حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 54)
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...
غلبہ دین : غلطی پر غلطی
حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)
حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)
حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...
مولانا واصل واسطی
جناب غامدی اگلی چیز یعنی سنتِ ابراہیمی نمازِجنازہ کو قرار دیتے ہیں ۔لکھاہے کہ ،، نمازِجنازہ بھی وہ پڑھتے تھے ( میزان ص 45) اس بات کے لیے جناب نے جواد علی کی ،، المفصل فی تاریخ العرب ،، کاحوالہ دیا ہے ۔ یہ کتاب ہمارے پاس نہیں ہے ،نہ ہم نے دیکھی ہے اس لیے ہم نہیں کہ سکتے کہ انہوں نے کس ماخذ کی بنیاد پر یہ بات لکھی ہے ؟ اور کیا اس کی کچھ حقیقت بھی ہے یا نہیں یے ؟ اور اگر کچھ حقیقت ہے تو وہ صحیح سند سے ثابت بھی ہے یا نہیں ہے ؟ اور پھر یہ اس سے یہ کس طرح معلوم ہوا کہ یہ سیدنا ابراہیم کی سنت ہے ؟ اس کے لیے تو صریح دلائل درکار ہونگے۔ مگر ممکن ہے جناب اسے بھی نمازِ جمعہ کی طرح ثابت کرتے ہوں ؟ یہ سب باتیں دیکھنے اور ہونے کے بعد اس کو مانا جاسکتا ہے ۔ مگر ہمارے نزدیک دوسرے دلائل کی بنیاد پراس بات میں کوئی حقیقت نہیں لگتی ہے ۔ وہ یہ ہے کہ تاریخ میں نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کے جنازے کا ذکر موجود ہے ، اور نہ ان کے والدہ کے جنازے کاذکر موجود ہے ، نہ ہی عبدالمطلب کے جنازے کا ذکر ہے اور نہ ابوطالب کے جنازے کا کوئی ذکرموجود ہے ۔ بدر میں جو کثیر تعداد میں کفارِ مکہ قتل ہوئے تھے تاریخ میں ان کے جنازے کا بھی کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مکی دور میں اپنے صحابہِ کرام مثلا ، سکران ، عثمان بن مظعون ، اور سیدہ خدیجہ پر نمازِ جنازہ نہیں پڑھی تھی ۔ اگر یہ چیز مشرکینِ مکہ کو معلوم تھی اور وہ اس کے قائل تھے تو پھران لوگوں پر نمازِ جنازہ کیوں نہیں پڑھی ؟ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں اپنے صحابہِ کرام کو اس فضیلت سے محروم رکھا ؟ تاریخ اور سیرت کی کتابوں سے تو اس بات کا پتہ چلتا ھے کہ سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں براء بن معرور کا جنازہ پڑھا تھا جیساکہ محقق ابوالقاسم سھیلی نے اس کی تصریح کی ہے۔سیرت کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوطالب اور سیدہ خدیجہ ایک سال میں قریب قریب وفات پاگئے تھے ۔چنددن ان دونوں کے درمیان تھے مگر مشرکینِ مکہ نے ابوطالب کا جنازہ نہیں پڑھا ۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کے قبر میں بھی اترے مگر ان کا جنازہ نہیں پڑھا ۔ اگر یہ اس وقت دین میں مشروع اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا پھر انہوں نے اپنے سب سے محبوب بیوی کو کیوں اس فضیلت سے محروم رکھا ؟ اس بات کی تصریح بہت سارے محققین نے کی ہے ۔ ہم اختصار کی خاطر صرف چند علماء کرام کی عبارتوں پر اکتفاء کرتے ہیں ۔ امام مقریزی لکھتے ہیں کہ ،، وکانت التی غسلت خدیجة ام ایمن وام الفضل زوجة العباس وذالک قبل ان تفرض الصلاة ، ولم تکن یومئذ سنةالجنازة والصلاة علیھا ، ودفنت بالحجون بمکة ، ونزل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حفرتھا ، واشتری معاویة منزل خدیجة فجعلہ مسجدا ( الامتاع ج 6ص 30) احباب اس عبارت میں صاف دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت نمازِ جنازہ مشروع نہیں تھی ۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ ان کی قبر میں تواترے تھے مگر ان پر جنازہ نہیں پڑھا تھا ۔ تقریبا یہی بات حافظ ابن حجرعسقلانی نے بھی واقدی سے نقل کی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ،، قال الواقدی توفیت لعشر خلون من رمضان وھی بنت خمس وستین سنة ثم اسند من حدیث حکیم بن حزام انھا توفیت سنة عشرمن البعثة بعد خروج بنی ھاشم من الشعب ، ودفنت بالحجون ونزل النبی علیہ السلام فی حفرتھا ولم تکن شرعت الصلاة علی الجنائز ،، ( الاصابہ ج 4 2482) اس کا حاصل یہ ہے کہ محمد بن عمر واقدی کا یہ قول ہے کہ بوقتِ وفات ان کی عمر 65 سال تھی ۔ اور پھر حکیم بن حزام سے نقل کیا ہے کہ وہ ہجرت کے دسویں سال وفات پاگئیں ۔ اس وقت بنو ہاشم شعبِ ابی طالب سے نکلے تھے ۔ ان کو مکہ کے حجون میں دفن کیا گیا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قبر میں بنفسِ نفیس اترے تھے مگر ان پر جنازہ نہیں پڑھا تھا ۔کیونکہ اس وقت جنازہ مشروع نہ تھا ۔ شیخ عبدالباقی زرقانی نے بھی ایسی ہی بات لکھی ہے کہ ،، ثم بعد ذالک بثلاثة ایام وقیل بخمسة وقیل بشھر وقیل بشھر وخمسة ایام وقیل بخمسین یوما وقیل بخمسة اشھر وقیل ماتت قبلہ ( ای قبل ابی طالب ) فی رمضان بعد البعث بعشر سنین علی الصحیح کما قال الحافظ وزاد وقیل بعدہ بثمان سنین وقیل بسبع ماتت الصدیقة الطاھرة خدیجة رضی اللہ عنھا ودخل علیھا صلی اللہ علیہ وسلم وھی فی الموت فقال ،، تکرھین ماآری منک وقد یجعل اللہ فی الکرہ خیرا ، رواہ الزبیر بن بکار ، واطعمھا من عنب الجنة ، رواہ الطبرانی بسند ضعیف واسند الواقدی عن حکیم بن حزام انھا دفنت بالحجون ونزل فی حفرتھا وھی ابنة خمس وستین سنة ولم تکن یومئذ الصلاة علی الجنازة ،،( زرقانی علی المواھب ج 2 ص 49) اس کا خلاصہ ہم نے اوپر بیان کردیا ہے ۔یہ سب لوگ سیرت کے محققین ہیں ۔ ان سب کی یہی رائے ہے۔ ان کے بالمقابل ایک جواد علی کے بات کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ؟اور یہی بات جواوپر درج ہے دیگر محققین نے بھی لکھی ہے مگر ہم اب سب کی عبارات کا استقصاء نہیں کرسکتے ۔ بس آخر میں شیخ برھان الدین حلبی کی عبارت دیکھتے ہیں ۔یہ بہت مفید عبارت ہے مگر ساتھ ہی طویل بھی ہے۔ہم کوشش کرتے ہیں کہ اسے ٹکڑوں ٹکڑوں میں اپنے احباب کے کے سامنے پیش کریں تاکہ شک وشبہ کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔ وہ پہلے یہی اوپر درج عبارت حافظ ابن کثیر کی سیرت سے سے نقل کرتے ہیں ۔ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ فاکھانی مالکی نے شرح رسالہ میں لکھا ہے کہ صلاة الجنازہ اس امت کے خصائص میں سے ہے ۔یہ بات بعض اور لوگوں نے بھی لکھی ہے مگربادی الرائ میں یہ بات درست نہیں لگتی واللہ اعلم ۔اس کے بعد جناب حلبی نے سیدنا ابن عباس سے بلاسند یہ بات نقل کی ہے کہ باوا آدم علیہ السلام کا جنازہ بھی ان کے بیٹے نے پڑھایا تھا ۔ پھر حاکم کا حوالہ دیا ہے ۔ مگر اہلِ تحقیق کے نزدیک حاکم کے نزدیک ،، غیرِ صحیح ،، روایت تو چھوڑئیے ، صحیح روایت بھی ان کی ،، محکوم علیہ ،، ہے ۔ اس کے بعد جناب حلبی لکھتے ہیں ،، وحینئذ لایحسن القول بان صلاة الجنازة من خصائص ھذہ الامة الا ان یقال لایلزم من کونھا من الشرائع القدیمة ان تکون معروفة لقریش اذ لو کانت کذالک لفعلوا ذلک وسیاتی عنھم انھم لم یفعلوا ذلک ( السیرةالحلبیہ ج2 ص 43) یعنی یہ ممکن ہے کہ جنازہ قدیم شرائع میں مشروع تو ہو مگر قریش کو اس کا علم ہی نہ ہو کیونکہ اگران کو علم ہوتا تو وہ اسے اپنے مردوں پر پڑھ لیتے مگر یہ کام جیسا کہ ابھی قریب ہی آجائے گا انہوں نے نہیں کیا ۔ آگے لکھتے ہیں کہ ،، وایضا لو کانت معروفة لھم لصلی النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی خدیجة ومن مات قبلھا من المسلمین کالسکران ابن عم سودة ام المؤمنین رضی اللہ عنھا الذی ھو زوجھا وسیاتی انہ صلی اللہ علیہ وسلم لماقدم المدینة وجد البراء بن معرور قدمات فذھب ھو واصحابہ فصلی علی قبرہ وانھا اول صلاة صلیت علی المیت فی الاسلام( ایضا ) اس بات خلاصہ پہلے لکھاجاچکا ہے ۔اس کے بعد جناب حلبی کچھ محققین سے نقل کرکے لکھتے ہیں کہ ،، وسیاتی عن الامتاع لم اجد فی شئ من السیر متی فرضت صلاة الجنازة ولم ینقل انہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی علی اسعد بن زرارة وقدمات فی السنةالاولی ولاعلی عثمان بن مظعون وقد مات فی السنةالثانیة وفی کلام بعضھم صلاةالجنازة فرضت فی السنة الاولی من الھجرة واول من صلی علیہ اسعد بن زرارة فلیتامل ( السیرةالحلبیة ج2 ص 43) ،، فلیتامل ،، میں غالبا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ امام مقریزی نے ،، الامتاع ،، میں صراحت کی ہے کہ سیدنا اسعدبن زرارہ پرنمازِ جنازہ کی بات منقول نہیں ہے۔، مگر اس ،، بعض ،، نے جو حلبی کے نزدیک بھی مجہول ہے سیدنا اسعد بن زرارہ پر نمازِجنازہ کے پڑھنے کی بات کی ہے ،جو درست قطعا نہیں ہے۔ اس تحقیق کاخلاصہ یہ ہوا کہ نہ قریش کو جنازہ کا علم تھا ، اور نہ اسے اپنے مردوں پروہ پڑھتے تھے ۔ بلکہ مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے صحابہِ کرام اور صحابیاتِ مکرمات پر جنازہ نہیں پڑھا ۔ تو یہ بات کہاں سے ثابت ہوگئی ہے کہ یہ سیدنا ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہے ؟ اور نبی علیہ السلام نے اس کی تجدید وتصویب کے بعد اس پرعمل شروع کیا ہے ؟ یہ محض جناب غامدی یا پھرجواد علی کا افسانہ ہے جس کی حقائق کی دنیا میں کوئی وجود نہیں ہے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
پردہ اور غامدی صاحب
حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ...
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی...