امام رازی اور قانون کلی کی تنقید پر تبصرہ

Published On December 5, 2023
پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)

حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...

ڈاکٹر زاہد مغل

اہل علم متکلمین و اصولیین کے ہاں “قانون کلی ” کی بحث سے واقف ہیں۔ اس بحث کو لے کر شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ  نے امام غزالی رحمہ اللہ کو ضمناً  جبکہ امام رازی  رحمہ اللہ  کو بالخصوص  شد و مد سے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ امام رازی پر اعتراض یہ ہے کہ ان کے موقف کی رو سے جب بھی عقل و نقل کے مابین تضاد معلوم ہو تو عقل کو نقل پر دو بنا پر ترجیح دی جائے گی

  • ایک اس لئے کہ نقل کا اعتبار عقل پر قائم ہے یعنی عقل نقل کی اصل ہے، تو عقل پر نقد کرنا خود بخود گویا نقل کا اعتبار ختم کردینا ہے
  • دوسرا اس لئے کہ دلائل سمعیۃ ظن کا فائدہ دیتے ہیں نہ کہ یقین کا۔ دلائل سمعیۃ یا نقلیہ میں متعدد بنا پر احتمال کا امکان ہوتا ہے، دلائل نقلیہ کی دلالت کا انحصار نقل لغات، نقل وجوہ صرف و نحو، عدم اشتراک و مجاز و تخصیص ،عدم اضمار اور عدم معارض نقلی و دلیل عقلی پر موقوف ہے اور یہ سب امور ان کی دلالت میں احتمال کا امکان پیدا کرکے انہیں ظنی بنا دیتے ہیں

اس بنا پر یہ نقد کیا جاتا ہے کہ رازی کے نزدیک جمیع دلائل نقلیہ ظنی ہیں، ان کی اس بات کو لے کر شیخ اور ان کے شاگرد علامہ ابن قیم ان پر تنقید کرتے ہیں اور گاہے بگاہے مکتب فراہی سے وابستہ حضرات بھی اس پر نقد کرتے ہیں جیسا کہ غامدی صاحب نے بھی کتاب “میزان” میں علامہ ابن قیم کے حوالے سے اس موقف پر نقد کیا ہے۔ اس موضوع پر امام غزالی کے حوالے سے ہم پہلے بھی ایک مختصر تحریر لکھ چکے ہیں۔ یہاں اختصار کے ساتھ امام رازی کی بحث کا پس منظر اور مفہوم واضح کرتے ہوئے یہ بتایا جائے گا کہ امام رازی پر شیخ ابن تیمیہ اور ان کی تنقیدی رائے کے ہمنوا حضرات  کا نقد کیونکر غیر متعلق ہے۔ وما توفیقی الا باللہ۔

اس بحث کا اصل تناظر یہ ہے کہ متکلمین کے نزدیک اثبات نبوت کی دلیل اثبات باری کے مقدمے پر موقوف ہے اور اثبات باری کی دلیل حدوث عالم کے مقدمے پر موقوف ہے اور حدوث عالم کی دلیل یہ تقاضا کرتی ہے کہ ذات باری حدوث سے ماورا ہے۔ ایسے میں صفات باری سے متعلق وہ نصوص جن کے  ظاہری معنی  حدوث پر دلالت کرتےہیں جیسے کہ یداللہ وغیرہ تو اس کے ظاہری حقیقی معنی کی تردید کرنا متکلمین لازم قرار دیتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں متکلمین کی جانب سے اس کے ظاہری معنی پر اصرار کرنے والے گروہوں (جیسے کہ مشبہہ، کرامیہ وغیرہ) کو یہ بات کہی جاتی ہے کہ اگر دلیل عقلی کو رد کرکے دلیل نقلی کو ظاہر پر محمول کیا گیا تو خود نقل کا اعتبار بھی جاتا رہے گا کیونکہ نقل کا اعتبار جس عقلی مقدمے پر مبنی ہے اس عقلی مقدمے کی نفی نقلی دلیل کی نفی کے ہم معنی ہے۔ لہذا عقل و نقل میں ظاہری تضاد کی صورت میں عقل کو ترجیح ہوگی۔ اس بات کو امام غزالی قانون کلی کہتے ہیں اور امام رازی بھی اسے جابجا بیان کرتے ہیں۔ امام رازی کی اس بات کو ناقدین اس کے تناظر سے کاٹ کر اس طرح پیش کرتے ہیں گویا رازی نے یہ کہا ہو کہ عقل نقل پر ہمیشہ حاوی ہے۔

اس مقدمے پر نقد کرتے ہوئے شیخ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ یہ بات درست ہے کہ عقل سے نبوت کا اثبات ہوتا ہے لیکن جب ایک بار عقل نے کسی کو نبی مان لیا تو اس سے منقول ہر بات کو صحیح سمجھنا خود عقل کا تقاضا ہے بصورت دیگر خود عقل کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا کہ نبی بھی مانیں اور اس کی بات کو خلاف عقل کہہ کے رد کردیں۔ ظاہر ہے جب بحث کو اس کے اصل تناظر میں رکھ کر شیخ کا یہ جواب پڑھا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کوئی جواب نہیں ، امام رازی جب عقل کی موافقت کی شرط عائد کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ عقل کے نام پر جو کچھ بھی مواد پیش کردیا جائے نقل کو اس کی پابندی کرنا ہے بلکہ اس بحث کا تناظر یہ ہے کہ اثبات نبوت تک کا سفر جن عقلی مقدمات پر مبنی ہے  نقل کا مفہوم ان مقدمات کے خلاف نہیں ہوسکتاکیونکہ اگر ایسا جائز سمجھا جائے تو پھر نقل کا اعتبار بھی جاتا رہے گا اس لئے کہ نقل کا اعتبار بذات خود ان ماقبل وحی عقلی مقدمات پر مبنی ہوتا ہے۔ تو اگر ان عقلی مقدمات کے ظاہراً خلاف معنی درست ہوں تو ماننا ہوگا کہ متعلقہ عقلی مقدمہ (کہ ذات باری حدوث سے ماورا ہے) غلط ہے، اگر وہ مقدمہ غلط ہے تو نبوت کا اعتبار جس دلیل پر قائم ہے وہ دلیل غلط ہے اور نتیجتاً نبوت کا اعتبار جاتا رہا۔ اس لئے شیخ ابن تیمیہ کا نقد امام رازی پر وارد نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ متکلمین کےقائم کردہ سوال کو ایڈریس کرتا ہے  کیونکہ زیر بحث سوال یہ ہے کہ کیا نقل کامفہوم ان ماقبل قطعی عقلی مقدمات کے خلاف جاسکتا ہے جن پر نقل کا اعتبار ہے؟ یاد رہے کہ صفات کے جس مسئلے پر اس بحث کا اثر پڑتا ہے (یعنی تفویض معنی یا تفویض کیف) وہ انہی ماقبل وحی عقلی مقدمات کی بحث سے متعلق ہے۔

قانون کلی کے ضمن میں امام رازی کے موقف کے خلاف دوسرا استدلال یہ ہے کہ امام صاحب کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ دلائل سمعیۃ ظنی ہیں نیز قطعی عقائد  کے مسائل میں ان پر اعتبار نہیں ہوسکتا بلکہ یہاں دلیل عقلی کا اعتبار ہوگا۔

جب تک آپ  لفظ قطعی کا مطلب طے نہیں کرتے تب تک یہ مشکلات رہیں گی۔لفظ قطعی کا تصور کسی علمی قضیے سے متعلق ان احکام سے واضح ہوتا ہے جو آپ اس کے ساتھ وابستہ کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے اس کے متعدد معانی ہیں

  • وہ قطعیت جہاں دوسرے احتمال کا امکان بایں معنی محال ہوکہ اس کے اقرار سے تضاد لازم آئے۔ اس کی مثال اولیات عقلیات  ہیں جیسے کہ جمع بین النقیضین کا محال ہونا، ایک شے یا ہوتی ہے یا نہیں ہوتی، حادث کے لئے محدث ہوتا ہے وغیرہ۔ ان میں سے جس بھی قضئے کے خلاف بات کی جائے گی، منطقی تضاد لازم آتا ہے
  • وہ قطعیت جہاں احتمال اگرچہ موجود ہو لیکن آپ کسی دلیل کی بنا پر اسے رفع کرکے کسی ایک جانب کو ترجیح دے سکتے ہیں۔ یہ کیس دو طرح کا ہے

الف) وہ جہاں احتمال پر اصرار کرنے والے پر آپ کفر کا حکم لگاتے ہیں،  جیسے اگر کوئی شخص ختم نبوت والی آیت کے معنی میں کوئی احتمال پیدا کرے تو اگرچہ عقلاً اس کا امکان موجود ہے (کہ تضاد لازم نہیں آتا) لیکن ہم اسے قبول نہیں کرتے اور ایسا کرنے والے کی تکفیر کرتے ہیں کیونکہ آیت کے خاص معنی اجماعاً یہی سمجھے گئے ہیں اور یہ تواتر ہمیں کسی شخص کو آخرت کے اعتبار سے جہنمی قرار دینے کی بنیاد فراہم کرتا ہے

ب) وہ جہاں ہم کفر کا حکم نہیں لگاسکتے اگرچہ سامنے والے کی بات کو مرجوح کہتے ہیں۔ اس کی مثال تقریباً سارے فقہی مسائل ہیں

چنانچہ جب امام رازی یہ کہتے ہیں کہ دلائل سمعیۃ ظنی ہوتے ہیں نہ کہ قطعی تو یہاں پہلے معنی (یعنی (1)) والی قطعیت مراد ہوتی ہے اور قطعیت کے اس معنی کی رو سے قطعی کا مطلب واجب و محال ہوتا ہے نہ کہ وہ قطعی جو موجب تکفیر ہو۔ چنانچہ امام رازی جس مفہوم میں یہ بات کہتے ہیں کہ دلیل نقلی قطعیت کا فائدہ نہیں دیتی وہ بات واقعی درست ہے کیونکہ ہر لسانی دعوی  اپنے اندر متعدد ایسے عقلی احتمالات کا حامل ہوتا ہے اور اس کیفیت کا فائدہ نہیں دیتا جسے وجوب و محال کہتے ہیں (یعنی جس کے انکار یا اقرار سے تضاد لازم آئے)۔ رہی دوسرے معنی کی پہلی صورت والی قطعیت (2 الف)، یعنی جو موجب کفر ہو،  تو اس میں کیا شک ہے کہ امام رازی اس کے قائل ہیں؟ یاد رہے کہ تکفیر حکم شرعی ہے جس کا مطلب کسی تصور یا عقیدے کی بنا پر ایک شخص کو ابدی اخروی عذاب کا مستحق قرار دینا ہے اور اشعری اصولوں کی رو سے یہ حکم نبی کی خبر کے بغیر معلوم ہونا ممکن نہیں۔ علم کلام سمیت دیگر کتب میں امام رازی بعض گروہوں کی تکفیر کرتے ہیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آپ کے نزدیک دلائل سمعیۃ سے ایسی قطعیت حاصل ہونا ممکن ہے جو موجب کفر ہو۔ اسی لئے کتاب “اربعین ” میں آپ لکھتے ہیں کہ بعض قرائن جیسے کہ تواتر کی بنا پر دلیل نقلی بھی یقین کا فائدہ دیتی ہے۔ چنانچہ کتاب “اساس التقدیس ” وغیرہ میں امام رازی جس قطعیت کی بات کرتے ہیں وہ واقعی دلائل نقلیہ سے حاصل نہیں ہوتی، یعنی آپ دلائل نقلیہ کے احتمالات کو دلائل سے رفع کرکے بھلے سے ایک جانب کو ترجیح دیں، وہ اس قطعیت کو نہیں پہنچتے جو اولیات عقلیات سے حاصل ہوتی ہے اور اسی لئے امام صاحب کہتے ہیں کہ دلائل نقلیہ اس قطعیت سے خالی ہیں  یعنی ظنی ہوتے ہیں۔اگر کسی کے نزدیک محض  ترجیح دئیے جاسکنے کا امکان ہی قطعیت کے ہم معنی ہے تو وہ امام رازی کے ظنی کا نام قطعی رکھنے کے سوا کوئی کام نہیں کررہا اور اس بنا پر امام رازی کے موقف پر کوئی بامعنی تنقید ممکن نہیں۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ مکتب فراہی کی جانب سے “قطعی الدلالۃ” کے عنوان کے تحت امام رازی کے موقف پر کیا جانے والا نقد بامعنی نہیں۔

رہا امام رازی کا یہ بیان کہ عقائد قطعیۃ میں دلائل سمعیۃ پر انحصار نہیں ہوسکتا تو یہاں عقیدے کا مطلب ہر قسم کا عقیدہ نہیں ہے بلکہ ان قطعی عقائد کے مفاہیم و تصورات ہیں جو ماقبل نص مقدمات پر مبنی ہیں ۔ یہ بات کہ اس عبارت کا مطلب ہر قسم کے عقائد نہیں اس کی تردید کے لئے یہی بات کافی ہے کہ علم کلام پر آپ کی ہر کتاب میں “سمعیات” کا باب ہوتا ہے جہاں ان عقائد کی تفصیلات کا ذکر ہوتا ہے جو نبی کی خبر سے ثابت ہوتے ہیں جیسے کہ آخرت سے متعلق امور کی تفصیلات وغیرہ،  اسی طرح مثلاً ختم نبوت بھی مسائل سمعیات  سے متعلق ہے اور امامت کے مسائل بھی۔ ان سب عقائد کو آپ نصوص یا دلیل سمعی ہی کی بنیاد پر ثابت مانتے ہیں۔ مزید یہ کہ جمیع احکام شریعہ بھی دلیل سمعی سے ثابت ہوتے ہیں جیسے کہ نماز و روزے کا وجوب وغیرہ اور یہ بات معلوم ہے کہ احکام شریعہ سے متعلق فرض و وجوب بھی عقائد ہی کی صورتیں ہیں۔ ایسے میں یہ بات بھلا کیسے درست ہوسکتی ہے کہ آپ کے نزدیک عقائد کے باب میں دلائل سمعیۃ کلیتاً غیر معتبر ہیں؟ معلوم ہوا کہ اس عبارت میں عقیدے سے مراد خاص عقائد سے متعلق تصورات ہیں۔ مثلاً ذات باری کا حدوث سے ماورا ہونا ، یا عالم میں جاری تمام حوادث کا اللہ کی قدرت و ارادے کے تحت ہونا یا تحسین و تقبیح بمعنی ثواب و عقاب کے احکام کا دلیل عقلی سے ماورا ہوناوغیرہ، یہ وہ امور ہیں جہاں متعلقہ تصور دلیل سمعی نہیں بلکہ دلیل عقلی سے معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ امور ماقبل وحی امور سے متعلق ہیں۔ امام غزالی کتاب “الاقتصاد فی الاعتقاد” میں لکھتے ہیں کہ وہ امور جو کلام یا سمع سے ماقبل ہیں اور جن کی صحت پر سمع کا اعتبار قائم ہوتا ہے انہیں دلیل سمعی سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم یہ بات کہ ان تصورات کو ماننے یا نہ ماننے کے ساتھ ثواب و عقاب وابستہ ہے، یہ نص سے ثابت ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ مسئلہ جبر و قدر بھی اللہ کی صفت قدرت کے عموم (جسے عموم قدرت کہتے ہیں) کی فرع ہے اور اسی لئے امام رازی اس مسئلے پر بحث کرتے ہوئے بھی یہی فرماتے ہیں کہ یہاں نصوص بظاہر متعارض ہیں اور اس مسئلے کا فیصلہ دلیل عقلی سے ہوگا کہ آپ کس موقف کو درست سمجھتے ہیں، پھر اس رائے کے پیش نظر ان آیات کی تشریح و تاویل ہوگی جو بظاہر مخالف مفہوم کی حامل ہیں۔  یہاں تفصیل کا موقع نہیں ورنہ ہم بتاتے کہ مسئلہ جبر و قدر کس طرح دلیل حدوث کی فرع ہے۔

الغرض قانون کلی اور اس سے ملحقہ مسائل پر امام رازی کی رائے پر کیا جانے والا نقد نفس مسئلہ پر امام صاحب کی آراء کی تفصیلات سے سہونظر کرنے سے جنم لیتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…