اہل “المورد” قرآن سے بات کیوں نہیں کررہے اور التباس کا مرتکب کون ہے؟

Published On June 20, 2024
پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)

حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...

ڈاکٹر زاہد مغل

استحسان کی اصطلاح سے امام شافعی جیسے جلیل القدر فقیہہ کو ایسا شبہ لگا کہ انہوں نے اسے شریعت سازی قرار دے دیا، لیکن اس کے باوجود احناف و مالکیہ نے اس اصطلاح کو ترک نہیں کیا بلکہ اس کا مفہوم واضح کیا اور آج تک وہ یہ اصطلاح بولتے ہیں۔ اس کا مفہوم واضح ہوجانے کے بعد یہ بحث نہیں ہوئی کہ تم ایسی اصطلاح کیوں بولتے ہو جس سے شبہ لگے۔ یہی بات شیخ ابن عربی کہیں گے کہ جب ہم نے اپنی تحاریر میں قدم قدم پر اپنی مراد واضح کردی تو اس کے بعد تمہارا یہ اعتراض علمی طور پر بامعنی نہیں کہ اس سے التباس ہوسکتا ہے۔ اہل سنت ہونے کا یہ کوئی پیمانہ نہیں کہ معانی کے بیان کے لئے وہ خاص اصطلاح بولنا بھی لازم ہے جو علماء کا اجتہاد ہے۔ شیخ ابن عربی غامدی صاحب سے کہیں گے کہ دیکھو سنت کی آپ کی اصطلاح سے مولانا زاھد الراشدی صاحب جیسے صاحب علم بھی شبہ میں پڑ گئے اور آپ کو وضاحت لکھنا پڑی لیکن پھر بھی آپ نے اصطلاح نہ بدلی۔ الغرض اصطلاح سے التباس کا اعتراض ایک سطحی بات ہے، بالخصوص کہ جب مدعی کا دعوی کسی شے کو اسلام سے باہر ایک متوازی بات ثابت کرنا ہو۔

رہے وہ حضرات جو اہل سنت کے فریم ورک کو حجت نہیں سمجھتے بلکہ قرآن و سنت سے براہ راست استدلال کا شوق رکھتے ہیں تو ان سے ہم کہتے ہیں کہ آپ نے نفس نبوت کی جو تعریف مقرر کی ہے وہ غلط ہے اور تمام نصوص کا استقراء نہیں کرتی۔ یہ حضرات کہتے ہیں کہ جس حدیث میں آیا کہ نبوت باقی رہے گی اس حدیث کو قرآن کے تحت ہونا ہے جس نے بتا دیا کہ نبوت ختم ہوگئی۔ ہم کہتے ہیں کہ آپ قرآن کی کوئی ایک آیت پیش کیجئے جس میں یہ کہا گیا ہو کہ نبوت بالکلیہ ختم ہوگئی۔ ان کا استدلال دراصل یوں ہوتا ہے:

الف) نبوت (یعنی مخاطبہ الہیہ) صرف اس نبوت کے مفہوم میں بند ہے جسے انبیاء کرام کے خاص مفہوم والی نبوت کہتے ہیں

ب) انبیاء کی بعثت کا سلسلہ ختم ہوگیا، یہ بات قرآن میں کہی گئی ہے

ج) لہذا نبوت بالکلیہ ختم ہوگئی، لہذا اب حدیث کو قرآن کے مطابق ایڈجسٹ ہونا ہے

مدعا (ج) تب ثابت ہوگا جب مقدمہ (الف) قرآن سے ثابت ہو، ان دوستوں کے دعوے کے برعکس قرآن سے عین اس کا الٹ ثابت ہے کہ خدا کی مخاطبت بصورت وحی غیر انبیاء ایک طرف غیر انسانوں سے بھی ہوتی ہے۔ جب مقدمہ (الف) ہی قرآن کے خلاف ہے تو یہ کہنا تحکم ہے کہ حدیث کو قرآن کے تحت ایڈجسٹ ہونا ہے نہ کہ قرآن کو حدیث کے تحت۔ بات کو آسان کرنے کے لئے ہم مثال دیتے ہیں۔ زید کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ اپنے بچوں، دیگر رشتے داروں، دوستوں اور طلباء کو تحفہ دیتا ہے البتہ بچوں کو ایک خاص قسم کا تحفہ دیتا ہے۔ پھر ہمیں معلوم ہوا کہ زید کی اولاد کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ تو کیا اس سے یہ بھی لازم آیا کہ زید کی جانب سے ہر قسم کا تحفہ دینے کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا؟ ہرگز نہیں، الا یہ کہ یہ ثابت کیا جائے کہ زید صرف اپنی اولاد ہی کو تحفہ دیتا تھا، اس کے علاوہ وہ کسی کو تحفہ نہیں دیتا تھا۔ لیکن اگر یہ بات ثابت ہو کہ زید اپنی اولاد کے سوا بھی لوگوں کو تحفہ دیتا تھا تو سلسلہ اولاد کا خاتمہ زید کی جانب سے ایک خاص قسم کا تحفہ دئیے جانے کے خاتمے کی دلیل ہے نہ کہ ہر قسم کا تحفہ دئیے جانے کے سلسلے کے خاتمے کی دلیل، جو ہر قسم کے تحفہ عطا کئے جانے کے خاتمے کا دعوے دار ہے وہ تحکم کا مرتکب ہے اور یا اسے بنیادی منطق بھی نہیں آتی۔ یہی معاملہ مخاطبہ الہیہ بصورت وحی کا ہے کہ از روئے قرآن یہ انبیاء کے ساتھ خاص نہیں، تو انبیاء کے سلسلے کا خاتمہ اس بات کی دلیل کیسے ہوگیا کہ اللہ اب کسی سے کسی بھی قسم کی مخاطبت نہیں کرتا؟ سلسلہ انبیاء کے خاتمے سے صرف یہ ثابت ہوا کہ ایک خاص قسم کی مخاطبت ختم ہوگئی نہ کہ نفس مخاطبت۔ آیت “خاتم النبیین” کو پیش کرکے یہ نتیجہ نکالنا کہ خدا کی جانب سے نفس مخاطبت بصورت وحی ختم ہوگئی خلط مبحث ہے۔

