نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...
تقابل علوم و عقائد: غامدی صاحب کے موقف کا تنقیدی جائزہ
جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی
عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...
حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ
ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...
امام النواصب جاوید غامدی
احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...
سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل
محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...
کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟
شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...
عمران شاہد بھنڈر
بظاہر تو یہ بات بہت عجیب سی لگتی ہے کہ علوم و عقائد کے درمیان کوئی تقابل کیا جائے، اور پھر اس تقابل کے دوران چند غلط نتائج نکال کر اپنے عقائد کو فاتح قرار دے دیا جائے۔ مستزاد یہ کہ اس بات پر بھی زور دیا جائے کہ مذہب کا اصل موضوع ’موت‘ اور موت کے بعد ابدی زندگی کا حصول ہے۔ ہمیں معمولی غور و فکر کرنے سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ موت کے بعد زندگی سے متعلق جو بھی عقائد ہیں وہ ناقابلِ تصدیق ہیں۔ اور جو ناقابلِ تصدیق ہو اس کے صحیح اور غلط ہونے کا تصور بھی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص موت کے بعد زندگی کو مانتا ہے تو ہزاروں برس بھی گزر جائیں، موت کے بعد زندگی کے تصورات میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ اگرچہ بعض متکلمین نے موت کے بعد زندگی کو جسمانی کے برعکس روحانی زندگی سے عبارت گردانا ہے۔ یہ ان کی ذاتی ترجیح تو ہو سکتی ہے، مگر مذہب کا تقاضا نہیں ہے۔ نکتہ اس حوالے سے یہ عیاں کرنا مقصود ہے کہ عقائد جامد ہوتے ہیں، اور ان کا جمود ان کے درست ہونے کی دلیل نہیں ہوتا۔ عقائد کے صحیح یا غلط ہونے کا سوال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ دوسری سائنسوں سے ٹکراتے ہیں، ان معنوں میں کہ وہ دیگر سائنسوں کے ساتھ تضاد میں آجاتے ہیں۔اگر عقیدہ پرست اس بات پر مصر رہے کہ کائنات کو چھ یوم میں بنایا گیا تھا، اور حسبِ ضرورت ’یوم‘ کے تصور میں جمع تفریق کرتا رہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ صحیح کر رہا ہے۔ اس حوالے سے ہزاروں کتابیں موجود ہیں جب ’یوم‘ کا وہی مفہوم تسلیم کیا جاتا تھا، جب سائنس نے ”چھ یوم“ کے تصور کو مسمار نہیں کیا تھا۔ یہ امر بھی باعثِ حیرت نہیں ہے جب یہ تسلیم کیا جاتا تھا کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے، یہ صرف خدا جانتا ہے۔ جب سائنس نے اس راز سے بھی پردہ اٹھادیا تو لڑکی اور لڑکے کی جگہ ”شخصیت“ کو رکھ دیا گیا۔ یعنی جب سائنسی حقائق مذہب کے ”مسلمات“ سے ٹکرائیں، مذہبی مسلمات کی تعبیرات تبدیل کر دی جائیں، اور بعد ازاں یہ بھی دعویٰ کر دیا جائے کہ ہزاروں برس گزر گئے، مذہب آج بھی اپنی کُلی صداقت کے ساتھ موجود ہے۔ یہی خیالات امام جاوید احمد غامدی صاحب نے ایک سوال کے جواب میں پیش کیے ہیں۔ امام صاحب سے پوچھا گیا کہ ”ہم کیسے ثابت کر سکتے ہیں کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے؟“ امام صاحب فرماتے ہیں،
”آپ کبھی خالی الذہن ہو کر صرف ایک سوال اپنے سامنے رکھیں۔۔۔صرف ایک بات اپنے سامنے رکھیں۔ اس دنیا میں اس وقت دس نہیں، بیس نہیں کروڑوں کتابیں موجود ہیں۔اور ایک دو نہیں دنیا میں بے شمار اہلِ علم پیدا ہوئے، ہر فن کے ماہرین پیدا ہوئے ہیں۔ میں پوری ذمے داری سے یہ بات کر رہا ہوں۔ میں فلسفے کا، ادبیات کا، تاریخ کا طالبِ علم رہا ہوں۔ میں نے دنیا بھر کا ادب پڑھا ہے۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ کسی کتاب اور کسی شخص کی عمر سو سال سے بھی زیادہ نہیں ہوئی ہے۔ جانتے ہیں اس کا مطلب کیا ہے؟ یعنی چالیس پچاس سال بھی نہیں گزرتے اور یہ واضح ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ آدمی نے یہاں غلطی کی ہے۔ کتاب میں یہ معلومات ٹھیک نہیں ہیں۔ اس میں یہ دعویٰ ٹھیک نہیں کیا گیا۔ اس میں یہ بات صحیح نہیں بتائی گئی۔ یعنی پچاس سال بھی نہیں گزرتے۔ میں استخفاف کی بات نہیں کر رہا، آپ کسی کو پڑھ لیجیے۔ نیوٹن پر سو سال بھی نہیں گزرے تھے کہ اس کا بنایا ہوا قصر مسمار ہونا شروع ہو گیا۔ علامہ اقبال نے جو خطبات لکھے ہیں وہ بڑے لوگوں میں سے ہیں۔ یہ انیس سو اٹھائیس کے قریب خطبات دیے ہیں انہوں نے۔ میرے ساتھ آ کے مل کے پڑھ لیجیے، معلوم ہو جائے گا کہ کیا کیا چیزیں غلط ہو گئی ہیں۔“
سائنسی علوم (طبیعی اور سماجی) کا ایک عام طالبِ علم بھی امام صاحب کی اس تمہید کو پڑھنے کے بعد حیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وجہ یہ کہ وہ جانتا ہے کہ سائنسی علوم کو دیکھنے کا یہ زاویہ سرے سے غلط ہے۔ امام صاحب کے مذکورہ بالا الفاظ یہ واضح کر دیتے ہیں کہ وہ سائنسی علوم میں سے اپنے عقائد جیسی”حتمیت“ تلاش کر رہے ہیں، اور عقائد وہ جو ناقابلِ تصدیق ہیں۔ امام صاحب علوم و فنون میں حصہ ڈالنے والے ہرفلسفی، مفکر، سائنس دان اور فن کار کو ”آخری سچائی“ سمجھ کر پڑھ رہے ہیں۔ علوم کو اس طریقے سے پڑھنا علوم کا تقاضا ہے اور نہ ہی ایک ترقی پسند ذہن کی علامت ہے۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ وہ کون لوگ تھے، جنہوں نے علوم کی بنیاد رکھی اور کیا وہ علوم آج بھی قائم و دائم ہیں یا انسانی و سماجی ارتقا میں اپنا مثبت کردار ادا کر کے رخصت ہو چکے ہیں؟ کیا آج بھی ایسے خیالات موجود ہیں جو درست ہیں اور ان کی تصدیق جدید سائنس کرتی ہے؟ انسان نے آج تک جتنے بھی علوم دریافت کیے ہیں، وہ سبھی فلسفے کی بدولت ہیں۔ اسی لیے فلسفے کو تمام علوم کی ماں کہا جاتا ہے۔ ان میں منطق، طبیعات، نباتات، ریاضی، موسیقی، طب، تاریخ، ہیئت، حیاتیات، تاریخ اور دیگر بہت سے علوم شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ علوم ختم ہو چکے ہیں؟ جواب نفی میں ہے۔ کیا ان علوم میں ارتقا جاری ہے؟ اس کا جواب اثبات میں ہے۔ کیا جس علم میں ارتقا نہ ہو وہ جاری رہ سکتا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ لہذا ثابت یہ ہے کہ علوم کو اگر بدلتے تقاضے سے ہم آہنگ ہونا ہے تو ان میں لازمی طور پر ارتقا ہونا چاہیے۔ جب ہم یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ علوم کا ارتقا ان کے زندہ رہنے کی اولین شرط ہے تو ہمیں یہ بھی تسلیم کرلینا چاہیے کہ جن کتابوں میں موجود خیالات کا ارتقا نہیں ہوتا وہ سماجی حقائق سے تضاد میں آکر ختم ہو جاتے ہیں، اور اگر ان کی حقانیت پر اصرار کیا جائے تو وہ سماجی سطح پر جہالت پھیلانے کا آلہ بن جاتے ہیں۔ لہذا علوم میں ارتقا ان کے زندہ رہنے اور انسانی سماج کو آگے لے جانے کی لازمی شرط ہے۔تبدیلی کا مطلب ہی یہ ہے کہ ایک ایسی حالت جو پہلے نہیں تھی، لیکن اب ہو گئی۔ جو تھا، وہ نہ رہا، جو نہیں تھا، وہ ہو گیا۔ چونکہ تبدیلی یونیورسل ہوتی ہے، اور مذکورہ بالا تمام انسانی علوم بھی یونیورسل ہیں، اس لیے ان میں تبدیلی آفاقی سطح پر قابلِ قبول ہوتی ہے۔ علوم کے معاملہ میں تبدیلی کا واقع ہونا خوبی ہے، خامی نہیں۔ یہ زندہ فکر اورمتحرک سماج کی علامت ہے۔ یہ تبدیلی صرف ہمارے اذہان میں نہیں، بلکہ حقیقی سطح پر بھی واقع ہوتی ہے۔
امام صاحب کا کہنا ہے کہ کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جو ایک سو سال سے زیادہ چل سکی ہو۔ میں یہاں ان کی تصحیح کر دوں کہ منطق کے طالبِ علم بخوبی جانتے ہیں کہ ارسطو کی کتاب ”دی آرگینن“ نے دو ہزار برس تک انسانی ذہن پر حکومت کی ہے۔ عمانوئیل کانٹ لکھتا ہے کہ ارسطو نے جو اصول پیش کیے، ان میں ایک ذرے برابر بھی کوئی ترمیم یا اضافہ نہیں کیا گیا۔ میرا کہنا یہ ہے کہ امام صاحب نے علوم کو دیکھنے کا جو زاویہ فراہم کیا ہے وہ سرے سے ہی غلط ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ استخراجی منطق جس کی بنیاد ارسطو نے رکھی تھی، کیا وہ استخراجی منطق ختم ہو چکی اور اس کی جگہ کوئی اور منطق لے چکی ہے؟ اس کا جواب یہی ہو گا کہ استخراجی منطق وہی ہے، جس کے اصول و قواعد ارسطو نے وضع کیے تھے۔ وہی استخراجی منطق ہے جس میں دیگر منطقین نے مزید گہرائی پیدا کی، اسے ریاضیات کے ساتھ جوڑ کر ریاضیاتی منطق میں تبدیل کر دیا، لیکن اس کا منہج استخراجی ہی رہا۔ بالکل اسی طرح منطق کے طالبِ علم یہ بات بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ارسطو نے منطق استقرائی پر بھی طویل بحث کی تھی۔ اس حوالے سے ارسطو ہی منطق استقرائی کا بانی ہے۔ لہذا آج پچیس سو برس بعد بھی استخراجی اور استقرائی منطق پوری شان کے ساتھ موجود ہیں۔ بالکل اسی طرح ارسطو وہ پہلا فلسفی ہے جس نے ”طبیعات“ پر ایک مربوط اور منظم کتاب لکھی اور طبیعات کی بطور علم بنیادیں استوار کیں۔ طبیعات بطور علم آج بھی موجود ہے، اور یہی ارسطو کا عظیم کارنامہ تھا کہ اس نے جس علم کی بنیاد رکھی اسی کی وجہ سے انسان آج کائنات کے بارے میں بے شمار حقائق سے آگاہ ہو چکا ہے۔ علوم سے متعلق مفکرین، فلسفیوں اور سائنس دانوں کو حتمی سمجھ کر نہیں دیکھا جاتا، بلکہ علوم کے ارتقا میں ان کا مثبت حصہ (کانٹریبیوشن ) دیکھا جاتا ہے۔ ان کا یہی کردار ان کی قدر و منزلت کو متعین کرتا ہے۔ علوم انفرادی نہیں یونیورسل ہوتے ہیں۔ علوم میں فرد نہیں، اس کے خیالات اہم ہوتے ہیں۔ علوم میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ایک کتاب باتمام و کمال صحیح ہے، بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ کون سے مقامات ہیں، جن پر مزید کام کی ضرورت ہے، تاکہ انہیں ترقی دی جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اگر کسی ایک مذہب کو ماننے والے ڈیڑھ ارب لوگ ہیں تو منطق کو آفاقی گرداننے والے سبھی مذاہب میں موجود ہیں۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی ملحد ہے یا مذہبی، سچائی کو جاننے کی جستجو میں سبھی یکساں طور پر منطق کے حضور پیش ہوتے ہیں۔
فلسفی کا کام انسانی فکر کے ان گوشوں تک رسائی حاصل کرنا ہوتا ہے جن تک اس سے پہلے کسی فلسفی کی رسائی نہ ہوئی ہو۔ مذہبی فکر کے برعکس فلسفی ایک ہی بات کی صدیوں تک جگالی نہیں کرتے، بلکہ وہ اس میں تبدیلی لاتے ہیں، اسے ارتقا کے مراحل طے کرواتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی بات حتمی نہیں ہے، اور اگر کوئی چیز حتمی ہے تو وہ صرف ”تبدیلی“ ہے۔ فلسفی ان تضادات، گیپس اور شگافوں کو دریافت کرتا ہے، ان کی تحلیل کرتا ہے، انہیں پُر کرتا ہے۔ اور جو تضادات اس کے اپنے فلسفے میں موجود ہوتے ہیں، ان کی کوئی دوسرا فلسفی تحلیل کرتا ہے۔ فلسفے میں یہی ابطال کا مفہوم ہے۔ انسان کی فکری تاریخ میں کسی بھی فلسفی نے یہ دعوی نہیں کیا کہ وہ ”عقلِ کُل“ ہے اور وہ آخری بات کر چکا ہے، اور اب بعد میں آنے والوں کا کام بس یہ رہ گیا ہے کہ اسے ”مقدس“ سمجھ کر تسلیم کریں۔ امام صاحب علوم کو ایک مذہبی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، اور ان علوم سے وہی تقاضا کر رہے ہیں جو وہ قرآن سے کرتے ہیں۔ یعنی وہ علوم اور ان میں برپا ہونے والے ارتقا کو ان علوم کا جوہر نہیں سمجھتے، بلکہ یہ تقاضا کرتے ہیں کہ فلسفیوں، سائنس دانوں اور مفکرین کو بھی ”آخری“ سچائی بیان کرنی چاہیے تھی۔ یہ سوچ علوم کی پوری تاریخ کی عدم تفہیم سے جنم لیتی ہے۔ امام صاحب علمی کتابوں کو مذہبی بنیاد پر پرکھنے کے بعد کہتے ہیں،
