غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 88)

Published On April 22, 2024
پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)

حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...

مولانا واصل واسطی

پانچویں بات اس سلسلے میں یہ ہے ۔ کہ جناب نے جوکچھ اوپر مبحوث فیہ عبارت میں لکھا ہے اس کاخلاصہ یہ ہے کہ   ہم اس  فہرستِ سنت میں سے جس کا ذکر قران مجید میں آیا ہے ۔ اس کے مفہوم کاتعین ان روایات ہی کی روشنی میں کرتے ہیں محض قران مجید پراکتفاء نہیں کرتے جیسا کہ بعض بزعمِ خودمفکرینِ قران نے کیاہے ۔۔  مگرہم کہتےہیں کہ اگرایساواقعی ہوتاتوپھرہم لوگ بقولِ غالب

 کیا خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیکن جناب غامدی نے جگہ جگہ اس اصول کاستیاناس کیا ہوا ہے ۔ اس کی ایک مثال پیشِ خدمت ہے ۔ سب احباب کو معلوم ہے کہ جناب غامدی سنت کے نقل میں تواتر واجماع کا ہی زیادہ پروپیگنڈا کرتے ہیں ۔ اسی چیز کی بنیاد بنا پر وہ بہت سارے شرعی احکام کی تردید بھی کرتے رہتے ہیں ۔ اب ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ آپ دورصحابہِ کرام وتابعین میں کسی معتبر شخص کے متعلق یہ بتائے کہ ان کامذہب یہ تھا کہ کسی شخص کا بیوی کے ساتھ روزے کے دوران میں جماع کرنے سے بھی اس پرکفارہ لازم نہیں آتا ہے ؟  اس بات میں تو اختلاف موجود ہے کہ روزے کے دوران کھانے اورپینے سے کفارہ لازم آتا ہے یانہیں ؟ کچھ آیمہِ کرام اس کے لزوم کے قائل ہیں  اور کچھ  اس کے قائل نہیں ہیں ۔ مگر جماع کے متعلق توکفارے پر اجماع ہے ۔ کوئی آدمی خواہ مخواہ مجتہد بنناچاہتا ہو   تو وہ یہ کہے کہ چونکہ سیدناسلمہ بن صخر بیاضی والی حدیث میں آیا ہے کہ جب اسے کفارہ کی استطاعت نہیں تھی ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف کردیا تھا   لہذااب بھی اس عذر کی بناپرکسی مجبور کو معاف کیاجاسکتا ہے ۔ اگر یہ بات کوئی کرلے تواس میں کوئی قباحت موجود نہیں ہے  مگر کفارہ دینے کے متعلق صرف” بہتر ہے ”  لکھنا سراسر بے خبری یا خود پرستی ہے ۔ دیکھئے احناف کے مشہور محقق کاسانی افطاربالجماع کے متعلق لکھتے ہیں کہ “ولاخلاف فی وجوب الکفارة علی الرجل بالجماع والاصل فیہ حدیث الاعرابی وہو ماروی ان اعرابیا جاء الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقال یارسول اللہ ہلکت واہلکت فقال ماذا صنعت ؟ قال واقعت امرءتی فی نہارِرمضان متعمدا وانا صائم فقال اعتق رقبة ” ( البدائع والصنائع ج 2 ص 253)  اس عبارت میں سب احباب دیکھ سکتے ہیں کہ کاسانی ” لاخلاف فی وجوب الکفارة ”  کے الفاظ لکھتے ہیں ۔ یعنی جوآدمی رمضان میں روزے کے دوران بیوی سے جماع کرتا ہے   تو اس پرکفارہ کے واجب ہونے میں کوئی اختلاف موجود نہیں ہے ۔ ممکن ہےکوئی محقق صاحب ان بعض آثارِصحابہ وتابعین سے جناب کے موقف کے لیے استدلال کریں  جو امام بخاری نے االجامع الصحیح میں نقل کیے ہیں ۔ مگر اس کے متعلق عرض یہ ہے  کہ ان آثار میں جماع کا لفظ موجود نہیں ہے فقط افطار کی بات ہے ۔ جس سے ظاہر ہے کہ اکل وشرب سے افطار ان کا مقصود تھا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ بالفرض اگر زور زبردستی وہ لوگ افطار بالجماع کا مفہوم ان آثار سے کشید کریں تو پھر ہم کہیں گے کہ یہ آثار محض  قضاء سے متعلق ہیں اس لیے کہ اس کے قضاء میں اختلاف موجود ہے ۔ کفارہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ حافظ الدنیا لکھتے ہیں “والذی یظہرلی ان البخاری اشاربالاثارالتی ذکرہا الی ان ایجاب القضاء مختلف فیہ بین السلف وان الفطر بالجماع لابد فیہ من الکفارة ۔ واشار بحدیث ابی ہریرة الی انہ لایصح لکونہ لم یجزم بہ عنہ وعلی تقدیر صحتہ فظاہرہ یقوی قول من ذہب الی عدمِ القضاء فی الفطر بالاکل بل یبقی ذالک فی ذمتہ زیادة فی عقوبتہ لان مشروعیةالقضاء تقتضی رفع الاثم لکن لایلزم من عدم القضاء عدم الکفارة فیما ورد فیہ الامروہوالجماع”( فتح الباری ج4 ص 202 ۔203) یہ توایک شبہے کاازالہ تھا جوہو گیا الحمدللہ ۔ اب جناب غامدی کی تحقیق اورمذہب دیکھ لیں  ۔لکھتے ہیں” جان بوجھ کرروزہ توڑ لینا ایک بڑاگناہ ہے ۔ اس طرح کی کوئی چیز آدمی سے سرزد ہوجائے تو بہتر ہے کہ وہ اس کا کفارہ اداکرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے ایک شخص کووہی کفارہ بتایا جوقران مجید نے ظہار کےلیے مقرر کیاہے تاہم روایت سے واضح ہے کہ جب اس نے معذوری ظاہر کی تو آپ نے اس پراصرارنہیں فرمایا ” ( میزان ص 368) اس عبارت میں دو باتیں جناب نے کی ہے (1) ایک بات یہ ہے کہ پہلے تو جناب نے لکھا ہے کہ کفارہ اداکرنا “بہتر ہے ” یعنی واجب نہیں ہے مستحب ہے ۔ (2) اور دوسری بات یہ ہے کہ آخر میں لکھا ہے” جب اس شخص نے معذوری ظاہر کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پراصرار نہیں کیا “۔ اس بات سے غالبا جناب کفارے کاعدمِ وجوب ثابت کرناچاہتے ہیں ۔ اگرایساہے تو پھر یہ دلیل علم کی نہیں بلکہ جہالت کی دلیل ہے ۔ کیونکہ معذوری سے کسی حکم کے ترک کرنے سے اگر اس کاعدمِ وجوب لازم آتاہے   تو پھر جناب غامدی کو یہ فتوی دینا چاہئے کہ ساری عورتوں اور مریضوں اورمسافروں پر نمازاور روزہ واجب نہیں ہے کیونکہ ان کے اعذار ہوتے ہیں ۔ اس سے جناب کی شہرت بھی ہوجائے گی ۔ اور تہذیب کے فرزندوں کو سہولت بھی مل جائے گی  جو بقولِ نادرعقیل انصاری جناب غامدی کا مقصودِ اولین ہے ۔(6) پانچویں بات تو یہ تھی کہ بعض افراد اس اصول سے باہرہوگئے ہیں   یعنی یہ اصول اپنے افراد کےلیے جامع نہیں ہے ۔6 چھٹی بات اس مورد میں دیکھ لیں کہ یہ اصول مانع عن دخول الغیر نہیں ہے ۔ جو بات اس قانون کے مطابق ثابت نہیں ہے   ان کو بھی جناب نے اس میں شامل کیاہے ۔یہاں ہم اس بات کی تحقیق نہیں کرتے کہ کونسا مذہب ادلہ کی بنیاد پر راجح ہے اورکونسا مذہب مرجوح ہے ؟ اوروجوہ ترجیح کیاہیں ؟ ہمارامقصود صرف یہ ہے کہ جناب کا کہنا ہے کہ ہم ان الفاظ کا تعین بھی روایات کی مدد سے ہی کرتے ہیں جو اس ” سنت ” کے متعلق قران میں وارد ہوتے ہیں ۔ اس بات کی فقط ایک مثال سماعت فرمالیں ۔ اس عبارت کا حاصل یہ ہوا کہ ایک ” سنت ۔” مثلا زکات کن کن اشیاء میں واجب اورلازم ہوگی؟ اس بات کا تعین یہ لوگ قران سے نہیں کریں گے   بلکہ اس سنت سے کریں گے جوبالتواتر والاجماع منقول ہے ۔  اب جب ان لوگوں کا مذہب یہ ہے کہ   سنتِ متواتر   سے  یہ ان کا تعین کریں گے   تو یہ لوگ محنت کرکے ذرا ہمارے سامنے وہ روایات نکال کر پیش کریں   جو اموالِ تجارت ۔ یا لعل وجواہر ۔ یاکرائیے والے اشیاء کے متعلق وارد ہیں ؟ ہزار محنت وجتن سے بھی آپ اسے دورِصحابہِ کرام میں ثابت نہیں کرسکتے ۔ پھر آپ کے اس اصول کا کیا معنی ہوا کہ اس کا تعین بھی سنتِ متواتر ہی کے ذریعے کرتے ہیں؟   کیادورصحابہ کوچھوڑ کرکوئی   سنت   بھی ہوسکتی ہے ۔متواتر کو تو دور چھوڑیئے؟ اگر آپ اس اصول کی پاسداری کرتے تو پھر آپ کو چاہئے تھا کہ دورصحابہ میں جن چیزوں کے ہوتے ہوئے بھی ان پر زکات کے حکم کو لاگو نہیں کیا گیا مثلا کرایہ کے مکان وغیرہ اور تجارت کے سامان ودیگراشیاء جواس دور میں بتصریحِ تاریخ موجود تھے   مگران پر زکات کی بات کہیں بھی موجود نہیں ہے ۔ تو اب آپ لوگوں کو اس اصول کے مقتضی کے مطابق ان سے ہاتھ اٹھالیناچاہئے تھا ۔ مگر آپ ادھر  اموال کے لفظ کی عمومیت سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ اپنے اصول کی بالکل پروا نہیں کرتے ۔ جناب غامدی لکھتے ہیں کہ” زکات کاقانون مسلمانوں کے اجماع اور تواترِ عملی سے سے ہم تک پہنچا ہے ۔ اس کے سمجھنے میں فقہاء کے اختلافات سے قطع نظر کرکے اگر شریعت میں اس کی اصل کے لحاظ سے دیکھاجائے توہم اسے طرح بیان کرسکتے ہیں ۔(1) پیداوار ۔تجارت۔ کاروبار کے ذرائع ۔ ذاتی استعمال کی چیزوں اورحدِنصاب سے کم سرمائے کے سوا کوئی چیز بھی زکات سے مستثنی نہیں ہے” ( میزان ص 348)   ‌ ۔ یہاں یہ بتانا ضروری تھا اس بات کے دلائل ضروری تھے کہ جن چیزوں میں آپ زکات کے قائل ہیں ان کو صحابہ وغیرہ سے نقل کرتے ۔مگر جناب نے موردِبحث سے حیدہ کرکے زکات کے اصل پربات شروع کی ہے ۔  ہماری اس مذکورہ اوپر کی بات کو کوئی شخص فقہاء کے اختلافی مسائل میں نہیں ڈال سکتا ۔  کیونکہ ہم کسی فقیہ کی بات نہیں کررہئے ہیں ۔ ہم تو یہ کہ رہے ہیں کہ جب زکات سے کوئی بھی مال مستثنی نہیں ہے  سوائے ذاتی استعمال کی اشیاء اورنصاب سے کم مال کے ۔ تو ہم پوچھتے ہیں کہ صحابہ کرام اس فلسفہ کے قائل تھے کہ زکات سے کوئی مال مستثنی نہیں ہے یانہیں تھے ؟ اگر قائل تھے توانہوں نے اس پر عمل کیاتھا یا نہیں کیاتھا ؟ اوراگر عمل کیا تھا تو آپ تجارتی اشیاء ۔ لعل وجواہروغیرہ ۔ اورکرائے کی چیزوں کے متعلق روایات ان سے منقول روایات پیش کریں ۔ اگر وہ اس بات کے سرے سے قائل نہیں تھے  تو  بات ختم ہوگئی ۔ اوراگر اس کے قائل  تھے مگر اس پر عمل نہیں کیا تھا تو حکومتِ وقت نے اس کے خلاف جنگ کیوں نہیں کی ؟ اور اگر عمل کیا تھا مگر وہ روایتیں منقول نہیں ہوئی  یاہم تک نہیں پہنچی ہیں   تو اس بات کے صرف منکرینِ حدیث ہی قائل ہوسکتے ہیں ۔ ہم جیسے لوگ اس کے قائل نہیں ہوسکتے ۔ لہذا آپ کو یا تواس بات کی دلیل دینی ہوگی   یا پھریہ بات چھوڑنی ہوگی کہ سب تواتر واجماع سے منقول ہے   اس لیے کہ یہ بات خلافِ واقع ہے ۔ اوردین کے مدعی خلافِ واقع باتوں سے ہمیشہ پرہیز کرتے ہیں  ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…