غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 64)

Published On April 3, 2024
تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ شهادت علی الناس:۔ شہادت علی الناس کا سیدھا اور سادہ معروف مطلب چھوڑ کر غامدی صاحب نے ایک اچھوتا مطلب لیا ہے جو یہ ہے کہ جیسے رسول اپنی قوم پر شاہد ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ صحابہ پر شاہد تھے ، ایسے ہی صحابہ کو اور صرف صحابہ کو دیگر محدود...

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟  غامدی صاحب کے دلائل کا جائزہ:۔ ویسے تو کسی نظریے کے غلط ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ امت کے اجتماعی ضمیر کے فیصلے سے متصادم ہے، لیکن اگر کچھ نادان امت کے اجتماعی ضمیر کو اتھارٹی ہی تسلیم نہ کرتے ہوں اور اپنے دلائل پر نازاں ہوں تو...

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد غامدی تصور جہاد کی سنگینی اور انوکھا پن:۔ پوری اسلامی تاریخ میں اہل سنت کا کوئی قابل ذکر فقیہ مجتہد، محدث اور مفسر اس اچھوتے اور قطعی تصور جہاد کا قائل نہیں گذرا، البتہ ماضی قریب میں نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمدقادیانی نے اس قبیل کی...

تصورِ جہاد ( قسط اول)

تصورِ جہاد ( قسط اول)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد کچھ عرصہ قبل راقم نے غامدی صاحب کے شاگر در شید اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کے فرزند من پسند جناب عمار خان ناصر صاحب کے نظریہ جہاد کے نقد و تجزیے کے لیے ایک مضمون سپر د قلم کیا تھا، جو ماہنامہ صفدر میں قسط وار چھپنے کے علاوہ "عمار خان کا نیا...

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

حسان بن علی پہلے یہ جاننا چاہیے کہ قرآن نے اصل موضوع سود لینے والے کو کیوں بنایا. اسے درجہ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے ١) چونکا سود کے عمل میں بنیادی کردار سود لینے والے کا ہے لہذا قرآن نے اصل موضوع اسے بنایا. ٢) سود لینے والے کے لیے مجبوری کی صورت نہ ہونے کے برابر...

سود اور غامدی صاحب

سود اور غامدی صاحب

حسان بن علی غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش...

مولانا واصل واسطی

جناب غامدی کے ،، استادامام ،، مولانا اصلاحی انہی آیاتِ سورہِ انعام کے متعلق رقم طراز ہیں کہ ،، اوپر کی آیات میں حضرت ابراہیم کی دعوت کے ساتھ ان کے روحانی وایمانی مدارج کابیان ہوا ۔اب یہ بتایا جارہا ہے کہ اس دنیامیں بھی اللہ نے ان کو اوران کی دعوت کو رفعِ ذکراور شہرتِ دوام کی عزت وسرفرازی عطافرمائی ۔ان کی ذریت میں بڑے بڑے انبیاء اوربلند مرتبہ صالحین ومجددین اٹھے اوران سب کا دین وہی دینِ توحید تھا جس کی دعوت ابراہیم نے اوران سے پہلے نوح نے دی ، مطلب یہ ہے کہ یہی دین تمام انبیاء کامشترک دین ہے اورتم بھی اسی دین کی دعوت دے رہے ہو ، اگرتمہاری قوم اس کوقبول نہیں کرنا چاہتی توتم اس کی پروانہ کرو ،اللہ نے دوسروں کوکھڑاکردیا ہے ، جواس کے حامل بنیں گے ، تمھیں ان کی مخالفت سے بے نیاز ہوکر بہرحال انہی لوگوں کے دین کی پیروی کرنی ہے جن کو اللہ کی ہدایت نصیب ہوئی ، توتم ان کی پیروی کرو (تدبرِ قران ج3 ص 100) اور مفتی محمدشفیع لکھتے ہیں کہ ،، دوسری ہدایت خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے کہ آپ بھی سابقین کاطریقہ اختیار فرمائیں۔ یہاں یہ بات قابلِ غورہے کہ انبیاء علیھم السلام کی شریعتوں میں فروعی اورجزوی اختلافات پہلے بھی ہوتے رہے ،اورملتِ اسلام میں بھی ان سے مختلف بہت سے احکام نازل ہوئے ہیں ، توپھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوانبیاء سابقین کے طریق پرچلنے اورعمل کرنے کاکیامطلب ہوا ؟دوسری آیات اور روایاتِ حدیث کے پیشِ نظراس کاجواب یہ ہے کہ یہاں تمام فروعی اورجزوی احکام میں انبیاء سابقین کاطریقِ کار اختیار کرنے کاحکم نہیں  بلکہ اصولِ دین ، توحید ، رسالت اورآخرت میں ان کاطریقِ کار اختیار کرنا مقصود ہے   جو کسی پیغمبر کی شریعت میں ادل بدل نہیں ہوئے ( معارف القران ج3 395) ان کثیر عبارات کو نقل کرنے سے ہمارا مطلب صرف اس قدر ہے   کہ ان آیات سے اکابرمفسرین نے بھی یہی کچھ سمجھا ہے جو ہم احباب کی خدمت میں پیش کررہے ہیں ۔نہ کہ وہ بات جو جناب غامدی اور حافظ محب کہتے ہیں۔ اب اصل بحث کی طرف دوبارہ توجہ کرتے ہیں۔ جناب غامدی نے حج وعمرہ کے متعلق لکھا ہے کہ ،، حج وعمرہ سے متعلق ہرصاحبِ علم اس حقیقت کو جانتاہے کہ قریش نے چند بدعتیں ان میں بے شک داخل کردی تھیں   لیکن ان کے مناسک فی الجملہ وہی تھے جن کے مطابق یہ عبادات اس وقت اداکی جاتی ہیں ۔ بلکہ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے   کہ لوگ ان بدعتوں پرلوگ متنبہ بھی تھے ۔ چنانچہ بخاری ومسلم  دونوں میں بیان ہواہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت سے پہلے جوحج کیا تھا   وہ قریش کی ان بدعتوں سے الگ رہ کربالکل اسی طریقے پر کیا   جس طریقے پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے حج ہمیشہ جاری رہا ( میزان ص 46) ان آحادیث کو ہم ان شاءاللہ نقل کریں گے ۔ مگر اس سے پہلے سوچنے کی کچھ باتیں ہیں (1) پہلی بات یہ ہے کہ جن دوآحادیث کا جناب غامدی نے حوالہ دیاہے ، ان کوہم نقل کریں گے ۔ مگر جناب غامدی کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ،، بدعتوں ،، سے الگ رہ کرحج کیا ،، وہ بدعات کون کون سی تھی ؟ اورکہاں ان کا ذکرکیا گیاہے؟ اگر اس دعوی کےلیے بنیاد یہی دو روایات ہیں جن کاحوالہ جناب نے دیاہے ؟ توان میں فقط یہ بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ،، حمس ،، کے خلاف عرفات پرجانے کاعمل بھی بجالایا   مگر یہ تو صرف ایک بدعت تھی ۔ باقی کے بارے میں ہم کہاں معلوم کریں  کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بھی خلاف کیاہے ؟ اس بات کی وضاحت ہونی چاہئے (2) دوسری بات یہ ہے کہ جناب غامدی نے ابھی اوپر اقرار کیا ہے کہ ،، قریش نے کچھ بدعات اس حج اورعمرہ میں شامل کیے تھے ،،  ہم تسلیم کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حج عام عرب کے رواج کے مطابق کیا تھا ۔یعنی عرفات بھی گئے ، صرف مزدلفہ سے واپس نہیں ہوئے تھے جیسا کہ قریش یہ عمل اس زعم کی بنا پر کرتے تھے کہ ہم ،، حمس ،،  ہیں۔ اس سے یہ تو معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلے میں قریش کے خلاف کیا ۔ مگر اس عمل سے یہ کیسے معلوم ہوا کہ باقی لوگ بھی ان  ،، بدعات ،، پر متنبہ تھے ؟ جو مشرکینِ مکہ نے حج میں داخل و شامل کیے تھے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو نبوت سے قبل ان ،، بدعات ،، کی قولا کوئی تردید بھی نہیں کی تھی ۔اگرچہ فعلا وہ اس سے الگ تھلگ رہے ۔ انہوں نے دیگر لوگوں کے طریقہِ عمل کو اپنایا تھا کیونکہ عام حالات میں کسی طریقہ کے خلاف عمل کرنا اس طریقہ کے ،، بدعت ،، ہونے کی دلیل تو نہیں ہوتی ؟(3) تیسری بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل سے خود بخود ہماری بات کی تایید ہورہی ہے ۔ وہ یوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قریشی تھے اورقریش عرفات نہیں جاتے تھے۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں گئے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انہوں نے حج کا طریقہ قریش سے نہیں سیکھا تھا ۔ اگر وہ حج کاطریقہ ان سے سیکھ لیتے   تو پھر وہ ان کی مخالفت کس طرح کر سکتے تھے ؟ کیونکہ اس پاک گھر کے خادم ، مجاوراور مقدس لوگ تو یہی قریش تھے ۔ پھر ان کے مقابلے میں وہ دوسرے معمولی درجے کے لوگوں کو ان پر کیسے فوقیت دے سکتے تھے؟ اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی دوسرا ذریعہِ علم تو اس وقت نہیں تھا ؟ اب اگر کوئی ہم سے سوال کرے کہ   پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاں سے یہ بات سیکھی جب کہ اس وقت وحی بھی انہیں نہیں آتی تھی ؟ تو ہمارے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ ہر نبی قبل ازنبوت شرک اور خبائث سے مکمل محفوظ ھوتا ہے۔ ان کی فطرت اللہ تعالی نے ایسی بنائی ہے کہ وہ ان چیزوں کے قریب بھی نہیں جاتے۔ مولانا اصلاحی نے ایک خوبصورت عبارت نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی فطرت کے متعلق لکھی ہے ۔مگر نام اس میں صرف ،، شرک ،، سے حفاظت کا لیا ہے حالانکہ وہ دیگر خبائث سے محفوظ ہوتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ،، حضرات انبیاء کرام علیھم السلام فطرتِ سلیم پر پیداہوتے اور فطرتِ سلیم ہی پر پروان چڑھتے ہیں ۔ نبوت سے پہلے بھی ان کوکبھی توحیداور شرک کے معاملے میں اشتباہ پیش نہیں آیا ۔ توحید توعہدِ فطرت ہے جوخدانے اولادِآدم سےان کو دنیا میں بھیجنے سے پہلے ہی لیا ہے ، اور قران سے ثابت ہے کہ اس عہدہی کی بنا پر توحید کےمعاملے میں ہرشخص عنداللہ مسؤل ہوگا ،خواہ اسے کسی نبی کی دعوت پہنچی ہو یانہ پہنچی ہو ، ایسی حالت میں کسی نبی کے متعلق یہ گمان کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ نبوت سے پہلے بھی کبھی شرک سے آلودہ ہوسکتاہے۔ نبوت سے پہلے بھی حضرات انبیاء کرام جہاں تک مبادئ فطرت ہے کا تعلق ہے  بالکل فطرة اللہ پر ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ نخلِ فطرت کے بہترین ثمر ہوتے ہیں ۔اس دور میں انہیں جوجستجو ہوتی ہے   وہ خداکی نہیں بلکہ خداکی مرضیات اور اس کے احکام کی ہوتی ہے۔ یہ جستجو بھی درحقیقت ان کی فطرتِ سلیم کی ہی پیاس ہوتی ہے   جو اپنے بلوغ پر بھڑکتی ہے  ،اور سیرابی اور آسودگی کی خواہاں ہوتی ہے ۔یہ سیرابی ان کو وحی کی ابرِنیساں سے حاصل ہوتی ہے ، انبیاء کے لیے وحی کی حیثیت تاریکی کے اندر روشنی کی نہیں بلکہ روشنی کے اوپر روشنی کی ہوتی ہے ،، نورعلی نور یھدی اللہ لنورہ من یشاء ،، (تدبرِقران ج3 ص 99 ) اسی طرح کی ایک عبارت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت کے  متعلق مولانا مودودی کی بھی غالبا ،، تفھیمات ،، میں ہے   مگر وہ کتاب اس وقت مل نہیں رہی ہے ، وہ پھر سہی ان شاء اللہ ، اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انبیاء کرام اپنی پاک طینتی کی وجہ سے بھی خبائث اور بدعات اسے محفوظ ہوتے ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…