الغرض ہمارے یہ لوگ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ حدیث کو ان کی بنائی ہوئی اصطلاح کے تحت ایڈجسٹ ہونا ہے لیکن یہ اپنی بنائی ہوئی اصطلاح ہی کو عین قرآن کہہ رہے ہوتے ہیں جبکہ قرآن میں وہ کہیں مذکور نہیں۔ اگر ان کا دعوی ہے کہ یہ اصطلاح کہیں مذکور ہے اور نبوت ان کی بنائی ہوئی اس اصطلاح میں بند ہے تو وہ آیت پیش کریں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ متوازی دین کی تمہت لگانے والے اور خود کو قرآن کا اصلی وارث فرض کرنے والے اس موضوع پر قرآن سے بات ہی نہیں کرنا چاہتے، بلکہ چاہتے ہیں کہ ان کی منہ کی باتوں کو قرآن سمجھا جائے، فیاللعجب! اہل “المورد” نے نبوت کی جو اصطلاح بنائی ہے وہ قرآن و سنت کے حقائق پر پردہ ڈال کر التباس پیدا کرنے والی ہے۔ چنانچہ اہل “المورد” نے یہ کام کیا ہے کہ انہوں نے تحفے کی ایسی اصطلاحی تعریف مقرر کی جس کے بعد صرف وہی چیز تحفہ کہلا سکے جو اولاد کو دیا جاتا تھا اور باقی چیزیں تحفے سے باہر ہوگئیں حالانکہ زید ان سب کو تحفہ ہی کہہ رہا ہے۔ اب جس نے زید کے کلام کے پیش نظر دیگر کو بھی تحفہ کہا، تحفے کے مفہوم کو اپنی خاص اصطلاح میں بند کردینے والے یہ لوگ اس کے پیچھے پڑ گئے کہ تم نے “ختم تحفہ” کی بات کی خلاف ورزی کی ہے حالانکہ زید نے کبھی یہ کہا ہی نہیں کہ ہر قسم کا تحفہ دیا جانا ختم ہوگیا، اس کے برعکس اس نے نہ صرف یہ کہا کہ ہم ہر چیز کو تحفہ دیتے ہیں بلکہ جہاں اس خاص تحفے کے بند ہونے کا اعلان کیا عین اس موقع پر بھی کہا کہ تحفے کی بعض صورتیں جاری رہیں گی۔ الحمد للہ اھل سنت کبھی اس مغالطے کا شکار نہ ہوئے جو اہل المورد کو ہوا۔

المورد کے کچھ فاضلین کا کہنا ہے کہ شیخ اور مرزا قادیان میں صرف یہ فرق ہے کہ شیخ کے مطابق اولیاء کے وحی و الھام سے ویسی تکلیف لازم نہیں آتی جس کا انکار موجب کفر ہو جبکہ مرزا قادیان اس تکلیف کا قائل ہے۔ ان دوستوں کی جانب سے یہاں لفظ “صرف” کا استعمال ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ میں بھی موجود ہوں اور خدا بھی موجود ہے، صرف اتنا فرق ہے کہ میں خدا کے موجود کرنے سے موجود ہوں اور وہ از خود موجود ہے! وہ صفت جو ایک شے کی حقیقت کو دوسری کی حقیقت سے الگ و ممیز کرے، اسے اس شے کا “خاصہ یا خصوصیت” کہتے ہیں۔ صفت خاصہ کے ساتھ “صرف” لگا کر دو اشیاء کے مابین فرق کو بے معنی و ہلکا دکھانے کی کوشش کرنا از خود بے معنی و ہلکی بات ہے۔ ان دوستوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ منطق پڑھیں قبل اس سے کہ یہ حقائق کو خلط ملط کرکے بندے کو خدا بنا دیں کہ دونوں ہی موجود ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…