جہانگیر حنیف غامدی صاحب کو چونکہ میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے، لہذا میں اعتماد اور یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ غامدی صاحب کے ہاں ایمان کا مسئلہ نہیں۔ انھوں نے جو مسئلہ پیدا کیا ہے، وہ علمی نوعیت کا ہے۔ وہ دین کو فرد کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ دین کا آفاقی پہلو ان کی...
اسلام، ریاست، حکومت اور غامدی صاحب: قسط دوم
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی
نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...
جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی
عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...
حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ
ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...
امام النواصب جاوید غامدی
احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...
سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل
محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...
مسرور اعظم فرخ
گزشتہ کالم میں غامدی صاحب کے موقف پر براہ راست گفتگو کرنے سے پہلے کچھ اصولی چیزیں بیان کی گئیں تاکہ اگلے مراحل کے مباحث کے لئے ایک مدد گار بنیاد فراہم ہو سکے۔غامدی صاحب اپنے پہلے مضمون (جنگ 22 جنوری 2015ء) میں رقمطراز ہیں:’’یہ خیال بے بنیاد ہے کہ ریاست کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے اور اس کو بھی قرار داد مقاصد کے ذریعے مسلمان کرنے اور آئینی طور پر اس کا پابند کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جاے گا‘‘۔ ’’ریاست کا مذہب‘‘ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ کوئی ریاست کو ہاتھ سے پکڑ مسجد میں امام صاحب کے سامنے لیجا کر بٹھا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ان کے ہاتھ پر کلمہ پڑھو۔’’ریاست کا مذہب‘‘ہونے کے عام فہم معنی صرف اتنے ہیں کہ ملک یا قوم کی اکثریت کا دین کیا ہے اور یہ کوئی محض اسلامی اصطلاح نہیں ہے دیگر مذاہب دادیان اور معاشروں میں اس کا استعمال صدیوں سے عام رہا ہے یہاں تک کہ مغرب میں بھی ریاست کے مذاہب کا تصور موجود چلا آرہا ہے۔کسی ریاست میں مذاہب کے درمیان شدید اختلاف کے دور میں بھی اس کا حل یہ نکالا جاتا تھا کہ بادشاہ کا مذہب ریاست کا مذہب کہلائے گا۔’’ریاست کا مذہب‘‘ہونے کے حوالے سے غامدی صاحب کا خیال ہے کہ ’’اس سوچ کو پیش کر کے قومی ریاستوں کے دور میں تفرقے کی بنیاد رکھ دی گئی ، غیر مسلموں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا، جس کے نتیجے میں وہ زیادہ سے زیادہ ایک ’’محفوظ اقلیت‘‘ہیں اور اِسی حیثیت سے ریاست سے اپنے حق کا مطالبہ کر سکتے ہیں‘‘۔گویا اسلامی ریاست کے قیام کا پہلا مقصد اقلیتوں کے ایسے حقوق کا خیال رکھنا ہے، جنہیں نظر انداز کر کے اُنھیں دوسرے درجے کا شہری نہ بنا دیا جائے۔کسی فکر و نظریے کی بنیاد پر قائم کی جانے والی ریاست کی پہلی ترجیح یہ نہیں ہوتی کہ سب سے پہلے یہ جائزہ لیا جائے کہ یہاں اقلیتوں کے حقوق کیا ہوں گے ریاست کو قائم کرنے والے لوگ سب سے پہلے اپنے سیاسی فکر و فلسفے کی بنیاد پر ریاست کے ستون کھڑے کریں گے۔اقلیتوں کے حقوق کا معاملہ اہم ہونے کے باوجود بعد کے مدارج میں کہیں آئے گا۔ویسے بھی مذہب کو ریاست سے الگ کر دینے اور اقلیتوں کو برابر کے حقوق دینے کا دعویٰ کرنے والے سیکولر ممالک اپنے اس دعوے میں جھوٹے ہیں دنیا بھر میں غیر مسلم ریاستوں میں اقلیتوں کیساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس قدر واضح ہے کہ اس کے لئے اس وقت کوئی مثال دینے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔اقلیتوں کو برابری کا درجہ دینے کے قوانین بنا دینا اور اُنھیں عملاً برابری کی سطح پر ریاست کا شہری سمجھنا دو قطعی الگ الگ چیزیں ہیں۔ اسلام اقلیتوں کو اپنا دینی بھائی بنانے کا دروازہ ہر وقت کھلا رکھتا ہے تاکہ وہ برابری کی بنیاد پر ریاست کے تمام امور میں شریک ہوں، لیکن اگر وہ اسے قبول نہ کریں تو قرآن انہیں علانیہ ’’صاغرین ‘‘کے درجے میں رکھتے ہوئے وہ حقوق دیتا ہے، جو دنیا کی تاریخ میں کہیں کسی اقلیت کو نہیں دیے گئے اور تاریخ اس پر گواہ ہے صاغرین بھی وہ کچھ مخصوص معاملات میں ہیں ورنہ ذمیّ کی جان کی حُرمت مسلمان کی جان کی حُرمت کے برابر ہے یعنی ذمیّ کے قتل کا قصاص وہی ہے جو مسلمان کے قتل کا ہے ۔اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق کی مثالیں تو اپنی جگہ رہیں، لیکن جن اصولوں کی بنیاد پر یہ حقوق دیئے جاتے ہیں ان کی کوئی ایک نظیر بھی دُنیا کا کوئی فکر و فلسفہ پیش نہیں کر سکتا۔اس ضمن میں نبی کریمؐ کی صرف ایک حدیث مبارک ہی کو حوالے کے طورپر دیکھ لیجئے۔ ’’خبردار!جو شخص کسی معاہد پر ظلم کرے گا یا اس کے حقوق میں کمی کرے گا یا ا س کی طاقت سے زیادہ اُس پر بارڈالے گا،یا اُس سے کوئی چیز اُس کی مرضی کے خلاف وصول کرے گا،اس کے خلاف قیامت کے دن میں خود مستغیث بنوں گا‘‘(ابوداؤد:کتاب الجہاد) غامدی صاحب ایک عجیب سے انداز میں مسلمانوں کو ریاست کے قیام کی اجازت دیتے ہیں ۔یہ اجازت پہلے تو محض ایک خواب دیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے پھر خواب کے راستے سے ہوتی ہوئی’’چوائس‘‘کی جانب جا نکلتی ہے۔اس دوران یہ خاص اہتمام نظر آتا ہے کہ راستے میں ’’حکم‘‘نام کا کوئی اسٹیشن نہ آنے پائے۔ ان کے خیال میں یہ کوئی حرج کی بات نہیں کہ ’’جن ملکوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ اپنی ایک ریاست ہائے متحدہ قائم کرلیں‘‘۔ان کے مفہوم کے مطابق ’’ یہ ہم میں سے ہر شخص کا خواب بھی ہو سکتا ہے اور اس کی تعبیر کے لئے جدوجہد بھی کی جاسکتی ہے، لیکن اگر ایسا نہ کیا جائے تو یہ بھی کوئی گناہ کی بات نہیں‘‘کیونکہ ان کے خیال میں ’’اسلامی ریاست کا قیام اسلامی شریعت کا کوئی ایسا حکم نہیں ہے، جس کی خلاف ورزی سے مسلمان گناہ کے مرتکب ہو رہے ہوں‘‘۔