”جب آپ قرانِ مجید کو پڑھیں۔۔۔ تو اس کتاب کی کسی ایک چیز کو مار کر دکھائیے۔اس کا حرف حرف آپ کو بتا دے گا کہ یہ زندہ جاوید کتاب ہے۔“ مزید کہتے ہیں کہ ”دنیا میں علمی انقلاب برپا ہو گئے۔ پرانا علم مر گیا، لیکن یہ کتاب کھڑی ہے۔اور یہ کتاب حرف حرف کے ساتھ کھڑی ہے۔“
سب سے پہلے تو یہ بنیادی بات واضح ہونی چاہیے کہ کوئی بھی عقیدہ ہو وہ ’جامد‘ ہوتا ہے، اور اس کے جمود پر صرف ایمان رکھنا مقصود ہوتا ہے۔ جمود کو توڑنا عقیدے کا تقاضا نہیں ہوتا۔ اس میں کہی گئی ہر بات خواہ کسی بھی نوعیت کی ہو اس پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے۔ لہذا عقیدہ اپنی سرشت میں متحرک نہیں بلکہ جامد ہوتا ہے، اور اس کا جمود دلیل نہیں، بلکہ اس جمود کو صحیح ثابت کرنے کے لیے دلیل دینی پڑتی ہے۔ امام صاحب نے ’جمود‘ کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے، جو کہ درست نہیں ہے۔ہم مسلمان مفسرین کی بیسیوں کتابوں میں یہ پڑھ چکے ہیں کہ قرآن کے مطابق زمین ”چپٹی“ ہے،لیکن جب سے سائنس نے یہ تصدیق کر دی کہ زمین چپٹی نہیں ’کروی‘ ہے تو اس کے بعد تعبیرات تبدیل کر دی گئیں۔ حالانکہ یونانی فلسفی ڈھائی ہزار برس قبل یہ بتا چکے تھے کہ زمین ’کروی‘ ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ خدا نے انسان کو گیلی مٹی (گارے) سے پیدا کیا اور ابتدا میں وہ ایک حیوانی وجود تھا۔ یہ بات ہمیں انیکسی مینڈر نے چھبیس سو برس قبل بتا دی تھی کہ انسان گیلی مٹی سے ایک حیوانی وجود بنا اور بعد ازاں اس کا ارتقا انسانی شکل میں ہوا۔سٹیفن ہاکنگ نے اپنی آخری تصنیف ”بڑے سوالات کے مختصر جوابات“ میں تین سو برس قبل از مسیح یونان میں پیدا ہونے والے فلسفی ارسٹارکس کا ذکر بہت احترام سے کیا ہے۔ ارسٹارکس ایک ایسا فلسفی تھا جس نے کہا کہ گرہن بالخصوص چاند گرہن کا سبب دیوتا نہیں ہیں۔ ہاکنگ لکھتا ہے کہ اس نے چاند گرہن کی جو وجوہات بیان کی تھیں، آج بھی انہیں صحیح تسلیم کیا جاتا ہے۔ ارسٹارکس نے یہ نتیجہ بھی نکالا تھا کہ زمین کائنات کا مرکز نہیں ہے۔اس نے خاکوں کی مدد سے سورج، چاند اور زمین کے درمیان ”حقیقی تعلق“ معلوم کیا۔ ہاکنگ مزید کہتا ہے کہ یہ ارسٹارکس ہی تھا جس نے معلوم کیا کہ ستارے آسمان پر ”شُقُوق کی طرح نہیں ہیں، بلکہ ہمارے سورج ہی کی طرح ہیں۔ ایسے سینکڑوں خیالات ہیں جو قدیم فلسفیوں، سائنس دانوں اور مفکروں نے اپنے محدود وسائل کے باوجود پیش کیے، اور جدید سائنس نے ان پر صداقت کی مُہر ثبت کر دی۔امام صاحب علوم کا داخلی میکانزم سمجھنے سے قاصر ہیں۔ علوم کے ارتقا کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ جو ضروری ہے اسے عقلی بنیادوں پر غیر ضروری سے الگ کر لیا جائے،
