انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

Published On November 24, 2024
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...

محمد خزیمہ الظاہری

دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط لگانا روافض و خوارج کی ایجاد ہے۔ اہل علم نے ہمیشہ اس موقف کی تردید کی ہے۔ ان اہل علم کا تعلق صرف اہل ظاہر سے نہیں بلکہ ان میں کثرت سے مذاہبِ اربعہ کے فقہاء بھی شامل ہیں۔ چنانچہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں “کتاب الاعتصام بالکتاب و السنة” کے تحت دو صحیح احادیث پر یہ عنوان قائم کیا ہے کہ :

باب الحجة على من قال : إن أحكام النبى صلى الله عليه و سلم کانت ظاهرة و ما كان يغيب بعضهم من مشاهد النبى صلى الله عليه و سلم و أمور الاسلام

اس عنوان کا مفہوم و مدعا یہ ہے کہ : اس شخص کے رد پر دلیل کا بیان جو کہتا پھرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے (دین سے متعلق) دئے گئے احکامات سب پر واضح تھے اور دین کے معاملے میں نبی علیہ السلام کی تعلیمات سے تمام لوگ واقف ہوتے تھے۔

یہاں امام بخاری کا موقف صاف صاف واضح ہو گیا ہے کہ انہوں نے ان لوگوں کی تردید کی ہے جنہوں نے تواتر کے نام پر احادیث سے منہ موڑا ہے۔

اس مقام پر بخاری شریف کے بلا مبالغہ ان درجنوں شارحین نے امام بخاری رحمه الله کی تائید فرمائی ہے جو چاروں میں سے کسی نا کسی فقہی مذھب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور درج ذیل باتوں کی وضاحت کی ہے کہ :

اول : دین کو قبول کرنے کے لئے تواتر کی شرط لگانا روافض و خوارج کا موقف ہے۔

دوم : یہاں امام بخاری کا مقصد انہی لوگوں پر تنقید ہے۔

سوم : امام بخاری رحمه الله کا یہ موقف بالکل درست ہے اور دین کی کوئی بات قبول کرنے کے لئے تواتر کی شرط لگانا ضروری نہیں ہے۔

_ ان شارحین میں چند ایک نام ذیل میں درج کئے جا رہے ہیں۔

اول : امام ابن الملقن،التوضيح لشرح الجامع الصحيح (٣٣/١٤٠)

دوم : امام بدر الدين عينى،عمدة القارى فى شرح صحيح البخارى (٢٢/٤٩٣)

سوم : امام ابن بطال مالکی،شرح صحيح البخارى (١٠/٣٨٤)

چہارم : امام بدر الدين زركشى،التنقيح لالفاظ الجامع الصحيح (٣/٨٦٩)

پنجم : امام ابن المنيّر،المتوارى على ابواب البخارى (ص ٤١٦)

ششم : امام بدر الدين دمامينى،مصابيح الجامع الصحيح (١٠/١٦٥)

ہفتم : امام شمس الدين برماوى،اللامع الصبيح بشرح الجامع الصحيح (١٧/٢٨٥)

ہشتم : امام شمس الدين كرمانى،الكواكب الدرارى (٢٥/٦٣)

نہم : امام محمد فضيل مالكى،الفجر الساطع على صحيح البخارى (١٦/١٤٨)

دہم : امام احمد بن اسماعيل كورانى،الكوثر الجارى إلى رياض احاديث البخارى (١١/٣٩٦)

ان اہل علم میں کوئی بھی ظاھری نہیں ہے اور انکا تعلق مذاھب اربعہ میں سے کسی نا کسی فقہی مذھب سے ہے۔ لہذا اس تفصیل سے ہمارے دور کے ان حدیث بیزار لوگوں کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے جنکا کہنا ہے کہ تواتر کی بجائے اخبار آحاد کو کافی شافی سمجھنا صرف اہل ظاھر کا طریقہ ہے۔

 

 

 

 

محمد خزیمہ الظاہری

دین کی ہر ہدایت کا تواتر سے منتقل ہونا ضروری نہیں ہے اور نا ہی کسی نقل ہونے والی چیز کے ثبوت کا اکلوتا ذریعہ تواتر ہے.. سب سے پہلی اصل اور بنیاد کسی بات کے ثبوت پر اطمینان ہے اور اسکے لئے ہمہ وقت تواتر کا احتیاج نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دینی لٹریچر کو نقل کرنے اور لوگوں تک پہنچانے کے لئے روایتِ حدیث کا مستقل فن وجود میں آیا ورنہ اس علم کی کوئی ضرورت نا تھی.

البتہ بہت سے لوگ ایک ناقص سوال کرتے رہتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیات کی طرح صحیح احادیث کی تعداد بھی متعین کیوں نہیں ہے اور اگر حدیث عین دین ہے تو اس میں اختلاف کیوں ہے؟

 ایک ہی حدیث کو بسا اوقات ایک محدث صحیح اور دوسرا ضعیف کہ رہا ہوتا ہے.. گویا دین میں ہی اختلاف ہے کہ فلاں چیز دین ہے یا نہیں؟

اس اعتراض کی حقیقت یہ ہے کہ :

اوّلا : دین کی تمام بنیادیں قرآن مجید اور مسلّمہ طور پر صحیح سمجھی جانے والی احادیث میں صاف صاف مقرر ہیں.. اور احادیث کی زیادہ تعداد ایسی ہے جنکی صحت یا ضعف بھی قابلِ اطمینان حد تک واضح ہے۔

ثانیاً : جن احادیث کی صحت میں اختلاف ہے،انکا ایک حصہ ایسا ہے جس میں اختلاف واضح طور پر شذوذ کا نتیجہ ہے.. اور اختلاف کرنے والے اہل علم حدیث کے نقّاد ائمہ میں شامل نہیں ہیں۔

ثالثاً : صحت و ضعف کے لحاظ سے مختلف فیہ روایات کا ایک حصہ براہ راست قرآن مجید یا صحیح احادیث سے تائید شدہ ہے اور ضعف کی نوعیت نہایت خفیف ہے.. لہذا یہ روایات ویسے ہی صحیح نصوص اور دیگر قرائن سے تقویت پا کر مکمّل طور پر مستند ہو جاتی ہیں حتیٰ کہ ایسی روایات کو ضعیف کہنے والے علماء بھی انکے متن کو تسلیم کرتے ہیں۔

رابعاً : ان تمام چیزوں کے باوجود اگر احادیث کی ایک تعداد کے بارے میں یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ ان کی صحت میں اختلاف کا معاملہ حل نہیں ہو رہا اور متن میں موجود حکم یا نصیحت کے دینی ھدایت میں شامل ہونے یا نا ہونے کا مسئلہ اختلاف کی بھینٹ چڑھ رہا ہے تو بھی یہ معاملہ اس اختلاف کی وجہ سے دین کی حیثیت کو مجروح نہیں کرتا۔

اسکی وجہ یہ ہے کہ اسکی نوعیت بالکل وہی ہے جو آیات و احادیث کے فہم کی نوعیت ہے کہ بہت سی نصوص کی تعبیر میں اختلاف ہو جاتا ہے مگر وہ آیات و احادیث دین کا جزو رہتی ہیں اور بہت سے مسائل کے جواز و عدم جواز میں اختلاف ہو جاتا ہے لیکن وہ مسائل دینی احکامات کی فہرست میں شامل رہتے ہیں۔

فلہذا احادیث کی صحت و ضعف میں اختلاف کی نشاندہی کر کے حدیث کی اہمیت گھٹانا اسی طرح ہے جیسے کوئی شخص قرآن مجید کی آیات کے معنیٰ و مفہوم میں اختلاف کی نشاندہی کر کے قرآن مجید کے دین کی بنیاد ہونے کی حیثیت کا انکار شروع کر دے۔

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…