غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 44)

Published On March 13, 2024
مسئلہ حیاتِ عیسی اور قرآن : لفظِ توفی کی قرآن سے وضاحت

مسئلہ حیاتِ عیسی اور قرآن : لفظِ توفی کی قرآن سے وضاحت

بنیاد پرست قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ جب یہود نے عیسی علیہ السلام کو صلیب دے کر قتل کرنے کی کوشش کی تو قرآن نے جو فرمایا کہ” اللہ نے انہیں اپنی طرف بلند کر دیا “وہ حقیقت میں انہیں بلند نہیں کیا گیا تھا بلکہ ان کے درجات بلند کر دیے گئے تھے ، اس جگہ پر درجات کے بلندی کا...

غامدی صاحب کا استدلال کیوں غلط ہے ؟

غامدی صاحب کا استدلال کیوں غلط ہے ؟

صفتین خان غامدی صاحب کا تازہ بیان سن کر صدمے اور افسوس کے ملے جلے جذبات ہیں۔ یہ توقع نہیں تھی وہ اس حد تک جا کر خاکی فصیل کا دفاع کریں گے۔ یہ خود ان کے اوپر اتمام حجت ہے۔ ان کے انکار کے باوجود فوجی بیانیہ کے خلاف ان کے تمام سابقہ فلسفے اس تازہ کلام سے منسوخ و کالعدم...

نظمِ قرآن : غامدی صاحب کی تفسیر “البیان” کا ایک مختصر تقابلی مطالعہ

نظمِ قرآن : غامدی صاحب کی تفسیر “البیان” کا ایک مختصر تقابلی مطالعہ

جہانگیر حنیف فصل اوّل: تعارف مدرسۂ فراہی کا موقف ہے کہ نظم شرطِ کلام ہے۔ کلام نظم کے ساتھ وجود پذیر ہوتا ہے اور نظم کے تحت ہی فہم کی تحویل میں آتا ہے۔ اُن کےنزدیک نظم کی نفی کلام کی فطری ساخت کا انکار اور کلام کے درست فہم میں رکاوٹ ہے۔ لہذا امام فراہی، مولانا اصلاحی...

قرآن مجید کو سرگذشت قرار دینا کیوں غلط ہے؟

قرآن مجید کو سرگذشت قرار دینا کیوں غلط ہے؟

جہانگیر حنیف غامدی صاحب نے قرآن مجید کو ”سر گذشتِ انذار“ قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں: ”اپنے مضمون کے لحاظ سے قرآن ایک رسول کی سرگذشتِ انذار ہے۔“¹  قرآن مجید کے نذیر ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ لیکن اسے ”سرگذشت“ قرار دینے سے بہت سے علمی و ایمانی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا ہمیں...

فکرِ غامدی کا اصل مسئلہ

فکرِ غامدی کا اصل مسئلہ

جہانگیر حنیف غامدی صاحب کو چونکہ میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے، لہذا میں اعتماد اور یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ غامدی صاحب کے ہاں ایمان کا مسئلہ نہیں۔ انھوں نے جو مسئلہ پیدا کیا ہے، وہ علمی نوعیت کا ہے۔ وہ دین کو فرد کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ دین کا آفاقی پہلو ان کی...

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

مولانا واصل واسطی

ہم یہاں دوباتیں کریں گے ۔جناب غامدی کی اوپر مذکور بات سے پہلے ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے   جو رضاعت کے مسئلے سے ہی متعلق ہے وہ پہلی بات ہے اور یہ ہے کہ جناب غامدی اور ان کے ،، استادامام ،، کو چونکہ رضاعت کے مسئلے میں امام ابوحنیفہ کا مسلک منظور نہیں ہے جیسا کہ ان کی عبارات سے واضح ہے  تواب چاہئے تھا  کہ وہ دیگر آئمہ کے مروج مذاہب میں سے کسی کا مسلک مان لیتے   اور اس باب میں وارد ،، آحادیث ،، سے ،، تخصیص وتحدیدِ ،، قران کے قائل ہوجاتے   مگر وہ ،، نہ انکارمیکنم نہ این کارمیکنم ،، کی پالیسی پر عمل پیرا ہوگئے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ ،، ارضاع ،، کے مفہوم میں فی الجملہ ،، مبالغہ ،، پایا جاتا ہے    اس لیے اس ارضاع میں ،، اہتمام ،، کا ہونا ضروری ہے ۔وہ اپنے ،،استاد امام ،، کا قول  آیت ،، وامھاتکم التی ارضعنکم ،، ( النساء 23 ) کے تحت نقل کرتے ہیں کہ ،،  یہ تعلق مجرد کسی اتفاقی واقعے سے قائم نہیں ہوجاتا۔ قران نے یہاں جن لفظوں میں اس کو بیان کیا ہے  اس سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ یہ اتفاقی طورپرنہیں  بلکہ اہتمام کے ساتھ ایک مقصد کی حیثیت سے عمل میں آیا ہو تب اس کا اعتباہ ہے۔ اول تو فرمایا ،، تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے ،، پھر اس کے لیے رضاعت کا لفظ استعمال کیا ہے ،، واخواتکم من الرضاعة ،، عربی زبان کا علم رکھنے والے جانتے ہیں   کہ ارضاع بابِ افعال سے ہے   جس میں فی الجملہ مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے ۔ اسی طرح ،، رضاعت ،، کا لفظ بھی اس بات سے ابا کرتا ہے کہ اگر کوئی عورت کسی روتے بچے کو بہلانے کےلیے اپنی چھاتی اس کے منہ سے لگا دے تو یہ ،، رضاعت ،، کہلائے ( البیان ج1 ص 472)  مگر ہم پوری ذمہ داری سے عرض کرتے ہیں ، کہ ،، ارضاع ،، کے لفظ میں کوئی مبالغہ عربی ادب اورلغت کی روسے موجود نہیں ہے ۔ ہاں بابِ افعال میں فی الجملہ مبالغہ کے ہونے سے اس پراستدلال کرنا   بالکل اس طرح ہے جیساکہ بعض متعصب فقہی حضرات نے باب افعال میں ہمزہ کے سلب سے ،، اطاق ،، میں بھی اس کا اجرا کرکے ،، یطیقونہ ،، کا ترجمہ ،، طاقت نہیں رکھتے ،، کیا ہے۔ مگر کون عاقل ان کے اس استدلال کو مان سکتا ہے ؟ لہذاہم عرض کرتے ہیں کہ ،، ارضاع ،،  کے لفظ میں نہ ،، اہتمام ،، کا مفہوم ہے   اورنہ کسی خاص ،، مقصد ،، کا ، بابِ رضاعت میں ان دو‌ چیزوں کا لحاظ رکھنا بہت اچھی بات ہے جیساکہ ،، آحادیث ،، سے ثابت ہے ۔مگر ان کو لفظِ ،، ارضاع ،، میں زور زبردستی سے داخل کرنا لغت میں تحریف ہے ۔ اسی طرح یہ بات کس نے کہی ہے کہ ،، روتے بچے کو بہلانے کی خاطر اس کے منہ سے چھاتی لگادینا رضاعت کہلاتا ہے ،، ؟ مگر روتے بچے کے منہ میں چھاتی دے کر دودھ پلانا کس لغوی یامحقق شخص نے لکھا ہے کہ وہ  ،، رضاعت ،، نہیں ہے ؟ ہاں شرعا وہ ،، رضاعت ،، نہ ہو تو یہ بات درست ہے  کہ اس میں ،، فتق الامعاء ،، اور ،، مجاعت ،، وغیرہ ضروری ہے  جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آحادیثِ مبارکہ میں فرمایا ہے ۔  اس بحث سے یہ بات واضح ہوگئی ہے  کہ جناب غامدی مسلسل مغالطوں سے اپنے وضع کردہ ،، قاعدے ،، کوبچاتے ہیں حالانکہ وہ قاعدہ ٹوٹنے سے کبھی نہیں بچ سکتا (2) دوسری بات یہ ہے کہ جناب غامدی نے اس اوپر درج عبارت میں ،، جمع بین المراءة وخالتھا وبین المراءة وعمتھا ،، کے متعلق چند باتیں لکھی ہیں  ۔اس میں ایک بات تو یہ ہے کہ  یہاں ،، وان تجمعوا بین الاختین ،، کے بعد مذکورہ دو جملے محذوف ہیں ۔ہمارے نزدیک حذف کے لیے قرائن کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جیساکہ ہم نے گذشتہ مباحث میں لکھا ہے ۔مگر یہاں کوئی بھی قرینہ ان دوجملوں کے محذوف ہونے پرنہیں ہے ۔ جو شخص اس کے وجود کا مدعی ہے   وہ اسے دلائل سے بیان کردے ۔دوسری بات یہ ہے کہ اگر جناب کے خیال میں ،، عربی ،، ادب کی چند مثالوں سے یہ بات آئی ہو ، جیسے ادب کی کتابوں میں ان کی تفصیل موجود ہے مثلا

،، علفتھا تبنا وماء باردا

حتی شتت ھمالة عیناھا ،،

یاپھر بعض دیگر کتابوں میں اس کی دوسری مثال آئی ہے کہ

 ،، یالیت زوجک قدغدا

متقلدا سیفا ورمحا ،،

   تو پھر یہ بات چند وجوہ کی بنا پر درست نہیں لگتی ہے ۔ کیونکہ ایک تو یہاں دونوں کے یعنی ،، ماء ،، اور ،، رمحا ،، کے صرف اور صرف عوامل محذوف ہیں جبکہ معمول دونوں کے مذکور ہیں ۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ ایسے حذف اس مقام میں آتے ہیں جہاں دونوں کا ایک ہی شعبہ ومحل سے تعلق ہو۔اب پہلے شعر میں ،، سقیتھا ،، کا لفظ محذوف ہے  جو،، علفتھا ،، کی طرح دونوں منہ سے اداکیے جاتے ہیں ۔اسی طرح دوسرے شعرمیں ،، حمل ،، یا ،، اعتقال ،، وغیرہ کا لفظ محذوف ہے   دونوں یعنی سیف اور رمح جنگ کے اوزار ہیں۔  لیکن یہاں جناب غامدی کے ان دو مذکورہ جملوں میں ،، وان تجمعوا بین الاختین ،، ساتھ ایک جیسے نہیں ہیں ۔ ایک جگہ دونوں بہنیں ہیں ، دوسری جگہ بھانجی وخالہ اور بھتیجی و پھوپھی ہیں ۔کیا یہ ایک جیسے ہیں ؟ دوبہنوں کے جمع پراگر چچازاد بہنوں کو قیاس کیاجاتا اور ان کے محذوف ہونے کادعوی کیاجاتا تب کچھ بات بن سکتی تھی  مگر وہ جمع حرام نہیں ہے۔ لیکن یہاں خالہ و بھانجی کے درمیان تو کوئی ایسا قریبی تعلق بھی موجود نہیں ہے  جیسے بہنوں میں ہوتا ہے  ۔پھر بہنیں تو دونوں  درجات میں بالکل مساوی ہیں   مگر پھوپھی اوربھتیجی یا خالہ وبھانجی  بھی کیا درجات میں برابر ہیں ؟ اگر آپ ان کو ماں اور بیٹی کی ،، حرمت الجمع ،، پر قیاس کرتے   توبات کچھ بن جاتی مگر مسئلہ جناب کوادھر یہ پیش ہورہا تھا  کہ ان کی ،، حرمت الجمع ،، میں یہاں کوئی نص موجود نہیں ہے   جس کی بنیاد پر وہ اس کے محذوف ہونے کی بنا رکھتے ۔ مجبوری تھی مرتے کیا نہ کرتے ۔ لیکن  ،، وان تجمعوا بین الاختین ،، کے بعد اس کو محذوف ماننا بالکل اس طرح ہےجیسے جناب غامدی اور ان کے  ،، استاد امام ،، نے آخرت کی اثبات پر ،، زوجیت ،، نامی کوئی دلیل نما مضحکہ خیز چیز پیش کی ہے ۔ان لوگوں نے دنیا وآخرت کو ،، زوج ،، قرار تو دیا ہے  مگر یہ نہیں بتایا کہ (1) اس میں زوج کا ایک جز دائمی ہے اور دوسرا عارضی ہے (2) اورایک جز اس کا لذت ، مسرت ، اور منفعت کے اعتبار سے انتہائی کامل ہے اور دوسرا جز انہی چیزوں کے اعتبار سے اس کاانتہائی ناقص ہے (3) اورایک جز اس کا بالکل خود مختاری پرمبنی ہے   اور دوسراجز اس کا خالصتا مجبوری پر مبنی ہے ۔ اسی طرح کے بے شمار نقص اس بات میں موجود ہیں ۔ مگر یہ حضرات پھر بھی دنیا آخرت کے لیے اسے  ،، دلیلِ زوجیت ،، قرار دیتے ہیں   اور اس پر خوش ہیں۔ پھرسوال یہ ہے کہ آپ جمع بین الاختین کی حرمت کی علت کیا چیز قراردیتے ہیں ؟ اگرقطعِ رحمی اور باہمی تعلق کی خرابی کو علت قرار دیتے ہیں ؟ تو وہ دوبہنوں کی بیٹیوں ، یا دو بھائیوں کی بیٹیوں میں بھی موجود ہے ۔ پھر ان کا کیاحکم ہوگا ؟ اور اگر ،، فحشیت ،، کو علت قراردیتے ہیں  تب بھی مندرجہ بالا لڑکیوں میں موجود ہے ؟ اور انہی دونوں علتوں کو دیکھ لو کہ ،، بھانجی اور قریبی اعیانی خالہ میں تو یقینا موجود ہے ؟ مگر جناب اسے اخیافی اورعلاتی رشتوں میں ان کو کس طرح ثابت کریں گے ؟ اور یہ بھی چھوڑدیں بھانجی اوردادا یا پردادا کی اخیافی اور علاتی بہن کے درمیان اس  ،، علت ،، کو کس طرح سے ثابت کریں گے ؟ حقیقت یہ ہے   کہ قران میں اس طرح کا جملہ ایسے بے موقع ومحل نکالنا محض ذہنی پس ماندگی کی دلیل ہے ۔پھر ہم کہتے ہیں اچھا مان لیا جناب کہ بات آپ  کے اس قول کے مطابق ہے ۔ مگر پھوپھیوں کے ، خالاؤں کے ، بھانجیوں کے ، بھتیجیوں کے ، تینوں اقسام کا اثبات کس طرح قران سے کریں گے ؟ یا پھر ان کے نکاحوں کو حلال قراردیں گے ؟ حقیقت یہ ہے کہ ان مسائل کے حل کرنے میں جناب کی بے بسی صاف صاف نظرآتی ہے ۔ امید ہے کہ وہ کچھ اور محنت ان مسائل پرکرلیں گے تاکہ سب لوگوں کو اس پر اطمینان  حاصل ہوجائے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…