امام غامدی صاحب کے نزدیک قرآن میں جو کہا گیا وہ صحیح ہے، اور دنیاوی علوم پر مبنی کتابوں کے مشمولات سو سال میں ہی غلط ثابت ہو جاتے ہیں۔ عرب ممالک میں قرآن میں پیش کیے گئے غلاموں اور لونڈیوں کے بارے میں خیالات پر مبنی قوانین چودہ سو برس تک موجود رہے تا وقتیکہ گزشتہ صدی ستر کی دہائی میں اقوامِ متحدہ کے قوانین کی پیروی میں انہیں غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ خواتین کی گواہی کے بارے میں قرآن میں پیش کیے گئے احکامات چودہ سو برس سے عرب ممالک میں رائج ہیں۔ امید ہے کہ اگلی چند دہائیوں میں انہیں کالعدم قرار دے دیا جائے گا۔ قرآن کہتا ہے کہ یہود و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے، اور مشرکین پلید ہیں انہیں اپنی مساجد میں مت آنے دو۔ لوگوں کی گردنیں مارنے، ان کے مال لوٹنے، ان کی خواتین کو لونڈیاں بنانے کے احکامات بھی موجود ہیں۔ یہاں تک کہ”سورہ احزاب“ میں خدا خود کہتا ہے کہ اور وہ لونڈیاں جو میں نے تمہیں دیں۔ اس قسم کے احکامات پر مشتمل بیسیوں آیات ہیں جنہیں ”سیاق“ تک محدود کر کے عہدِ حاضر میں غیر متعلق قرار دے دیا گیا ہے۔ لیکن امام صاحب مصر ہیں کہ مقدس کتاب کا ”حرف حرف قائم ہے۔“ خود امام صاحب اپنی کتابوں میں قرآنی احکامات کو ان کی ”کُلیّت“ میں قبول نہیں کرتے، صرف اس بنا پر کہ اب حالات وہ نہیں رہے۔ امام صاحب کا اپنا دعویٰ ہے کہ حالات تبدیل ہو جائیں تو احکامات میں تبدیلی آتی ہے۔ قرآنی آیات سے متعلق ’نسخ‘ کا مسئلہ اس کی تصدیق کرتا ہے۔ کیا امام صاحب بتا سکتے ہیں کہ وہ کون سے احکامات ہیں جو آج بھی اپنی ’کُلیّت‘ میں قابلِ عمل ہیں اور کیا اب حالات بدلنے بند ہو گئے ہیں؟ اور اگر آج بھی حالات بدل رہے ہیں اور ان بدلے ہوئے حالات میں خدا مزید وحی نہیں بھیجتا، تو یہ فریضہ عقل کو ہی ادا کرنا ہے کہ وہ بدلے ہوئے حالات کے مطابق فیصلے کرے۔ اور جہاں تک عقل کی فعلیت کا تعلق ہو تو تغیر اس کی فعلیت کی لازمی صفت ہے۔ یہ بات علوم کی تاریخ سے واضح ہے۔ اب یہ تو ممکن نہیں ہے کہ عقل فیصلہ کرے لیکن وہ فیصلہ غیر عقلی ہو۔ وہی فیصلہ عقلی ہوتا ہے جو حالات کی مناسبت سے عقل کے اپنے داخلی لوازمات کو بھی پورا کرے۔ عقل سے یہ تقاضا نہیں کیا جا سکتا کہ ہمیں بس اتنی سی عقل چاہیے، اس سے زیادہ نہیں۔ عقل یا تو عقلی ہوتی ہے اور یا غیر عقلی۔ انسان کے لیے فطرت (کائنات، وجود) غیر عقلی ہو سکتی ہے، لیکن سماج کی تخلیق انسان کی اپنی فعلیت ہے۔ اس سماج کو عقلی بنیادوں پر سمجھنا ممکن ہے، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب عقل مکمل طور پر فعال ہو۔ اس کو ”ماورائی“ حدود کا پابند نہ کیا جائے۔
فلسفیانہ علوم میں جس طرح منطق ایک علم ہے اور ہر ماہرِ منطق اس کے ارتقا میں اپنا حصہ ڈالتا ہے، اس میں وسعت اور گہرائی لاتا ہے تاکہ چیزوں کو سمجھنے کا معیار مزید بہتر ہو سکے۔ اسی طرح مذہبی کتاب کی بھی سینکڑوں تعبیرات موجود ہوتی ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اصل چیز متن نہیں بلکہ متن کی تعبیر ہے۔ اگر ایک مذہبی متن کی سینکڑوں تعبیرات ہیں تو ان میں سے صحیح تعبیر تو وہی ہو سکتی ہے جو خدا کو مقصود تھی۔ باقی سبھی تعبیرات غیر متعلق یا باطل ہو سکتی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو قرآن کی تفاسیر قرآن سے الگ نہیں ہیں، کیونکہ وہ قرآن کی ہی تفاسیر ہیں۔ اس کے باوجود وہ ایک دوسرے سے الگ مفاہیم بھی رکھتی ہیں۔ وہ تفاسیر اتنا آگے نہیں جاتیں جتنا پیچھے کی جانب چلتی ہیں۔ اس کے برعکس علوم کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ ماضی پر نہیں بلکہ مستقبل پر نظر جمائے ہوتے ہیں۔ علوم میں نیا زاویہ علوم میں ارتقا کا باعث بنتا ہے۔ مذہب میں نیا زاویہ مذہب کی بنیادوں کو کمزور کر دیتا ہے۔ چونکہ مذہب سے تقدس وابستہ ہے، اس لیے وہ انسانوں کے لیے خطرناک صورتحال اختیار کر لیتا ہے۔ مذہبی کتاب کی بے شمار تفاسیر یہ ظاہر کرتی ہیں کہ جو کچھ اس کتاب کے ”حرف حرف“ میں پیش کیا گیا ہے، اس پر اتفاق نہیں ہے۔ لاشعوری طور پر مفسرین وہی کام کرتے ہیں جو طبیعات میں سائنسدان اور منطق میں منطقین کرتے ہیں۔ فرق محض یہ ہے کہ علوم میں ایک کام قابلِ تکریم ہے، جب کہ مذہب میں یہ فساد کا باعث بنتا ہے۔ فرقوں کو جنم دیتا ہے، اور فرقے ایک دوسرے کے خلاف ’کفر‘ کے فتوے جاری کرتے ہیں۔ امام غامدی صاحب بھی اسی فتوے کی بھینٹ چڑھے اور انہیں مُلک چھوڑنا پڑا۔ کیا امام صاحب کو اس لیے مُلک چھوڑنا پڑا کیونکہ ان کی تعبیرات قرآن کے مطابق تھیں؟ اگروہ قرآن کے مطابق تھیں تو مخالف جماعت کی تعبیرات قرآن سے متصادم ہوں گی۔ دونوں بیک وقت تو درست نہیں ہو سکتیں۔ اب یہاں پر ”حرف حرف“ کے درست ہونے کے کیا مفاہیم ہیں؟ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جس طرح سماجی اور طبیعاتی سائنسوں میں ہر وہ شے محفوظ کر لی جاتی ہے جو علمی اعتبار سے قابلِ قدر ہو، اور باقی کو رد کر دیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح مذہبی متون کا تنقیدی جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔ خارجی حقائق تبدیلی کے عمل میں رہتے ہیں۔ ان کو کسی متن تک لانا ممکن نہیں ہے۔ متن میں مضمر ارتقائی عوامل کی شناخت کر کے انہیں سماجی حقائق سے ہم آہنگ کرنا چاہیے۔ اگر یہ رویہ اپنا لیا جائے جو کہ ترقی کی شرط ہے تو پھر ”حرف حرف“ سچائی کا مقدمہ بہت کمزور ہو جاتا ہے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی
نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش،...
اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی
محمد خزیمہ الظاہری غامدی حلقہ انکار حدیث کی صاف تہمت سے اس لئے بچ نکلتا...
انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض
محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط...