اور جس انداز سے انھوں نے اپنا نقطۂ نظر”تعبیر کی غلطی” کتاب اور پھر اس کی تلخیص “دین کی سیاسی تعبیر” میں  پیش کیا ہے، اس سے اتفاق یا اختلاف سے قطعِ نظر، وہ ان کی اعلا ذہانت کا نمونہ ہے۔مولانا ابوالحسن علی ندویؒ نے “عصرِ حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح “میں بنیادی طور مولانا وحید الدین خان ہی کے موقف کا اعادہ کیا ہے اور اس کتاب کے عربی ترجمے کا تو نام ہی اس کی تلخیص سے مستفاد ہے، یعنی : “التفسير السياسي للإسلام  “یہ تعبیر اتنی معنیٰ خیز سمجھی گئی کہ اب میڈیا پر Political Islamکی  اصطلاح ایک منہجِ فکر کے ترجمان کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔مولانا وحید الدین خان نے  واضح کیا ہے   زندگی مختلف اجزا کا نام ہے؛ جب ان اجزا کو بیان کیا جائے گا تو اس کا ایک طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ مختلف اجزا کو مربوط شکل دینے کی کوشش کی جائے۔اس طریقِ مطالعہ کی ایک قسم یہ ہے کہ  مجموعہ کے کسی ایک جز  کو لے کر خصوصیت سے اس کی تشریح اس طرح کی جائے گویا یہی مرکزی جزو ہے۔وہ پورے مجموعہ کی وہ بامعنیٰ کڑی ہے جس کے سمجھنے سے ہم دوسرے اجزا کو سمجھ سکتے ہیں۔وہ اس سلسلے میں مارکسزم کی مثال دیتے ہیں کہ جس طرح اس میں معاش کے مسئلے کی روشنی میں پورے دین کو دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے، اسی طرح مولانا مودودی کی تعبیر میں سیاست اور اسلام کے غلبے کے تصور کی روشنی میں پورے دین کو دیکھنے کی  کوشش کی گئی ہے۔یہ فلسفہ بدل جانے کی وجہ سے مزاجوں کی تشکیل اور ذہنیت میں بھی فرق آیا۔

[10] – اشراق دسمبر 1986ء، ص  28۔

[11] – نفس مصدر، ص 29۔

[12] – اسرار احمد،راہِ  نجات سورۂ والعصر کی روشنی میں،  لاہور: مرکزی انجمن خدام القرآن، ص 76 مابعد۔

[13] – اسرار احمد، حزب اللہ کے اوصاف، ص 21، 22۔

[14] – دیکھیے: اسرار احمد، ’’ڈاکٹر اسرار احمدبنام مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم‘‘ مشمولہ ماہ نامہ  میثاق، مارچ 1998ء، ص 3- 7، 79، 80۔

[15] – اشراق، اکتوبر 1985ء،

[16] – 3: 104

[17] – جاوید احمد غامدی،’’ غلبۂ اسلام کی جدوجہد – مباحث‘‘ مشمولہ اشراق، اکتوبر 1985ء ،ص 7- 11۔

[18] – اشراق، جنوری 1988ء ص 55؛ غامدی صاحب کو البتہ اسی تحریر میں ’اقامتِ دین‘ بمعنی قیامِ نظام کے تصور سے اختلاف ہے کہ قرآن کے الفاظ أقیمواالدین سے اس معنی کا استنباط نیا ہے، لیکن ساری دنیا میں  نفسِ غلبۂ دین کو وہ صراحتا منصوص مانتے ہیں اور اس کا مستدل دوسری نصوص کو قرار دیتے ہیں۔

[19] – اشراق، اکتوبر 1988ء ص 31

[20] – التوبہ: 29؛ اشراق اکتوبر 1988ء، ص 34

[21] – نفسِ مصدر، ص35

[22] – اشراق، اگست 1986ء، ص6

[23] – مائدہ 5: 44، اشراق، اگست 1986ء ، ص 8

[24] – اشراق، دسمبر 1988ء، ص 4

[25] – اشراق، نومبر 1985ء، ص 16؛ اس سے یہاں ضمنا یہ بھی واضح ہے کہ موجودہ فکر میں وہ جس قوت کے ساتھ جمہوریت کو عین منشاے اسلام قرار دیتے ہیں، یہ فکر اس سے کس حد تک مختلف ہے۔

[26] اشراق، دسمبر 1986ء، ص 8

[27] – 9: 29

[28] – جاوید احمد غامدی،’’ غلبۂ اسلام کی جدوجہد – مباحث‘‘ مشمولہ اشراق، اکتوبر 1985ء ،ص 7- 11۔

[29] – اشراق، دسمبر 1988ء

[30] – نفس مصدر

[31] – ص 32، 34

[32] –  اشراق، ستمبر 1985، اسلام کا سیاسی نظام، ص 29- 30؛ بعینہ یہی بات اشراق نومبر 1993ء ص 8 پر کہی گئی ہے۔

[33] – ص 13

[34] – کوئی ایسا مزاج لاؤ کہ یا تو وہ زمانے کے ساتھ موافقت اختیار کر لے اور یا پھر ایسی ہمت ڈھونڈ لاؤ کہ سارے عالم کو سر کر جائے۔

[35] – اشراق – اکتوبر 1986ء

[36] – اشراق، جنوری 1991ء ، ص 40، 41۔

[37] – اشراق، جنوری 1991ء ، ص 41، 42۔

[38] – مسئلۂ تکفیر اور اس سے ملتے جلتے مسائل کے حوالے سے اس عہد میں جاوید صاحب کے شاگردوں کی فکر بھی روایتی طرز ہی کی ہے۔ چناں چہ آپ کے معروف شاگرد محترم خورشید احمد ندیم  اشراق کے شمارہ اپریل 90ء میں سپاہ صحابہ کے بانی مولانا حق نواز جھنگوی کی شہادت پر ایک مضمون کا عنوان یوں قائم کرتے ہیں: ’’قتلِ ناحق‘‘، یہ مضمون اس شمارے کے ص 11 سے 19 تک پھیلا ہوا ہے۔ اس مضمون کے بعض جملے پیش خدمت ہیں:

’’اہل تشیع کے بارے میں امت مسلمہ ہمیشہ غلط فہمیوں کا شکار رہی۔چند شخصیات کے استثنا کے ساتھ ،سب نے انھیں امت کا ایک حصہ تصور کیا اور اہل سنت کے ساتھ ان کے اختلاف کو محض فروعی شمار کیا۔حالانکہ ان کی امہات کتب اور تاریخ کا مطالعہ ،اس بات پر قطعی دلالت کرتا ہے کہ وہ اسلام کے متوازی ایک دین کا علمبردار اور سیاسی گروہ ہے۔۔۔‘‘ص 12

’’ان کا سب سے بڑا فرقہ اثنا عشری ہے۔پاکستان اور ایران کے اہل تشیع کی ایک بڑی تعداد اسی مسلک سے وابستہ ہے۔ان کے عقائد کے مطالعے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلام کے برخلاف کسی دوسرے دین کے پیرو ہیں۔ ان کے نزدیک موجودہ قرآن ’’مصحف عثمانی‘‘ ہے جو محرف شدہ ہے، اور اس کی تحریف کے ذمہ دار اصحاب نبی ﷢ ہیں جنھوں نے ذاتی اغراض کے لیے قرآن مجید کو تبدیل کر دیا۔ان کی مستند ترین کتب میں اس مضمون کی ان گنت روایات موجود ہیں۔‘‘ص 12

’’ہمارے ہاں بعض لوگوں کا گمان ہے کہ ایران کی نئی مذہبی قیادت چونکہ اسلامی انقلاب کی بات کرتی ہے،اس لیے وہ ان عقائد سے لاتعلق ہے،لیکن یہ ان کی خام خیالی ہے۔ایرانی انقلاب کے قائد روح اللہ خمینی صاحب انھی عقائد کے حامل تھے اور انھوں نے اس کا برملا اظہار بھی کیا۔‘‘ص 15

’’رسالت وامامت کے بارے میں درج بالا عقائد کی بنیاد پر تشکیل پانے والے دین کے بارے میں بالبداہت واضح ہے کہ اسے قرآن کی رو سے اسلام قرار نہیں دیا جاسکتا ۔۔۔امامت کا فلسفہ ختم نبوت کے انکار اور دین کو نامکمل سمجھنے کے مترادف ہے۔۔۔چنانچہ یہ طے شدہ بات ہے کہ شیعیت، تصوف کی طرح، اسلام کے متوازی دین ہے۔ ‘‘ص 16

 

[39] –    ملاحظہ کیجیے:

https://jang.com.pk/news/18369

یہ تحریر 22 جنوری 2015ء کو روزنامہ جنگ میں سامنے آئی۔

[40] – دیکھیے:

https://www.youtube.com/watch?v=-EVviBQb9qo

یہ ویڈیو ز اب اس لنک سے ہٹا دی گئی ہیں۔

[41] – راقم نے اپنے اس مضمون کے بنیادی تصور کو چند سال   پہلے سوشل میڈیا کے فورم  فیس بک پر شیئر کیا تھا جس  پر کافی گفت گو ہوئی تھی۔یہ عجیب حسنِ اتفاق اور توارد ہے کہ سہ ماہی” جی “کے شمارہ جولائی اکتوبر 2013ء (یہ مجلے کی اشاعت کی ترتیب کے اعتبار سے تاریخ ہے، ورنہ وجودا  مجلے کی یہ اشاعت 2015ء میں سامنے آئی ہے۔ )میں ڈاکٹر نادر عقیل انصاری کا ایک چشم کشا مضمون ”صدر ضیاء الحق، افغان جہاد اور غامدی صاحب کا بیانیہ“راقم کے اس تصور سے مکمل طور پر مطابقت رکھتا ہے۔ اس میں انھوں نے غامدی صاحب کے عہدِ ضیاء میں تصورِ جہاد پر مبسوط گفت گو کی ہے۔اشراق کے ایک طویل اقتباس کی کچھ سطور یہاں نقل کرنا بھی مناسب ہوگا:

”یہ قوم ان ]جنرل ضیاء الحق[کی ہر بات فراموش کر سکتی ہے، لیکن جہادِ افغانستان کے معاملے میں وہ جس طرح اپنے موقف پر جمے رہے اور جس پامردی اور استقامت کے ساتھ انہوں نے فرزندانِ لینن کے مقابلے میں حق کا علم بلند کیے رکھا، اسے اب زمانے کی گردشیں صبحِ نشور تک ہمارے حافظے سے محو نہ کر سکیں گی۔ “(اشراق، ستمبر 1988ء، بحوالہ سہ ماہی جی  شمارہ مذکور)

[42] –     ڈاکٹر ممتاز احمد بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے سابق صدر تھے۔ مختصر حالات کے لیے دیکھیے:

https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%88%D8%A7%DA%A9%D9%B9%D8%B1_%D9%85%D9%85%D8%AA%D8%A7%D8%B2_%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF

[43] –     ممتاز احمد، دینی مدارس روایت اور تجدید علماء کی نظر میں، اسلام آباد: ایمل پبلشرز، 2012ء، ص 73۔

[44] – یہاں اس دل چسپ حقیقت کو پیشِ نظر رکھنا غالبا غیر مناسب نہ ہوگا کہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ ، جو عہدِ حاضر میں “منہجِ انقلابِ نبوی” کے زبردست  داعی رہے ہیں، نے  اپنی کتاب منہجِ انقلابِ نبوی میں انقلابِ نبوی کو  مختلف مراحل میں تقسیم کیا ہے۔اس طویل بحث کے بعد کتاب میں ایک ضمیمے کا عنوان ہے: منہجِ انقلابِ نبوی کے حالاتِ حاضرہ پر انطباق کے ضمن میں اقدام اور مسلح کا متبادل قرآن وحدیث کی روشنی میں؛ یہاں ڈاکٹر صاحب نے  “تمدنی ارتقا سے پیدا شدہ اہم ” تبدیلیوں پر گفت گو کی ہے۔عہدِ نبوی کا تقابل موجودہ عہد سے کرتے ہوئے ایک تبدیلی یہ بتائی گئی ہے کہ  نبی کریم ﷺ کے مشرکانہ معاشرے کے مقابلے میں ہمارے معاشرے کے لوگ  اور حکم ران کم از کم قانونا مسلمان ضرور ہیں۔دوسرا فرق یہ ہے کہ اب عوام اور حکومت کی طاقت میں اتنا واضح فرق واقع ہو چکا ہے کہ  مسلح تصادم کا مرحلہ نظری اور عملی دونوں اعتبار سے تقریبا ناممکن ہو چکا ہے۔ریاست وحکومت کی سطح پر موجودہ حالات کا فرق یہ ہے کہ  یہاں آئینی اور دستوری حق استعمال کرتے ہوئے حالات کو بدلا جا سکتا ہے۔ڈاکٹر صاحب کا یہ اجتہادی موقف بتاتا ہے کہ حالات وزمانہ کے رعایت رکھتے ہوئے مسلح تصادم جیسے امور قابلِ نظر ثانی ہوسکتے ہیں ۔ (دیکھیے: ڈاکٹر اسراراحمد، منہجِ انقلابِ نبوی، لاہور: تنظیم اسلامی، 2008ء، ص335۔)

[45] – محمد عمارخان ناصر، جہاد ایک مطالعہ، لاہور: المورد، 2013ء، ص 392۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…