تبیین و تخصیص اور غامدی صاحب کا موقف : دلیلِ مسئلہء رجم کا جائزہ: پہلی قسط

Published On November 30, 2023
پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)

حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...

ڈاکٹر زاہد مغل

محترم جناب غامدی صاحب “رجم  کی سزا” پر لکھے گئے اپنے  مضمون میں کہتے ہیں کہ

قرآن مجید اور کلام عرب کے اِن شواہد سے صاف واضح ہوتا ہے کہ ’تبیین‘ کا لفظ کسی معاملے کی حقیقت کو کھول دینے ، کسی کلام کے مدعا کو واضح کر دینے اور کسی چیز کے خفا کو دور کر کے اُسے منصۂ شہود پر لانے کے معنی میں بولا جاتا ہے  (برھان)

اسکی فنی تعریف اور پیمانہ وہ یوں مقرر کرتے ہیں

تبیین کسی کلام کے متکلم کے اُس مدعا کا اظہار ہے جسے دوسروں تک پہنچانے کے لیے وہ اِس کلام کو ابتداءً وجود میں لایا تھا۔ یہی مفہوم ہے جس کے لیے ہم اپنی زبان میں لفظ ’شرح‘ بولتے ہیں ۔ شرح بس شرح ہے ۔ ہر شخص جانتا ہے کہ اِس لفظ کا اطلاق کسی ایسی ہی بات پر کیا جا سکتا ہے جس کے بارے میں آپ یہ ثابت کر سکیں کہ وہ فی الواقع اُس کلام کے متکلم کا منشا ہے جس کی طرف آپ وہ بات منسوب کر رہے ہیں ۔  آپ کسی کلام سے متعلق کچھ فرماتے ہیں او رپھر دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ کا یہ ارشاد اُس کلام کی شرح ہے تو اِسے محض آپ کے اِس ارشاد کی بنا پر تسلیم نہیں کر لیا جائے گا ۔ ہر عاقل آپ سے مطالبہ کرے گا کہ اپنے اِس قول کی دلیل بیان فرمائیے ۔ وہ آپ سے پوچھے گا کہ جو کچھ آپ متکلم کی طرف منسوب کر رہے ہیں ، کیا اُس کے الفاظ اپنے لغوی مفہوم کے اعتبار سے اِس پر دلالت کرتے ہیں ؟ کیا اُس کے جملوں کی ترکیب کا نحوی تقاضا یہی ہے جو آپ بیان فرما رہے ہیں ؟ کیا جملوں کے سیاق و سباق کی دلالت سے آپ نے یہ معنی اخذ کیے ہیں ؟ کیا یہ متکلم کی عادت مستمرہ ہے کہ وہ اِس طرح کے الفاظ جہاں استعمال کرتا ہے ، اِس سے وہی کچھ مراد لیتا ہے جو آپ نے فرمایا ہے ؟ کیا عقل عام کا ناگزیر اقتضا ہے کہ آپ کے اِس ارشاد ہی کو متکلم کا منشا قرار دیا جائے ؟ آپ کسی کلام سے متعلق کسی بات کو ’شرح‘ یا ’تبیین‘ قرار دینا چاہتے ہیں تو اپنے قول کو ثابت کرنے کے لیے ان دلائل میں سے کوئی دلیل آپ کو لازماً پیش کرنی ہو گی ۔ ” (برھان)

یہاں انہوں نے تبیین کو شرح قرار دیا ہے اور کسی بات کے شرح ہونے کے لئے یہ پیمانے مقرر کئے ہیں

 الف ۔لغوی مفہوم کا پھیلاؤ

ب۔ جملے کی نحوی ترکیب کا تقاضا

ج۔ سیاق و سباق

د۔ متکلم کی عادت

ھ۔ عقل عام

تغییر، تبدیل و نسخ کے بیان نہ ہونے سے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ

کسی کلام کے وجود میں آنے کے بعد جو تغیر بھی اُس کلام کی طرف منسوب کیا جائے گا، آپ اُسے ’نسخ‘ کہیے یا ’تغیر و تبدل‘ ، اُسے ’تبیین‘ یا ’بیان‘ یا ’شرح‘ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ (برھان)

اپنے اس دعوے کو تقویت دینے کے لئے آپ امام بزدوی (م 482 ھ ) کی ایک عبارت بھی  پیش کرتے ہیں

علماے اصول میں سے جن لوگوں کی نگاہ لفظ کی اِس حقیقت پر رہی ہے ، اُنھوں نے ’تبیین‘ کی تعریف میں یہ بات پوری طرح واضح کر دی ہے ۔ امام بزدوی علم اصول پر اپنی کتاب میں فرماتے ہیں : حد البیان ما یظھر بہٖ ابتداء وجودہ فاما التغییر بعد الوجود فنسخ ولیس ببیان. (کنزالوصول ، البزدوی ۲۱۲) ’’بیان کا اطلاق اُس شے پر کیا جاتا ہے جس کے ذریعے سے اُس شے کا ابتدا ہی سے کلام میں موجود ہونا ظاہر ہو جاتا ہے ۔ رہا وہ تغیر جو کلام کے وجود میں آنے کے بعد کیا جائے تو وہ نسخ ہے ۔ اُسے بیان قرار نہیں دیا جا سکتا ۔  (برھان)

اس استدلال سے مکتب فراہی کے اس موقف کو تقویت فراہم کرنا مقصود ہے جو درجن بھر سے زائد احادیث میں مذکور شادی شدہ مرد و عورت کے لئے رجم کی سزا ماننے سے انکار کرتے ہیں اور اس کے لئے ان کی دلیل دو مقدمات پر مبنی ہے

پہلا مقدمہ: تبیین کا مطلب شرح ہے اور نسخ، تبدیل و تخصیص شرح نہیں

دوسرا مقدمہ:  قرآن مجید کی رو سے رسول کا منصب تبیین ہے، لہذا حدیث کی بنیاد پر قرآن کے حکم کا ایسا بیان قابل قبول نہیں جو تخصیص، نسخ یا تبدیل وغیرہ کا مفہوم لئے ہو

نتیجہ: مسئلہ رجم میں حدیث کے ذریعے نسخ و تخصیص کی صورت ہے، لہذا یہ حکم اصولی طور پر درست نہیں

اس تحریر میں ہم ان کے پہلے مقدمے پر بحث کریں گے۔

امام بزدوی کی عبارت سے استدلال

سب سے پہلے مختصراً گزارش ہے کہ امام بزدوی کی عبارت سے استدلال کرنا بالکل بے محل ہے اس لئے کہ امام بزدوی کے نزدیک  بیان کی درج ذیل اقسام ہیں

الف ۔ بیان تقریر (اس کامطلب ایسی وضاحت  ہے جو لفظ کو لاحق مجازی   معنی اور عام کو لاحق خصوص  کے امکان کو ختم کردے )

ب۔ بیان تفسیر (یہ مجمل و مشترک کا بیان ہے )

ج۔ بیان تغییر (یہ شرط اور استثنا  کا بیان ہے)

د۔ بیان الضرورۃ (یہ پھر چار اقسام کا ہے )

ھ ۔ بیان تبدیل، یہ نسخ ہے۔ امام بزدوی اس کے بارے میں لکھتے ہیں

وَهُوَ فِي حَقِّ صَاحِبِ الشَّرْعِ بَيَانٌ مَحْضٌ لِمُدَّةِ الْحُكْمِ الْمُطْلَقِ الَّذِي كَانَ مَعْلُومًا عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَى إلَّا أَنَّهُ أَطْلَقَهُ فَصَارَ ظَاهِرُهُ الْبَقَاءَ فِي حَقِّ الْبَشَرِ فَكَانَ تَبْدِيلًا فِي حَقِّنَا بَيَانًا مَحْضًا فِي حَقِّ صَاحِبِ الشَّرْعِ

ترجمہ: نسخ شارع کے زاویے سے اس مطلق حکم کی مدت کا نرا بیان ہی ہے جس (کی معینہ مدت) ہمیشہ سے اللہ تعالی کے علم میں تھی، تاہم شارع نے اس کا تذکرہ (پہلی مرتبہ) مطلق اور مدت کی قید کے بغیر کیا، پس انسانوں کے زاویے سے وہ (پہلا حکم بظاہر) باقی رہنے والا حکم ٹھہرا۔ اس طرح  نسخ ہمارے نقطہ نگاہ سے حکم میں تبدیلی جبکہ شارع کے پیش نظر وہ نرا بیان ہوا (اصول البزدوی)

معلوم ہوا کہ امام بزدوی کے نزدیک نسخ بھی بیان ہی کی ایک صورت ہے اس لئے کہ نسخ ابتدائے کلام  سے حکم میں موجود اس احتمال کی وضاحت ہے کہ حکم ہمیشہ کے لئے نہیں بلکہ خاص مدت کے لئے تھا، اگرچہ بندے کے حق میں وہ تبدیلی  کی صورت لئے ہوتا ہے لیکن صاحب شریعت کے لئے وہ بیان ہی ہے۔  اسکی آسان مثال یہ ہے کہ  طبیب ایک خاص وقت تک مریض کو ایک دو ا کھلاتا ہے اور پھر پہلی بند کرکے دوسری  کھلاتا ہے، مریض کے حق میں یہ تبدیلی ہے مگر طبیب کی جانب سے بیان کہ پہلی دوا فلاں وقت تک کے لئے تھی۔ لہذا غامدی صاحب کا کم از کم امام بزدوی کی  عبارت سے استدلال کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کرنا گویا وہ ایسی بات کررہے ہیں جو اصولیین کے ہاں معروف ہے ایک غیر متعلق استدلال ہے۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں ورنہ ہم دکھاتے کہ غامدی صاحب نے امام بزدوی کی عبارت کو ان کی بحث کے سیاق و سباق سے ہٹا کر اپنے معنی میں استعمال کیا ہے۔

قرآن مجید اور تبیین

پہلے مقدمے کا تجزیہ کرنے کے لئے اب ہم قرآن مجید سے چند ایسی مثالیں پیش کرتے ہیں جہاں تخصیص، نسخ و اضافے  کو تبیین کہا گیا ہے۔

پہلی مثال: گائے کا واقعہ

سورہ بقرۃ میں اس واقعے کا ذکر ہے کہ جب بنی اسرائیل  والوں کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تو انہوں نے حیلوں بہانوں سے اسے ٹالنے کی خاطر یہ کہنا شروع کردیا کہ ہم پر یہ واضح نہیں ہورہا کہ کس قسم کی گائے ذبح کرنا ہے، لہذا اس گائے کی حقیقت کو “بیان ” کیا جائے (يُبَيِّن لَّنَا مَا هِيَ) وغیرہ۔ اگر بنی اسرائیل والے ابتدائی حکم پر عمل کرتے ہوئے کوئی بھی گائے ذبح کرلیتے تو حکم ادا ہوجاتا لیکن پھر شارع کی جانب سے گائے کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے گائے کے بعض افراد کو حکم سے نکال دیا گیا۔ چنانچہ آیت  68 میں ارشاد ہوا (آیات کے تراجم مولانا اصلاحی صاحب کے بیان کردہ ہیں):

إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَٰلِكَ

ترجمہ:  وہ گائے نہ بوڑھی ہو، نہ بچھیا، بیچ کی راس ہو

مزید تحدید کرتے ہوئے کہا گیا:

إِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَاءُ فَاقِعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِينَ

ترجمہ: وہ سنہری ہو، شوخ رنگ، دیکھنے والوں کے لیے دل پسند

پھر مزید تخصیص کرتے ہوئے ارشاد ہوا

إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِي الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَّا شِيَةَ فِيهَا ۚ

ترجمہ: وہ گائے کمیری، زمین کو جوتنے والی اور کھیتوں کو سیراب کرنے والی نہ ہو، بالکل یک رنگ ہو، اس میں کسی اور رنگ کی آمیزش نہ ہو

قرآن مجید  میں لفظ گائے کے مفہوم کی اس طرح تقیید کرنے کے عمل کو بار بار “تبیین ” قرار دیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ یہ تمام گفتگو ایک ہی مجلس میں نہیں ہوئی تھی بلکہ پہلے اللہ نے اپنے پیغمبر کے ذریعے ایک حکم دیا، پھر قوم نے نبی سے تکرار کی تو دوسرا حکم آیا، پھر تکرار کی تو مزید وضاحت آئی۔ پس “گائے ذبح کرو” کا حکم اپنے الفاظ  کے معنی، نحوی ترکیب، سیاق کلام ، متکلم کی  عادت اور عقل عام کے تقاضوں کی رو سے اپنے مدعا  پر بالکل واضح تھا لیکن پھر شارع نے “تبیین ” کے تقاضے کے طور پر گائے کے مفہوم میں تحدید کردی ۔ لہذا یہ کہنا کہ تبیین کا مطلب ایسی شرح ہے جس میں تخصیص نسخ وغیرہ  شامل نہیں، یہ دعوی کلام الہی میں اس لفظ کے استعمال کے خلاف ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ رجم کی سزا والے مضمون میں تبیین کے  معنی بیان کرتے ہوئے محترم غامدی صاحب نے  اس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن وہ درج بالا پہلو سے سہو نظر کرتے ہوئے قاری کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں گویا تبیین کا لفظ یہاں اس مفہوم میں استعمال ہوا ہے جو ان کا موقف ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

یہود نے جب کلام کے واضح مفہوم سے گریز کر کے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ وہ تو بس متکلم کا منشا معلوم کرنا چاہتے ہیں تو اِس کے لیے بار بار یہی لفظ ’تبیین‘ استعمال کیا  (۔۔۔)۔  گویا ’تبیین‘ کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی ، جسے باہر سے لا کر کسی بات ، کسی معاملے یا کسی کلام کے سر پر لا د دیا جائے ۔ وہ کسی بات کی وہ کنہ ہے جو ابتدا ہی سے اُس میں موجود ہوتی ہے ، آپ اُسے کھول دیتے ہیں ۔ وہ کسی کلام کا وہ مدعا ہے جو اُس کلام کی پیدایش کے وقت ہی سے اُس کے ساتھ ہوتا ہے ، آپ اُسے واضح کر دیتے ہیں ۔ وہ کسی چیز کا وہ لازم ہے جو شروع ہی سے اُس کے وجود کی حقیقت میں پوشیدہ ہوتا ہے ، آپ اُس کو منصۂ شہود پر لے آتے ہیں ۔ (برھان)

ہم نہیں جانتے کہ آخر “گائے ذبح کرو” کے الفاظ کا آخر وہ کونسا لغوی تقاضا تھا جس کی کنہ ” لَّا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَٰلِكَ”  نیز ” بَقَرَةٌ صَفْرَاءُ فَاقِعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِينَ ” اور ” لَّا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِي الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَّا شِيَةَ فِيهَا ” قرار دی جاسکے نیز ہم نہیں جانتے کہ کلام  فہمی کا آخر  وہ کونسا عقلی قرینہ ہے جس کی بنیاد پر ان امور کو “گائے ذبح کرو” کے حکم میں ابتدا ہی سے موجود فرض کرتے ہوئے اس کا ایسا لازمی جزو کہا جاسکے جو اس میں پوشیدہ تھا۔ الغرض سورہ بقرۃ میں مذکور اس واقعے میں کوئی ایک بھی ایسی بات نہیں جو غامدی صاحب کے نظریہ تبیین کے حق میں جاتی ہو اور اسی لئے استدلال کی اس کمی کو محترم غامدی صاحب خوبصورت الفاظ کے چناؤ سے پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر یہ تحدیدات کلام پر کوئی چیز لادنا نہیں بلکہ تبیین ہی ہے تو لفظ زانی و زانیۃ سے صرف “غیر شادی شدہ زانی و زانیہ” مراد لیتے ہوئے اسے تبیین کہنا بہت آسان ہے کہ وہاں صرف ایک وصف سے تخصیص کی گئی ہے جبکہ گائے والے واقعے میں گائے کی دس اوصاف سے تخصیص ہوئی

  لَّا فَارِضٌ

 وَلَا بِكْرٌ

 عَوَانٌ بَيْنَ ذَٰلِكَ

 صَفْرَاءُ

 فَاقِعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِينَ

 لَّا ذَلُولٌ

 تُثِيرُ الْأَرْضَ

 وَلَا تَسْقِي الْحَرْثَ

 مُسَلَّمَةٌ

 لَّا شِيَةَ فِيهَا

دوسری مثال:  بچوں اور غلاموں کی اجازت کی رخصت میں تحدید

سورہ نور آیت 31  میں  پردے کے احکام بیان کرتے ہوئے  غلاموں اور نابالغ بچوں (غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ)کو بعض احکام سے مستثنی رکھا گیا:

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ

ترجمہ:   مومنہ عورتوں کو کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنے اندیشہ کی جگہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کی چیزوں کا اظہار نہ کریں مگر جو ناگزیر طور پر ظاہر ہو جائے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیوں کے بُکّل مار لیا کریں اور اپنی زینت کا اظہار نہ ہونے دیں مگر اپنے شوہروں کے سامنے یا اپنے باپوں کے سامنے یا اپنے شوہروں کے باپوں کے سامنے یا اپنے بیٹوں کے سامنے یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے سامنے یا اپنے بھائیوں کے سامنے یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں کے سامنے یا اپنی بہنوں کے بیٹوں کے سامنے یا اپنے تعلق کی عورتوں کے سامنے یا اپنے مملوکوں کے سامنے یا ایسے زیرکفالت مردوں کے سامنے جو عورت کی ضرورت کی عمر سے نکل چکے ہوں یا ایسے بچوں کے سامنے جو ابھی عورتوں کی پس پردہ چیزوں سے آشنا نہ ہوں اور عورتیں اپنے پاؤں زمین پر مار کے نہ چلیں کہ ان کی مخفی زینت ظاہر ہو

پھر آیت  58 میں ان پر بھی یہ قید عائد کر دی گئی کہ تین اوقات میں وہ بھی اجازت لیا کریں

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۚ مِّن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ

ترجمہ: اے ایمان والو، تمہارے غلام اور لونڈیاں بھی اور تمہارے اندر کے وہ بھی جو ابھی بلوغ کو نہیں پہنچے ہیں، تین وقتوں میں اجازت لیا کریں۔ ایک نماز فجر سے پہلے، دوسرے دوپہر کو جب تم اپنے کپڑے اتارتے ہو، اور نماز عشا کے بعد۔

یہ واضح طور پر ایک ایسی اضافی پابندی  عائد کرنا ہے جو آیت 31 کے الفاظ کا تقاضا نہیں تھا۔ تحدید و اضافی پابندی کا یہ پہلو خود مکتب فراہی کو بھی قبول ہے۔ چنانچہ مولانا اصلاحی صاحب آیت 58 کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

 پیچھے آیت ۳۱ پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ وہاں گھروں میں داخل ہونے کے لیے اجازت لینے کی جو شرط لگائی ہے اس سے غلاموں اور نابالغ بچوں کو مستثنیٰ رکھا تھا۔ بعد میں ان پر بھی یہ قید عائد کر دی گئی کہ تین اوقات میں وہ بھی اجازت لیا کریں۔ (تدبر قرآن)

” بعد میں ان پر بھی یہ قید عائد کر دی گئی ” ۔۔۔ یہ الفاظ واضح طور پر ایسا اضافہ و تحدید بتا رہے ہیں جو شارع کی جانب سے پہلے نہ تھی۔ آیت  58 کے آخر میں ارشاد ہوا

كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ

ترجمہ: اس طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیات کی وضاحت کرتا ہے

اصلاحی صاحب کہتے ہیں کہ “یہ دونوں آیتیں (۵۸ ۔ ۵۹) توضیحی ہیں”۔ معلوم ہوا کہ از روئے قرآن شارع اپنے بیان کردہ حکم کی تبیین (یعنی شرح) کرتے ہوئے ابتدائی حکم میں اگر کوئی کمی بیشی کرے تو یہ تبیین ہی کہلاتا ہے اور اسے شرح سے باہر قرار دینا شارع کی عادت مستمرہ پر غور نہ کرنے کا نتیجہ  ہے۔ مکتب فراہی کی جانب سے یہاں یہ کہنا مفید نہیں ہوسکتا کہ ابتدائی حکم فلاں مقصد کے تحت دیا گیا تھا اور اسی مقصد کے تقاضے کے طور پر یہ اضافہ کیا گیا۔ زیر بحث مقدمے کے پیش نظر اصل قابل غور بات یہ ہے کہ کیا یہ اصل حکم پر اضافہ ہے یا نہیں اور کیا اس اضافے کو تبیین کہا گیا یا نہیں؟ کیا آیت 58 کے نزول سے قبل جن لوگوں نے ان تین اوقات میں اجازت طلب نہ کی وہ حکم ازولی کی بنا پر گنہگار ہوئے تھے؟  کیا اس آیت کے بعد ان کے لئے ایک نیا حکم ثابت ہوا یا نہیں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…