مسئلہ نزولِ عیسی اور قرآن

Published On January 12, 2025
نظم، مراد،متکلم اور متن

نظم، مراد،متکلم اور متن

محمد حسنین اشرف   نظم:۔ پہلے نظم کی نوعیت پر بات کرتے ہیں کہ یہ کس نوعیت کی شے ہے۔ غامدی صاحب، میزان میں، اصلاحی صاحب کی بات کو نقل کرتے ہیں:۔ ۔" جو شخص نظم کی رہنمائی کے بغیر قرآن کو پڑھے گا، وہ زیادہ سے زیادہ جو حاصل کر سکے گا ، وہ کچھ منفرد احکام اور مفرد قسم...

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (3)

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (3)

مولانا مجیب الرحمن تیسری حدیث ، حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ:۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ۔ يكون في هذه الأمة بعث إلى السند والهند، فإن أنا أدركته، فاستشهدت فذلك وإن أنا رجعت وأنا أبو هريرة المحرر قد...

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (2)

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (2)

مولانا مجیب الرحمن دوسری حدیث ، حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ :۔ اس بارے میں دوسری حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس کی سند اور  راویوں پر غور فرمائیں ، امام نسائی فرماتے ہیں: أخبرنا أحمد بن عثمان بن حكيم، قال حدثنا ر كريا بن عدى، قال: حدثنا عبد الله من عمر...

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق

مولانا مجیب الرحمن غامدی صاحب کی ویب سائٹ پر موجود ایک کتاب کا مضمون بعنوان : غزوہ ہند کی کمزور اور غلط روایات کا جائزہ ایک ساتھی کے ذریعہ موصول ہوا ۔ بعد از مطالعہ یہ داعیہ پیدا ہوا کہ اس مضمون کو سامنے رکھ کر حدیث غزوہ ہند پر اپنے مطالعہ کی حد تک قارئین کے سامنے...

سرگذشت انذار کا مسئلہ

سرگذشت انذار کا مسئلہ

محمد حسنین اشرف فراہی مکتبہ فکر اگر کچھ چیزوں کو قبول کرلے تو شاید جس چیز کو ہم مسئلہ کہہ رہے ہیں وہ مسئلہ نہیں ہوگا لیکن چونکہ کچھ چیزوں پر بارہا اصرار کیا جاتا ہے اس لیے اسے "مسئلہ" کہنا موزوں ہوگا۔ بہرکیف، پہلا مسئلہ جو اس باب میں پیش آتا ہے وہ قاری کی ریڈنگ کا...

کیا مسئلہ “ربط الحادث بالقدیم” کا دین سے تعلق نہیں؟  غامدی صاحب کا حیرت انگیز جواب

کیا مسئلہ “ربط الحادث بالقدیم” کا دین سے تعلق نہیں؟ غامدی صاحب کا حیرت انگیز جواب

ڈاکٹر محمد زاہد مغل محترم غامدی صاحب سے جناب حسن شگری صاحب نے پروگرام میں سوال کیا کہ آپ وحدت الوجود پر نقد کرتے ہیں تو بتائیے آپ ربط الحادث بالقدیم کے مسئلے کو کیسے حل کرتے ہیں؟ اس کے جواب میں جو جواب دیا گیا وہ حیرت کی آخری حدوں کو چھونے والا تھا کہ اس سوال کا جواب...

بنیاد پرست

غامدی صاحب لکھتے ہیں :۔

ایک جلیل القدر پیغمبر کے زندہ آسمان سے نازل ہو جانے کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ لیکن موقعِ بیان کے باوجود اس واقعہ کی طرف کوئی ادنی اشارہ بھی قرآن کے بین الدفتین کسی جگہ مذکور نہیں ہے۔ علم و عقل اس خاموشی پر مطمئن ہو سکتے ہیں ؟ اسے باور کرنا آسان نہیں ہے۔

( میزان: ۷۸ اطبع سوئم )

غامدی صاحب نے لفظ توفی سے حیاتِ عیسی کے انکار کا عقیدہ تیار کیا ، پھر اس عقیدہ کے دفاع میں نہ صرف انہیں اس سے متعلق تمام احادیث کا انکار کرنا پڑا اور ساری امت کی مخالفت کرنی پڑی بلکہ نزولِ عیسی کا منکر بھی ہونا پڑا۔ اپنے نزول عیسی کے انکار کے عقیدہ کی یہ دلیل دے رہے ہیں کہ اس سے متعلق قرآن میں کوئی تذکرہ موجود نہیں ۔ ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ جب تمہاری تحقیق کے مطابق قرآن نزول عیسی کے حق یا خلاف میں کچھ نہیں بتا رہا تو پھر تم صحیح احادیث کو کیوں ردکر رہے ہو؟ یہاں تمہارے پاس کونسی نص قطعی ہے جس کی ان احادیث کو صیح مان لینے سے خلاف ورزی ہورہی ہے؟ پرویزی تو چلیں حدیث کے صریح منکر ہیں ، وہ ایسا عقیدہ رکھ بھی سکتے ہیں ۔تم تو اپنی کتابوں اور سائیٹس پر قرآن وسنت کی روشنی میں کے الفاظ سجا سجا کر لکھتے ہو۔اس سنت سے کس کی سنت مراد ہے؟ جب تمہیں اتنی متواتر اور صحیح احادیث قبول نہیں اور صرف قرآن ہی تمہاری ساری شریعت کا ماخذ ہے تو پھر اس سنت کے لفظ کو قرآن کے ساتھ سے ہٹا کیوں نہیں دیتے؟ تاکہ لوگوں کو واضح پتا چل جائے کہ یہ بھی منکرِ حدیث ہیں ۔ پھر تمہیں ان لوگوں پر اعتراض کیوں ہے جو یہ کہتے ہیں کہ غامدی مکتبہ فکر صرف اسی صحیح یا ضعیف حدیث کو مانتا ہے جو ان کی بات کی تائید کرتی ہو یا جس سے ان کو اپنے موقف کی دلیل مل سکتی ہو ، اس کے علاوہ کسی مسئلہ میں بھی صحیح سے صحیح حدیث کو بھی خاطر میں نہیں لاتا ۔ !!۔

 حقیقت یہ ہے کہ احادیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزول عیسی کے متعلق ارشادات کے علاوہ قرآن میں بھی ان کے نزول کے واضح اشارے موجود ہیں۔ مثلا قرآن میں دو جگہ ان کے بچپن اور ادھیڑ عمر میں بات کرنے کے معجزے کا ذکر ہے۔

ويكلم الناس في المهد وكهلا ومن الصالحين، اور وہ ماں کی گود میں بھی لوگوں سے باتیں کرے گا اور بڑی عمر میں بھی، اور راست باز لوگوں میں سے ہوگا ۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماں کی گود میں کلام کرنا تو ایک معجزہ تھا، ادھیڑ عمر میں تو مومن،  کافر ، جاہل ہر کوئی کلام کیا کرتا ہے، اس کو ساتھ خصوصی طور پر ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ روایات عیسی علیہ السلام کے اٹھائے جانے کی عمر تیس اور پینتیس سال کے درمیان بتاتی ہیں ، اب ادھیڑ عمر میں تبھی کلام ہو سکتا ہے جب وہ دوبارہ تشریف لائیں ، یہی انکا معجزہ ہے۔ جو لوگ یہود کی طرح ان کے بارے میں بدگمانی اور شبہ میں پڑکر ان کے دوبارہ نزول کے منکر ہو جائیں گے اس اشارہ سے انہیں بھی بتایا جارہا ہے کہ وہ قیامت کے قریب دوبارہ ضرور تشریف لائیں گے اور بڑھاپے کی عمر پائیں گے۔ اس کی وضاحت ایک اور آیت سے ہور ہی ہے۔

وانه العلم للساعة فلا تمترن بها واتبعون [الزخرف: ۲۱] اور یقین رکھو کہ وہ ( عیسی علیہ السلام ) قیامت کی ایک نشانی ہیں۔ اس لیے تم اس میں شک نہ کرو اور میری بات مانو ۔

بہت سے مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں۔ ان کی دوبارہ تشریف آوری اس بات کی نشانی ہوگی کہ قیامت قریب آگئی ہے. اس بات کی تائید صحیح احادیث بھی کر رہی ہیں۔ قرآن اس کا بھی تذکرہ کرتا ہے کہ قیامت کے قریب اہل کتاب کا ان کو دیکھ کر رد عمل کیا ہو گا ؟

وان من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته [النساء: ۱۵۸) اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اپنی موت سے پہلے ضرور بالضرور عیسی پر ایمان نہ لائے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ وتابعین کی بڑی جماعت نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ جو اہل کتاب حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کے وقت موجود ہوں گے ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ رہے گا جوان پر ایمان نہ لا ئے ۔ ( البحر المحيط : ۳۹۲٫۳ تغیر بیضاوی: ۲۵۵/۱) (یعنی بہت سے اہل کتاب کے دجال کی معیت میں ہلاک ہو جانے کے بعد باقی جو بچیں گے،وہ سب ایمان لائیں گے۔ ( احسن )۔

غامدی مکتبہ فکر عقیدہ حیات نزول مسیح کی قرآن و احادیث کی واضح تائید کو جھٹلا کر محض اپنے گھڑے ہوئے عقید و پر بضد ہے۔ اگر ان کے اس عقیدہ کہ “عیسی علیہ السلام کو مردہ آسمان پر اٹھالیا گیا تھا “کو صحیح بھی مان لیا جائے تو سوال یہ ہے کہ اگر ان کے عقیدہ کے مطابق واقعی عیسی علیہ اسلام کی لاش آسمانوں پر اٹھائی گئی ہے تو وہ دنیا میں کب آئے گی ؟ حشر کا میدان تو زمین پر لگے گا ، اس دن خاتم الانبیاء سمیت سب انسان اپنی انہی قبروں سے اٹھیں گے، کیا عیسی آسمان پر زندہ کیے جائیں گے اور اللہ اور فرشتوں کے ساتھ آسمان سے نازل ہوں گے ؟؟؟ قرآن میں اس کی تصریح یا اشارہ کہاں ہے؟ عقیدہ حیات و نزول عیسیٰ کو عیسائیوں سے درآمد شدہ کہنے والے خود نہ صرف حیات عیسی کے متعلق نصاری کے عقیدہ پر ایمان لائے ہوئے ہیں بلکہ انہیں الوہیت عیسی کے بھر پور دلائل بھی فراہم کر رہے ہیں۔ “سکالر اسلام” کی دورخی کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف صاحب پرانے صحائف میں موسیقی کے تذکرے کی آیات کی تصدیق قرآن میں موجود داؤد علیہ السلام کے زبور پڑھنے کی آیات سے کرتے ہیں اور انہیں قرآن سے موسیقی کا اشارہ کہتے اور پرانے صحائف میں موجود موسیقی کے متعلق آیات کو ان کی وضاحت کہہ کر موسیقی کو جائز قرار دیتے ہیں ، دوسری طرف نزول عیسی علیہ السلام کے بارے میں انجیل اور قرآن میں موجود واضح دلائل کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں ۔ کتاب مقدس کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:۔

اور جب  وہ زیتون کے پہاڑ پر بیٹھا تھا، اس کے شاگردوں نے الگ اس کے پاس آکر کہا ہم کو بتا کہ یہ باتیں کب ہوں گی ؟ اور تیرے آنے اور دنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہوگا ؟ یسوع نے جواب میں ان سے کہا خبردار کوئی تم کو گمراہ نہ کر دے۔ کیونکہ بہتیرے میرے نام سے آئیں گے اور کہیں گے میں مسیح ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے ۔ ( متی ۴۲-۳-۱۵)۔

کیا ” افرأيت من اتخذ الهه هواه ” جیسی آیات کا مصداق غامدی صاحب جیسے لوگ نہیں ؟

منکر حیات و نزول مسیح کے بارے میں علمائے امت کی رائے:۔

ہمارے ہاں قادیانی مسائل پر کی گئی پاکستان و ہندوستان کے جید علماء کی تحقیقات ہر دوسرے مذہب کے مسئلہ پر کی گئی تحقیقات سے زیادہ ہیں، ہزاروں علماء نے جانی و مالی قربانیوں کے ساتھ قادیانی دلائل اور شبہات کے معقولی و منقولی انداز میں جوابات دے کر اپنے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا انتظام کیا، ختم نبوت کے متعلق ایک ایک بات کو پرکھا ، تولا گیا ہے، اس پر ہر رخ سے دلائل دیے گئے۔ ہزاروں صفحات کی سینکڑوں کتا بیں موجود ہیں۔ مرزا قادیانی چونکہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی حیات و نزول کا بھی منکر تھا، اس لیے اس مسئلہ پر بھی پہلے سے کافی تحقیق موجود ہے، جس سے یہ واضح ہے کہ عقیدہ حیات و نزول مسیح کا منکر نہ صرف متواتر احادیث کا انکار کرتا ہے بلکہ قرآنی دلائل کو بھی جھٹلاتا ہے۔ بر صغیر کے علماء نے قرآن وسنت کی روشنی میں عیسی علیہ السلام کے آسمانوں پر زندہ ہونے اور دوبارہ تشریف لانے کے منکر کو کا فر قرار دیا  ہے۔ اس کے لیے عرب کے بڑے علماء سے بھی رائے لی گئی اور شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ جیسے عرب شیوخ نے بھی اس فتوی کی تائید کی۔ خطرناک صورتحال یہ ہے کہ غامدی صاحب قادیانیوں ، پر ویزیوں کی طرح اس مسئلہ میں بھی اپنی کم علمی ، جدت پسندی اور گمراہی کی وجہ سے نہ صرف خود کفر کی طرف جا رہے ہیں بلکہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ کی ایک بڑی اکثریت کو بھی اپنے ساتھ لیے جار ہے ہیں۔!!۔

 

 

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…