غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 52)

Published On March 23, 2024
مسئلہ نزولِ عیسی اور قرآن

مسئلہ نزولِ عیسی اور قرآن

بنیاد پرست غامدی صاحب لکھتے ہیں :۔ ایک جلیل القدر پیغمبر کے زندہ آسمان سے نازل ہو جانے کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ لیکن موقعِ بیان کے باوجود اس واقعہ کی طرف کوئی ادنی اشارہ بھی قرآن کے بین الدفتین کسی جگہ مذکور نہیں ہے۔ علم و عقل اس خاموشی پر مطمئن ہو سکتے ہیں...

مسئلہ حیاتِ عیسی اور قرآن : لفظِ توفی کی قرآن سے وضاحت

مسئلہ حیاتِ عیسی اور قرآن : لفظِ توفی کی قرآن سے وضاحت

بنیاد پرست قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ جب یہود نے عیسی علیہ السلام کو صلیب دے کر قتل کرنے کی کوشش کی تو قرآن نے جو فرمایا کہ” اللہ نے انہیں اپنی طرف بلند کر دیا “وہ حقیقت میں انہیں بلند نہیں کیا گیا تھا بلکہ ان کے درجات بلند کر دیے گئے تھے ، اس جگہ پر درجات کے بلندی کا...

غامدی صاحب کا استدلال کیوں غلط ہے ؟

غامدی صاحب کا استدلال کیوں غلط ہے ؟

صفتین خان غامدی صاحب کا تازہ بیان سن کر صدمے اور افسوس کے ملے جلے جذبات ہیں۔ یہ توقع نہیں تھی وہ اس حد تک جا کر خاکی فصیل کا دفاع کریں گے۔ یہ خود ان کے اوپر اتمام حجت ہے۔ ان کے انکار کے باوجود فوجی بیانیہ کے خلاف ان کے تمام سابقہ فلسفے اس تازہ کلام سے منسوخ و کالعدم...

نظمِ قرآن : غامدی صاحب کی تفسیر “البیان” کا ایک مختصر تقابلی مطالعہ

نظمِ قرآن : غامدی صاحب کی تفسیر “البیان” کا ایک مختصر تقابلی مطالعہ

جہانگیر حنیف فصل اوّل: تعارف مدرسۂ فراہی کا موقف ہے کہ نظم شرطِ کلام ہے۔ کلام نظم کے ساتھ وجود پذیر ہوتا ہے اور نظم کے تحت ہی فہم کی تحویل میں آتا ہے۔ اُن کےنزدیک نظم کی نفی کلام کی فطری ساخت کا انکار اور کلام کے درست فہم میں رکاوٹ ہے۔ لہذا امام فراہی، مولانا اصلاحی...

قرآن مجید کو سرگذشت قرار دینا کیوں غلط ہے؟

قرآن مجید کو سرگذشت قرار دینا کیوں غلط ہے؟

جہانگیر حنیف غامدی صاحب نے قرآن مجید کو ”سر گذشتِ انذار“ قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں: ”اپنے مضمون کے لحاظ سے قرآن ایک رسول کی سرگذشتِ انذار ہے۔“¹  قرآن مجید کے نذیر ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ لیکن اسے ”سرگذشت“ قرار دینے سے بہت سے علمی و ایمانی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا ہمیں...

فکرِ غامدی کا اصل مسئلہ

فکرِ غامدی کا اصل مسئلہ

جہانگیر حنیف غامدی صاحب کو چونکہ میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے، لہذا میں اعتماد اور یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ غامدی صاحب کے ہاں ایمان کا مسئلہ نہیں۔ انھوں نے جو مسئلہ پیدا کیا ہے، وہ علمی نوعیت کا ہے۔ وہ دین کو فرد کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ دین کا آفاقی پہلو ان کی...

مولانا واصل واسطی

ہم نے گزشتہ تحریر میں  جو چند عبارتیں ابن ہشام کے حوالے سے پیش کی تھیں  ان میں بعض پرابوالقاسم سہیلی نے جرح کی ہے ۔ ان میں ایک یہ ہے کہ جبریل نے وضو اورنماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھائی ۔ ممکن ہے کوئی شخص اس سے استفادہ کرلے ۔ تو ہم عرض کرتے ہیں   کہ یہ روایت  ،، ابن لھیعہ ،، کی سند کے علاوہ اور اسناد سے بھی کتبِ دلائل وسیرت میں مذکور ہے   مثلا ابونعیم اصفھانی اسی واقعہ کی سند یوں ذکر کرتے ہیں کہ حدثنا عمربن محمد بن جعفر قال حدثنا ابراھیم بن علی قال حدثنا النضربن سلمة قال حدثنا فلیح بن اسماعیل عن عبدالرحمن بن عبدالعزیز الامامی عن یزید بن رومان الزھری عن عروة بن الزبیر عن عائشة رضی اللہ عنھا الخ ( دلائل النبوة ج1 ص 127)  ابونعیم اصفہانی کی یہی روایت حافظ مغلطائی نے بھی حافظ ابوالقاسم سہیلی کے جواب میں نقل کی ہے  ۔دیکھئے ( الروض الباسم ج1 ص 553) باقی رہی  وہ روایات جو شعابِ مکہ وغیرہ میں نماز پڑھنے سے متعلق ہیں   تو ان کو سیرت کے اکثر محققین نے بطورِاقرار نقل کیا ہے ۔ شیخ علاء الدین خازن نے بھی ابن اسحق کی وہی عبارت نقل کی ہے اور اسے برقرار رکھا ہے ،، قال ابن اسحق و ذکر بعض اھل العلم ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان اذا حضرت الصلاة خرج الی شعاب مکة وخرج معہ علی بن ابی طالب مستخفیا من عمہ ابی طالب ومن جمیع اعمامہ وسائر قومہ فیصلیان الصلاة فیھا الخ ( الروض والحدائق ج1 ص 276) اور شیخ عبدالرؤف المناؤی بھی شرحِ الفیہِ عراقی میں امام ابوجعفر طبری کی کتاب سے تقریبا یہی بات تحریر کرتے ہیں کہ ،، وکان المصطفی اذا خرج الی شعاب مکة ومعہ علی یصلیان فعثر علیھما ابوطالب وھما یصلیان فقال یا ابن اخی ماھذا الذی تدین بہ ؟ قال دین اللہ وملائکتہ ورسلہ ، ودین ابینا ابراھیم بعثنی اللہ بہ رسولا الی العباد وانت ای عم احق من بذلت لہ النصیحة ودعوتہ الی الھدی واحق من اجابنی لہ واعاننی علیہ ، قال لا استطیع ان افارق دین آبائی ولکن لایخلص الیک شیئا تکرھہ مابقیت وقال لابنہ ،، اما انہ لم یدعک الاالی الخیر فالزمہ ،، ( الفتو حات السبحانیہ ج1ص 389) اس جواب پر غور کرلیں ۔سنتِ ابراہیمی کانام ہی نہیں لیا بلکہ دین اوراسلام کی بات کی ہے۔، اور اس کے بعد مسندِاحمد کے حوالے سے ایک عجیب بات ابوطالب کی نقل کی ہے ۔ عربی جاننے والے اس سے لطف لیں سکتے ہیں ۔ واخرج احمد عن علی رضی اللہ عنہ ،، ظھرعلینا ابوطالب وانا اصلی مع المصطفی فقال ماھذا ؟ فدعاہ الی الاسلام فقال مابالذی یقول من باس ولکن واللہ لایعلونی استی ابدا ( ایضا ) ان روایات سے یہ بات بالکل مبرہن ہوجاتی ہے   کہ ابوطالب جو مکہ کے بزرگوں میں سے تھے ، نماز کو نہیں پہچانتے تھے تو سیدنا ابوذرکی اس مجمل روایت سے استدلال کا کوئی فائدہ جناب غامدی کو نہیں پہنچا  کیونکہ ایک تووہ بنو غفار کا آدمی ہے ، اور یہ دوسرا شہرِ مکہ کا ایک بزرگ آدمی ہے ۔ بلکہ ابن کثیر کی تحقیق سے تو معلوم ہوتا ہے کہ  دیگر حضرات بھی ایسے موجود تھے کہ جو نماز بقولِ جناب غامدی اس معروف ،، سنتِ ابراہیمی ،، کو نہیں پہچانتے تھے۔ ان میں سیدنا عباس بن عبدالمطلب بھی تھے ۔ اور اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اس وقت اس عمل یعنی نماز کے ادا کرنے والے صرف جناب محمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدنا علی اور سیدہ خدیجہ ہی تھے ۔حافظ ابن کثیر امام ابن جریر طبری کی سند سے  یحی بن عفیف سے نقل کرتے ہیں کہ ،، قال جئت زمن الجاھلیة الی مکة فنزلت علی العباس بن عبدالمطلب فلماطلعت الشمس وحلقت فی السماء ، واناانظر الی الکعبة اقبل شاب فرمی ببصرہ الی السماء ثم استقبل الکعبة فقام مستقبلھا ، فلم یلبث حتی جاء غلام فقام عن یمینہ فلم یلبث حتی جاءت امراءة فقامت خلفھا فرکع الشاب فرکع الغلام والمراءة ، فخرالشاب ساجدا فسجدامعہ فقلت یاعباس ،، امرعظیم ،، فقال ،، امر عظیم ،، فقال اتدری من ھذا ؟ قلت لا قال ھذا محمدبن عبداللہ بن عبدالمطلب ابن اخی ، اتدری من ھذاالغلام ؟ قلت لا قال ھذا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اتدری من ھذہ المراءة التی خلفھما قلت لا قال ھذہ خدیجة بنت خویلد زوجة ابن اخی ، وھذا حدثنی ان ربک رب السماء والارض امرہ بھذاالذی تراھم علیہ ، وایم اللہ ما اعلم علی ظھرالارض کلھا احدا علی ھذاالدین غیر ھولاء الثلاثة ( السیرةالنبویة ج1 ص 308)  ممکن ہے کسی آدمی کے ذہن میں اس روایت سے اشکال پیش آجائے کہ پہلی پیش کردہ  روایات سے تو یہ معلوم ہورہا تھا کہ وہ  مکہ کی مختلف وادیوں میں سیدنا علی کوساتھ لے جاکر نماز ادا کرتے تھے ۔یہاں تو کعبہ کے سامنے نماز ادا کرنے کی بات کی گئی ہے ؟ مگر اس کا جواب ہم پہلے دے چکے ہیں کہ جناب شبلی نعمانی نے ابن الاثیر سے یہ بات نقل کی ہے کہ ، چاشت کی نماز کے اہلِ مکہ بھی قائل تھے  لہذا اعتراض کی کوئی بات الحمد للہ موجود نہیں ہے ۔ اب آخر میں مولانا مودودی کی ایک مفصل عبارت پیش کرتے ہیں جس میں اوپر درج عبارات کا ترجمہ بھی موجود ہے ۔اور کچھ اضافی مواد بھی ہے ، وہ لکھتے ہیں ،،  طبری نے لکھا ہے کہ سب سے پہلی چیز جواقراِر توحید اور بتوں سے براءت کے بعد شرائعِ اسلام میں فرض کی گئی وہ نماز تھی ، ابن ھشام نے بھی محمد بن اسحق کے حوالہ سے حضرت عائشہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو چیز فرض کی گئی وہ نماز تھی ، اور وہ ابتدا میں دودورکعت تھی ، امامِ احمد نے ،، ابن لھیعہ ،، کی روایت حضرت زید بن حارثہ سے نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی مرتبہ وحی نازل ہونے کے بعد جبریل آپ کے پاس آئے اور انہوں نے آپ کو وضو کی تعلیم دی ، ابن ماجہ اورطبرانی ( فی الاوسط) میں بھی یہ واقعہ کچھ سندوں کے اختلاف سے نقل ہواہے ( ہم نے ابونعیم کی سند اوپر نقل کی ہے) اس کی تشریح ابن اسحق کی اس بیان سے ہوتی ہے کہ ، حضور مکہ کے بالائی حصے میں تھے ، جبریل بہترین صورت اوربہترین خوشبو کے ساتھ آپ کے سامنے ظاہر ہوئے  اور انہوں نے کہا اے محمد:،اللہ نے آپ کو سلام کہا ہےاورفرمایا ہے کہ جن اورانس کی طرف آپ میرے رسول ہیں ۔اس لیے آپ قولِ لاالہ الااللہ کی طرف ان کو دعوت دیں ۔پھر انہوں  نےزمین پرپاؤں مارا جس سے پانی کایک چشمہ ابل پڑا اورانہوں نے وضو کیا تاکہ آپ نماز کےلیے پاک ہونے کاطریقہ سیکھ لیں ۔پھرآپ سے کہا کہ اب آپ بھی وضو کریں ۔ پھر جبریل نے حضور کے ساتھ دو رکعتیں چار سجدوں کے ساتھ پڑھیں ۔ اس کے بعد حضور حضرتِ خدیجہ کووہاں لائے اور وضوکرایا اور دو رکعتیں ان کے ساتھ پڑھیں۔ ابنِ ھشام ، ابن جریر ، ابن کثیر ، نے بھی اس واقعہ کو نقل کیا ہے ، امام احمد ، ابن ماجہ ، اور طبرانی ( فی الاوسط) وغیرہم نے اسامہ بن زید سے اور انہوں نے اپنے والدحضرتِ زید بن حارثہ سے نقل کیا ہے کہ حضور پر وحی آنے کے بعد پہلا کام یہ ہوا کہ جبریل نے آکر آپ کو وضو کا طریقہ بتایا ، پھر جبریل نماز کےلیے کھڑے ہوئے  اور آپ سے کہا کہ آپ ان کے ساتھ نماز پڑھیں ۔ پھر حضورگھرتشریف لائے اور حضرت خدیجہ سے اس کا ذکر کیا ، وہ خوشی کے مارے مدہوش ہوگئیں ۔پھرحضور نے ان کو اسی طرح وضوکرنے کے لیے کہا اوران کو ساتھ لے کر اسی طرح نماز پڑھی  جس طرح آپ نے جبریل کے ساتھ پڑھی تھی ۔ پس یہ پہلا فرض تھا جونزولِ اقراء کے بعد مقررکیاگیا ۔اغلب یہ ہے کہ یہ اسی رات کی صبح کاواقعہ ہے جس رات اقراء نازل ہوئی ۔اس کے بعد حضور اور حضرتِ خدیجہ خفیہ طریقہ سے نماز پڑھتے رہے ( سیرتِ سرورِعالم ج1 ص 143) اس بحث سے دو باتیں واضح ہوگئیں ۔ ایک یہ بات کہ اگر نماز کواہلِ مکہ جانتے ہوتے یااس کے قائل وفاعل ہوتے   تونبی علیہ السلام کو وضواور نمازجبریل سے سیکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ دوسری یہ بات کہ پھرنماز خفیہ پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں تھی ۔یہ سب باتیں جناب غامدی کے اوپردرج دعوی کی صاف صاف تردید کررہی  ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…