غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 50)

Published On March 13, 2024
فکرِ غامدی کا اصل مسئلہ

فکرِ غامدی کا اصل مسئلہ

جہانگیر حنیف غامدی صاحب کو چونکہ میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے، لہذا میں اعتماد اور یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ غامدی صاحب کے ہاں ایمان کا مسئلہ نہیں۔ انھوں نے جو مسئلہ پیدا کیا ہے، وہ علمی نوعیت کا ہے۔ وہ دین کو فرد کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ دین کا آفاقی پہلو ان کی...

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

مولانا واصل واسطی

اگے جناب اس ،، اہتمامِ وقوع فعل ، سے چند اصول برآمد کرتے  ہوئے لکھتے ہیں کہ ،، چنانچہ کوئی بچہ اگر اپنے باپ یاکوئی عورت اپنے شوہر کی جیب سے چند روپے اڑالیتی ہے   یاکوئی شخص کسی کی بہت معمولی قدروقیمت کی کوئی چیز چرالے جاتاہے   یاکسی کے باغ سے کچھ پھل یاکسی کھیت سے کچھ سبزیاں توڑ لیتاہے  یابغیرکسی حفاظت کے کسی جگہ ڈالا ہوا کوئی مال اچک لیتاہے یاآوارہ چرتی ہوئی کوئی گائے یابھینس ہانک کرلے جاتا ہے   یاکسی اضطراراورمجبوری کی بناپراس فعلِ شنیع کاارتکاب کرتا ہے   تو بے شک یہ ناشائستہ افعال ہیں   اوران پر اسے تنبیہ وتادیب ہونی چاہئے   لیکن یہ وہ چوری نہیں ہے جس کاحکم اس آیت میں بیان ہوا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے جوروایت اس باب میں بالعموم پیش کی جاتی ہے   وہ قران کے اسی مدعا کابیان ہے۔اس کے حدود سے سرِمو کوئی انحراف نہیں ہوا۔ ارشاد فرمایا ،، لاقطع فی ثمرمعلق ولافی حریسة جبل فاذا آواہ المراح اوالجرین فالقطع فیما یبلغ ثمن المجن ( ترجمہ) میوہ درخت پر لٹکتا ہو یابکری پہاڑ پرچرتی ہو   اورکوئی اسے چرالے   تواس میں ہاتھ نہ کاٹاجائے گا ۔ ہاں  اگر بکری باڑے میں پہنچ جائے اور کھلیان میں آجائے توہاتھ کاٹا جائے گا  بشرطیکہ اس کی قیمت ڈھال کی قیمت کے برابر ہو  ( میزان ص 41) جناب غامدی اس طرح کی تحقیق سے میدان مار لیتے ہیں ۔ اب دیکھو (1) رشتہ دار کے اشتثناء کا مسئلہ  (2) کم ازنصاب مال کے چوری کا مسئلہ (3) حرز و حفاظتِ کے بغیر مال کے چوری کامسئلہ (4) اضطرارومجبوری کے تحت چوری کرنے کا مسئلہ ، ان سب مسائل کو قران مجید کی اس آیت میں واقع ،، صفت ،، کے صیغہ میں ،، وقوعِ فعل کے اہتمام ،، سے ہی مستنبط کرلیا ہے ، اسے کہتے ہیں ،، اجتہادی قوت ،، اورایسے ہوتے ہیں ،امام الزمان ،قسم کے لوگ ۔باقی رہے مدارس کے ( ملائے مکتبی ) تو وہ بس مکھی پرمکھی مارتے رہے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ ساری باتیں احادیث میں موجود ہیں ۔مکلف ہونا تو قران وسنت کے نصوص سے ثابت ہے ۔اس میں بحث کی گنجائش نہیں۔ پھر جناب غامدی نے پہلی بات  ،، بچے ،، کے متعلق کی ہے ، تو وہ مکلف ہی نہیں ہوتا۔ دوسری بات  بیوی کے بارے میں کی ہےکہ اگر خاوند کے مال میں سے کچھ اڑالے تو اس میں شبہ کفالت کا موجود ہوتا ہےاور حدود شبہات سے مندفع ہوجاتے ہیں۔ اورپھر مال کے،، محرز ،، ہونے کی بات کی ہے ۔اس کے لیے حدیثیں المؤطا ، ابوداؤد ، اورترمذی وغیرہ کتابوں میں رافع بن جدیج اورعمرو بن العاص وغیرہ سے مروی ہیں ۔ پھر حریسہ کی بات کی ہے اس کے لیے مسنداحمد ، نسائی اور حاکم وغیرہ میں عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی روایت مروی ہے ۔ پھل وغیرہ کی بات مسنداحمد ، ابوداؤد اورنسائی وغیرہ میں موجود ہے ۔مضطراورمجبور آدمی کے لیے قران نے محرمات تک کوجائز قراردیا ہے تو پھر چوری کی وجہ سے کس طرح اس پر حد نافذ ہوگی ؟ بلکہ مصنفِ عبدالرزاق وغیرہ سے تو معلوم ہوتاہے کہ سیدنا عمربن الخطاب نے عام الرمادہ کے قحط میں حدود کو ساقط کردیا تھا۔ اور یمین کے کاٹنے پر جمہور کا اتفاق ہے جیساکہ حافظ ابن حجرنے لکھا ہے ،، کذااطلق فی الایة الیدواجمعوا علی ان المراد الیمنی ان کانت موجودة ( فتح الباری ج 12ص 116) اور کلائی اور پونچے سے کاٹنا جمہور کامذہب ہے  کماقال الحافظ ،، والثالث قول الجمھور ونقل بعضھم فیہ الاجماع ( ایضا ج12 ص 117)  یعنی یہ ساری وہ باتیں ہیں جو احادیث اوراجماع وغیرہ سے معلوم ہوئی ہیں ۔ مگر جناب غامدی نے لوگوں کو ورغلانے کے لیے اسے آیتِ سرقہ کے نیچے  ،، وقوعِ فعل کے اہتمام ،، کے ادعاء پر رکھ دیا ہے۔ممکن ہے ان کے مقلدین اس تحقیق سے متاثر ہو جائیں   لیکن اصحابِ عقل ودانش ضرور پوچھ لیں گے کہ صیغہ ہائے صفت کا ،، وقوع فعل کے اہتمام ،، پر دلالت کو تسلیم کرلینے کے بعد بھی یہ ساری باتیں آیتِ سرقہ میں آخر کیسے شامل ہوگئیں؟ کوئی طریقہ کوئی اصول وغیرہ اگر موجود ہے تو اس کی وضاحت کردیں  تاکہ ہم بھی وہ سمجھ سکیں۔ محض آپ کے کہنے پر تو اسے نہیں مان سکتے۔ یہ تو بالکل اس طرح ہے جیسے کوئی شخص نماز کی خاطر کپڑے کی طہارت کےلیے ،، وثیابک فطھر ،، سے استدلال کرلے ۔ مگر کوئی پوچھنے والا تو پوچھ سکتا ہے  کہ مکہ کے بالکل  ابتدائی دور میں  اس فروعی مسئلے کا قران کے نظم میں بیان ہونا کچھ عجیب سا لگتا ہے کیونکہ وضو وتیمم کابیان قران کی مدنی سورت میں ہوا ہے ۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ جناب غامدی نے ان چیزوں کو بھی اس آیت کے مضمون میں داخل کیا ہے   جو دورِ فاروقی کے عام الرمادہ میں پیش آئے تھے ۔ حاصل اس مبحث کا یہ ہوا کہ جناب غامدی نے حافظ محب کے موضوعہ ومقررہ   اور جناب کے تسلیم کردہ ونقل کردہ اس قاعدہ کی دفاع میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں جیساکہ ان بے بنیاد دعاوی سے اس بات کا پتہ احباب کو لگ رہا ہے ۔ اس کے بعد جناب غامدی نے کچھ صفحات اگے چل کر ایک عنوان ،، دین کی آخری کتاب ،، کے نام سے قائم کیا ہے ۔اس میں پھر تین مقدمات کو رکھا ہے کہ ،، یہ دین کی تاریخ ہے  چنانچہ قران کی دعوت اس کے پیشِ نظرجن مقدمات سے شروع ہوتی ہے وہ یہ ہیں (1) فطرت کے حقائق (2) دینِ ابراہیمی کی روایت (3) نبیوں کے صحائف ( میزان ص 45) ہم نے گذشتہ مباحث میں ان تین عنوانات کے پہلے اورآخری عنوان پر لکھا ہے ۔ یہاں دوسرے عنوان کا مطالعہ اور تجزیہ کرتے ہیں ۔ جناب ،، دینِ ابراہیمی کی روایت ،، کے متعلق لکھتے ہیں کہ ، دوسری چیز کے لیے قران نے ملتِ ابراہیمی کی تعبیراختیار کی ہے ۔ نماز ، روزہ ، حج ، زکوة ، یہ سب اسی ملت کے احکام ہیں ۔ جن سے قران کے مخاطب پوری طرح واقف   بلکہ بڑی حدتک ان پرعامل تھے ۔ سیدنا ابوذر کے ایمان لانے کی جو روایت مسلم میں بیان ہوئی ہے  ۔ اس میں وہ صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ وسلم کی بعث سے پہلے ہی وہ نماز کے پابند ہوچکے تھے ۔جمعہ کی اقامت کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ قران کے مخاطبین کے لیے اجنبی چیز نہیں تھی ۔نمازِ جنازہ وہ پڑھتے تھے ۔ روزہ اسی طرح رکھتے تھے جس طرح اب ہم رکھتے ہیں ۔ زکوة ان کے ہاں بالکل اسی طرح ایک متعین حق تھی جس طرح اب متعین ہے ( میزان ص 45)  اس عبارت میں اگرچہ جناب غامدی نے چند حوالوں کا اضافہ کیا ہے ۔ مگر باتیں سب وہی ہیں جو حافظ محب نے سوا صدی پہلے لکھی ہیں  یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ حافظ محب کی اس کتاب سے مکتبِ فراہی کے سب آیمہ ( مثلا عبدالحمید فراہی ، امین احسن اصلاحی ، اور جاوید غامدی) نے اپنے اپنے استعداد کے مطابق بھرپوراستفادہ کیا ہے مگر کوئی بھی اس بچارے کانام بطور ماخذ نہیں لیتا تاکہ بدنامی نہ ہو ۔حافظ محب کی یہ کتاب پہلی بار 1909ء میں شائع ہوگئی تھی ۔ تو ہم عرض کر رہے تھے کہ حافظ محب نے ان مذکورہ احکام پر پہلے لوگوں کے اشکالات واعتراضات نقل کیے ہیں۔ پھر ان کے جواب میں لکھاہے کہ   اس اتنے بیان سے میری غرض یہ ہے کہ محاورہ زبان جسے اہلِ زبان سمجھتے ہیں ، وہ مجمل نہیں کہاجاتا ، اورجب محاورہ کے مفہوم سے سامع مطمئن ہوا تو وہ مفصل ہے جیسے خدانے سرقہ کو نہ بیان کیا ، زناکو نہ بیان کیا ، ربوا کو نہ بیان کیا ، صلوة و زکوة کو نہ بیان کیا ، حج وطواف کو نہ بیان کیا ، کیونکہ یہ قوم کی مصطلح الفاظ ہیں ۔ان اصطلاحوں سے وہ کماحقہ واقف تھے ۔ یہ کوئی فرشتوں کی اصطلاح نہیں   عربی زبان میں قران اترا ہے ، عربی زبان کی یہ اصطلاحیں ہیں ۔ اس لیے حکم صریح ہے ، صاف اور واضح ، اس سے یہ سمجھنا بھی صحیح ہوگا کہ قوم صلوة کو جانتی تھی۔ جوصلوة کے معنی نماز کے ہیں ، اور وہ ضرور جانتی تھی ۔ کیونکہ لوگ مسلمان ہونے آتے ، اسلام تبلیغ کیا جاتا ، اسلام لاتے ، وصلوة وزکوة کاحکم سنادیاجاتا سن کرسرتسلیم خم کردیتے اور فرمان برداری کا قول وقرار کرجاتے ، نہ کسی نے کبھی یہ سوال کیا کہ یارسول اللہ ماالصلوة وماالزکوة ؟ نہ ان کوکوئی رسالہ لکھ کردیا جاتا کہ وضو اورنماز میں اتنے فرائض ہیں ۔اتنے واجبات وسنن ہیں اتنے مستحبات ومکروہات ہیں ، اس سے ظاھر ہے کہ صلوة وغیرہ احکام کی اصطلاح معلوم القوم تھی ( شرعةالحق ص 251) اس سے احباب ہماری کل والی  اس بات کی حقیقت جان گئے ہونگے جوہم نے جناب غامدی کے متعلق لکھی تھی ۔ بلکہ اس کا یقین ہوگیا ہوگا۔ ہم اس اوپر درج دعوی کے بارے میں اگے تجزیہ کریں گےان شاءاللہ

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…