یہ حکم کی قطعی ایک انوکھی تشریح ہے، جس کے ’’فوائد‘‘سے اُمت مسلمہ اب تک محروم ہی رہی۔گویا اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو کچھ ایسے احکامات بھی دے رکھے ہیں، جس کی خلاف ورزی کی بھی اجازت ہے اور اس پر کوئی گناہ بھی نہیں۔اس کے بعد غامدی صاحب ’’ہر گز نہیں!‘‘کہہ کر مزید فرماتے ہیں ’’خلافت نہ کوئی دینی اصطلاح ہے نہ اور نہ عالمی سطح پر اس کا قیام اسلام کا کوئی حکم ہے‘‘۔اس ’’مزید‘‘پر اکتفانہ فرماتے ہوئے پھر مزید فرماتے ہیں ’’ا س معاملے میں سرے سے کوئی حکم قرآن و حدیث میں موجود ہی نہیں ہے‘‘۔ وہ دور نبویؐ میں ریاست مدینہ کے قیام اور اسی تسلسل میں خلافت راشدہ کے دور کی ریاست کو خلافت کے قیام کی دلیل سمجھنے کی بجائے پہلی صدی ہجری کے بعد کی اُن دوسلطنتوں کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں جو ’’دولتِ عباسیہ‘‘اور ’’دولتِ امویہ اندلس ‘‘کے نا م پر قائم تھیں اور خلافت کے قیام کے حوالے سے بیان کی جانے والی شرائط کے مطابق نہیں تھیں اس کے باوجود وہ صدیوں قائم رہیں اور اس صدیوں پر محیط عرصے میں جلیل القدر فقہا گزرے، مگر کسی نے ان سلطنتوں کو اسلامی شریعت کے حکم کی خلاف ورزی قرار نہیں دیا‘‘ قرآن میں اِس حوالے سے جو کچھ ملتا ہے اُن آیات و احکامات سے تو اسلامی ریاست کے قیام کا جواز (یا حکم) نہیں نکلتا لیکن ان دو سلطنتوں کے خلاف فقہا کا اگر کوئی بیان (دیوار پر لکھے گئے واضح اعلان کی طرح) نہیں ملتا یہ ان کے جائز ہونے کا جواز ہے۔کیا ریاست کی تشکیل اور اس کے چلانے کے اصول قرآن و حدیث میں موجود نہیں؟اگر ہیں تو کیا وہ محض تلاوت کے لئے ہیں؟یہ عجیب منطق ہے کہ نبی کریمؐ کے دور کی قرآنی احکام کی روشنی میں بنائی گئی اسلامی ریاست اور چاروں خلفاء کے دور کی اسلامی ریاست تو آج کے مسلمانوں کے لئے کسی نئی اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد کرنے کے لئے حکم کے درجے میں حجت نہیں ہے، لیکن دولت عباسیہ اور دولت امویہ (اندلس) کی سلطنتیں اس وجہ سے حجت ہیں کہ اس دور کے کسی فقیہہ نے ان سلطنتوں کو ناجائز نہیں کہا۔ (جاری ہے) یہ کہنا کہ اسلامی شریعت میں ریاست یا خلافت کے قیام کا سرے سے کوئی حکم ہی موجود نہیں،دوسوالوں کو ہمارے سامنے پیش کر دیتا ہے۔پہلا سوال یہ ہے کہ کیا یہ نتیجہ شروع ہی سے موجود تھا، یعنی کیا ماضی کے ہر دور میں اسلامی ریاست کے قیام کے حوالے سے یہ سوچ اور نظریہ موجود چلا آرہا تھا کہ دین اسلام نے ریاست کے قیام کا کوئی باقاعدہ حکم نہیں دیا؟دوسرا سوال یہ کہ اگر یہ سوچ اور نظریہ پہلے موجود نہیں تھا تو اس کے ہونے کا سوال کیوں اُٹھا؟اس سوچ کے موجود ہونے کا انکشاف نئی بات ہے یا موجود نہ ہونے کا انکشاف نئی بات ہے؟ بہت سادہ سے جواب سے ہم مسئلے کے حل تک پہنچ سکتے ہیں، جو کچھ غامدی صاحب فرمارہے ہیں اگر اس کی سپورٹ میں وہ اسلاف کی بھی یہی تحقیقات پیش کردیں تو وہ بری الذومہ ہوں گے اور ثابت ہو جائے گا کہ غامدی صاحب کوئی نئی اور مختلف بات نہیں کہہ رہے، بلکہ یہ سب کچھ تو پہلے ہی سے ہوا پڑا ہے۔اگر وہ ایسا نہ کر سکیں اور یقیناًنہیں کر سکیں گے تووہ ایک ایسی نئی بات کر رہے ہیں، جس کے کرنے کی اُنہیں ذاتی وجوہات کی بنا پر ضرورت پیش آئی، لیکن کمال یہ ہے کہ وہ اپنی کسی تحقیق کو نئی یا اسلاف کے موقف سے ہٹی ہوئی تسلیم کرنے کی بجائے عجیب ’’استحکام‘‘اور ’’استقامت‘‘کا مظاہرہ فرما رہے ہیں۔ وہ یہ نہیں فرمارہے کہ اسلامی ریاست یا خلافت کے قیام سے متعلق ان کی تحقیق پہلے سے موجود احکامات یا ان کی تعبیرات سے فلاں بنیادوں پر مختلف ہے یا یہ کہ ماضی کے علماء فقہاان آیات و احادیث سے جو مطلب نکالتے رہے ہیں وہ ان بنیادوں پر غلط،اور ان کی اپنی تحقیق ان بنیادوں پر ان سے مختلف اور زیادہ صحیح ہے،وہ تو یہ فرما رہے ہیں کہ ریاست کے قیام سے متعلق قرآن و حدیث میں احکامات سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ان کی اِس ’’استقامت‘‘پر بات کرنے سے پہلے ان کے ایک اور بچار کو شامل کرئے تاکہ دو یکساں پہلوؤں پر یکساں بات ہو سکے۔غامدی صاحب اسلامی ریاست کے قیام سے متعلق کسی قسم کی سیاسی شرعی اصطلاح سے دامن بچا کر اسلامی ریاست کے لئے ’’نظم اجتماعی‘‘کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’مسلمانوں کا نظم اجتماعی اگر کسی جگہ قائم ہوجائے تو اس سے خروج ایک بدترین جرم ہے جس کے بارے میں رسول ؐ نے فرمایا کہ اس کے مرتکبین جاہلیت کی موت مریں گے‘‘۔ شکر ہے کہ ’’خروج‘‘جیسی کسی شے کا وجود تسلیم کیا جا رہا ہے ورنہ یہ کہنے کاموقع بھی موجود تھا کہ ’’خروج‘‘ نام کی کسی شے کا بھی اسلامی شریعت میں وجود ہی نہیں ہے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کسی ’’نظم اجتماعی‘‘کو اگر ’’خلافت ‘‘کہا جائے تو غامدی صاحب کے نزدیک اس کے بارے میں قرآن و حدیث میں سرے سے احکامات ہی موجود نہیں ہیں، لیکن یہ ’نظم اجتماعی ‘‘ خلافت کے علاوہ کچھ اور بنیادوں پر استوار ہو تو اسے ختم نہ کرنے یعنی اس سے خروج نہ کرنے کے احکامات ضرور موجود ہیں۔کمال ہے!ایک آفاقی دین اب جو قیامت تک کے لئے رب کائنات کی جانب سے اس کا آخری پیغام ہے اپنے نظام کا کوئی ایسا تصور تو پیش نہیں کر سکتا، جس کو اپنانے اور اسے قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہو البتہ کوئی اگر کسی طرح خود قائم ہو جائے تو اس کے قائم رہنے دینے اور اس کے خلاف خروج نہ کرنے کے احکامات ضرور دیتا ہے۔دلچسپ سوال یہ ہے کہ یہ لفظ ’’خروج‘‘ایک اصطلاح کے طور پر اسلامی شریعت میں آکیسے گیا،پڑا رہتا کسی لغت میں سمٹا ہوا؟شکر ہے غامدی صاحب خروج کا انکار کرنے کی بجائے اسے بروئے کار لانے کی غلط شکل کا انکار کر رہے ہیں گویا اس کی صحیح شکل بھی یقیناًموجود ہونی چاہئے، جو واقعتا موجود ہے اور غامدی صاحب کے علم میں بھی ہے جسے میں80ء کی دہائی کے آخری برسوں میں دیئے جانے والے ان کے لیکچرز میں خود ان کی زبانی سُن چکا ہوں۔خروج کسی قسم کی حکومت کے خلاف کب ،کیوں اورکیسے ہونا چاہئے اور کب نہیں ہونا چاہئے تحقیق کا کوئی ایسا پیچیدہ موضوع نہیں ہے کہ بہت عرق ریزی سے کھنگال کر اس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے مختلف محققین مختلف نتائج پر پہنچ سکتے ہوں۔بہت سادہ سی بات ہے کہ اگر ایک اسلامی ریاست قرآن و حدیث میں بیا ن کی گئی شرائط کے مطابق تو نہ ہو، لیکن کسی طرح قبام امن ،عدالتوں میں انصاف ہونے اور شاہراہوں کے محفوظ ہونے جیسی چند یا اِسی طرح کی کچھ مزید شرائط و ضروریات کو پورا کر رہی ہو تو اہل علم اور اہل الرائے اس کے خلاف بغاوت کرنے کی بجائے اسے دیگر شعبوں میں بھی اسلامی تعلیمات و احکامات کو اپنانے کے لئے زبانی جدوجہد اور تلقین کا کام کرتے رہیں گے،لیکن اگر مسلمانوں کی کوئی حکومت قرآن و حدیث کے کسی واضح حکم کو معطل یا منسوخ کرنے کی کوشش کرے(جیسے نماز پڑھنے یا قرآن پڑھنے پر پابندی لگا نا وغیرہ)یا کفر کے نفاذ پر تُل جائے تو ایسی حکومت کے خلاف خروج (Revolt)بھی اسی صورت میں کیا جائے گا جو عسکری لحاظ سے اتنی قوت کا حامل ہو کہ اس خروج کے نتیجے میں فاسق و فاجر حکومت کو ختم کر کے اس کی جگہ صحیح اسلامی حکومت قائم کی جا سکتی ہو۔ایسا خروج بھی باقاعدہ اہلِ قیادت کے تحت جمع ہو کر کیا جا سکتا ہے،جس خروج کے بارے میںآپ ؐ نے فرمایا کہ اس کے مرتکبین حرام موت مریں گے تو یہ ایسے خروج کے بارے میں ہے جو افرادی اور عسکری قوت کے لحاظ سے اتنی استعدادنہ رکھتا ہو کہ فاسق و فاجر حکومت کو ختم کر سکے۔ناکافی وسائل کے ساتھ کمزور لوگوں کے گروہ کو طاقت ور حکومت کے خلاف لڑا دینا نہ دانائی شمار کیا گیا ہے اور نہ جہاد۔اس لئے فرمایا کہ اس کا ارتکاب کرنے والے اصل مقصد کی روح سے ناوقف و نا بلد ہیں اس لئے کمزور بنیادوں پر ایسی ناکام کوشش کر کے مسلمانوں لڑا کر مروانا نہیں چاہئے،لیکن اس کے باوجود اس کایہ مطلب نہیں ہے کہ جس حکومت کے خلاف ایسا کمزور خروج کرنے سے منع فرمایا گیا وہ اپنی اصل میں جائز اور قائم باالحق ہے۔ اپنی کتاب’’خلافت و ملوکیت‘‘میں سید مودودیؒ نے امام ابو حنیفہؒ کے حوالے سے لکھا کہ ’’مسلم معاشرے کے اندرونی نظام کو بگڑی ہوئی قیادت کے تسلط سے نکالنے کی کوشش باہر کے کفار سے لڑنے کی نسبت بدرجہا زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ایک کامیاب اور صالح انقلاب کے امکانات ہوں تو ظالم حکومت کے خلاف خروج جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے‘‘۔145ہجری میں عباسی خلیفہ منصور کے خلاف نفس ذکیہ اور نفس مرضیہّ کے خروج میں امام ابو حنفیہؒ نے خود شمولیت کی۔
بشکریہ روزنامہ پاکستان
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
فکرِ غامدی کا اصل مسئلہ
جہانگیر حنیف غامدی صاحب کو چونکہ میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے، لہذا میں...
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی
نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش،...
جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی
عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی...