نزول عیسی اور قرآن، غامدی صاحب اور میزان : فلسفہ اتمام حجت

Published On November 3, 2024
ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

محمد خزیمہ الظاہری دین کی ہر ہدایت کا تواتر سے منتقل ہونا ضروری نہیں ہے اور نا ہی کسی نقل ہونے والی چیز کے ثبوت کا اکلوتا ذریعہ تواتر ہے.. سب سے پہلی اصل اور بنیاد کسی بات کے ثبوت پر اطمینان ہے اور اسکے لئے ہمہ وقت تواتر کا احتیاج نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی لٹریچر کو...

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

محمد خزیمہ الظاہری منکرین حدیث جس تواتر کا چرچا کرتے ہیں یہ از خود ہمیشہ ان اخبار و روایات کا محتاج ہوتا ہے جسے ظن و آحاد قرار دے کر انکی اہمیت گھٹائی جاتی ہے۔ متواتر چیز سے متعلق جب تک روایات اور اخبار کے ذریعے سے یہ بات معلوم نا ہو کہ گزشتہ تمام زمانوں میں وہ بات...

پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

حسن بن علی

نزول عیسی کی بابت قرآن میں تصریح بھی ہے (وإنه لعلم للساعة فلا تمترن بها واتبعون، سورة الزخرف – 61) اور ایماء بھی (وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته ،سورة النساء – 159؛ ويكلم الناس في المهد وكهلا، سورة آل عمران – 46؛ أفمن كان على بينة من ربه ويتلوه شاهد منه ومن قبله كتاب موسى، سورة هود – 17؛ إن مثل عيسى عند الله كمثل آدم، سورة آل عمران – 59) اور دور جدید میں جن لوگوں نے قرآن ہی کو بنیاد بناتے ہوئے عیسی علیہ السلام کے نزول پر شبهات وارد کیے اس میں کچھ نیا نہیں.

جیسے اس ضمن میں غامدی صاحب نے اپنی کتاب میزان میں سورۃ مائدہ کی آیت 117 پیش کی ہے. “میں نے تو ان سے وہی کہا تھا جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے اور میں ان پر مطلع رہا جب تک ان میں رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھالیا تو تُو ہی ان پر نگاہ رکھتا تھااور تو ہرشے پر گواہ ہے” (البيان)
اس پر غامدی صاحب کا یہ کہنا ہے کہ “مسیح علیہ السلام اگر ایک مرتبہ پھر دنیا میں آچکے ہیں تو یہ آخری جملہ کسی طرح موزوں نہیں ہے اس کے بعد تو انہیں کہنا چاہیے کہ میں ان کی گمراہی کو اچھی طرح جانتا ہوں اور ابھی کچھ دیر پہلے انہیں اس پر متنبہ کر کے آیا ہوں” (ميزان)

أولا: کسی چیز کا عدم ذکر اس کے عدم وجود پر دلالت نہیں کرتا (عدم ذكر بالشيء لا يستلزم عدم وجوده)

ثانيا: كيا آپ خدا کو یہ بتا رہے ہیں کہ اس کا کلام کیسے ہونا چاہیے. قل هل تعلمون الله بدينكم .کیا تم اپنا دین خدا کو سکھلاتے ہو

ثالثا: اب دیکھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کے بعض احوال کے متعلق بتایا گیا اور ان میں سے یہ بھی بتا دیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں کچھ لوگ آپ کے بعد گمراہی اختیار کر لیں گے اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں استفسار کریں گےاور یہ بتایا جائے گا کہ انہوں نے آپ کے بعد گمراہی اختیار کر لی اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرمائیں گے جو حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا. آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہیں فرمائیں گے کہ ہاں اللہ تو نے دنیا میں مجھے اس بابت بتا دیا تھا کہ ميرى امت میں کچھ لوگ میرے بعد پھر جائیں گے. بالکل اسی طرح جب عیسی علیہ السلام سے ان کے لوگوں سے متعلق پوچھا جائے گا (کیونکہ وہ اپنی امت پر اسی طرح ذمہ دار بنائے گئے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر) تو وہ یہی کہیں گے کہ میرے اٹھائے جانے کے بعد مجھے میرے لوگوں کا علم نہیں حالانکہ عیسی علیہ السلام کو دوبارہ آمد پر معلوم بھی ہو جائے گا کہ ان کے بعد کچھ لوگ ان کے دین سے پھر گئے تھے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں یہ معلوم تھا کہ کچھ لوگ ان کے دین سے پھر جائیں گے

مکمل حدیث کچھ اس طرح ہے:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’لوگو! تم قیامت کے دن اللہ کے حضور ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بے ختنہ جمع کیے جاؤ گے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: “جیسے ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے۔ یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے اور ہم اسے ضرور کر کے رہیں گے ۔۔” پھر فرمایا: ’’سن لو! قیامت کے دن ساری خلقت میں سب سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ کو لباس پہنایا جائے گا۔ پھر میری امت کے کچھ لوگ حاضر کیے جائیں گے جنہیں فرشتے بائیں جانب لے چلیں گے. میں کہوں گا: یا رب! یہ تو میرے ساتھی ہیں. جواب ملے گا: آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کیا نئی باتیں نکال لی تھیں. میں اس وقت وہی کچھ کہوں گا جو اللہ کے نیک بندے (حضرت عیسٰی ؑ) نے کہا: “جب تک میں ان لوگوں ان کا حال دیکھتا رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو اس کے بعد تو ہی ان پر نگران تھا” آگے سے جواب ملے گا: جب تم ان سے جدا ہو گئے تھے تو یہ لوگ اپنی ایڑیوں کے بل اسلام سے برگشتہ ہو گئے تھے” (صحيح البخاري 4625)

دوسری آیت غامدی صاحب نے اپنی کتاب میزان میں سورة آل عمران 55 درج کی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ “یہ موقع تھا کہ قیامت تک کے الفاظ کی صراحت کے ساتھ جب اللہ تعالی وہ چیزیں بیان کر رہے تھے جو ان کے اور ان کے پیرووں کے ساتھ ہونے والی ہیں تو یہ بھی بیان کر دیتے کہ قیامت سے پہلے میں ایک مرتبہ پھر تجھے دنیا میں بھیجنے والا ہوں مگر اللہ نے ایسا نہیں کیا سیدنا مسیح کو آنا ہے تو یہ خاموشی کیوں ہے” (ميزان)

أولا: اگر غامدی صاحب کے مطابق قرآن کے کسی خاص مقام پر (بطور دلالت نظم) عیسی علیہ السلام کی آمد كا ذکر ضروری ٹھہرتا ہے، تو یہ درحقيقت ان کے اپنے متخيل نظم کی بنیاد پہ حکم سازى ہے نہ کہ قران کے نظم کو سمجھنے کی سعى.

ثانيا: زیادہ سے زیادہ اس آیت کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں پر عیسی علیہ السلام کی آمد کا نہ (صىراحة) اثبات ہے اور نہ اس کی نفی.

ثالثا: متوفي کے ايک معنى پورا پورا لینے کے ہیں ليكن اگر اس کا معنی وفات بھی کیا جائے (جیسا کہ غامدی صاحب نے کیا) تب بھی واؤ عطف ترتیب کو لازم نہیں کرتا (حرف الواو لا يدل على الترتيب بالوضع) یعنی یہ مطلب نہیں کہ وفات دینے کے بعد انہیں اٹھایا جائے گا (وفات کا ذکر مقدم کرنے کی توجیح علامہ انور شاہ کشمیری نے یہ کی ہے کہ عیسی علیہ السلام سے متعلق الوہیت کے تصور کی نفی ترجیحى بنیادوں پر کی جائے کہ جس پر موت واقع ہے ہو سکتی ہے وہ الہ کیسے ہو سکتا ہے) قرآن ہی کی ایک دوسری آیت میں رفع سے پہلے وفات کا ذکر نہیں “وما قتلوه يقينا بل رفعه الله إليه وكان الله عزيزا حكيما” (سورة النساء – 57). اگر عیسی علیہ السلام کو رفع آسمانی سے پہلے وفات دی گئی جس طرح غامدی صاحب کا ماننا ہے تو اس آیت میں ما قبل جملے پر استدراک اس چیز کا تقاضا کرتا تھا کہ وفات کو بھی ذکر کیا جاتا یعنی آیت کے الفاظ یوں ہوتے بل توفاه الله ورفعه اليه لیکن یہاں ماقبل جملے پر استدراک میں صرف ان کا اٹھایا جانا مذکور ہے.

رابعا: حقیقت تو یہ ہے کہ اگر عیسی علیہ السلام کی آمد کو مانا جائے جو کہ دیگر دلائل (قرآنية وحديثية) سے بھی ثابت ہے تو یہ آیت اپنے مفہوم میں اور واضح ہو جاتی ہے. (جس میں کہا گیا کہ میں تمہیں وفات دوں گا اور تمہیں اٹھالوں گا اور تمہیں کافروں سے پاک کر دوں گا اور جو تمہارے پیروں کو نافرمانوں پر قیامت تک غلبہ دوں گا) اب آيا ان کے اتباع سے مراد یہاں ان کے منتسبین لیے جائیں یعنی عیسائی (نصرانی) يا ان کے حقیقی پیروکار (چاہے اس وقت کے پیروکار يا بعد کے) يعنى مسلمان. غامدی صاحب کا اختیار سابق الذكر ہے لیکن راجح قول یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں متبعين سے مراد ان کے حقیقی پیروکار ہیں (والله أعلم بالصواب) چنانچہ اس غلبے کی تمہيد وہ تھی جب نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس دین حق (اسلام) كو جزیرہ نما عرب میں باطل ادیان پر غالب كر دکھایا. اسی لیے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام کے زمانے میں ایمان لانے والوں کی مدد، محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کفار پہ غلبے سے فرمائی (یعنی اسلام کو تقویت حاصل ہوئی) (الحاكم، المستدرك على الصحيحين، صحيح على شرط الشيخين). حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ قول سورة الصف كى درج ذیل آیت کی تفسیر ہے. ‘اے ایمان والو دینِ خدا کے مددگار ہو جیسے عیسٰی بن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کون ہے جو اللہ کی طرف ہو کر میری مدد کریں حواری بولے ہم دینِ خدا کے مددگار ہیں تو بنی اسرائیل سے ایک گروہ ایمان لایا اور ایک گروہ نے کفر کیا تو ہم نے ایمان والوں کو ان کے دشمنوں پر مدد دی تو غالب ہوگئے’ (سورة الصف – 14)

اسی طرح اس کی آخری کڑی وہ غلبہ ہوگا جو عیسی علیہ السلام کی دوبارہ آمد پر ان کے متبعین کو حاصل ہوگا. لہذا یہاں لفظ اتبعوا، اتباع شریعت کے ساتھ خاص نہیں بلکہ خدا کی ہدایت کی پیروی کا عنوان ہے جیسے کہا گیا “واتبع السبيل من اناب الي” و “واتبع مله ابراهيم حنيفا” کیونکہ آمد ثانی پر عیسی علیہ السلام نہ کوئی نئی شریعت لائیں گے نہ ہی محمدى شریعت کو منسوخ کریں گے. (جہاں تک کفار سے جزیے کی کی وصولی کا تعلق ہے تو عیسی علیہ السلام اسے منسوخ نہ کر سکتے اگر اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی منسوخی کا نہ بتا دیا ہوتا اور اس كا متعين وقت بعد از غلبہ عیسی علیہ السلام مع متبعین ٹھہرایا گیا ہے. اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تا قیامت رسالت کی ایک اور دلیل ہے کہ ايک حکم جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں منسوخ نہیں ہوا وہ قرب قیامت منسوخ ہوگا)

اس آخری غلبہ سے متعلق ایک حدیث حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروى ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم مسجد نبوی میں بیٹھے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا يقينا تم کہتے ہو گے کہ میں تمہارے بعد دنیا سے جاؤں گا. ہرگز نہیں بلکہ میں تم سے پہلے جانے والوں میں سے ہوں اور تم میرے پیچھے ہو جاؤ گے متفرق اس حال میں کہ تم میں سے ایک دوسرے کے درپے ہوگا. پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی کہہ دو کہ وہ اس چیز پر قادر ہے کہ تم پر عذاب بھیجے تمہارے اوپر سے یا تمہارے نیچے سے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( آيت کے) اس مقام تک پہنچے کہ ہر خبر کے لئے ایک وقت مقرر ہے اور عنقریب تم جان لو گے (سورة الأنعام – ٦٥ تا ٦٧ ). پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں ایک گروہ راہ حق پر قتال کرتا رہے گا غلبہ لیے ہوئے. اسے رسوا کرنے والوں کی رسوائی کى کوئی پرواہ نہ ہوگی اور اور نہ ہی مخالفت کرنے والوں کی مخالفت کی یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آجائے گا. پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ آل عمران کی یہی آیت تلاوت کی. (الهيثمي، مجمع الزوائد، رجاله ثقات‏‏)

لہذا روایات کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو اس آیت میں عیسی علیہ السلام کی آمد ثانی پر (بطور اشارۃ النص ) دلالت موجود ہے، جو غامدی صاحب کے بیان کردہ دلالت نظم سے زیادہ قوی ہے

نیز یہ حدیث (اقدامى) جہاد کے تصور کو (رسول کے) اتمام حجت کے ساتھ مقید کرنے والوں کی رائے کی نفی کرتی ہے. اسی مضمون پر ایک اور واضح حدیث سنن نسائی میں موجود ہے جو حضرت سلمہ بن نفیل کندی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں رسول اللہ کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! لوگوں نے گھوڑوں کو اہمیت دینا چھوڑدی ہے اور انہوں نے ہتھیار رکھ دیے ہیں اور کہنے لگے ہیں: اب جہاد نہیں رہا جنگ ختم ہوچکی ہے. رسول اللہ نے اپنا چہرۂ انور لوگوں کی طرف کیا اور ارشاد فرمایا: وہ غلط کہتے ہیں جہاد كى فرضيت تو ابھی (شديد) ہوئى ہے اور میری امت کا ایک عظیم گروہ حق (کو غالب کرنے) کے لیے لڑتا رہے گا. اللہ تعالیٰ ان سے لڑنے کے لیے بہت سے لوگوں کے دل کفر کی طرف مائل کرتا رہے گا اور اللہ تعالیٰ انہیں ان سے رزق عطا فرماتا رہے گا حتیٰ کہ قیامت قائم ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کا (غلبے والا) وعدہ پورا ہوجائے اور (جہاد کی نیت سے رکھے گئے) گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک کے لیے خیر رکھ دی گئی ہے. مجھے وحی کی گئی ہے کہ میں دنیا میں رہنے والا نہیں بلکہ عنقریب فوت ہوجاؤں گا‘ اور تم میرے بعد گروہوں میں بٹ جاؤ گے اور ایک دوسرے کی گردنیں کاٹو گے. اور (قریب قیامت فتنوں کے دور میں) ایمان والوں کا اصل مرکز شام ہوگا. (سنن النسائي 3561)

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…