حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 65)
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...
غلبہ دین : غلطی پر غلطی
حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)
حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)
حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...
مولانا واصل واسطی
جناب غامدی نے اوپر جوبات لکھی ہے اس کے لیے بخاری اورمسلم کے دوآحادیث کا حوالہ دیا ہے ۔ ہم پہلے ان آحادیث کو پڑھتے ہیں پھر اپنی باتیں اس کے متعلق احباب کی خدمت میں پیش کریں گے ۔ جبیر ابن مطعم اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ،، کنت اطلب بعیرا لی فذھبت اطلبہ یوم عرفة فرایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم واقفا بعرفة فقلت ، ھذا واللہ من الحمس فماشانہ ھھنا ؟ ( بخاری باب الوقوف بعرفة ) یعنی جبیربن معم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میرااونٹ گم ہوگیا تھا ۔ میں اسے تلاش کررہا تھا ۔عرفہ کے دن میں ، میں اسے ادھر عرفات میں دیکھ رہا تھا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں لوگوں کے ساتھ کھڑے دیکھا تو میں نے کہا کہ یہ آدمی تو قریش میں سے ہے ادھر کیا کررہا ہے ؟ ،، یہاں دوباتیں احباب نوٹ فرمالیں (1) ایک بات یہ ہے کہ جناب غامدی نے اوپر لکھا ہے کہ ،، بلکہ روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ لوگ ان بدعتوں پر متنبہ بھی تھے ،، مگر اس روایت سے جس کس انہوں نے خود حوالہ دیا ہے، اس سے ان کی اس دعوی کی صاف صاف تردید ہورہی ہے کیونکہ ،، مطعم بن جبیر ،، کہہ رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قریش میں سے ہیں ۔ وہ عرفات میں کیا کر رہے ہیں ،؟ فما شانہ ھھنا ،، ؟ اور اسماعیلی وغیرہ کے جو الفاظ حافظ الدنیا ابن حجر نے نقل کیے ہیں وہ یہ ہیں کہ ،، فما لہ خرج من الحرم ،، ؟ اگر وہ عرفات جانے کو سنت کے مطابق اورطریقہِ ابراہیم سمجھتے تب تو پھر ان کی اس بات کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی ؟ کیونکہ اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ جبیربن مطعم اس عمل یعنی عرفات جانے کو قریش کے لیے درست نہیں سمجھتے تھے (2) دوسری بات یہ ہے کہ جناب غامدی کے بقول ،، کہ قریش نے چند بدعتیں ان میں بے شک شامل کی تھی ،، لہذ ا عریانیت کاعمل ان بدعات میں شامل نہیں ہے کیونکہ یہ عمل قریش کے علاوہ دیگر عرب کرتے تھے قریش نہیں کرتے تھے ۔جیساکہ سیدنا عروہ بن الزبیر کی روایت میں الفاظ ہیں ،، کان الناس یطوفون فی الجاھلیة عراة الاالحمس ۔ والحمس قریش وما ولدت (بخاری ایضا ) لہذا ہماری اوپر والی بات اپنی جگہ پر قائم ہے ۔اس درج روایت میں یہ بات موجود نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاورکن کن افعال واعمال میں قریش کے طریقہ کے خلاف عمل کیا تھا ؟ پتہ نہیں جناب کو کہاں سے یہ پتہ چلا ہے ؟ اور اس روایت میں یہ بات بھی موجود نہیں ہے کہ یہ کس سن اور کس حج کی بات ہے ؟ مگر اور آحادیث سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ یہ بعثت سے قبل کی بات تھی۔ حافظ الدنیا ابن حجر امام اسحق بن راہویہ اور امام ابن خزیمہ کی روایت سے یہ الفاظ نقل کرتے ہیں کہ ،، فرایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الجاھلیة یقف مع الناس بعرفة علی جمل ( فتح الباری ج 3ص 658) اگرچہ اس روایت کے متعلق یہ بات معلوم نہ ہو سکی کہ اس کی سند کا کیا حال ہے ؟ گمان یہی کہ صحیح یاحسن درجے کی ہے ۔ اب مسلم کی روایت دیکھتے ہیں ،اس کے الفاظ ہیں کہ ،، عن محمدبن جبیر بن عن ابیہ جبیربن مطعم قال اضللت بعیرا لی فذھبت اطلبہ یوم عرفة فرایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقفا مع الناس بعرفة فقلت واللہ ان ھذا لمن الحمس فماشانہ ھھنا ؟ وکانت قریش تعد من الحمس ( مسلم باب ، فی الوقوف ) اس روایت میں بعینہ وہی الفاظ موجود ہیں جو بخاری کے تھے۔ جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جبیر بن مطعم کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عرفات جانا ناگوارگذراتھا اور اس سے جناب غامدی کے قول کی صاف تردید ہوجاتی ہے ۔ ہمارے نزدیک قریش کے حج کا شرعا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ان کو برائے نام اگر کوئی شخص حج کہتا ہے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ لیکن اگر کوئی شخص اسے ابراہیمی حج مانتااور منواتا ہے ، تو ہم اس سے اختلاف کا حق رکھتے ہیں ۔ اور ہمارے اس اختلاف کے بہت سارے وجوہ موجود ہیں ، جودرجِ ذیل ہیں (1) پہلی وجہ ہماری اس بات کی یہ ہے کہ حج وعمرہ سے مکہ کے قریشیوں کو تین چیزیں وافر مقدار میں ملتی تھیں ۔ ایک چیز مذہبی تقدس ، دوسری چیز دولت وسرمایہ ، اور تیسری چیز ریاست وسرداری ، مذہبی تقدس کا تو انہیں اتنا خیال تھا کہ جب بھی انہیں اس بات کا شبہ بھی گزرتا تھا کہ لوگوں کے خیال میں شاید اس وجہ سے ہمارے اور ہمارے حرم کے متعلق منفی خیالات پیداہوجائیں گے۔ تو وہ اس کے ازالہ کا کرنے کی ہرکوشش کرتے تھے۔ اور لوگ بھی انہیں مقام دیتے تھے ۔ورنہ اس کا کیا مطلب ہے کہ لوگ اپنے کپڑوں کو نکال کر پھینک دیتے تھے اور قریش کے مستعار کپڑوں میں حج اور عمرہ کرتے تھے ؟ یہی مذہبِ تقدس کا حصول ہے اور کیا ہے ۔ گویا حج ان قریش کے لیے عزت اور دولت کا مرکز تھا جیسے مجاورین کےلیے مزارات عزت اور دولت کا منبع ہوتے ہیں ۔ اس کواگر کوئی ان کی عبادت سمجھتا ہے تو وہ بڑا ظلم کرتا ہے (2) دوسری وجہ یہ ہے کہ وقوفِ عرفات سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے دور سے حج کرنے میں شامل تھا جیسا کہ امت کے اساطین اورمحققین نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے ۔ حافظ ابن حجر اس کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ بات مذکور ہے ۔ ان کی عبارت ہے کہ ،، نعم الوقوف بعرفة مورث عن ابراھیم علیہ السلام والصلاة ، کماروی الترمذی وغیرہ من طریق یزید بن شیبان قال کنا وقوفا بعرفة فاتانا ابن مریع فقال انی رسول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الیکم ، یقول لکم کونوا علی مشاعرکم ، فانکم علی ارث من ارث ابراھیم ،، ( فتح الباری ج3ص 660) اس سے معلوم ہوا کہ یہ عمل سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے دور سے حج میں شامل تھا مگر قریش نے شیطان کے اغوا پراس سے اپنے آپ کو محروم کرلیا تھا۔ سفیان بن عیینہ نے درست فرمایا ہے کہ ،، وکانت قریش تسمی الحمس وکان الشیطان قد استھواھم فقال لھم انکم ان عظمتم غیرحرمکم استخف الناس بحرمکم فکانوا لایخرجون من الحرم ( فتح الباری ج3ص 658) اس عبارت سے ہماری اس درج بات کی بخوبی وضاحت ہوگئی ہے (3) تیسری وجہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وقوفِ عرفہ کو حج سے تعبیر کیا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر یہ حج کا سب سے اعظم رکن نہیں ہے تو اعظم اراکینِ حج میں سے یقینا ہے ۔ تو اس کو قطع کرنااور ترک کرنا ایسا ہے جیسے انسان سے اس کے سرکو الگ کردیاجائے ۔ اب اگر کوئی شخص اسے انسان کہتا ہے تو ہمارا اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے مگر وہ زندہ اور قیمتی انسان قطعا نہیں ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،، الحج عرفة فمن ادرک لیلة عرفة قبل طلوع الفجر من لیلةجمع فقد تم حجہ ( الترمذی واحمد وسندہ صحیح ) اب یہ بات تو سب کے نزدیک ثابت ہے کہ ان بدبختوں نے وقوفِ عرفات کو اپنے قومی غرور میں معطل کردیا تھا (4) چوتھی وجہ اس بات کی یہ ہے کہ اللہ تعالی نے بھی ان کے اس عمل اورعبادت کو کوئی اعتبار نہیں دیا ہے۔ قران مجید میں ان کی نمائشی خدمت کے بارے تو کوئی بات فرمائی ہے کہ تم لوگوں کو پانی پلاتے ہو اور مسجدِ حرام کو آباد کرتے ہو اوراسے تعمیر کرتے ہو مگر ان کی اس عبادت کی طرف اشارہ تک نہیں کیا ہے ۔ قران میں سورہِ توبہ کی مندرجہ ذیل آیت ملاحظہ فرمالیں ،، اجعلتم سقایة الحاج وعمارة المسجد الحرام کمن آمن باللہ والیوم الاخر وجھد فی سبیل اللہ ( توبہ 19) ،، کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اورمسجدِحرام کو ٹھیک کرنا ان لوگوں کے مساوی قرار دیا ہے جواللہ تعالی اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور جنھوں اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہے ؟ ،، اور یہ بات تو ہرمعقول آدمی جانتاہے کہ عبادت کادرجہ خدمت سے بڑھ کر ہے۔ مگر یہاں ان کے حج اورعمرہ کویکسر نظع انداز کردیا کہ ان کا شرعا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ قریش نے بھی اس عبادت کے عدمِ ذکر پر کوئی شکوہ اللہ تعالی اورمسلمانوں سے نہیں کیا ۔ اگر وہ حج کو عبادت کی نیت سے کرتے ہوتے تو کیا اس بات پر وہ قیامت نہ اٹھاتے ؟ (5) پانچویں وجہ اس بات کی یہ ہے کہ خود جناب غامدی کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ انہوں نے حج کوتجارت اور کھیل تماشا بنادیا تھا مگر وہ بےچارہ کیا کریں کہ اس تجارت اورکھیل وتماشے کو بھی قریش کی عبادت ثابت کرنا ان کی مجبوری ہے ۔دیکھیے وہ سورہِ البقرہ کی آیت ،، واتمواالحج والعمرة للہ ،، کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ،، اصل الفاظ ہیں ، واتمواالحج والعمرة للہ ، یعنی اس صورت میں کوئی رعایت نہ ہوگی ، تمام مناسک ، جیسے کہ وہ ہیں اسی طرح پورے کیے جائیں گے۔ اس جملے میں زور لفظ ، للہ ، پر ہے ۔ یعنی حج اورعمرہ کی یہ عبادات صرف اللہ وحدہ لاشریک کے لیے ہونی چاہیں ، اس تنبیہ کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اہلِ عرب کےلیے یہ دونوں عبادت سے زیادہ تجارت کاذریعہ بن گئی تھیں ۔ ان کا حج اورعمرہ صرف اللہ کےلیے نہیں ہوتا تھا ، بلکہ ان کے وہ معبودانِ باطل بھی اس میں شریک تھے جن کے بت انہوں نے بیت الحرام میں بھی اورحج کے دوسرے مقامات پر بھی نصب کیے تھے ( البیان ج1ص 212) اب اس کے بعد بھی اگر کوئی کہتا ہے کہ ملتِ ابراہیمی کی اس سنتِ حج کو قریش نے قائم کرکہا تھا تو اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے ( 6) چھٹی وجہ اس کی یہ ہے کہ ممکن ہے کہ بعض لوگ اس ،، وقوفِ عرفات ،، کے ترک کو بھی ایک بدعی عمل قرار دیں اورکہیں کہ ایسا تومسلمانوں میں بھی ہوتا ہے مگر آپ ان کے اعمال کو دائرہِ اعتبار سے کبھی نہیں نکالتے تو اگرچہ اس بات کی وضاحت پہلے ہو چکی ہے کہ اللہ تعالی نے ان کے اس عمل کو دائرہِ اعتبار سے نکال دیا ہے پھر وہ لوگ صرف بدعتی نہ تھے بلکہ مشرک بھی تھے جیسا کہ کہ جناب غامدی کی عبارت میں یہ بات ابھی گذری ہے۔مگر ہم برسبیل تنزل یہ تسلیم کر کے کہتے ہیں کہ بدعت کا اطلاق بالعموم ان اعمال پر ہوتا ہے جودین میں اضافہ کیے جاتے ہیں۔ وقوفِ عرفات کو ترک کرنا ،،توکوئی اضافہ نہیں کمی ہے یہ ،، بدعت ،، کا مسئلہ نہیں بلکہ دوسرا مسئلہ ہے ۔اس لیے اس کوبدعت پر قیاس کرکے حکم لگانا درست نہیں ہوگ۔ اگر ان وجوہات کے بعد بھی یہ کہنا درست ہے کہ ان کا حج ابراہیمی تھا تو پھر یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ داتا گنج بخش کے مجاورین اور پرستاروں نے داتا گنج بخش وغیرہ متقدمین صوفیاء کے تصوف کو اب تک ماشاءاللہ زندہ رکھا ہے ۔سب سے دکھ کی بات یہ ہے کہ کوئی آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حج وعمرہ کو بھی ان قریش کے لوگوں کے اس مشرکانہ کاروبار اور کھیل وتماشے کامرہونِ منت اوران سے ماخوذ قرار دیتا ہے ۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
پردہ اور غامدی صاحب
حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ...
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی...