حسن بن علی
ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى
ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے۔
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
دین کے غلبے کے لیے متعلقہ نصوص معلوم ہونا ضروری ہیں اور متعلقہ نصوص سے ہی استدلال کیا جانا چاہیے جیسے آیت اقيموا الدين سے دین کی سياسى بالادستی قائم کرنے کے لیے استدلال بر محل نہیں. کیونکہ یہ آیت (کسی تفصیل میں جائے بغیر) خدا کے ہدایت نامے کو اپنانے کی بات کر رہی ہے (الإيمان بما يجب تصديقه والطاعة في أحكام الله تعالى وبه قال غير واحد من المفسرين) اور اگر اس کی مزيد تحلیل کی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کا ہدایت نامہ اپنے مشمولات کے لحاظ سے عقائد و اعمال دونوں پر مشتمل ہے اور اعمال میں سے ایک عمل دین کے غلبے کے لیے کی جانے والی کوشش بھی ہے. لہذا اس آیت کے فہم كو صرف اعمال اور اعمال میں سے بھی صرف ایک عمل يعنى دین کی بالادستی کے لیے کی جانے والی کوشش تک محدود کر دینا قطعا درست نہیں (یعنی ایک کلى حقیقت کو ایک جز وى حكم تک محدود کر دینا چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اقامت دین کی اصطلاح جو اپنے اندر ایک عموم رکھتی تھی وہ محض دین کے سیاسی غلبے کے لیے استعمال ہونے لگی) حالانکہ آیت ایک وسیع مفہوم رکھتی ہے لیکن یہ لازم نہیں کہ دلیل کی غلطی سے مدلول يعنى غلبہ دین كى سعى بھی باطل ٹھہرے جبکہ اس مدلول کے حق میں دوسرے دلائل بھی موجود ہوں. ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ بے محل استدلال کی وجہ سے مدلول (غلبہ دین كى سعى) کى درست مطلوبہ حيثيت کا صحیح تعین نہ ہو پائے جس کی طرف مولانا وحید الدین خان نے اپنی کتاب ‘تعبیر كى غلطی’ میں فى الجملہ درست نشاندہی کی اور مولانا مودودی کی کتاب ‘چار بنیادی اصطلاحات’ كا تعاقب كيا اور مولانا مودودی كے ہاں تقاضے يا مظهر کو اصل کے طور پر بیان کرنے اور اسے اصل کا مقام دینے کی درست نشاندہی کی (اسی طرح مولانا ابو الحسن علی ندوی نے اپنی کتاب ‘عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح’ اور مولانا منظور نعمانی نے اپنی کتاب ‘مولانا مودودی کے ساتھ میری رفاقت کی سرگزشت اور اب میرا موقف’) لیکن مولانا وحيد الدین خان بھی اپنے رد میں متوازن نہ رہ سکے اور عبادت کے خارجی مظاہر خصوصا دين كى سياسى بالادستی کے مطالبے کو ہلکا کر کے دکھلایا بلکہ مولانا وحيد الدین خان کا ارتقائی سفر یہیں رکا نہیں اور بالآخر وه اس سعی کو ہی دين ميں ايک غير مطلوب عمل قرار دینے لگے يعنى تعبیر کی غلطی کے بعد وہ غلطی پر غلطی کرتے چلے گئے. حالانکہ دين كا سياسى تمكن ہی دین كى حفاظت کا ضامن ہے اور دعوت دین کے لیے وسیلہ بھی (اور حفاظت دین ان پانچ بنیادی مقاصد میں سے ہے جس کے گرد شریعت کے تمام احکام گھومتے ہیں اسی طرح اسلام کے بعض وہ احکام جن میں بظاہر جبر کا گماں ہوتا ہے ان سے بھی مقصود دراصل حفاظت دین ہے جیسے کہ قتل مرتد کا مسئلہ یا گستاخ رسول کی سزا کا معاملہ یا مبارک مقامات ميں غير مسلموں كو بطور شہری مستقل سکونت نہ دینے کا فيصلہ) اسى طرح دين كا سياسى تمكن، نصرت دین كى انتہائی صورت ہے اور قرآن پاک میں لفظ نصرت اپنی دونوں حالتوں یعنی اسم اور فعل کے لحاظ سے بکثرت استعمال ہوا ہے جو کہ اس عمل کی اہمیت بتلانے کے لیے کافی ہے۔
اسى طرح مولانا مودودی کا دین کے سیاسی غلبے کو اس آیت کے ذریعے مدلل کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسے نئی بات سمجھا جانے لگا اور اس کو بنیاد بنا کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئى جیسے اس ایک دلیل کو ڈھا دینے سے سارا مدلول از خودگر جائے گا جبکہ اس مدلول کے دیگر قوى دلائل بھی موجود ہوں. غامدی صاحب نے بھی اپنے مضمون ‘تاویل کی غلطی’ ميں اصلا اسى كو ہدف تنقید بنایا ہے تاہم ‘میزان لیکچر سیریز’ میں ان کی طرف سے یہ اشكال وارد كرنا کہ مسلم اجتماعیت سے متعلقہ احکام مسلمانوں پر تب لاگو ہیں جب مسلمان برسر اقتدار ہوں اگر مسلمان برسر اقتدار نہیں تو باحیثیت بننے کی کوشش بھی ان کے ذمے نہیں بالکل اسی طرح جس طرح زکوۃ تب لاگو ہوتی ہے جب مال نصاب کو پہنچے، رہا مال کو نصاب تک پہنچانا تو یہ کسی کے ہاں بھی ضروری نہیں. اس ضمن ميں یاد رہے کہ اگر کسی چیز کے وجوب کا دآرومدار دوسری چیز پر ہو تو اس چیز کی تحصیل واجب نہیں جیسے زکوۃ کے وجوب کا دارومدار زکوۃ کے نصاب کے مکمل ہونے پر ہے تو ایسے میں نصاب کو پورا کرنا ضروری نہیں ٹھہرایا جائے گا لیکن اگر کسی واجب کے پورا ہونے کے لیے کسی چیز کا ہونا ضروری ہو تو ایسی چیز کی تحصیل بھی واجب ہوتی ہے جیسے اقامت صلاۃ، زکوۃ کے نظام، امر بالمعروف نہی عن المنکر، حدود کا قیام، ان سب کے لیے امام عادل کا ہونا ضروری ہے لہذا غلبہ دین یا جن کا غلبہ ہو ان کی دینداری ضروری ٹھہرتى ہے. غامدی صاحب نے دونوں چیزوں کو ایک جیسا دکھا کر خلط مبحث کیا ہے حالانکہ دونوں اصول علیحدہ علیحدہ ہیں اور آئمہ اصول دونوں قاعدوں کے مابین فرق واضح کرتے چلے آئے ہیں (يوجد فرق بين القاعدتين ما لا يتم وجوب الواجب الا به فهو غير واجب وما لا يتم الواجب الا به فهو واجب فافهم) یاد رہے کہ ‘تعبیر كی غلطی’ میں مولانا وحید الدین خان نے اگرچہ اہل الحل والعقد کے لیے نصب امام عادل کو ضروری قرار دیا ہے لیکن اگر اہل الحل والعقد (اثر و رسوخ والے) ہی اس راه کی رکاوٹ ہوں تو اس صورت میں عامة الناس کى کیا ذمہ دارى ہے اس پہ مولانا نے خامہ فرسائی نہیں فرمائی۔
اور اگر بات کی جائے دین کے غلبے کے خارجی توسیعى پہلو كى يا دوسرے لفظوں میں جہاد طلب يا اقدامى جہاد (ابتدائى يا ہجومی يا مصلحانہ) كى تو اس کے حوالے سے سورۃ توبہ كى آیت 9 بہت اہم ہے. آيت کا ترجمہ کچھ اس طرح سے ہے:
“اے ایمان والو! ان کافروں سے جہاد کرو جو تمہارے قریب ہیں اور وہ تم میں سختی پائیں اور جان رکھو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے”
اب اس آیت میں مخاطب نبی نہیں بلکہ براہ راست اہل ایمان ہيں ورنہ اس حکم کو بھی نبی سے متعلق ٹھہرایا جا سکتا تھا لیکن اس میں بھی غامدی صاحب نے یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ یہاں کافروں سے مراد منافقین ہیں حالانکہ يہ لفظ ‘من الكفار’ کے مدلول کے ساتھ صريحا روگردانی ہے. اگر یہ آیت منافقین ہی سے متعلق ہے تو یہاں پر جہاد کی بجائے قتال کا لفظ استعمال ہوا ہے چنانچہ پھر وہ یہ بھی واضح کر ديتے تھے کہ منافقین سے قتال کب کیا گیا۔
اسى طرح دین کے غلبے کے توسیعی پہلو کے حوالے سے سورۃ توبہ کی آیت 29 جس کا ترجمہ کچھ اس طرح سے ہے:
“جنگ کرو ان سے
وہ جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے
اور وه (جو) آخرت پر ایمان نہیں لاتے
اور وہ (جو) اللہ اور اس کے رسول کی حرام ٹھہرائی ہوئی چیزوں کو حرام نہیں ٹھہراتے
اور وہ (جو) دین حق کو نہیں اپناتے يعنى اہل کتاب
یہاں تک کہ وہ مغلوبیت کے اظہار میں جزیہ ادا کریں”
آیت کی ایک تفسیر تو یہ کی گئی کہ اس آيت ميں اہل کتاب کے چار اوصاف بیان ہوئے ہیں کہ وہ اللہ پر ایمان نہیں لاتے وہ اخرت پر ایمان نہیں لاتے وہ اللہ اور اس کے رسول کی حرام ٹھہرائی ہوئی چیزوں کو حرام نہیں ٹھہراتے اور دین حق کو نہیں اپناتے. مزيد یہ کہ ‘من الذين أوتوا الكتاب’ كى تاويل ميں بعض نے ‘من’ کو تفسیریہ يا بیانیہ مانا ہے اور بعض نے تبعیضیہ جنہوں نے اسے بیانیہ مانا ہے ان کے نزدیک یہاں جمیع اہل کتاب کی بات ہو رہی ہے کہ جمیع اہل کتاب کے ہاں یہ چار اوصاف پائے جاتے ہیں اور جنہوں نے اسے تبعیضیہ مانا ہے ان کے نزدیک یہ اہل کتاب میں سے بعض کے متعلق بات ہو رہی ہے کہ اہل کتاب میں سے وہ جن کے ہاں یہ چار اوصاف پائے جاتے ہیں. حاصل کلام یہ کہ اس تفسیر کے مطابق اس آیت میں صرف اہل کتاب سے قتال کا حکم ہے یہاں تک کہ وہ جزیہ دینے پر آمادہ ہو جائیں.
ایک دوسری تفسیر جو علامہ ابن عاشور کا اختیار ہے (اور راجح معلوم ہوتی ہے) اس کے تحت یہ ایک ہی صنف کے چار اوصاف کا بیان نہیں بلکہ چار مختلف صنفوں کا بیان ہے جسے واؤ عطف کے تحت جمع کیا گیا ہے اور اسم موصول کو بار بار ذکر کرنے کی بجائے حرف عطف پر اقتصار کیا گیا ہے. یعنی ایک صنف ان لوگوں کی ہے جو کہ اللہ پر ایمان نہیں لاتے دوسری صنف ان لوگوں کی ہے جو کہ آخرت پر ایمان نہیں لاتے تیسرے صنف ان لوگوں کی ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی حرام ٹھہرائی ہوئی چیزوں کو حرام نہیں ٹھہراتے اور چوتھی صنف ان لوگوں کی ہے جو کہ دین حق کو نہیں اپناتے یعنی اہل کتاب (‘من’ بیانیہ ہے جو کہ بدل مطابق کا معنی رکھتا ہے، اس بیان کا فائدہ یہ ہے کہ یہ واضح ہو جائے کہ اہل کتاب جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لاتے تو وہ صحیح دین پر نہیں) اس تفسیر کے مطابق ان تمام اصناف سے علیحدہ علیحدہ قتال کا حکم ہے یہاں تک کہ وہ اپنا زیر دست ہونا باور کروائیں۔
ایک چیز جس میں دو رائے نہیں کہ سرزمین عرب میں مشرکین کے لیے جزیے کے حق کو نہیں مانا گیا اور سرزمین عرب کو بالآخر توحید کے لیے خاص کر لیا گیا (بالآخر اہل کتاب کےحق میں بھی یہی معاملہ کیا گیا حتى لايجتمع فيه دينان) چنانچہ سورة توبہ کا آغاز ہی ان کے اس حق کو کلعدم کرنے کے بیان سے ہوتا ہے رہا یہ سوال کہ سرزمین عرب سے باہر مشرکین کے ساتھ کیا معاملہ کیا جانا چاہیے. کیا ان کے لیے جزیے کا اختیار موجود ہے یا ہر صورت انہیں بھی مشرکین عرب کی طرح اسلام نہ لانے کی صورت جنگ کا سامنا ہوگا۔
پہلی تفسیری رائے کے نتیجے کے طور یہ کہا جا سکتا ہے کہ جزیے کا حق بحكم قرآن، اہل کتاب کے لیے اور بحكم سنت، مجوس اور مشركين کے لیے أصلا ثابت ہے يا قياسا (إما نصا بحديث: فإذا لقيت عدوا من المشركين فادعهم إلى ثلاث خصلال يعنى جب تمہارا سامنا دشمن مشرک سے ہو تو انہیں تین طرح کے اختیارات دو ایک یہ کہ اسلام قبول کر لیں یا جزیہ دینے پر آمادہ ہو جائیں یا جنگ کے لیے تیار ہو جائیں، صحيح مسلم -١٧٣١ أو إما بقياس المشركين على المجوس لحديث: أخذها من مجوس هجر یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر کے مجوسیوں پر جزیہ عائد کیا، صحيح البخاري – ٣١٥٦)
دوسری تفسیری رائے کے مطابق قرآن ہی سے عرب سے باہر مشرکین کے لیے اس حق کو تسليم كرنے کا جواز موجود ہے.
لیکن دونوں میں سےکسی فريق کے ہاں بھی مشرکین اور اہل کتاب سے قتال اور اسی طرح ان کو جزیہ دینے پر مجبور کرنا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دور کے مشرکین اور اہل كتاب کے ساتھ خاص نہیں.
جبكہ مولانا وحید الدین خان صاحب اور غامدی صاحب (تشابهت قلوبهم) دونوں کے نزدیک مشرکین اور اہل کتاب سے قتال اور اسی طرح ان کو جزیہ دینے پر مجبور کرنا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دور کے مشرکین اور اہل کتاب سے متعلق ہے نہ کہ دائمی حکم.
جیسے مولانا وحید الدین خان صاحب لکھتے ہیں “رسول اللہ کے خلاف جارحیت کرنے والے مشرکین بنو اسماعیل بھی تھے اور اہل کتاب بنو اسرائیل بھی مگر دونوں کے ساتھ الگ الگ معاملہ کیا گیا مشرکین کے ساتھ جنگ یا اسلام کا اصول اختیار کیا گیا مگر اہل کتاب کے لیے حکم ہوا کہ اگر وہ جزیہ (سیاسی اطلعت) پر راضی ہو جائیں تو انہیں چھوڑ دو اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ مشرکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصلا مخاطب تھے اور اہل کتاب طبعا. اللہ کی سنت یہ ہے کہ جس قوم پر پیغمبر کے ذریعے براہ راست دعوت پہنچائی جاتی ہے اس سے اتمام حجت کے بعد زندگی کا حق چھین لیا جاتا ہے ٹھیک ویسے ہی جیسے کسی ریاست میں ایک شخص کے باغی ثابت ہونے کے بعد اسے زندگی کا حق چھین لیا جاتا ہے مگر جہاں تک دوسرے گروہوں کا تعلق ہے ان کے ساتھ وہی سیاسی معاملہ کیا جاتا ہے جو عام بین الاقوامی اصول کے مطابق درست ہو” (تذکیر القران)
اسی طرح غامدی صاحب لکھتے ہیں “اوپر مشرکین کی سزا بیان ہوئی ہے کہ ايمان نہ لائیں تو قتل کر دیے جائیں. یہ ان اہل کتاب کی سزا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے باوجود آپ کی دعوت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے. یہ رعايت اس لیے دی گئی کہ اہل کتاب اصلا توحید ہی سے وابستہ تھے اس میں شبہ نہیں کہ وہ بھی مشرک تھے مگر بنی اسماعیل کی طرح انہوں نے شرک كو دین اور عقیدے کی حیثیت سے اختیار نہیں کیا تھا. قرآن نے دوسری جگہ واضح کر دیا ہے کہ لوگ مشرک نہ ہوں تو قیامت میں بھی اسى طرح رعایت کے مستحق ہوں گے یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ قران کا یہ حکم بھی اس کے قانون اتمام حجت کی ایک فرع اور انہی اقوام کے ساتھ خاص تھا جن پر خدا کے اخری پیغمبر کی طرف سے حجت پوری ہو گئی. ان کے لیے یہ اسی طرح کا ضابطہ جو رسولوں کی تکذیب کے نتیجے میں ان کے مخاطبین پر ہمیشہ نازل کیا جاتا رہا ہے. ان کے بعد اب دنیا کے کسی غیر مسلم سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے” (البيان)
ليكن جاننا چاہیے کہ حکم علت کے ساتھ متعلق ہے نہ کہ اس وقت کے مخصوص مخاطبین کے ساتھ لہذا جب تک علت باقى ہے حکم بھی باقى سمجھا جائے گا اور اقدامى جہاد کی منصوص غير صريح علت اہل کفر كى سركشى واستكبار (عقیدے میں كفر وشرک اور عمل میں سرکشىى واستكبار) ہے لہذا قتال کا ہدف اس کى كمر توڑنا بیان کیا گیا ہے.
1) حتى يعطوا الجزية عن يد وهم صاغرون – کہ وہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں
2) حتى تضع الحرب أوزارها – یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار رکھ دے
3) حتى لا تكون فتنة – یہاں تک کہ کوئی فساد باقی نہ رہے
اسی ہدف کو مثبت طور پہ قرآن میں “ويكون الدين كله لله” يعنى سارا دین اللہ ہی کا ہو جائے اور حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا “لتكون كلمة الله هي العليا” – كوئى اس لیے لڑا کہ اللہ کا کلمہ سب سے اونچا ہو۔
………………………………………………………………….
اور اقدامى جہاد كى غایت یہ ہے (يا يہ جبر اس لیے روا رکھا گیا) کہ دعوت کے لیے ایسے ماحول کی یقین دہانی جس میں مخلوق خدا کے لیے یہ موقع فراہم کر دیا جائے کہ دین ان تک نہ صرف یہ کہ اپنی اصل حالت میں پہنچ سکے بلکہ وہ اپنے انتخاب كو بغیر کسی خارجی جبر کے بروئے کار لا سکیں۔