غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 64)

Published On April 3, 2024
۔”خدا کو ماننا فطری ہے”  مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

۔”خدا کو ماننا فطری ہے” مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب علم کلام کو لتاڑنے والے حضرات کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وجود باری پر یقین رکھنا بدیہیات میں سے ہے، لہذا متکلمین دلائل دے کر بے مصرف و غیر قرآنی کام کرتے ہیں۔ یہاں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی کتاب "فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن مجید کی روشنی...

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

مولانا نیاز محمد مروت صاحب جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے کے معمول چلے آنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داڑھی رکھنے کی عادت کا اعتراف کیا ہے ، جو کہ حق بات ہے، بشرطیکہ طبعی عادت کے طور پر نہیں، بلکہ معمول کے طور پر داڑھی رکھنا مراد ہو، چنانچہ اس پر...

تفہیمِ غامدی ، خبرِ واحد اور تصورِ سنت

تفہیمِ غامدی ، خبرِ واحد اور تصورِ سنت

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب تلخیص : زید حسن اس ویڈیو میں سپیکر حافظ محمد زبیر صاحب نے " بعض افراد" کے اس دعوے کہ آپ کی تفہیمِ غامدی درست نہیں ، کو موضوعِ بحث بنایا ہے ۔ لیکن اس پر از راہِ تفنن گفتگو کرنے کے بعد چند اہم مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے اور غامدی منہج پر سوالات...

تراویح کے متعلق غامدی صاحب کے غلط نظریات کا رد

تراویح کے متعلق غامدی صاحب کے غلط نظریات کا رد

ڈاکٹر نعیم الدین الازہری صاحب تلخیص : زید حسن رمضان المبارک کی بابرکت ساعات میں امتِ مسلمہ روزے اور عبادات میں مشغول ہے ، لیکن سوشل میڈیا پر چند ایسی آوازیں گاہے بگاہے اٹھتی نظر آتی ہیں جن میں ان عبادات کا انکارکیا گیا ہے جن پر امتِ مسلمہ ہزاروں سالوں سے عمل کرنی چلی...

ابن عابدین شامی کی علامہ غامدی کو نصیحت

ابن عابدین شامی کی علامہ غامدی کو نصیحت

سمیع اللہ سعدی علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ فتاوی شامی میں متعدد مقامات پر مسئلہ ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :۔و ھذا مما یعلم و یکتم یعنی یہ مسئلہ سیکھنا تو چاہیے ،لیکن عممومی طور پر بتانے سے گریز کیا جائے ۔فقاہت اور دین کی گہری سمجھ کا یہی تقاضا ہے کہ کتابوں میں...

علمِ کلام پر غامدی صاحب کی غلط فہمی

علمِ کلام پر غامدی صاحب کی غلط فہمی

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب   جناب غامدی صاحب علم کلام پر ماہرانہ تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ علم بے معنی و غیر ضروری ہے اس لئے کہ یہ فلسفے کے اس دور سے متعلق ہے جب وجود کو علمیات پر فوقیت دی جاتی تھی، علم کلام وجودی فکر والوں کے طلسم خانے کا جواب دینے کے لئے وضع کیا...

مولانا واصل واسطی

جناب غامدی کے ،، استادامام ،، مولانا اصلاحی انہی آیاتِ سورہِ انعام کے متعلق رقم طراز ہیں کہ ،، اوپر کی آیات میں حضرت ابراہیم کی دعوت کے ساتھ ان کے روحانی وایمانی مدارج کابیان ہوا ۔اب یہ بتایا جارہا ہے کہ اس دنیامیں بھی اللہ نے ان کو اوران کی دعوت کو رفعِ ذکراور شہرتِ دوام کی عزت وسرفرازی عطافرمائی ۔ان کی ذریت میں بڑے بڑے انبیاء اوربلند مرتبہ صالحین ومجددین اٹھے اوران سب کا دین وہی دینِ توحید تھا جس کی دعوت ابراہیم نے اوران سے پہلے نوح نے دی ، مطلب یہ ہے کہ یہی دین تمام انبیاء کامشترک دین ہے اورتم بھی اسی دین کی دعوت دے رہے ہو ، اگرتمہاری قوم اس کوقبول نہیں کرنا چاہتی توتم اس کی پروانہ کرو ،اللہ نے دوسروں کوکھڑاکردیا ہے ، جواس کے حامل بنیں گے ، تمھیں ان کی مخالفت سے بے نیاز ہوکر بہرحال انہی لوگوں کے دین کی پیروی کرنی ہے جن کو اللہ کی ہدایت نصیب ہوئی ، توتم ان کی پیروی کرو (تدبرِ قران ج3 ص 100) اور مفتی محمدشفیع لکھتے ہیں کہ ،، دوسری ہدایت خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے کہ آپ بھی سابقین کاطریقہ اختیار فرمائیں۔ یہاں یہ بات قابلِ غورہے کہ انبیاء علیھم السلام کی شریعتوں میں فروعی اورجزوی اختلافات پہلے بھی ہوتے رہے ،اورملتِ اسلام میں بھی ان سے مختلف بہت سے احکام نازل ہوئے ہیں ، توپھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوانبیاء سابقین کے طریق پرچلنے اورعمل کرنے کاکیامطلب ہوا ؟دوسری آیات اور روایاتِ حدیث کے پیشِ نظراس کاجواب یہ ہے کہ یہاں تمام فروعی اورجزوی احکام میں انبیاء سابقین کاطریقِ کار اختیار کرنے کاحکم نہیں  بلکہ اصولِ دین ، توحید ، رسالت اورآخرت میں ان کاطریقِ کار اختیار کرنا مقصود ہے   جو کسی پیغمبر کی شریعت میں ادل بدل نہیں ہوئے ( معارف القران ج3 395) ان کثیر عبارات کو نقل کرنے سے ہمارا مطلب صرف اس قدر ہے   کہ ان آیات سے اکابرمفسرین نے بھی یہی کچھ سمجھا ہے جو ہم احباب کی خدمت میں پیش کررہے ہیں ۔نہ کہ وہ بات جو جناب غامدی اور حافظ محب کہتے ہیں۔ اب اصل بحث کی طرف دوبارہ توجہ کرتے ہیں۔ جناب غامدی نے حج وعمرہ کے متعلق لکھا ہے کہ ،، حج وعمرہ سے متعلق ہرصاحبِ علم اس حقیقت کو جانتاہے کہ قریش نے چند بدعتیں ان میں بے شک داخل کردی تھیں   لیکن ان کے مناسک فی الجملہ وہی تھے جن کے مطابق یہ عبادات اس وقت اداکی جاتی ہیں ۔ بلکہ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے   کہ لوگ ان بدعتوں پرلوگ متنبہ بھی تھے ۔ چنانچہ بخاری ومسلم  دونوں میں بیان ہواہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت سے پہلے جوحج کیا تھا   وہ قریش کی ان بدعتوں سے الگ رہ کربالکل اسی طریقے پر کیا   جس طریقے پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے حج ہمیشہ جاری رہا ( میزان ص 46) ان آحادیث کو ہم ان شاءاللہ نقل کریں گے ۔ مگر اس سے پہلے سوچنے کی کچھ باتیں ہیں (1) پہلی بات یہ ہے کہ جن دوآحادیث کا جناب غامدی نے حوالہ دیاہے ، ان کوہم نقل کریں گے ۔ مگر جناب غامدی کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ،، بدعتوں ،، سے الگ رہ کرحج کیا ،، وہ بدعات کون کون سی تھی ؟ اورکہاں ان کا ذکرکیا گیاہے؟ اگر اس دعوی کےلیے بنیاد یہی دو روایات ہیں جن کاحوالہ جناب نے دیاہے ؟ توان میں فقط یہ بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ،، حمس ،، کے خلاف عرفات پرجانے کاعمل بھی بجالایا   مگر یہ تو صرف ایک بدعت تھی ۔ باقی کے بارے میں ہم کہاں معلوم کریں  کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بھی خلاف کیاہے ؟ اس بات کی وضاحت ہونی چاہئے (2) دوسری بات یہ ہے کہ جناب غامدی نے ابھی اوپر اقرار کیا ہے کہ ،، قریش نے کچھ بدعات اس حج اورعمرہ میں شامل کیے تھے ،،  ہم تسلیم کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حج عام عرب کے رواج کے مطابق کیا تھا ۔یعنی عرفات بھی گئے ، صرف مزدلفہ سے واپس نہیں ہوئے تھے جیسا کہ قریش یہ عمل اس زعم کی بنا پر کرتے تھے کہ ہم ،، حمس ،،  ہیں۔ اس سے یہ تو معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلے میں قریش کے خلاف کیا ۔ مگر اس عمل سے یہ کیسے معلوم ہوا کہ باقی لوگ بھی ان  ،، بدعات ،، پر متنبہ تھے ؟ جو مشرکینِ مکہ نے حج میں داخل و شامل کیے تھے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو نبوت سے قبل ان ،، بدعات ،، کی قولا کوئی تردید بھی نہیں کی تھی ۔اگرچہ فعلا وہ اس سے الگ تھلگ رہے ۔ انہوں نے دیگر لوگوں کے طریقہِ عمل کو اپنایا تھا کیونکہ عام حالات میں کسی طریقہ کے خلاف عمل کرنا اس طریقہ کے ،، بدعت ،، ہونے کی دلیل تو نہیں ہوتی ؟(3) تیسری بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل سے خود بخود ہماری بات کی تایید ہورہی ہے ۔ وہ یوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قریشی تھے اورقریش عرفات نہیں جاتے تھے۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں گئے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انہوں نے حج کا طریقہ قریش سے نہیں سیکھا تھا ۔ اگر وہ حج کاطریقہ ان سے سیکھ لیتے   تو پھر وہ ان کی مخالفت کس طرح کر سکتے تھے ؟ کیونکہ اس پاک گھر کے خادم ، مجاوراور مقدس لوگ تو یہی قریش تھے ۔ پھر ان کے مقابلے میں وہ دوسرے معمولی درجے کے لوگوں کو ان پر کیسے فوقیت دے سکتے تھے؟ اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی دوسرا ذریعہِ علم تو اس وقت نہیں تھا ؟ اب اگر کوئی ہم سے سوال کرے کہ   پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاں سے یہ بات سیکھی جب کہ اس وقت وحی بھی انہیں نہیں آتی تھی ؟ تو ہمارے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ ہر نبی قبل ازنبوت شرک اور خبائث سے مکمل محفوظ ھوتا ہے۔ ان کی فطرت اللہ تعالی نے ایسی بنائی ہے کہ وہ ان چیزوں کے قریب بھی نہیں جاتے۔ مولانا اصلاحی نے ایک خوبصورت عبارت نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی فطرت کے متعلق لکھی ہے ۔مگر نام اس میں صرف ،، شرک ،، سے حفاظت کا لیا ہے حالانکہ وہ دیگر خبائث سے محفوظ ہوتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ،، حضرات انبیاء کرام علیھم السلام فطرتِ سلیم پر پیداہوتے اور فطرتِ سلیم ہی پر پروان چڑھتے ہیں ۔ نبوت سے پہلے بھی ان کوکبھی توحیداور شرک کے معاملے میں اشتباہ پیش نہیں آیا ۔ توحید توعہدِ فطرت ہے جوخدانے اولادِآدم سےان کو دنیا میں بھیجنے سے پہلے ہی لیا ہے ، اور قران سے ثابت ہے کہ اس عہدہی کی بنا پر توحید کےمعاملے میں ہرشخص عنداللہ مسؤل ہوگا ،خواہ اسے کسی نبی کی دعوت پہنچی ہو یانہ پہنچی ہو ، ایسی حالت میں کسی نبی کے متعلق یہ گمان کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ نبوت سے پہلے بھی کبھی شرک سے آلودہ ہوسکتاہے۔ نبوت سے پہلے بھی حضرات انبیاء کرام جہاں تک مبادئ فطرت ہے کا تعلق ہے  بالکل فطرة اللہ پر ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ نخلِ فطرت کے بہترین ثمر ہوتے ہیں ۔اس دور میں انہیں جوجستجو ہوتی ہے   وہ خداکی نہیں بلکہ خداکی مرضیات اور اس کے احکام کی ہوتی ہے۔ یہ جستجو بھی درحقیقت ان کی فطرتِ سلیم کی ہی پیاس ہوتی ہے   جو اپنے بلوغ پر بھڑکتی ہے  ،اور سیرابی اور آسودگی کی خواہاں ہوتی ہے ۔یہ سیرابی ان کو وحی کی ابرِنیساں سے حاصل ہوتی ہے ، انبیاء کے لیے وحی کی حیثیت تاریکی کے اندر روشنی کی نہیں بلکہ روشنی کے اوپر روشنی کی ہوتی ہے ،، نورعلی نور یھدی اللہ لنورہ من یشاء ،، (تدبرِقران ج3 ص 99 ) اسی طرح کی ایک عبارت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت کے  متعلق مولانا مودودی کی بھی غالبا ،، تفھیمات ،، میں ہے   مگر وہ کتاب اس وقت مل نہیں رہی ہے ، وہ پھر سہی ان شاء اللہ ، اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انبیاء کرام اپنی پاک طینتی کی وجہ سے بھی خبائث اور بدعات اسے محفوظ ہوتے ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…