فہم نزول عیسی اور غامدی صاحب

Published On October 27, 2024
قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

محمد خزیمہ الظاہری منکرین حدیث جس تواتر کا چرچا کرتے ہیں یہ از خود ہمیشہ ان اخبار و روایات کا محتاج ہوتا ہے جسے ظن و آحاد قرار دے کر انکی اہمیت گھٹائی جاتی ہے۔ متواتر چیز سے متعلق جب تک روایات اور اخبار کے ذریعے سے یہ بات معلوم نا ہو کہ گزشتہ تمام زمانوں میں وہ بات...

پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...

حسن بن علی

غامدی صاحب نے بشمول دیگر دلائل صحیح مسلم کی حدیث (7278، طبعہ دار السلام) کو بنیاد بناتے ہوئے سیدنا مسیح کی آمد ثانی کا انکار کیا ہے. حدیث کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ رومی اعماق یا دابق (حلب کے قريب دو مقامات) میں اتریں. ان کی طرف ان سے لڑنے گے لئے ایک لشکر (دمشق سے) روانہ ہوگا اور وہ ان دنوں زمین والوں میں سے نیک لوگ ہوں گے جب وہ صف بندی کریں گے تو رومی کہیں گے کہ تم ہمارے اور ان کے درمیان دخل اندازی نہ کرو جنہوں نے ہم میں سے کچھ لوگوں کو قیدی بنا لیا ہے ہم ان سے لڑیں گے مسلمان کہیں گے نہیں اللہ کی قسم ہم اپنے بھائیوں کو تنہا نہ چھوڑیں گے کہ تم ان سے لڑتے رہو بالآخر وہ ان سے لڑائی کریں گے بالآخر ایک تہائی مسلمان بھاگ جائیں گے جن کی اللہ کبھی بھی توبہ قبول نہ کرے گا اور ایک تہائی قتل کئے جائیں گے جو اللہ کے نزدیک افضل الشہداء ہوں گے اور تہائی فتح حاصل کرلیں گے انہیں کبھی آزمائش میں نہ ڈالا جائے گا پس وہ قسطنطنیہ کو فتح کریں گے جس وقت وہ آپس میں مال غنیمت میں سے تقسیم کر رہے ہوں گے اور ان کی تلواریں زیتون کے درختوں کے ساتھ لٹکی ہوئی ہوں گی تو اچانک شیطان چیخ کر کہے گا، تحقیق مسیح دجال تمہارے بال بچوں تک پہنچ چکا ہے وہ وہاں سے نکل کھڑے ہوں گے لیکن یہ خبر باطل ہوگی. جب وہ شام پہنچیں گے تو اس وقت دجال نکلے گا. اسی دوران کہ وہ جہاد کے لئے تیاری کر رہے ہوں گے اور صفوں کو سیدھا کررہے ہوں گے کہ نماز کے لئے اقامت کہی جائے گی اور عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے اور مسلمانوں کی نماز کی امامت کریں گے پس جب اللہ کا دشمن انہیں دیکھے گا تو وہ اس طرح پگھل جائے گا جس طرح پانی میں نمک پگھل جاتا ہے اگرچہ عیسیٰ اسے چھوڑ دیں گے تب بھی وہ پگھل جائے گا یہاں تک کہ ہلاک ہوجائے گا لیکن اللہ تعالیٰ اسے عیسیٰ کے ہاتھوں سے قتل کرائیں گے پھر وہ لوگوں کو اس کا خون اپنے نیزے پر دکھائیں گے۔ صحیح مسلم (7278)

غامدى صاجب کے نزدیک اس حدیث میں فتح قسطنطنیہ کے بعد (دجال کے خروج اور) عیسی علیہ السلام کی آمد ثانی کا ذکر ہے اور چونکہ فتح قسطنطنیہ 857 ہجری میں سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں ہو چکی اور اس وقت سے لے کر اب تک نہ دجال نکلا اور نہ ہی عیسی علیہ السلام کا نزول ہوا لہذا ایسی بات جو کہ واقعاتی طور پہ درست نہ ہو وہ نبی کی بات کیوں کر ہو سکتی ہے. غامدی صاحب کے نزدیک اصل میں یہ رسول اللہ کا خواب تھا، اور خواب میں چونکہ اشیاء تمثیلی ہوتی ہیں نیز وقتی قید سے ماورا ہوتی، ان کو غلط طور پہ حقیقی واقعہ سمجھا اور بیان کیا جانے لگا. لہذا ان کے ہاں نزول عیسی سے مراد عیسائیت کے ہاں ان مشرکانہ تصورات کا خاتمہ اور توحید کا دوبارہ بول بالا ہے جسے بالعموم عیسائیت نے ترک کر دیا تھا.

أولا: اس اشکال سے پہلے غامدی صاحب نے اس باب سے متعلق صحیح مسلم ہی كى ایک اور حدیث (7333) پر غور کرنا (اور اس پیش کرنا) مناسب نہیں سمجھا جس میں اس امر کی صراحت موجود ہے کہ خروج دجال اور نزول عیسی اس فتح قسطنطنیہ سے متعلق ہے جو کہ بزور شمشیر نہیں بلکہ بغیر جنگ کیے ہوگی. حدیث (7333) کے الفاظ اس بابت واضح ہیں، فلم يقاتلوا بسلاح ولم يرموا بسهم یعنی نہ تو وہ اسلحے سے لڑیں گے نہ وہ تیر اندازی کریں گے. جبکہ سلطان محمد فاتح کے زمانے میں قسطنطنیہ کی فتح بزور شمشیر ہوئی تھی. اسی طرح ترمذی میں حضرت انس سے روایت ہے کہ فتح قسطنطنیہ کا وه واقعہ (جو علامت کبری میں سے ہے) اس کا ظہور قیامت کی دیگر نشانیوں کے ساتھ ہوگا (جامع الترمذى 2239). جاننا چاہیے کہ روایات یہ نہیں بتا رہی کہ قسطنطنیہ ایک ہی دفعہ فتح ہوگا بلکہ جب آخری دفعہ فتح ہوگا تو یہ واقعہ قیامت کی بڑی نشانیوں کے ساتھ ملحق ہوگا. جیسے امام ترمذی (المتوفى 279 ہجری) علامات خروج دجال کے تحت لکھتے ہیں قسطنطنیہ خروج دجال کے وقت فتح ہوگا اور يہ شہر نبى کے بعض صحابہ کے زمانہ میں ایک بار فتح ہوچکا ہے. یعنی آخری فتح (جو علامت کبری میں سے ہے) سے پہلے اس علاقے کا مسلمانوں کے قبضے میں آنا اور دوبارہ ہاتھ سے نکل جانا روایات کے مخالف نہیں بلکہ روایات تو اس سے تعرض ہی نہیں کر رہیں. روایات میں تو کہیں نہیں کہ قسطنطنیہ کی فتح کا واقعہ قیامت تک صرف ایک ہی دفعہ رونما ہوگا. لہذا فتح قسطنطنیہ جو کہ بطور علامات کبری روايات میں مذكور ہے وہ باقی علامات کبری (خروج الدجال ونزول عيسى) کے ساتھ ملحق ہے اور متعلقہ روایات پر غور کیا جائے تو یہ فتح بڑی جنگ يعنى الملحمه الكبرى (Armageddon) کے عقب میں اور امام مہدی كى آمد کے بعد ہوگی

ثانيا: غامدی صاحب کا یہ فرمانا کہ دراصل یہ نبی کا خواب تھا جسے صحابہ واقعاتی امر سمجھنے لگے تو یہ بات کسی درجے میں اس وقت تو لائق التفات ہو سکتی تھی جب کسی ایک صحابی نے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سنا ہو اور سننے میں یا سمجھنے میں غلطی لگ گئی ہو اور بعد میں اسی صحابی سے دیگر صحابہ نے نقل کیا ہو (کیونکہ صحابی ایک دوسرے کا حوالہ دیے بغیر حدیث بیان کر لیا کرتے تھے) لیکن جب ہم ذخیرہ احادیث کو دیکھتے ہیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست سننے والوں میں ایک سے زائد صحابہ موجود تھے .

1. حديث حذيفه بن أسيد الغغاري، أخرجه مسلم في صحيحه. طرف الحديث… ونزول عيسى
2. حديث نواس بن سمعان، أخرجه مسلم في صحيحه. طرف الحديث… إذ بعث الله المسيح ابن مريم فينزل عند المنارة البيضاء شرقي دمشق
3. حديث جابر بن عبد الله، أخرجه مسلم في صحيحه وأحمد في مسنده. طرف الحديث… فينزل عيسى ابن مريم عليه السلام فيقول أميرهم: تعال فصل، فيقول
4. حديث عثمان بن أبي العاص، أخرجه أحمد في مسنده. طرف الحديث… وينزل عيسى ابن مريم عليه السلام عند صلاة الفجر
5. حديث مجمع بن جارية الأنصاري، رواه ترمذي. طرف االحديث… يقتل ابن مريم الدجال بباب لد
6. حديث كيسان بن عبد الله بن طارق، أخرجه البخاري في تاريخه وابن عساكر في تاريخ دمشق.طرف الحديث… ينزل عيسى ابن مريم بشرقي دمشق عند المنارة البيضاء
7. حديث واثلة بن الأسقع، رواه الطبراني والحاكم. طرف الحديث… ونزول عيسى
8. حديث أبي هريرة، رواه ابن عساكر. طرف الحديث… يهبط عيسى ابن مريم فيصلي الصلوات وحديث أبي هريرة أخرجه ابن حبان في صحيحه. طرف الحديث… وينزل عيسى ابن مريم فيؤمهم فإذا رفع من الركوع قال: سمع الله لمن حمده قتل الله الدجال وأظهر المؤمنين

یہ صحابہ میں سے وہ راویان ہیں جنہوں نے نزول عیسی سے متعلق حدیث کو بصیغہ سمعت (بتصريح السماع) روایت کیا ہے یعنی انہوں نے براہ راست یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی اور سب نے اسے ایک واقعاتی حقیقت کے طور پر بیان کیا ہے. اور ان احاديث میں نہ صرف عیسی علیہ السلام کا اترنا مذکور ہے، بلکہ ان کا کلام کرنا، ان کا نماز پڑھنا، ان کا دجال کو قتل کرنا بھی مذکور ہے، الغرض تمام ایسے امور ہیں جو کہ فاعل کو مستلزم ہیں

ثالثا: واضح رہے کہ غامدی صاحب دجال کو بطور تمثیل نہیں بلکہ فرد مانتے ہیں اور اس ضمن میں انہوں نے صحیح مسلم کی حدیث (7286) اپنی کتاب میزان میں نقل کر رکھی ہے لیکن اس کے برعکس عیسی علیہ السلام کو بطور فرد ماننے پر تیار نہیں جبکہ نزول عیسی کی حدیث (7285) اس سے ما قبل صحیح مسلم ہی میں موجود ہے. آخر ان کے پاس اس خود ساختہ تفریق کی کیا دلیل ہے (دجال کو فرد ماننے جبکہ عیسی علیہ السلام کو تمثیل ماننے کی کیا دلیل ہے)

رابعا: غامدى صاحب نے نزول عیسی کی بابت احادیث کا (رواية ) رد نہیں کیا (شاید انہیں بھی اس بابت تواتر کا اندازہ ہے اور وہ اپنے لیے منکر حدیث کہلوانا پسند نہیں کرتے) لیکن جو نزول عیسی کی تاویل غامدی صاحب نے کی ہے وہ تاویل نہیں بلکہ تحریف ہے. کیونکہ یہ ایسے الفاظ ہیں جن کا مصداق نہ صرف یہ کہ مفہوم ہے بلکہ متعین ہے لہذا لفظ کو اس کے مفہوم اور متعین مصداق سے ہٹانا تاویل نہیں بلکہ تحریف ہے، بخلاف ان احادیث میں مذکور تلوار ونیزہ وغيرهما کے بارے میں تو (ایک رائے کے مطابق) یہ کہا جا سکتا تھا کہ ان كا مصداق مفہوم (آلہ قتل) كى صورت تو طے ہے لیکن متعین (معروف شکل كا آلہ) ہونا اگرچہ راجح ضرور ہے البتہ حتمى نہیں، اس صورت کہ اس وقت وہ مسمی وجود ہی نہیں ركھتا تھا جس کے لیے کوئی اسم تجویز کیا جاتا لہذا شارع نے لوگوں کی عقل کے مطابق ان كو مخاطب کیا

خامسا: اس سے ملتی جلتی بات (تحريف) اس سے پہلے مرزا غلام احمد قادیانی صاحب بھی کر چکے ہیں (تشابهت قلوبهم) جن کے نزدیک عیسی ابن مریم سے مراد عین وہی عیسی نہیں جو مریم کے بیٹے تھے وه جن پر انجیل اتری بلکہ اس سے مراد مثل عیسی ہیں یعنی وہ جو اپنی صفات میں عیسی ابن مریم جیسا ہو لیکن پھر مرزا صاحب نے اس کا مصداق بھی خود کو ہی ٹھہرایا اور یہیں پر بس نہیں کیا بلکہ خود کو عیسی ابن مریم سے بھی افضل قرار دیا. (يمدهم في طغيانهم يعمهون)

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…