غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 43)

Published On March 13, 2024
تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ شهادت علی الناس:۔ شہادت علی الناس کا سیدھا اور سادہ معروف مطلب چھوڑ کر غامدی صاحب نے ایک اچھوتا مطلب لیا ہے جو یہ ہے کہ جیسے رسول اپنی قوم پر شاہد ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ صحابہ پر شاہد تھے ، ایسے ہی صحابہ کو اور صرف صحابہ کو دیگر محدود...

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟  غامدی صاحب کے دلائل کا جائزہ:۔ ویسے تو کسی نظریے کے غلط ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ امت کے اجتماعی ضمیر کے فیصلے سے متصادم ہے، لیکن اگر کچھ نادان امت کے اجتماعی ضمیر کو اتھارٹی ہی تسلیم نہ کرتے ہوں اور اپنے دلائل پر نازاں ہوں تو...

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد غامدی تصور جہاد کی سنگینی اور انوکھا پن:۔ پوری اسلامی تاریخ میں اہل سنت کا کوئی قابل ذکر فقیہ مجتہد، محدث اور مفسر اس اچھوتے اور قطعی تصور جہاد کا قائل نہیں گذرا، البتہ ماضی قریب میں نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمدقادیانی نے اس قبیل کی...

تصورِ جہاد ( قسط اول)

تصورِ جہاد ( قسط اول)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد کچھ عرصہ قبل راقم نے غامدی صاحب کے شاگر در شید اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کے فرزند من پسند جناب عمار خان ناصر صاحب کے نظریہ جہاد کے نقد و تجزیے کے لیے ایک مضمون سپر د قلم کیا تھا، جو ماہنامہ صفدر میں قسط وار چھپنے کے علاوہ "عمار خان کا نیا...

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

حسان بن علی پہلے یہ جاننا چاہیے کہ قرآن نے اصل موضوع سود لینے والے کو کیوں بنایا. اسے درجہ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے ١) چونکا سود کے عمل میں بنیادی کردار سود لینے والے کا ہے لہذا قرآن نے اصل موضوع اسے بنایا. ٢) سود لینے والے کے لیے مجبوری کی صورت نہ ہونے کے برابر...

سود اور غامدی صاحب

سود اور غامدی صاحب

حسان بن علی غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش...

مولانا واصل واسطی

 پہلی بات اس مورد میں یہ ہے کہ جناب غامدی نے اوپر اس بات پر سورتِ النساء کی آیت (23) سے استدلال کیاہے  کہ قران کی اس آیت کی روسے رضاعت سے بھی وہی حرمت ثابت ہوتی ہیں   جو نسب سے ہوتی ہیں   اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیتِ سورتِ النساء سے استنباط کرکے یہ فرمایا ہے کہ ،، یحرم من الرضاع مایحرم من النسب ،، تو ان کے نزدیک گویا اس ،، حدیث ،، سے قران کی اس آیت کی  کوئی ،، تخصیص وتحدید ،، نہیں ہوئی جیسا کہ عام علماء کرام کا قول ہے   بلکہ حرمتِ رضاعت کا عام کرنا اس آیت کا اپنا مفہوم اورتقاضاہے ۔ یہ ہے ان کے اوپر درج بات واستدلال کا خلاصہ۔ مگر جیساکہ ہم نے کہا تھا  کہ یہ بات جناب غامدی نے فخرِرازی کی تفسیر سے لی ہے ۔ جناب رازی کی اصل عبارت ملاحظہ فرمالیں ۔وہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ،، المسئالة الثانیة ، انہ تعالی نص فی ھذہ الایة علی حرمة الامھات والاخوات من جھة الرضاعة الا ان الحرمة غیرمقصورة علیھن لانہ علیہ السلام  قال ،، یحرم من الرضاع مایحرم من النسب ،، وانما عرفنا ان الامر کذالک بدلالة ھذہ الایات ، وذالک لانہ تعالی لماسمی المرضعة اما والمرضعة اختا فقد نبہ بذلک علی انہ تعالی اجری الرضاع مجری النسب ، وذالک لانہ تعالی حرم بسبب النسب سبعا  اثنتان منھا ھما المنتسبتان بطریق الولادة وھما الامھات والبنات وخمس منھا بطریق الاخوة وھن الاخوات والعمات والخالات وبنات الاخ وبنات الاخت ثم انہ تعالی لماشرع بعد ذالک فی احوال الرضاع ذکرمن ھذین القسمین صورة واحدة تنبیھا بھاعلی الباقی فذکر من قرابة الولادة الامھات ،ومن قسم قرابةالاخوة الاخوات ، ونبہ بذکر ھذین المثالین من ھذین القسمین علی ان الحال فی باب الرضاع کالحال فی النسب ، ثم انہ علیہ السلام اکد ھذاالبیان بصریح قولہ ،،یحرم الرضاع مایحرم من النسب ،، فصار صریح الحدیث مطابقا لمفھوم الایة وھذابیان لطیف ( الکبیر ج4 ص 26)  رازی کی اس عبارت کا خلاصہ جناب غامدی نے اپنے الفاظ میں اوپر نقل کیاہے   (2) دوسری بات اس بحث میں یہ ہے کہ اللہ تعالی نے تو اس درجِ بال آیت ،، وامھاتکم التی ارضعنکم واخواتکم من الرضاعة ،،  کو اور طریقے سے بھی فرماسکتے تھے مثلا ،، وامھاتکم التی ارضعنکم وبنتاھن ،، اور اس طرح بھی فرماسکتے تھے ،، وامھاتکم التی ارضعنکم واخواتکم منھن ،، آخر ترکیب کو اختیار کرنے کی کیاوجہ بنی ہے ؟ جو لوگ سوچنے کے عادی ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اس ترکیب میں وہ بار موجود ہے  جو دیگر مذکورہ تراکیب میں نہیں پائی جاتی ۔ وہ یہ ہے   کہ اس میں رضاعت کے مسئلہ کو بجمیع اجزاءہ بیان کرنا مقصود تھا ۔ اب  جو عورتیں بچوں کو دودھ پلاتی ہیں  ان کی رضاعت میں دومسئلے ہوتے ہیں ۔ایک تو یہ ہوتاہے کہ اس عورت کے سارے خاندان میں وہی رشتے ان دودھ پینے والے بچوں پر حرام ہوجاتے ہیں   جو نسب سے ان پر حرام ہوتے ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے   کہ دوسری طرف سے صرف وہ دودھ پینے والے بچے حرام ہوجاتے ہیں ، ان کا خاندان متاثر ان بچوں کی اس رضاعت سے نہیں ہوتا ہے ۔ اب قران مجید نے   اخواتکم منھن یا پھر وبناتھن کے بجائے  ،، من الرضاعة ،، رکھنے سے دونوں باتوں کی طرف اشارہ کیاہے ۔ اسی طرف ان صحیح السند آحادیث میں اشارہ موجود ہے   جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درّہ بنتِ امِ المومنین ، سیدہ امِ سلمہ اور سیدنا حمزہ بن ابی طالب کی بیٹی کو نکاح کرنے کےلیے پیش کیاگیا تھا   مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہ کہہ کر ردفرمایا کہ یہ میرے رضاعی بھائیوں کی بیٹیاں ہیں ، میری بھانجیاں لگتی ہیں ، اور میرے لیے جائز نہیں ہیں ۔ اس سے صاف صاف معلوم ہوجاتاہے   کہ اس آیت کو اس طرح کے الفاظ میں بیان کرنے سے ان دومسائل کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا ۔ اب اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ  ،، لیکن رضاعت کاتعلق اگرساتھ دودھ پینے والی کو بہن بنادیتاہے ، توصاف واضح ہے کہ رضاعی ماں کے دوسرے رشتوں کو بھی یہ حرمت لازما حاصل ہوگی ، دودھ میں شراکت کسی عورت کو بہن بناسکتی ہے تو رضاعی ماں کوخالہ ،اس کے شوہر کوباپ ، شوہر کی بہن کو پھوپھی ، اور اس کی پوتی  اور نواسی کو بتھیجی اور بھانجی کیوں  نہیں بناسکتی ؟ لہذا یہ بالکل قطعی ہے کہ سب رشتے بھی حرام ہیں ، یہ قران کا منشا ہے ، اور ،، اخواتکم من الرضاعة ،، کے الفاث اس پر دلالت کرتے ہیں ( میزان ص 38)  لیکن یہ سادگی ہے ۔  آپ یاتو اس عورت کو ماں قراردینے کی بنا پر اس حکم کی تودیت کے قائل ہونگے۔ اگرایسا ہے تو اس آیت کا کیاکریں گے  جس میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ،، وازاجہ امھاتھم ( الاحزاب 6) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں تو ساری امت پر نکاح کے لیے حرام ہیں۔ تو کیا ان کی بیٹیاں بھی اس مذکورہ دلیل کی بنیاد ساری امت پر حرام ہوجائیں گی ؟ اور اگر ایسا نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے  توپھر محض ماں  ہوجانے سے اس کی حرمت کاحکم دوسرے رشتوں کو متعدی نہیں ہوتا ہے ، وھذا ظاھر ، اور یا پھر آپ ،، بہن ،، ہونے کی وجہ سے اس حکمِ حرمتِ رضاعت کی تعدیت کے قائل ہونگے  جیساکہ آپ کی اوپر درج عبارت سے  پتہ چلتاہے ؟ تو یہ بھی غلط ہے ۔اگر ایسا ہوتا   تو جس بچی کو دودھ کیوجہ سے بہن میں شراکت مل گئی   تو ان سب رشتوںمیں  یہ تعدیت ہونی چاہئے تھی ۔ مثلا ایک عورت نے اپنی بیٹی کے ساتھ ایک اورلڑکے کودودھ پلایا ہے   ۔توادِ شراکت کی وجہ سے اس لڑکی کے سارے رشتہ دار اس لڑکے پرحرام ہوگئے ہیں ۔ان کو حرمتِ نسب کی طرح حرمتِ رضاعت حاصل ہوگئی ہے ۔مگر جب تین بچے اس  اس عورت کا دودھ پی لیں ، ایک بچہ اس عورت کا اپنا ہو    اور دو اجنبی بچے ہوں ،ایک نرہو اورایک مادہ تو یہ بھی تو آپس  میں اس دودھ کی وجہ سے بہن  بھائی بن گئے ہیں ۔ مگر یہ حکم ان کے بھائی اور بہنوں تک قطعا متعدی نہیں ہوتا ۔ اب دیکھو دودھ نے ،، ایک لڑکی کو تو ،، بہن ،، بنالیا ہے   مگر یہ حکم اس کے دیگر رشتوں کو متعدی نہیں ہے  حالانکہ وہ بھی  ،، واخواتکم من الرضاعة ،، میں بلا شک وشبہ داخل ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے  کہ ،، اس کو قران کے حکم کا منشا قراردینا جناب غامدی کی سادگی ہے ،، ورنہ پھر اس حکم کو صرف ،، بچے اور بچی ،، کے تعلق تک محدود نہیں ہوناچاہئے تھا بلکہ اس کو بھی متعدی ہوناچاہئے تھا۔ پھر اس بات کی کیا دلیل ہے کہ اگر کوئی ،، حکمِ رضاعت ،،  مرضعہ ماں سے بچی تک متعدی ہوگیا ہےتو وہ تمام رشتوں کو متعدی ہو جائے گا ؟ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہ ہوتی  توعینِ ممکن تھاکہ یہ ،، حکم ،،  انہیں ،، اخوات ،، تک محدود ہوجاتی ۔آپ زیادہ سے زیادہ اس ،، حکم کی تعدیت  ،، کے لیے ،،اخوات ،، پر قیاس کرسکتے تھے  مگر پھر تعدیت کا یہ ،، حکم ،، اخواتِ شقیقات ،، یا اخواتِ اعیانی سے اگے نہیں جاسکتا تھا ،  ،، علاتی اوراخیافی اخوات ،، کو اس حکم میں شامل کرنا خرط القتاد کسی طرح آسان نہیں تھا ۔ ہم ادھر صرف یہ بتانا چاہ رہے تھے ، کہ جناب غامدی کو اپنے  ،، قاعدے ،، کو بچانے کے لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑرہے ہیں ۔لیکن پھر بات ان سے نہیں بن رہی ۔ہمارے نزدیک رضاعت کی ،، تعدیت ،،  کایہ حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آحادیث سے معلوم ہواہے ۔ اگر آحادیث کا ذخیرہ نہ ہوتا   تو اس حکم کو ہرگز کوئی اس آیت سے اخذ نہیں کرسکتا تھا ۔یہی بات جناب رشید رضا نے بھی لکھی ہے کہ ،، ولولا ھذہ الاحادیث لمافھمنا من الایة الا ان التحریم خاص بالمرضعة و  ینتشر فی اصولھا وفروعھا لتسمیتھا اما وتسمیةبنتھا اختا ولایلزم من ذالک ان یکون زوجھا ابا من کل وجہ بان تحرم جمیع فروعہ من غیرالمرضعة علی ذالک الرضیع کما ان تسمیة ازواج النبی علیہ السلام امھات المؤ منین لایترتب علیہ جمیع الاحکام المتعلقة بالامھات فالتسمیة یراعی فیھا الاعتبار الذی وضعت لاجلہ ( المنار ج4 ص 383) اس مسئلہ میں اور بھی اشکالات ہیں  مگرسرِدست ہم ان سے تعرض نہیں کرتے۔ انہیں کسی اور موقع کے لیے رکھتے ہیں ۔ بعض لوگ زناسے اس طرح کی حرمت ثابت کرتے ہیں جیسی حرمتِ مصاہرت ہے ۔ مگر یہ مسئلہ اہلِ علم وفقہاء میں اختلافی ہے ۔ اس مبحث میں اس کی تفصیل کی گنجائش نہیں ہے ۔جناب غامدی اگے اس دوسری آیت کے متعلق اپنے خیالات لکھتے ہیں ، جو اوپر دوبہنوں کے جمع کرنے کی حرمت میں درج ہوگئی ہے کہ  ،، یہی معاملہ دوسرے حکم کاہے ،زن وشو کے تعلق میں بہن کے ساتھ بہن کو جمع کرنا اگر اسے فحش بناتا ہے   تو پھوپھی کے ساتھ بتھیجی اورخالہ کے ساتھ بھانجی کو جمع کرنا بھی گویا ماں کے ساتھ بیٹی کو جمع کرناہےلہذا قران کا مدعا  لاریب یہی ہے کہ ،، ان تجمعوا بین الاختین وبین المراءة وعمتھا ، وبین المراءة وخالتھا ،، وہ یہی کہنا چاہتا ہے ، لیکن ،بین الاختین ، کے بعد یہ الفاظ اس لیے نہیں لاتا کہ مذکور کی دلالت اپنے عقلی اقتضاء کے ساتھ اس مفہوم  میں ایسی واضح ہے  کہ قران کے اسلوب سے واقف اس کا کوئی طالب علم اس کے سمجھنے میں ہرگز غلطی نہیں کرسکتا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ،، یحرم من الرضاعة مایحرم من الولادة ،، ( ترجمہ ) ہروہ رشتہ جوولادت کی بنا پرحرام ہے   رضاعت کے تعلق سے بھی حرام ہوجاتاہے ،، ولایجمع بین المراءة وعمتھا ولابین المراءةوخالتھا ( ترجمہ ) عورت اور اس کی پھوپھی ایک نکاح میں جمع ہوسکتی ہے نہ عورت اور اس کی خالہ ،، آپ کے یہ ارشادات قران کے اسی مدعا کا بیان ہے ۔ان میں شرح وبیان کے حدود سے ہرگز کوئی تجاوز نہیں ہوا ( میزان ص 38) اس کی حقیقت ہم اگے بیان کرتے ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…