اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی

Published On November 25, 2024
نظم، مراد،متکلم اور متن

نظم، مراد،متکلم اور متن

محمد حسنین اشرف   نظم:۔ پہلے نظم کی نوعیت پر بات کرتے ہیں کہ یہ کس نوعیت کی شے ہے۔ غامدی صاحب، میزان میں، اصلاحی صاحب کی بات کو نقل کرتے ہیں:۔ ۔" جو شخص نظم کی رہنمائی کے بغیر قرآن کو پڑھے گا، وہ زیادہ سے زیادہ جو حاصل کر سکے گا ، وہ کچھ منفرد احکام اور مفرد قسم...

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (3)

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (3)

مولانا مجیب الرحمن تیسری حدیث ، حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ:۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ۔ يكون في هذه الأمة بعث إلى السند والهند، فإن أنا أدركته، فاستشهدت فذلك وإن أنا رجعت وأنا أبو هريرة المحرر قد...

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (2)

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (2)

مولانا مجیب الرحمن دوسری حدیث ، حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ :۔ اس بارے میں دوسری حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس کی سند اور  راویوں پر غور فرمائیں ، امام نسائی فرماتے ہیں: أخبرنا أحمد بن عثمان بن حكيم، قال حدثنا ر كريا بن عدى، قال: حدثنا عبد الله من عمر...

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق

مولانا مجیب الرحمن غامدی صاحب کی ویب سائٹ پر موجود ایک کتاب کا مضمون بعنوان : غزوہ ہند کی کمزور اور غلط روایات کا جائزہ ایک ساتھی کے ذریعہ موصول ہوا ۔ بعد از مطالعہ یہ داعیہ پیدا ہوا کہ اس مضمون کو سامنے رکھ کر حدیث غزوہ ہند پر اپنے مطالعہ کی حد تک قارئین کے سامنے...

سرگذشت انذار کا مسئلہ

سرگذشت انذار کا مسئلہ

محمد حسنین اشرف فراہی مکتبہ فکر اگر کچھ چیزوں کو قبول کرلے تو شاید جس چیز کو ہم مسئلہ کہہ رہے ہیں وہ مسئلہ نہیں ہوگا لیکن چونکہ کچھ چیزوں پر بارہا اصرار کیا جاتا ہے اس لیے اسے "مسئلہ" کہنا موزوں ہوگا۔ بہرکیف، پہلا مسئلہ جو اس باب میں پیش آتا ہے وہ قاری کی ریڈنگ کا...

کیا مسئلہ “ربط الحادث بالقدیم” کا دین سے تعلق نہیں؟  غامدی صاحب کا حیرت انگیز جواب

کیا مسئلہ “ربط الحادث بالقدیم” کا دین سے تعلق نہیں؟ غامدی صاحب کا حیرت انگیز جواب

ڈاکٹر محمد زاہد مغل محترم غامدی صاحب سے جناب حسن شگری صاحب نے پروگرام میں سوال کیا کہ آپ وحدت الوجود پر نقد کرتے ہیں تو بتائیے آپ ربط الحادث بالقدیم کے مسئلے کو کیسے حل کرتے ہیں؟ اس کے جواب میں جو جواب دیا گیا وہ حیرت کی آخری حدوں کو چھونے والا تھا کہ اس سوال کا جواب...

محمد خزیمہ الظاہری

غامدی حلقہ انکار حدیث کی صاف تہمت سے اس لئے بچ نکلتا ہے کہ بہت سی بنیادی چیزیں (نماز کا طریقہ وغیرہ) حدیث سے نہیں بھی لیتا تو تواتر سے لے لیتا ہے. یعنی یہاں صرف مصدریت میں اختلاف ہے کہ ایک ہی چیز دو طبقے لے رہے ہیں مگر ایک حدیث سے, دوسرا تواتر سے۔

لیکن یہاں بات پوری نہیں ہوئی ہے. اصل مسئلہ یہ ہے کہ اہل سنت کے ہاں حدیث کو ماننے کے دو واضح معیار ہیں. پہلا یہ کہ حدیث کو دین میں بنیادی حیثیت حاصل ہے, اگرچہ یہ حیثیت قرآن کے بعد دوسرے نمبر پر ہی کیوں نہ مانی جائے. لیکن بہر صورت حدیث دین ہے. دوسرا یہ کہ حدیث دین ہونے کے ساتھ ساتھ دین کی تشریح و وضاحت میں بھی بنیادی حیثیت رکھتی ہے. لہذا دین کا پیراڈائم وہی ہے جو احادیث کے مطابق طے پایا ہو۔

ان دو چیزوں میں اہل سنت کے جمیع طبقات میں کوئی اختلاف نہیں ہے. رہی بات ظنی اور قطعی کی, تواتر و آحاد کی. وغیرہ وغیرہ. کہ ان میں کئی بار محدثین و فقہاء میں اختلاف پایا جاتا ہے تو ان سب اختلافات کے باوجود نہ تو کسی کے نزدیک حدیث دین سے باہر ہے اور نہ ہی دین کی تشریح میں بنیادی حیثیت سے فارغ ہوتی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ حدیث کے منکر نہ کہا جائے تو حدیث کی اس حیثیت کے بہر حال منکر ہی ہیں جو امت کے ہاں حدیث کو ہمیشہ حاصل رہی ہے. اور یہی انکار حدیث کا چور دروازہ ہے کہ حدیث کو اسکی حیثیت سے گرا دیں تو انکار کئے بغیر ہی راستہ بحال ہے۔

اب میزان میں غامدی صاحب کا طرز عمل کیا ہے ؟
شروع میں ہی قرآن و حدیث کا ایک ذیلی عنوان ہے جس میں ان احادیث کا جواب دیا گیا ہے جو علمائے اصول اور فقہاء نے اس طور پر پیش کی ہیں کہ یہ احادیث قرآن سے اضافی حکم پر مشتمل ہیں لہذا حدیث بھی دین کے احکام میں مستقل ہوئی. غامدی صاحب نے ان احادیث کو تکلّف کے ساتھ اس مفہوم پر ڈالا ہے کہ یہ بیانِ فطرت وغیرہ ہے. شرعی حکم قرآن ہی سے ثابت ہے اور بس. یہ ہے احادیث کو دین میں اصل اور مستقل حیثیت دینے سے جان چھڑانے کا رویہ اور یہ اسی طرح ہے جیسے قیاس کے منکرین قیاسی احکام کو زبردستی تکلف کے ساتھ نصوص سے ہی مستنبط کرتے ہیں جو بہت بار زبردستی کا استنباط ہوتا ہے. اسی طرح دین کا ہر مستقل حکم قرآن سے نکالنے میں تکلفانہ استدلال غامدی صاحب یا انکے حلقے کو کرنے پڑتے ہیں. تاکہ حدیث کی استقلالی حیثیت سے جان چھوٹ جائے۔

دوسری اہم چیز کنفیوژن ہے. غامدی صاحب حدیث سے متعلق لمبی چوڑی گفتگوئیں کرنے کے باوجود اس معاملے میں نہایت کنفیوژ ہیں. کیونکہ دین کو قرآن اور اعمال کے تواتر سے مکمل بھی کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف بار بار یہ بھی کہتے ہیں کہ : حدیث سے متعلق میرا موقف وہی ہے جو محدثین کا ہے. چنانچہ ایک طرف یہ کلیہ رکھا ہوا ہے کہ دین قرآن و سنت کا نام ہے. نہ کہ قرآن و حدیث کا. اور دوسری طرف یہ بہانہ بنایا ہوا ہے کہ میزان میں بارہ سو روایتیں ہیں. تا کہ انکار حدیث کی تہمت بھی نہ آئے اور حدیث کا صفایا بھی ہو جائے. ہو سکتا ہے بہت سے لوگوں کو یہ کنفیوژن نہ لگے لیکن انکے حدیث سے متعلق مضطرب اور متزلزل بیانیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ انکا سارا حلقہ حدیث کی تشریح یا حیثیت نہیں, حدیث کی حجیت پر ہی کنفیوژ ہے۔

اسکے بعد یہ سوال اکثر ہوتا رہتا ہے کہ آپ آخر حتمی طور پر غامدی صاحب کے نظریہ حدیث سے متعلق کیا کہتے ہیں ؟
ہم نے جہاں تک دیکھا پڑھا ہے. غلام احمد پرویز بھی اس مفہوم میں پکے ٹھکے منکر حدیث نہیں ہیں کہ وہ حدیث کو مانتے ہی نہیں. بلکہ مقام حدیث میں کم و بیش اسی طرح کی باتیں ہیں جیسی جدت پسند مفکرین کرتے رہتے ہیں کہ ہم حدیث کو مانتے ہیں. بس یہ اور وہ کی قید لگاتے ہیں ساتھ. وغیرہ وغیرہ. اس لئے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ لوگ حدیث کے منکر نہیں ہیں بلکہ حدیث کی اس حیثیت کے منکر ہیں جو اسے امت میں حاصل رہی ہے. لیکن اس فرق کے باوجود انکی گمراہی کسی بھی ایسے آدمی سے کم نہیں ہے جو انکار حدیث کا کھلم کھلا اقراری ہو. اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی کتب میں ہزار احادیث لکھیں یا چار ہزار. اسکے باوجود دین کی تشریح میں خود کو کسی ضابطے کے پابند نہیں سمجھتے. ماضی کے علماء و فقہاء کے اجماعات سے بڑھ کر کوئی قابل اطمینان ضابطہ نہیں ہے اور یہ اسکے بھی پابند نہیں بنے. اس لئے انکی گمراہی کی بنیاد “دین کی جدید تعبیر” ہے. جس میں مذہبی فکر کی اسطرح ری کنسٹرکشن ہوئی ہے کہ مواقف پوری تراث سے معکوس ہو گئے ہیں اور ایک نیا دین برآمد ہو گیا ہے جسکا تعلق حدیث سے بھی ثانوی ہے اور دین کی پوری تراث سے بھی ثانوی ہے۔

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…