غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 49)

Published On March 13, 2024
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...

مولانا واصل واسطی

اس مبحث میں ہم ،، سرقہ ،، یعنی چوری کے متعلق جناب غامدی کے افکارکا تجزیہ کریں گے ۔

غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ ،، چوری کی سزا قران مجید کی سورہِ مائدہ میں اس طرح بیان ہوئی ہے ،، والسارق والسارقة فاقطعوا ایدیھما ، جزاء بماکسبا ، نکالا من اللہ ، واللہ عزیز حکیم ( المائدہ 38) ( ترجمہ) اور چور خواہ مرد یا عورت  دونوں کے ہاتھ کاٹ دو   ان کے عمل کی پاداش اوراللہ کی طرف سے عبرت ناک سزاکے طور پر ، اوراللہ غالب اور حکیم ہے ،، اس سے واضح ہے کہ یہ سزا چور مرد اور چور عورت کےلیے ہے ۔ قران نے اس کے لیے ، سارق ، اور ، سارقة ، کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ عربی زبان کا ہرعالم جانتا ہے   کہ یہ صفت کے صیغے ہیں   جو وقوعِ فعل میں اہتمام پر دلالت کرتاہے لہذا ان کا اطلاق فعلِ سرقہ کی کسی ایسی ہی نوعیت پرکیا جاسکتا ہے  جس کےارتکاب کو چوری اورجس کے مرتکب کو چور قرار دیا جاسکے ( میزان ص 41) ہم عرض کرتے ہیں کہ بعض علماء کرام اس آیت کو مجمل مانتے ہیں   کیونکہ (1) نہ تواس میں سرقہ کی مقدار ونصاب کا پتہ ہے (2) اورنہ اس میں مال کے محرز وغیرمحرز ہونے کی بات موجود ہے (3) نہ اس میں ،، ایدی ،، کی تعیین ہے کہ وہ یمین یاشمال ہیں  (4) نہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ پہلی بار ایک ہاتھ کا قطع ہو یادونوں کا ؟(5) نہ یہ بتایا گیاہے کہ وہ رسغ وکوع سے کاٹے جائینگے یامرافق سے یاکہ مناکب سے ؟ مگر بعض دیگر علماء اس آیت کو مطلق سمجھتے ہیں مجمل نہیں مانتے اگر چہ وہ بھی اس کی تخصیص بالحدیث کے قائل ہیں۔ جناب حافظ محب نے بھی اس دعوائے اجمال پر تنقید کی ہے اور لکھا ہے کہ ،، یہ حکم مجمل قراردیا گیا ہے کیونکہ یہ توبتایاہی نہیں   کہ کس مال کی چوری میں یہ سزا ہے ، دوسرے یہ بھی نہیں بتایا کہ دایاں ہاتھ کاٹاجائے یا بایاں ، تیسرے یہ بھی نہیں معلوم ہوا کہ فاقطعوا کا مخاطب کون ہے   تو اس کی تفسیر و تفصیل کی گئی حدیث کی کتاب اوراجماعِ امت سے ۔ یوں یہ آیت اختلافوں کی رزمگاہ اورطبع آزمائیوں کی تماشا گاہ میں ڈالی گئی ۔ میری سمجھ میں ایساتو ہے نہیں کہ جب سے اسلام آیا  چوری بھی آئی ، پہلے سرقہ کوکوئی جانتانہ تھا ، یہ سکھایا اسلام نے ، بلکہ سرقہ وغیرہ جرائم تو ہمیشہ سے ہوتے آئے ، اس لیے لوگ سرقہ وغیرہ کی اصطلاح سے واقف تھے ، جب واقف تھے ، توخدا نے سرقہ کی سزا بتادی ، اس میں اجمال کیا ہوا ؟( شرعة الحق ص 340 ) اس مسئلے میں اگرچہ بظاہر جناب غامدی اور حافظ محب کی راہیں الگ الگ ہیں   مگرمقصود دونوں کا ایک ہےکہ ،، سرقہ ،، میں مقدار بھی حدیث کے بغیر معلوم ہے ، ایدی کایمین ہونا بھی بغیر حدیث کے معلوم ہے ، اور جائے قطع بھی اس کے بغیر معلوم ہے ۔ مگر حافظ محب اور غامدی دونوں نے اس باب میں عجیب ترین استدلال کیا ہے ۔حافظ محب کا فرمان ہے کہ ،، سرقہ ،، کو اسلام نے متعارف نہیں کرایا ہے ،  پہلے سے عرب میں رائج تھا   لہذا سب کو معلوم تھا کے یہ کیا ہے ،، مگرہم کہتے ہیں کہ سوال یہاں چوری کرنے کا تو نہیں ہے ۔ عرب میں چوری کرنا رائج تھا ، اس کی سزا تو اسلام سے قبل رائج نہیں تھی ؟ تو نصاب وغیرہ اس کا کیسے لوگوں کو معلوم ہوا ؟ اور پھر جب چور چوری کرتا ہے   کیا وہ اس بات کا بھی خیال رکھتا ہے کہ وہ نصاب کے مطابق ہو ؟ اگر یہ دوباتیں وہاں موجود نہیں تھی جیسا کہ یقین ہے تو پھراس کے اس جواب سے کوئی بات بنتی نہیں ہے ۔حافظ نے صرف وقت گذاری کی ہے   اور جناب غامدی نے اسے صفت کے صیغے قراردے کر اس سے ،، وقوعِ فعلِ میں اہتمامِ ،، کامفہوم نکال کر اسے دلیل بنایا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ ،، اہتمامِ وقوع ،، کیا ان سب چیزوں کا تعین کر سکتا ہے   جن کے عدمِ تعین کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے ؟ اگر جواب اثبات میں ہے   تو ذرامحنت کرکے اس کے مفہوم میں یہ چیزیں شامل کرکے ان کا تعین کردیں ۔ اوراگر اہتمامِ وقوع فعل سے ان چیزوں کا تعین نہیں ہوتا   تو پھر آپ کی اس محنت کا کیاحاصل ہوا ؟ وہی اشکالات اب بھی اپنی جگہ پر قائم ہیں جو پہلے تھے ۔ یہاں احباب ذرا جناب غامدی کے محبوب مفسر زمخشری کی عبارت بھی دیکھ لیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ،، وارید بالیدین الیمینان بدلیلِ قراءة عبداللہ ،، والسارقون والسارقات فاقطعوا ایمانھما ،، والسارق فی الشریعة من سرق من الحرز والمقطع الرسغ وعندالخوارج المنکب والمقدار الذی یجب بہ القطع عشرة دراھم عندابی حنیفة وعند مالک والشافعی رحمھما اللہ ربع دینار ( الکشاف ج1ص 665 )  اس عبارت میں ہرآدمی دیکھ سکتا ہے  کہ زمخشری نے ،، ایدی ،، سے دائیں ہاتھ کو عبداللہ بن مسعود کی قراءة کی بنیاد پرمراد لیا ہے ۔آلہِ کسب ہونے کی بنیاد پر نہیں۔ اورپھر اس امام اللغہ نے یہاں ، ید ، کے قطعی اطلاق کی بھی کوئی بات نہیں کی ہے ۔ کیا زمخشری کا یہ قول بھی جناب غامدی کو منظور ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو وجہِ عدمِ قبولیت بھی بتادیں ؟ اورکیا زمخشری کی ان کو صرف وہ عبارات منظور ہوتی ہیں جو ان کی فکر کی تائید میں ہو ں؟ حالانکہ وہ امام اللغہ بھی تو ہے؟ جناب غامدی نے ایک دوسرے مقام میں کوشش کی ہے کہ ان چیزوں کے لیے بھی دلیل فراہم کر سکیں  ورنہ قران کی تخصیص وتحدید حدیث سے لازم آجائے گی جو جناب غامدی اور حافظ محب دونوں کے لیے سوہانِ روح ہے ۔جناب غامدی کی اس بارے میں مکتوب عبارت تو ہم باربار پیش کرچکے ہیں اب بعینہ وہی الفاظ حدیث سے تخصیص وتحدید کے متعلق حافظ محب کے بھی دیکھ لیں تاکہ ہماری اوپر والی بات کا یقین آجائے۔ وہ لکھتے ہیں ،، نہ میں اہلِ حدیث ہوں جو حضرت امام ابوحنیفہ رحمةاللہ علیہ کے شیعہ کی طرح تبرائی ہیں کہ کمزور ضعیف اور مشتبہ حدیثوں کو بھی رسولِ خداکے ساتھ منسوب کرکے جب تک اس میں قطعیت نہ پیدا ہو ، اپنا ٹھکانہ خطرناک بناؤں اور قران کوباہمہ تواتر حدیث سے منسوخ کرنے یاحدیث سے مخصوص ومحدود کرنے یا قران پر اضافہ کرنے کو کھڑا ہو جاؤں کہ یہ بھی نسخِ قران ہے ( شرعةالحق ص 58) احباب تقابل کےلیے ( میزان ص 35) بھی دیکھ لیں ۔ اوپر جو ہم نے جناب غامدی کی عبارت نقل کی ہے اس کے بعد وہ لکھتے ہیں ،، قطعِ ید کی یہ سزا ، جزاء بماکسبا نکالا من اللہ ، ہے لہذا مجرم کو دوسروں کے لیے عبرت بنادینے میں عمل اورپاداشِ عمل کی مناسبت سے جس طرح یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کا ہاتھ کاٹ دیاجائے ، اسی طرح یہ تقاضا بھی کرتی ہے   کہ اس کا دایاں ہاتھ ہی کاٹا جائے   اس لیے کہ انسانوں میں آلہِ کسب کی حیثیت اگرغور کیجئے تواصلا اس کو حاصل ہے ۔ پھر یہ بھی واضح ہے   کہ لفظِ، ید ، کے قطعی اطلاق کی بنا پر اسے ہمیشہ پونچے ( کلائی) ہی سے کاٹا جائے گا ( میزان ص 627)  کمال کی تحقیق کی ہے جناب غامدی نے۔ اگر آلہِ کسب ہونے کی وجہ سے دایاں ہاتھ مخصوص ہواہے   تو پھر قذف میں قاذف کی ، زبان ، اورزنا میں زانی کے آلہِ تناسل ہی نے کسب کیا ہے  ان کو کاٹنا چاہیے تاکہ نہ بانس نہ بجے بانسری ۔عمل اور پاداشِ عمل میں مناسبت بھی اس طرح پیدا ہوجائے گی۔ اور رجم کے ،، شرتقتیل سے تو عقلا یہ اولی  ایسر بھی ہے ۔ اور پھراگر کوئی آدمیبائیں  ہاتھ سے کسب کرتا ہو توکیا آپ کے نزدیک اس کا بایاں ہاتھ ہی کاٹاجائے گا کہ کسب اس نے اسی سے کیا ہے؟ اور پھر پونچوں پر ، ید ،کے قطعی اطلاق کا کیا مطلب ہے ؟ کیا باقی ہاتھ پراس کااطلاق ظنی ہے ؟ پیش کر صاحب علم کوئی اگر دفتر میں ہے ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…