نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 63)
جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی
عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...
حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ
ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...
امام النواصب جاوید غامدی
احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...
سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل
محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...
کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟
شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...
مولانا واصل واسطی
اب چند اور عبارتیں بھی سورتِ نحل ( 123) کے متعلق دیکھتے ہیں ۔ محمدعلی لاہوری لکھتے ہیں ،، ملتِ ابراہیمی پر چلنے کا ارشاد یعنی وہی کام کرو جو ابراہیم نے کیا۔ مطلب یہ ہے کہ تم بھی شرک کی بیخ کنی کرو جس طرح حضرت ابراہیم نے کی ۔ کیوں کہ ملتِ ابراہیمی کا اصل الاصول تو یہی بیان کیا ہے کہ وہ مشرکوں میں سے نہ تھا ۔شرک سے دنیا کو صاف کرنا حضرت ابراہیم کا بھی مقصد تھا ۔یہی مقصد محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا بھی تھا ( بیان القران ج1 773) شیخ جمال الدین قاسمی بھی ،،ان اتبع ملةابراھیم ،، کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ،، ای بعد ھذہ الکرمات والحسنات التی اعطیناہ ایاھا فی الدارین ، شرفناہ وکرمناہ بامرنا ، باتباعک ایاہ فی التوحید واصول الدین التی لاتتغیر فی الشرائع کامرالمبدا والمعاد والحشر والجزاء وامثالھا ، لافی الشریعة واوضاعھا واحکامھا فانھا تتغیر بحسب المصالح واختلاف الازمنة والطبائع وماعلیہ احوال الناس من العادات والخلائق ( محاسن ج 10 ص 557 ) یہی بات اجمالا ہم نے اوپر لکھی ہے ۔ دیگر مفسرین نے بھی ایسی ہی باتیں لکھی ہیں ۔ابن جزی المالکی نے سورتِ انعام کی آیت ،، فبھدھم اقتدہ ،، کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ،، استدل بہ من قال ان شرع من قبلنا شرع لنا ، فمااصول الدین من التوحید والایمان باللہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الاخر فاتفقت فیہ جمیع الشرائع واما الفروع ففیھا وقع الاختلاف بین الشرائع ، والخلاف ھل یقتدی النبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فیھا بمن قبلہ ام لا ؟( التسھیل ج1 ص 278)اورامام قرطبی اپنی عادت اوراصول کے مطابق اس آیت کی تشریح میں چند اقوال نقل کرتے ہیں ۔ اور پھر راجح قول کی تصریح کرتے ہیں ،، قال ابن عمر امر باتباعہ فی مناسک الحج کماعلّم ابراھیم جبریل علیھما السلام وقال الطبری امرباتباعہ فی التبرؤ من الاوثان والتزین بالاسلام و قیل امر باتباعہ فی جمیع ملتہ الا ماامر بترکہ قالہ بعض اصحاب الشافعی علی ماحکاہ الماوردی والصحیح الاتباع فی عقائد الشرع دون الفروع لقولہ تعالی ،، لکل جعلنا منکم شرعةومنھاجا ،، ( المائدہ 48) یعنی راجح قول قرطبی نے نزدیک بھی یہی ہے کہ اس اتباع سے مراد اصول میں اتباع ہے فروع میں نہیں ( الجامع ج 10 ص 175) امام رازی نے اس آیت سے عقائد مراد لینے پر ایک اشکال کا مع ضعیف جواب کے ذکر کیا تھا ۔ جس کے پھر ہم نے چار دیگر جوابات بھی عرض کردیئے تھے ۔ ابو حیان اندلسی نے بھی اس بات کی الگ زاویے سے وضاحت کی ہے ۔وہ بھی دیکھنے کے قابل ہے ۔فرماتے ہیں : ولایحتاج الی ھذا لان المعتقدالذی تقتضیہ دلائل العقول لایمتنع ان یوحی لتظافرالمعقول والمنقول علی اعتقادہ الا تری الی قولہ تعالی ( قل انما اوحی الی انما الھاکم الہ واحد ) فلیس اعتقاد الوحدانیة بمجردالوحی فقط وانما تظافر المنقول عن اللہ فی ذالک مع دلیل العقل وان کان انتفاء الشرک لیس مستندہ مجردہ الوحی بل الدلیل العقلی والدلیل الشرعی تظافرا علی ذالک ( البحر ج5 ص 695) ہمیں صرف نمونہ مفسرین کے اقوال کا پیش کرنا تھا ۔ معتبر اقوال اس بات میں دو ہی ہیں (1) ایک بات یہ ہے کہ اس آیت میں عقائد اوراصول میں اتباع مطلوب ہے (1) دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے تمام دین میں اتباع مقصود ہے (3) ایک ضعیف بللکہ اضعف قول یہ بھی بعض تفاسیر میں منقول ہے کہ صرف فروع میں اتباع مطلوب ہے ۔ مگر محقق مفسرین کے نزدیک اصح قول عقائد اوراصول میں اتباع کا ہی ہے۔، اس کے بعد تمام شریعت میں اتباع کا قول ہے ۔ مگر اس پر وہ اشکال وارد ہوتا ہے جس کو ہم نے پیچھے ذکر کیا ہے ۔ اور کچھ مفسرین نے اسے نقل بھی کیا ہے ۔ تیسرا قول محققین کے نزدیک اضعف الاقوال ہے ۔ اس تحقیق سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ جو لوگ اس آیت سے فروع میں اتباع مراد لیتے ہیں ان کے اس قول کی کوئی بنیادبہرحال اس آیت میں موجود نہیں ہے۔ اس بات کو ذراسمجھنے کی ضرورت ہے ۔اگر یہ اتباع جس کا اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے ہم فروع میں مان لیں تو اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم وحی کی بنیاد پر یہ اتباع کرتے تھے تب تو یہ وحی کی اتباع ہو گئی ۔ ملتِ ابراہیم کی کس طرح سے اتباع ہوئی ؟ اس کا ہمیں علم نہیں ہے ۔اگر عقائد میں اتباع ہو تو ممکن ہے کہ عقائد میں سب انبیاء کرام اورملتیں شریک ہیں ۔لیکن اگر فروع میں اتباع مراد ہے تو ان میں شراکت بہرحال موجود نہیں ہے ۔اوراگر وہ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان فروع کا اتباع اس بنیاد پر کرتے ہیں کہ وہ اعمال اور افعال عرب وغیرہ میں رائج تھے ۔ تو عرض کرتے ہیں کہ پہلے عرب میں مجموعی طور سے وہ اعمال وافعال رائج نہیں تھے بلکہ بعض مشرکین میں بھی بعض لوگوں کے دعوی کے مطابق رائج تھے ۔ اور پھر جو اعمال وافعال رائج بھی تھے وہ بدعات سے خالص ہرگز نہیں تھے۔ اگر ان بدعات سے بھی ہم ان اعمال کو خالص مان لیں تو پھر ان کا ثبوت سیدنا ابراہیم سے بطریقِ ظن ووہم ثابت تھا ۔قطعی دلائل سے بالکل ثابت نہیں تھا۔ اور ہمارے یہ کرم فرما تو دین میں ،، ظنی ،، کا نام سن کر بدک جاتے ہیں ۔ پھر وہ ان ،، ظنیات ،، کی اتباع نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کیسے لازم مانتے ہیں؟ اور اس بات پر وہ کس طرح اور کیوں اصرار کرتے ہیں ؟ ہمارا مقصود ادھر فقط یہ ہے کہ یہ اتباع کا حکم فروع میں نہ تھا بلکہ عقائد اوراصول میں تھا جن کےثبوت کے لیے عام لوگوں کے افکار واعمال کو دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ قران میں ان عقائد واصول کا ذکر ہوا ہے۔ اور عرب معاشرے میں بعض ایسے لوگ بھی تھے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے عقائد کو تو جانتے تھے مگر ان اعمال سے قطعی بے خبرتھے ۔ جیسے موحد الجاھلیة زید بن عمروبن نفیل کے متعلق تو تفسیر اور تاریخ میں مشہور ہے کہ وہ کہا کرتے تھےکہ میں بتوں کی پوجا نہیں کرتا کیوں سیدنا ابراہیم علیہ السلام جو ہمارے دادا تھے وہ بھی شرک نہیں کرتے تھے۔ زید بن عمرو بتوں پر ذبح شدہ جانور کا گوشت بھی اسی وجہ سے نہیں کھاتے تھے ۔ اورکہا کرتے تھے کہ:
ارب واحد ام الف رب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادین اذاتقسمت الامور
ترکت اللات والعزّی جمیعا ۔۔۔۔کذالک یفعل الرجل البصیر
مگر اعمال وہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے نہیں جانتے تھے ۔ اور پھراعمال وافعال میں غلطی ہونے اور لگنے کا تو امکان بلکہ وقوع کا بھی تصور بہرحال موجود رہتا ہے۔ لیکن درست عقائد کے اضداد تو بالاتفاق کفر ، شرک اورنفاق ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان میں پڑنا بالاجماع متصور نہیں ہے ۔ اس لیے درست بات وہی ہے جو ہم نے اوپر لکھ لی ہے۔ اب اس آیت کی دوسری مماثل آیت سورتِ انعام کو بھی ذرا دیکھتے ہیں۔ اس کی تفسیر میں تو سب کا اتفاق ہے کہ عقائد اور اصول میں اقتدا مقصود ہے۔ محمد علی کاندھلوی لکھتے ہیں کہ ،، ظاہر ہے کہ اس آیت کے نزول سے پہلے اللہ تعالی وہ ہدایت توخود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دے چکا یعنی اپنی وحی سے دے چکا ۔اورمزید برآن ان انبیاء کرام کی کوئی کتابیں دنیا میں موجود نہ تھیں کہ ان کو پڑھ کر عمل کرنے کی ہدایت ہوتی ، اور جو کچھ ان کی تعلیم باقی رہ گئی وہ خود ظنیات میں سے تھی۔ پس ان کی ہدایت کے اقتدا سے مراد صرف ان کے طریق کی موافقت ہے ۔ اور مطلب یہ ہے کہ جس طرح توحید کے قائم کرنے میں انہوں نے مشکلات کامقابلہ کیا اسی طرح تم بھی صبر سے اس کام کوکرو ۔ اور اس کے ساتھ ہی یہ الفاظ ،، قل لااسالکم علیہ اجرا ،، بتاتے ہیں کہ مراد یہاں پیغامِ توحید کا پہنچانا ہے۔یہاں اقتدا سے شرائع کی پیروی مراد لینا بالکل غلط ہے ۔ایسی پیروی کاحکم ہوتا تو پھر پہلے اللہ تعالی ان تمام کتابوں کو تحریف سے پاک کرکے آپ کو دیتا اورآنحضرت کاعمل بھی یہ ثابت کرتا یعنی عملا آپ پہلے شرائع کی باتوں کو لے کر ان پر اپنے دین کی بنیاد رکھتے ۔ مگر ایسا نہیں ہوا ۔پس یہ معنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے خلاف ہونے کیوجہ سے قابلِ قبول نہیں ہے ( بیان القران ج1ص 477) جو لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ محمد علی کاندھلوی سے مکتبِ فراہی کے اساطین کتنا استفادہ کرتے ہیں ؟ وہ ہمیں ان کاباربار حوالہ دینے میں معذور سمجھیں گے ۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ لینے کی ہے کہ اگر بالفرض ہم یہ بات تسلیم کرلیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان اعمال وافعال کا بجالانا اور زندہ کرنا مطلوب تھا توپھر یہ بدیہی بات تھی کہ صحابہِ کرام کے دلوں میں ان مشرکینِ عرب اور یہود ونصاری کے ساتھ محبت پیداہو جاتی کیونکہ مشترکات کا تو فریقین پر غیرشوری طور سے یہی اثرہوتا ہے۔ اس کا انکار ایک غبی یا متعصب شخص ہی کرسکتاہے ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ آحادیث میں وافر ذخیرہ ایسا موجود ہے کہ جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ،، خالفوا المشرکین ،، اور ،، خالفوا الیھود والنصاری ،، کے الفاظ موجود ہیں ۔ بلکہ بعض روایات سے تو یہاں تک پتہ چلتاہےکہ صحابہِ کرام پر اس بات کا بہت شدت سے اثر پڑا تھا اور وہ ان یہود ونصاری کے سخت مخالف ہو گئے تھے ۔ مثال کےلیے صرف ایک حدیث پیشِ خدمت ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہِ کرام کو حیض میں عورتوں سے دور رہنے کا حکم فرمایا تو ایک صحابی نے عرض کیا کہ یارسول اللہ اگر ہمیں حیض میں بھی عورتوں سے صحبت اور مجامعت کی اجازت مل جائیں تو یہود کی مزید اور سخت مخالفت ہوجائے گی ۔مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، لا ،اصنعوا کل شیئ الاالنکاح ،، یعنی جماع اپنی بیویوں سے اس حال میں نہ کرو ۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام مسلمانوں کی ایسی امتیازی اوراختصاصی اجتماعیت اور قومیت بنانا چاہتے ت ، جو سب سے الگ اورممیز ہو ۔ آلوسی لکھتے ہیں ،، ای اجعل ھداھم منفردا بالاقتداء واجعل الاقتداء مقصورا علیہ والمراد بھداھم عند جمع طریقھم فی الایمان باللہ تعالی وتوحیدہ واصول الدین دون الشرائع القابلة للنسخ فانھا بعد النسخ لاتبقی ھدی وھم ایضا مختلفون فیھا فلایمکن التاسی بھم جمیعا ومعنی امرہ صلی اللہ علیہ وسلم بالاقتداء بذالک الاخذبہ لامن حیث انہ طریق اولئک الفخام بل من حیث انہ طریق العقل والشرع ففی ذالک تعظیم وتنبیہ علی ان طریقھم ھوالحق الموافق لدلیل العقل والسمع ( روح المعانی ج4 205) ان تمام عبارات کاخلاصہ یہ ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیگر انبیاء کرام علیھم السلام کے اتباع کاحکم عقائد اوراصول میں کرنے کا تھا ، اور یہی راجح قول ہے ۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ
ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص...
اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی
محمد خزیمہ الظاہری غامدی حلقہ انکار حدیث کی صاف تہمت سے اس لئے بچ نکلتا...
انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض
محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط...