مرتد کی سزائے قتل سے انکار

Published On October 22, 2024
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...

عبد اللہ معتصم

یہ بات اسلامی قانون کے کسی واقف کار آدمی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اسلام میں اس شخص کی سزا قتل ہے جو مسلمان ہوکر پھر کفر کی طرف لوٹ جائے۔ ہمارا پورا دینی لٹریچر شاہد ہے کہ قتل مرتد کے معاملے میں مسلمانوں کے درمیان کبھی دورائے نہیں پائی گئیں۔ نبیصلی اللہ علیہ وسلم، خلفائے راشدین، کبار صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ان کے بعد ہر صدی کے علمائے شریعت کی تصریحات کتابوں میں موجود ہیں۔ ان سب کو جمع کر کے دیکھ لیجیے۔ آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ دور نبوت سے لے کر آج تک اس مسئلے میں ایک ہی حکم مسلسل ومتواتر چلاآرہا ہے اور کہیں اس شبہ کے لیے کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی کہ شاید مرتد کی سزا قتل نہ ہو۔ غامدی صاحب نے ایسے ثابت شدہ مسائل میں بھی روشن خیالی سے متاثر ہوکر اختلافی بحث کا دروازہ کھولا اور امت کے اس اجتماعی موقف سے انکار کر کے مرتد کی سزا کے بارے میں یہ امتیازی رائے اختیار کی۔ ملاحظہ ہو: ”ارتداد کی سزا کا یہ مسئلہ محض ایک حدیث کا مدعانہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ ابن عباس کی روایت ہے۔ ”من بدل دیناً فاقتلوہ“ (کہ جو شخص اپنا دین تبدیل کرے اسے قتل کر دو۔) ہمارے فقہاء بالعموم اسے ایک عام حکم قرار دیتے ہیں۔ جس کا اطلاق ان کے نزدیک ان سب لوگوں پر ہوتا ہے جو زمانہ رسالت سے لے کر قیامت تک اس زمین پر کہیں بھی اسلام کو چھوڑ کر کفر اختیار کریں گے۔ ان کی رائے کے مطابق ہر وہ مسلمان جو اپنی آزادانہ مرضی سے کفر اختیار کرے گا، اسے اس حدیث کی رو سے لازماً قتل کر دیا جائے گا۔ اس معاملے میں اگر ان کے درمیان کوئی اختلاف ہے تو بس یہ کہ قتل سے پہلے اسے توبہ کی مہلت دی جائے گی یا نہیں اور اگر دی جائے گی تو اس کی مدت کیا ہونی چاہیے۔

مزید لکھتے ہیں: ”لیکن فقہاء کی یہ رائے کسی طرح صحیح نہیں۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم توبے شک ثابت ہے۔ مگر ہمارے نزدیک یہ کوئی حکم عام نہ تھا۔ بلکہ صرف انہی لوگوں کے ساتھ خاص تھا۔ جس میں آپ کی بعثت ہوئی… ہمارے فقہاء کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے قرآن وسنت کے باہمی ربط سے اس حدیث کامدعا سمجھنے کی بجائے اسے عام ٹھہرا کر ہر مرتد کی سزا موت قرار دی اور اس طرح اسلام کے حدود وتعزیرات میں ایک ایسی سزا کا اضافہ کیا جس کا وجود ہی اسلامی شریعت میں ثابت نہیں۔“ (برہان ص139تا143)

جاوید غامدی صاحب کی اس متفردانہ رائے کے جواب میں مولانا مودودی صاحب کی عبارت پیش کرتے ہیں، جن سے بقول پروفیسر مولانا محمد رفیق صاحب ”غامدی بہت متأثر تھے اور کئی سال ان کی جماعت کے کارکن رہے۔“ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے مرتد کی سزا پر اعتراضات کرنے والوں کے جواب میں لکھا ہے: ”ذرائع معلومات کی کمی کی وجہ سے جن لوگوں کے دلوں میں شبہ ہے کہ شاید اسلام میں مرتد کی سزا قتل نہ ہو اور بعد کے ”مولویوں“ نے یہ چیز اپنی طرف سے اس دین میں بڑھادی ہو۔ ان کو اطمینان دلانے کے لیے میں یہاں مختصراً اس کا ثبوت پیش کرتا ہوں۔ قرآن میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ الصَّلاَةَ وَآتَوُاْ الزَّکَاةَ فَإِخْوَانُکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَنُفَصِّلُ الآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُون، وَإِن نَّکَثُواْ أَیْْمَانَہُم مِّن بَعْدِ عَہْدِہِمْ وَطَعَنُواْ فِیْ دِیْنِکُمْ فَقَاتِلُواْ أَئِمَّةَ الْکُفْرِ إِنَّہُمْ لاَ أَیْْمَانَ لَہُمْ لَعَلَّہُمْ یَنتَہُون﴾․ (سورہ توبہ، آیت:12-11)

یہ آیت سورہ توبہ میں جس سلسلے میں نازل ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ 9/ہجری میں حج کے موقع پر الله تعالیٰ نے اعلان برأت کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس اعلان کا مفاد یہ تھا کہ جو لوگ اب تک خدا اور اس کے رسول سے لڑتے رہے ہیں اور ہر طرح کی زیادتیوں اور بدعہدیوں سے خدا کے دین کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ان کو اب زیادہ سے زیادہ چار مہینے کی مہلت دی جاتی ہے۔ اس مدت میں وہ اپنے معاملے پر غور کرلیں۔ اسلام قبول کرنا ہو تو قبول کر لیں، معاف کر دیے جائیں گے۔ ملک چھوڑ کر نکلنا چاہیں تو نکل جائیں۔ مدت مقررہ کے اندر ان سے تعرض نہ کیا جائے گا۔ اس کے بعد جو لوگ ایسے رہ جائیں جنہوں نے نہ اسلام قبول کیا ہو اور نہ ملک چھوڑا ہو، ان کی خبر تلوار سے لی جائے گی۔ اس سلسلے میں فرمایا کہ اگر وہ توبہ کر کے ادائے نماز وزکوٰة کے پابند ہو جائیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں۔ لیکن اگر اس کے بعد وہ پھر اپنا عہد توڑ دیں تو کفر کے لیڈروں سے جنگ کی جائے۔ یہاں عہد شکنی سے مراد کسی طرح بھی سیاسی معاہدات کی خلاف ورزی نہیں لی جاسکتی۔ بلکہ سیاق عبارت صریح طور پر اس کا معنی ”اقرار اسلام سے پھر جانا“ متعین کر دیتا ہے اور اس کے بعد ﴿فقاتلوا ائمة الکفر﴾ کا معنی اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کہ تحریک ارتداد کے لیڈروں سے جنگ کی جائے۔“ (مرتد کی سزا اسلامی قانون میں، مولانا مودودی ص2،3)

یہ تو تھا قرآن کا حکم، احادیث کا بھی ایک بڑا ذخیرہ ہے۔ جس میں مرتد کی سزا قتل ہی تجویز کی گئی ہے۔ صرف ایک حدیث پر اکتفا کرتے ہیں۔ حضرت عبدالله بن عباس کی روایت ہے: ”من بدل دیناً فاقتلوہ“جو مسلمان اپنا دین بدل دے اسے قتل کردو۔ (بخاری رقم:6922)

یہ حدیث حضرت ابوبکر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت عبدالله بن عباس، حضرت خالد بن ولید اور متعدد دوسرے صحابہ کرام سے مروی ہے اور تمام معتبر کتب حدیث میں موجود ہے۔

غامدی صاحب نے اس مسئلہ میں قادیانیوں اور دیگر فتنہ پرور مرتدوں کو محفوظ راستہ دینے کے لیے بالکل ایک الگ، انوکھا اور امتیازی مذہب اختیار کیا۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…