غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 81)

Published On April 15, 2024
اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی

اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی

محمد خزیمہ الظاہری غامدی حلقہ انکار حدیث کی صاف تہمت سے اس لئے بچ نکلتا ہے کہ بہت سی بنیادی چیزیں (نماز کا طریقہ وغیرہ) حدیث سے نہیں بھی لیتا تو تواتر سے لے لیتا ہے. یعنی یہاں صرف مصدریت میں اختلاف ہے کہ ایک ہی چیز دو طبقے لے رہے ہیں مگر ایک حدیث سے, دوسرا تواتر سے۔...

انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط لگانا روافض و خوارج کی ایجاد ہے۔ اہل علم نے ہمیشہ اس موقف کی تردید کی ہے۔ ان اہل علم کا تعلق صرف اہل ظاہر سے نہیں بلکہ ان میں کثرت سے مذاہبِ اربعہ کے فقہاء بھی شامل ہیں۔ چنانچہ امام بخاری نے اپنی...

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

محمد خزیمہ الظاہری دین کی ہر ہدایت کا تواتر سے منتقل ہونا ضروری نہیں ہے اور نا ہی کسی نقل ہونے والی چیز کے ثبوت کا اکلوتا ذریعہ تواتر ہے.. سب سے پہلی اصل اور بنیاد کسی بات کے ثبوت پر اطمینان ہے اور اسکے لئے ہمہ وقت تواتر کا احتیاج نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی لٹریچر کو...

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

محمد خزیمہ الظاہری منکرین حدیث جس تواتر کا چرچا کرتے ہیں یہ از خود ہمیشہ ان اخبار و روایات کا محتاج ہوتا ہے جسے ظن و آحاد قرار دے کر انکی اہمیت گھٹائی جاتی ہے۔ متواتر چیز سے متعلق جب تک روایات اور اخبار کے ذریعے سے یہ بات معلوم نا ہو کہ گزشتہ تمام زمانوں میں وہ بات...

پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

مولانا واصل واسطی

رسولوں کے اتمامِ حجت کے خود ساختہ قاعدے کے متعلق ہم نے ان حضرات کے چاراصولوں کا تجزیہ گذشتہ مباحث میں کرکے دکھایا ہے کہ ان چار باتوں سے اس مدعا کا اثبات قطعا نہیں ہوتا ۔ آج اس سلسلے کی آخری اصول کے بابت ہم بات کرنا چاہتے ہیں ۔ اس بات کو ہم تین شقوں میں بیان کرسکتے ہیں (1) پہلی شق یہ ہے کہ ان لوگوں کے نزدیک  جب کوئی رسول اپنی قوم پر حجت پوری کرلیتا ہےتو اگر اس رسولِ خدا کے ساتھی کم ہو ں تو پھر اس قوم پر آسمانی عذاب کا نزول ہوجاتا ہے اور اس کے ذریعے ان لوگوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔ ورنہ اس رسولِ خدا کے ساتھیوں کے ذریعے ان کاصفایا ہوجاتا ہے ۔ہم اس سلسلے میں  پہلی بات ان لوگوں سے یہ پوچھتے ہیں کہ اتمامِ حجت سب رسولوں کا ایک جیسے ہوتا ہے یا پھر ان میں فرق ہوتا ہے ؟ اگر یہ لوگ جواب میں کہتے ہیں کہ ان میں فرق ہوتا ہے  تو پھر ہم ان  لوگوں سے اس فرق کےلیے شرعی اور منصوص دلیل کا مطالبہ کریں گے ۔ اور ساتھ ہی یہ بات بھی پوچھیں گے کہ وہ فرق کس لحاظ سے ہے ؟ اگر اس لحاظ سے ہے کہ کسی رسول نے سب مردوں کو پیغام پہنچایا تھا اور ان پراتمامِ حجت کیا تھا ۔ اورکسی رسول نے فقط بعض مردوں کو پیغام پہنچایا تھا اوران پر اتمامِ حجت کیا تھا ۔ تو ہم اس فرق کے لیے ان سے شرعی اور منصوص دلیل کامطالبہ کریں گے ۔ اور اگر وہ کہتے ہیں کہ بعض رسولوں نے  مردوں اور عورتوں سب پر اتمامِ حجت کیا تھا اوربعض دیگر نے فقط مردوں پر اتمام حجت کیا تھا ۔ تو ہم اس فرق کے لیے ان سے شرعی اورمنصوص دلیل کا مطالبہ کریں گے ۔ اوراگرایسا کوئی فرق رسولوں کے اتمامِ حجت کے باب میں نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے  تو پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ کسی قوم کو عذاب دینے کے وقت عورتوں اوربچوں کا بھی خاتمہ کیا جاتا ہے اور بعض وقت صرف مردوں کو ہدف بنایا جاتا ہے ۔ انہیں ختم کیاجاتا ہے ؟ اب دیکھو نوح علیہ السلام ۔ لوط علیہ السلام ۔ شعیب علیہ السلام ۔ صالح علیہ السلام ۔ وغیرہ کے قوموں کی بربادی اورتباہی میں عورتوں اوربچوں کو بھی ساتھ شامل کیا گیاہے ۔ مگر موسی علیہ السلام ۔ عیسی علیہ السلام ۔ اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوموں کے عذاب میں عورتوں اور بچوں کو مستثنی کیا گیا ہے ۔ اس فرق کا قران اورحدیث کو پڑہنے والے سب حضرات کو پتہ ہے ۔ ہمیں اس کے لیے دلائل دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی(2) دوسری شق یہ ہے کہ جناب غامدی نے فرعون اور اس کے لشکر کا دریا میں غرق ہونے کو بھی سیدنا موسی علیہ السلام کے اتمامِ حجت کرنے کا نتیجہ قرار دیا ہے ۔ جیساکہ لکھا ہے” موسی علیہ السلام کاقصہ بھی اسی دینونت کی سرگذشت ہے ۔ فرعون اوراس کے اعیان واکابر کے سامنے جب انہوں نے اپنی دعوت پیش  کی ۔ اور وہ اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے توانہوں نے مطالبہ کیا کہ اپنی قوم کے ساتھ وہ اس سرزمین سے ہجرت کرنا چاہتے ہیں  انہیں جانے دیا جائے ۔فرعون نے جس طرح ان کی دعوت قبول نہیں کی ۔ اسی طرح ان کا یہ مطالبہ بھی ماننے سے انکار کردیا ۔اس پر اللہ تعالی نے پے درپے تنبیہات نازل کیں ۔ جن کے نتیجے میں وہ بڑی مشکل سے آمادہ ہوا کہ چند روز کے لیے انہیں جانے دے لیکن جب موسی علیہ السلام اپنی قوم کو لے کر روانہ ہوئے تواس کی نیت بدل گئی ۔ اوراپنی فوجوں کے ساتھ ان کے تعاقب میں نکل کھڑاہوا ۔ اس کاخیال تھا کہ وہ انہیں مجبور کرکے واپس لے آئے گا ۔ مگراب فیصلے کا وقت آچکا تھا ۔ لہذا یہ فیصلہ صادر ہوا ( میزان ص 168) لطف کی بات احباب کے لیے اس مبحث میں یہ ہے   کہ اس عبارت سے متصل ماقبل جناب نے اپنے مدعا کے لیے سورہِ ابراہیم کی یہ آیت پیش کی ہے “الم یاتیکم نبئؤا الذین من قبلکم قوم نوح وعاد وثمود والذین من بعدہم ۔ لایعلمہم الا للہ ۔جاءتہم  رسلہم بالبینات فردوا ایدیہم فی افواہہم وقالواانا کفرنا بماارسلتم بہ وانا لفی شک مماتدعوننا الیہ مریب قالت رسلہم افی اللہ شک فاطرالسموات والارض یدعوکم لیغفرلکم من ذنوبکم ویؤخرکم الی اجل موسی ۔ قالوا ان انتم الا بشر مثلنا تریدون ان تصدونا عماکان یعبد آباؤنا فاتونا بسلطن مبین قالت لہم رسلہم ان نحن الابشرمثلکم ولکن اللہ یمن علی من یشاء من عبادہ وماکان لنا ان ناتیکم بسلطن الاباذن اللہ ( وقال الذین  کفروا لرسلہم لنخرجنکم من ارضنا اولتعودن فی ملتنا فاوحی الیہم ربہم لنہلکن الظالمین ) ولنسکننکم الارض من بعدہم ذالک لمن خاف مقامی وخاف وعید” ( ابراہیم 14۔9) اب اس آیت میں ان کے مدعا کا سرے سے کوئی بات ہی موجود نہیں ہے ۔ اس میں تو ہمارا مدعا صریح الفاظ میں موجود ہے کہ مختلف قوموں نے اپنے اپنے رسولوں پر ظلم وستم کو روارکہاہے ۔ اس کانتیجہ ان پر عذاب کی شکل میں آیا ہے ۔ احباب اس اوپردرج آیات میں صرف قوسین کے اندر محصور الفاظ ہی دیکھ لیں۔ تب بھی انہیں ہماری اس بات کایقین آجائے گا   کہ اللہ تعالی نے ان قوموں کو ظالم قرار دے کر انہیں ہلاک کرنے کی بات کی ہے ۔ جناب غامدی کی جو عبارت اس آیت سے اوپر درج ہے  وہ جھوٹ کا پلندہ ہے ۔ نہ فرعون نے سیدنا موسی  علیہ السلا م کو بنی اسرائیل لے جانے کی اجازت دی تھی اورنہ وہ پھر اس اجازت پر پشیمان ہوا تھا ۔ یہ سب بائیبل کے اکاذیب ومفتریات ہیں ۔ جن کو جناب غامدی قرانی حقائق کی طرح ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ قران سے تو معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالی نے سیدناموسی علیہ السلام کو یہ حکم دیاتھا کہ اپنی قوم کولے کر رات کو نکل جائیں ” ولقد اوحینا الی موسی ان اسر بعبادی “( طہ 77) اگرفرعون کی جانب سے اجازت ہوتی تو پھر رات کو نکلنے کی کیا وجہ تھی ؟ اور پھر ساتھ اسی آیت میں” ولاتخشی ” بھی فرمایا ہے اور سورہِ شعراء میں تو فرمایا ہے کہ “واوحینا الی موسی ان اسربعبادی انکم متبعون” (الشعراء 52) ۔ اور پھر یہ چند ۔۔ روز ۔۔ والی بات بھی فی الحقیقت غلط ہے ۔ کیا سیدناموسی علیہ السلام نے فرعون سے چند روز کی اجازت طلب کی تھی ؟ پھرکیا وہ کوئی اپنے والدین اوراقربا سے ملنے کسی شہر یا گاؤں کی طرف جارہے تھے ؟ قران نے تو فرمایا ہے کہ “ولقد فتنا قبلہم قوم فرعون وجاءہم رسول کریم ان ادّوا الیّ عباداللہ انی لکم رسول امین “(الدخان 18۔17) ااس میں چند روز کی بات کہاں ہے؟ یہ تو خیر ضمنی باتیں تھیں  جو جناب کی اوپر درج عبارت کے حوالے سے ہوئیں ۔ ہم کہنا یہ چاہ رہئے تھے کہ قران مجید میں سیدناموسی علیہ السلام کی تمام سرگذشت کو باربار مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی دعوت کا بنیادی ہدف فرعون اور اس کے درباریوں کو دین سمجھانا اور پہنچانا تھا ۔  باقی مصر میں اور فرعون کے علاوہ اس کی قوم اور فوج میں اس حوالے سے سیدنا موسی علیہ السلام کی کوئی حرکت اورکوئی کوشش سامنے نہیں آتی ۔ ہاں جادوگروں کا واقعہ البتہ اس سے مستثنی ہے کہ اس کا انتظام بھی فرعون نے کیا تھا ۔ تو سوال یہ ہے کہ ان تمام لوگوں پراتمامِ حجت کدھراور کیسے قائم ہوا جو فرعون کے ساتھ دریا میں غرق ہوگئے ؟ یا پھر فرعون پراتمامِ حجت ان سب پر بھی اتمامِ حجت ہے ؟ اس بات کے مستند دلائل درکارہیں ۔ (3) تیسری شق اس حوالے سے یہ ہے کہ یہ حضرات مشرکینِ مکہ پر عذاب کا نزول نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کے ہاتھوں سے سمجھتے ہیں اور پھر اس کوغزوہِ بدرسے شروع کرتے ہیں ۔ اور فتحِ مکہ پر اس کو ختم کرتے ہیں ۔ دیکھ لیجئے جناب غامدی لکھتے ہیں ” چنانچہ خدا کی نصرت آئی ۔ مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم ہوئی ۔ بدر کامعرکہ ہوا اور قریش کی قیادت میں آپ کی دعوت کے تمام معاندین اس میں ہلاک ہوگئے ۔ ابولہب نے اس عذاب سے بچنے کی کوشش کی اورجنگ میں شامل نہیں ہوا ۔ لیکن بدرکی شکست کے صرف سات دن بعد قران کی پیشین گوئی پوری ہوگئی اور بنی ہاشم کے اس سردار کا عدسے کی بیماری سے اس طرح خاتمہ ہوا کہ مرنے کے تین دن بعد تک کوئی اس کے پاس نہ آیا یہاں تک کہ لاش سڑگئی اوربدبو پھیلنے لگی ۔آخرکار ایک دیوار کے ساتھ رکھ کر اس کی لاش پتھروں سے ڈھانک دی گئی “( میزان ص 174)  غالب  نے بڑی پیاری بات کہی تھی کہ

ملے جو حشر میں لے لوں زبان ناصح کی

عجیب چیز ہے یہ طولِ مدعی کےلیے

ہم ابولہب کے متعلق عرض کرتے ہیں کہ اس کا سبب اتمامِ حجت کامسئلہ قطعا نہیں تھا ۔ بلکہ اس کا سبب اس کا اور اس کی بیوی کانبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم وستم کرنا تھا ۔ صحیح السند روایات کے مطابق وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے جاتے اورانہیں کنکریان مارتے رہتے تھے ۔ ورنہ اگر بات اتمامِ حجت ہی کی تھی اور جنگِ بدر ہی کا زمانہ اس کے لیے متعین تھا تو پھر اس کی بیوی کا مسئلہ بھی بتائیے نا ۔ اور اس کا تعلق بھی بدر سے جوڑ دیجئے ۔  پھر جناب غامدی نے جوشِ تقریر میں یہ بھی اوپر کہا ہے کہ  بدرکامعرکہ ہوا   اور آپ کی دعوت کے تمام معاندین اس میں ہلاک ہوگئے ۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ جب سارے معاندین ادھر بدر میں ہلاک ہوگئے،  یہ تو وہی لوگ تھے جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اتمامِ حجت کیا تھا تو پھر فتحِ مکہ میں قریش کے متعلق اسلام یا تلوار کا نعرہ لگانے کا کیا جواز بنتا ہے ؟ کیونکہ اتمامِ حجت تو ان لوگوں پر ہوا تھا کہ جو معرکہِ بدر میں ہلاک ہوگئے تھے ۔ اوریہ لوگ تو ان کے علاوہ تھے۔ یہ تو جنگِ بدرسے اس وقت بچ گئے تھے  یا تواس لیے کہ اس جنگ میں سرے سے شریک نہیں ہوئے تھے یا پھر شریک توہوئے مگر زندہ بچ گئے تھے ۔ بہرحال وہ لوگ معاندین بقولِ غامدی نہ تھے ؟  اگر بالفرض وہ بھی معاندین تھے  تو پھر سوال یہ ہے کہ ان پر وہ پہلے والا  اتمامِ حجت ہی قائم تھا   یا پھرنئے سرے سے ان پر حجت قائم کی گئی تھی ۔ اگر جواب پہلی شق کے اختیار میں ہے تو پھر ان معاندین کو کیوں سات آٹھ سال زندہ رہنے کی مہلت دی گئی ؟ کیا معاذاللہ اتمامِ حجت میں کمی رہ گئی تھی ؟ اوراگر جواب دوسری شق کو اختیار کرنے میں ہے تو پھر جناب کو یہ بتانا ہوگا کہ معرکہِ بدرکے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہِ کرام کتنی بار دعوت کے لیے مکہ تشریف لے گیے تھے ؟ اس تفصیل سے یہ حقیقت روزِروشن کی طرح عیان ہو گئی ہے  کہ ان لوگوں کا ایجاد کردہ قانونِ اتمامِ حجت محض ایک افسانہ ہے جس کا علم و دانش کی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں ہے ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…