اسلام، ریاست، حکومت اور غامدی صاحب: قسط سوم

Published On August 23, 2024
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...

مسرور اعظم فرخ

یہ کہنا کہ اسلامی شریعت میں ریاست یا خلافت کے قیام کا سرے سے کوئی حکم ہی موجود نہیں،دوسوالوں کو ہمارے سامنے پیش کر دیتا ہے۔پہلا سوال یہ ہے کہ کیا یہ نتیجہ شروع ہی سے موجود تھا، یعنی کیا ماضی کے ہر دور میں اسلامی ریاست کے قیام کے حوالے سے یہ سوچ اور نظریہ موجود چلا آرہا تھا کہ دین اسلام نے ریاست کے قیام کا کوئی باقاعدہ حکم نہیں دیا؟دوسرا سوال یہ کہ اگر یہ سوچ اور نظریہ پہلے موجود نہیں تھا تو اس کے ہونے کا سوال کیوں اُٹھا؟اس سوچ کے موجود ہونے کا انکشاف نئی بات ہے یا موجود نہ ہونے کا انکشاف نئی بات ہے؟ بہت سادہ سے جواب سے ہم مسئلے کے حل تک پہنچ سکتے ہیں، جو کچھ غامدی صاحب فرمارہے ہیں اگر اس کی سپورٹ میں وہ اسلاف کی بھی یہی تحقیقات پیش کردیں تو وہ بری الذمہ ہوں گے اور ثابت ہو جائے گا کہ غامدی صاحب کوئی نئی اور مختلف بات نہیں کہہ رہے، بلکہ یہ سب کچھ تو پہلے ہی سے ہوا پڑا ہے۔اگر وہ ایسا نہ کر سکیں اور یقیناًنہیں کر سکیں گے تووہ ایک ایسی نئی بات کر رہے ہیں، جس کے کرنے کی اُنہیں ذاتی وجوہات کی بنا پر ضرورت پیش آئی، لیکن کمال یہ ہے کہ وہ اپنی کسی تحقیق کو نئی یا اسلاف کے موقف سے ہٹی ہوئی تسلیم کرنے کی بجائے عجیب ’’استحکام‘‘اور ’’استقامت‘‘کا مظاہرہ فرما رہے ہیں۔

وہ یہ نہیں فرمارہے کہ اسلامی ریاست یا خلافت کے قیام سے متعلق ان کی تحقیق پہلے سے موجود احکامات یا ان کی تعبیرات سے فلاں بنیادوں پر مختلف ہے یا یہ کہ ماضی کے علماء فقہاان آیات و احادیث سے جو مطلب نکالتے رہے ہیں وہ ان بنیادوں پر غلط،اور ان کی اپنی تحقیق ان بنیادوں پر ان سے مختلف اور زیادہ صحیح ہے،وہ تو یہ فرما رہے ہیں کہ ریاست کے قیام سے متعلق قرآن و حدیث میں احکامات سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ان کی اِس ’’استقامت‘‘پر بات کرنے سے پہلے ان کے ایک اور بچار کو شامل کریں تاکہ دو یکساں پہلوؤں پر یکساں بات ہو سکے۔غامدی صاحب اسلامی ریاست کے قیام سے متعلق کسی قسم کی سیاسی شرعی اصطلاح سے دامن بچا کر اسلامی ریاست کے لئے ’’نظم اجتماعی‘‘کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’مسلمانوں کا نظم اجتماعی اگر کسی جگہ قائم ہوجائے تو اس سے خروج ایک بدترین جرم ہے جس کے بارے میں رسول ؐ نے فرمایا کہ اس کے مرتکبین جاہلیت کی موت مریں گے‘‘۔
شکر ہے کہ ’’خروج‘‘جیسی کسی شے کا وجود تسلیم کیا جا رہا ہے ورنہ یہ کہنے کاموقع بھی موجود تھا کہ ’’خروج‘‘ نام کی کسی شے کا بھی اسلامی شریعت میں وجود ہی نہیں ہے۔

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کسی ’’نظم اجتماعی‘‘کو اگر ’’خلافت ‘‘کہا جائے تو غامدی صاحب کے نزدیک اس کے بارے میں قرآن و حدیث میں سرے سے احکامات ہی موجود نہیں ہیں، لیکن یہ ’نظم اجتماعی ‘‘ خلافت کے علاوہ کچھ اور بنیادوں پر استوار ہو تو اسے ختم نہ کرنے یعنی اس سے خروج نہ کرنے کے احکامات ضرور موجود ہیں۔کمال ہے!ایک آفاقی دین اب جو قیامت تک کے لئے رب کائنات کی جانب سے اس کا آخری پیغام ہے اپنے نظام کا کوئی ایسا تصور تو پیش نہیں کر سکتا، جس کو اپنانے اور اسے قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہو البتہ کوئی اگر کسی طرح خود قائم ہو جائے تو اس کے قائم رہنے دینے اور اس کے خلاف خروج نہ کرنے کے احکامات ضرور دیتا ہے۔دلچسپ سوال یہ ہے کہ یہ لفظ ’’خروج‘‘ایک اصطلاح کے طور پر اسلامی شریعت میں آکیسے گیا،پڑا رہتا کسی لغت میں سمٹا ہوا؟شکر ہے غامدی صاحب خروج کا انکار کرنے کی بجائے اسے بروئے کار لانے کی غلط شکل کا انکار کر رہے ہیں، گویا اس کی صحیح شکل بھی یقیناًموجود ہونی چاہئے، جو واقعتا موجود ہے اور غامدی صاحب کے علم میں بھی ہے، جسے میں80ء کی دہائی کے آخری برسوں میں دیئے جانے والے ان کے لیکچرز میں خود ان کی زبانی سُن چکا ہوں۔

خروج کسی قسم کی حکومت کے خلاف کب ،کیوں اورکیسے ہونا چاہئے اور کب نہیں ہونا چاہئے تحقیق کا کوئی ایسا پیچیدہ موضوع نہیں ہے کہ بہت عرق ریزی سے کھنگال کر اس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے مختلف محققین مختلف نتائج پر پہنچ سکتے ہوں۔بہت سادہ سی بات ہے کہ اگر ایک اسلامی ریاست قرآن و حدیث میں بیا ن کی گئی شرائط کے مطابق تو نہ ہو، لیکن کسی طرح قبام امن ،عدالتوں میں انصاف ہونے اور شاہراہوں کے محفوظ ہونے جیسی چند یا اِسی طرح کی کچھ مزید شرائط و ضروریات کو پورا کر رہی ہو تو اہل علم اور اہل الرائے اس کے خلاف بغاوت کرنے کی بجائے اسے دیگر شعبوں میں بھی اسلامی تعلیمات و احکامات کو اپنانے کے لئے زبانی جدوجہد اور تلقین کا کام کرتے رہیں گے،لیکن اگر مسلمانوں کی کوئی حکومت قرآن و حدیث کے کسی واضح حکم کو معطل یا منسوخ کرنے کی کوشش کرے(جیسے نماز پڑھنے یا قرآن پڑھنے پر پابندی لگا نا وغیرہ)یا کفر کے نفاذ پر تُل جائے تو ایسی حکومت کے خلاف خروج (Revolt)بھی اسی صورت میں کیا جائے گا جو عسکری لحاظ سے اتنی قوت کا حامل ہو کہ اس خروج کے نتیجے میں فاسق و فاجر حکومت کو ختم کر کے اس کی جگہ صحیح اسلامی حکومت قائم کی جا سکتی ہو۔ایسا خروج بھی باقاعدہ اہلِ قیادت کے تحت جمع ہو کر کیا جا سکتا ہے،جس خروج کے بارے میںآپ ؐ نے فرمایا کہ اس کے مرتکبین حرام موت مریں گے تو یہ ایسے خروج کے بارے میں ہے جو افرادی اور عسکری قوت کے لحاظ سے اتنی استعدادنہ رکھتا ہو کہ فاسق و فاجر حکومت کو ختم کر سکے۔ناکافی وسائل کے ساتھ کمزور لوگوں کے گروہ کو طاقت ور حکومت کے خلاف لڑا دینا نہ دانائی شمار کیا گیا ہے اور نہ جہاد۔اس لئے فرمایا کہ اس کا ارتکاب کرنے والے اصل مقصد کی روح سے ناوقف و نا بلد ہیں اس لئے کمزور بنیادوں پر ایسی ناکام کوشش کر کے مسلمانوں لڑا کر مروانا نہیں چاہئے،لیکن اس کے باوجود اس کایہ مطلب نہیں ہے کہ جس حکومت کے خلاف ایسا کمزور خروج کرنے سے منع فرمایا گیا وہ اپنی اصل میں جائز اور قائم باالحق ہے۔

اپنی کتاب’’خلافت و ملوکیت‘‘میں سید مودودیؒ نے امام ابو حنیفہؒ کے حوالے سے لکھا کہ ’’مسلم معاشرے کے اندرونی نظام کو بگڑی ہوئی قیادت کے تسلط سے نکالنے کی کوشش باہر کے کفار سے لڑنے کی نسبت بدرجہا زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ایک کامیاب اور صالح انقلاب کے امکانات ہوں تو ظالم حکومت کے خلاف خروج جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے‘‘۔145ہجری میں عباسی خلیفہ منصور کے خلاف نفس ذکیہ اور نفس مرضیہّ کے خروج میں امام ابو حنفیہؒ نے خود شمولیت کی۔

بشکریہ روزنامہ پاکستان

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…