حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 42)
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...
غلبہ دین : غلطی پر غلطی
حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)
حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)
حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...
مولانا واصل واسطی
جناب غامدی آگےان محذوفات کے مقامات اورمواضع کا تعین کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ،، مقسم علیہ ، جوابِ شرط ، جملہ معللہ کے معطوف علیہ اورتقابل کے اسلوب میں جملے کے بعض اجزا کا حذف اس کی عام مثالیں ہیں ( میزان ص 37 ) ان مواضع اورمقامات میں اختلاف کرنا ہمارے نزدیک دوسرا اورثانوی مسئلہ ہے (1) پہلے یہ بتانے کی ضرورت تھی کہ حذف کے بہت سارے دواعی اور بواعث ہوتے ہیں مثلا سرعة الفراغ جیسے تحذیروغیرہ میں مقصود ہوتا ہے ، اظھارِدوام وثبوت جیسے مفعول مطلق کے فعل کو حذف کرنے میں ہوتا ہے ، بلاغت کااظہارجیسے معطوف علیہ جملہ کے حذف میں ہوتا ہے ، قصدِاختصار جیسے دومقابل جملوں میں سے کچھ کچھ حذف کرتے ہیں کیونکہ دوسرے مقابل کے اجزااس پر دلیل ہوتے ہیں ۔ اس طرح کے بہت سارے دواعی محذوفات کے ہوتے ہیں جن لوگوں نے صرف علمِ نحو سے مس بھی کیا ہو وہ بھی اسے جانتے ہیں ۔مگر جناب غامدی نے ان چیزوں کا کوئی تذکرہ نہیں کیا (2) دوسری چیز یہ ہے کہ محذوفات بہت سارے ہوتے ہیں مگر جناب نے صرف تین چار کا تذکرہ کیا ہے۔، فعل کا جوازا محذوف ہونا اورپھراس کا وجوبا محذوف ہونا، اور فعل و فاعل دونوں کا جوازا محذوف ہونا ، فعلِ شرط کا حذف ہونا ، مبتدا کا جوازامحذوف ہونا ، خبر کا جوازا محذوف ہونا ، اور پھر ان دونوں کا الگ الگ وجوبا محذوف ہونا وغیرہ ،اس کے علاوہ بے شمار مواضع اور مقامات ہیں جن میں عوامل حذف ہوجاتے ہیں یا سماعا یا پھر قیاسا مگر جناب نے صرف چندہی کا تذکرہ کیا ہے غالبا وجہ اس کی یہ ہے کہ انہیں مقامات میں انہیں مسائل درپیش تھے (3) تیسری چیز یہ ہے کہ جناب یہ بتاتے کہ داعی ، قرینہ ، اور سادمسد اورقائم مقام کی ضرورت ان محذوفات میں ہوتی ہیں۔ قرینہ کے وجود کی ضرورت تو ہر جگہ موجود ہے اور داعی کی ضرورت تقریبا اکثر مقامات میں ہوتی ہے مگر قائم مقام کی ضرورت قیاسی اور واجبی مقامات میں ہوتی ہے ۔اس کی طرف بھی جناب نے کوئی اشارہ نہیں کیا بلکہ اس بات کا لحاظ بھی بعض مواضع میں نہیں کیا ۔ جیسا کہ ابھی آجائے گا ، شیخ لکھتے ہیں ،، لایحذف شئ من الاشیاء الا لقیام قرینة سواء کان الحذف جائزا او واجبا ( شرح الکافیہ ج 1 ص 172) یعنی قرینہ کا وجود لازمی ہوتاہے ۔ ان مختصر اشارات کے بعد جناب غامدی کی عبارت دیکھ لیں وہ لکھتے ہیں ،، سورہِ نساء کی آیتِ میراث میں ، مثال کے طور پر ، فوق اثنتین ، سے پہلے ، اثنتین ، فلامّہ الثلث ، کے بعد ، ولابیہ الثلثان ، اور ، فلامّہ السدس ، کے بعد ، ولابیہ یا اسکے ہم معنی الفاظ اور سورہِ نساء کی آیت ( 127 ) میں وان تقوموا للیتمی بالقسط ، کا معطوف علیہ اسی اسلوب پرحذف کیا گیا ہے ( میزان ص 37) احباب نے دیکھ لیا کہ جناب نے مذکورہ مقامات میں حذف کی مثالیں پیش کی ہیں مگر ان میں جناب کے بیان کردہ قانون سے اتفاق کرنا مشکل ہے ۔ پہلی بات یہ ہے کہ قرائن کا ان محذوفات پر کوئی وجود نہیں ہے۔ اب اگر کسی کے ذہن پر کوئی مسئلہ ثابت کرنا سوار نہ ہو ، تو وہ ،، فوق اثنتین ،، سے پہلے ،، اثنتین ،، کا وجود کس دلیل کی بنیاد پر ثابت کرے گا ؟حذف کا کوئی قرینہ تو ہونا چاہئے تھا ، حرف عاطف وغیرہ موجود ہو تو انسان سمجھ لیتا ہے کہ ادھر کچھ نہ کچھ محذوف ہے ۔ جیسے ہمزہ ، واو ، یا پھر ، فا ، پر داخل ہو ۔ مثلا ،، افتطمعون ان یؤمنوا لکم وقد کان فریق منھم ،، یا ،، اولایعلمون ان اللہ یعلم مایسرّون ومایعلنون ،، اب ادھر ہرذی علم آدمی سمجھ سکتا ہے کہ حرفِ عاطف کا وجود معطوف علیہ کی خبر دے رہا ہے ۔مگر جناب کے پیش کردہ مسئلہ میں محذوف کے وجود پرکوئی مشعر ومخبر کا وجود نہیں ہے ۔ پھر اگر آپ خواہ مخواہ زور زبردستی کرتے ہیں تو آپ سے پوچھا جائے گا کہ آپ ادھر ، اثنتین کا وجود حرفِ عاطف کے ساتھ محذوف مانتے ہیں یا بغیر عاطف کے محذوف مانتے ہیں ؟ اگر حرفِ عاطف کے ساتھ مانتے ہیں تو پھر قران سے کسی معطوف علیہ لفظ کامع واوالعاطفة کی مثال پیش کریں ؟ اور اگر دوسری صورت ہے تو پھراس کی عبارت یوں ہوگی ،، فان کن نساء اثنتین فوق اثنتین ،، وھذاکما تری ابشع من ،، الشیخ والشیخة اذا زنیا فارجموھما ،،لہذا ہمارے نزدیک یہ ایک خود ساختہ مسئلہ ہے ۔ اب ان کی دوسری بات کو لیتے ہیں ۔عام محاورات کے استعمال کا قانون یہ ہے کہ جب آپ دومقابل چیزوں کا تذکرہ کرتے ہیں پھر ایک کے لیے کوئی حکم ثابت کرتے ہیں تو اس دوسرے فرد کےلیے جو اس کامدِ مقابل ہے ، اس کے لیے مقابل کی چیز ثابت متصور ہوگی ۔ مثلا کوئی شخص کہتا ہے کہ ،، میرے پاس کل رات دو مہمان تشریف لائے تھے ، دونوں نے رات الحمدللہ بخیروخوبی گذار دی ، صبح ایک چلے گئے ،، اب ہرمعقول آدمی اس دوسرے آدمی کے متعلق ،، رہ گئے ،، یا ،، نہیں گئے ،، کو ہی سمجھیں گے ۔ مگر کیا جناب غامدی کی پیش کردہ آیات میں مسئلہ ایسا ہی ہے ؟ ہم پہلے آیاتِ قرآنیہ کا مطالعہ کرتے ہیں پھر اپنی بات پیش کریں گے ان شاءاللہ تعالی ۔ جناب غامدی نے لکھا ہے کہ ،، فلامّہ الثلث کے بعد ولابیہ الثلثان ،، کا لفظ ہے ۔پوری آیت یوں ہے ،، فان لم یکن لہ ولد وورثہ ابواہ فلامہ الثلث ( نساء 11) بالکل وہی قانون ادھر موجود ہے لہذا یہ بات بالکل درست ہے ، اسی طرح ماں باپ کی موجودگی میں بہن بھائیوں کا تو حصہ نہیں ہوتا فلہذا آیتِ قرانی ،، فان کان لہ اخوة فلامّہ السدس ( ایضا ) میں بھی قانون یہی ہے جیساکہ جناب نے لکھا ہے ۔مگر جیسا کہ جناب کی عبارت کی توضیح میں ہماری بات گذر گئی ہے کہ یہ صرف عقلی قرینے کی بنیاد پر ایسا ہوا ہے ورنہ عام حالات میں اس کے لیے کوئی محذوفات کا قانون ادھرنہیں بنایا جاسکتا کہ اب اس کولے کر دوسری جگہوں میں بھی تقدیرات نکالنا شروع کردیں ۔ اس لیے تو الفاظ میں ان تراکیب کے محذوف ہونے کا کوئی قرینہ بھی موجود نہیں ہے ۔ باقی جو آیت سورتِ نساء میں عطف کی بات کی گئی ہے تو اس میں اگرچہ اختلاف موجود ہے کہ اس کا معطوف علیہ کیا ہے ؟ مگر قرینہ ،، حرفِ عاطف ،، کا وہاں صراحتا موجود اورثابت ہے لہذا اس میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔البتہ عطف میں صرف ترجیح کا مسئلہ درپیش ہوگا۔، اس کے بعد جناب نے سورتِ انعام کی آیت پیش کی ہے اوراس میں مقابل اجزا کی دلالت کیوجہ سے دوسری جانب کے الفاظ کو حذف کردیا ہے ۔ آیت ہے ، ومامن دابة فی الارض ولاطائر یطیر بجناحیہ الاامم امثالکم ( المائدہ 38) ، فی الارض ، کے مقابل ، فی السماء ، اور ، یطیر بجناحیہ ، کے بالمقابل ، تدب علی رجلیھا ، محذوف ہیں۔ اس کی مثالیں قران میں جگہ جگہ موجود ہیں ۔ ہم اس پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے اس لیےاگے چلتے ہیں ۔ جناب غامدی لکھتے ہیں ،، سورہِ نساء میں جہاں قران نے ان عورتوں کا ذکرکیا ہے جن سے نکاح جائز نہیں ہے وہاں دو مقامات پر یہی اسلوب ہے۔ ارشاد فرمایا کہ ،، وامّھاتکم التی ارضعنکم واخواتک من الرضاعة ( النساء 32) ( ترجمہ )اورتمہاری وہ مائیں بھی حرام ہیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا اور رضاعت کے اس تعلق سے تمہاری بہنیں بھی ،، اور ،، وان تجمعوا بین الاختین الاماقد سلف ( ایضا) ( ترجمہ ) اوریہ بھی کہ تم دوبہنوں کوایک نکاح میں جمع کرو ، جو ہو گیا سو ہوگیا ،، ۔پہلے حکم میں قرآن نے رضاعی ماں کے ساتھ رضاعی بہن کو حرام قرار دیا ہے ۔ بات اگر رضاعی ماں ہی پر ختم ہوجاتی تو اس میں بے شک کسی اضافے کی گنجائش نہ تھی لیکن جب رضاعت کا تعلق اگر ساتھ دودھ پینے والی کو بہن بنادیتا ہے توصاف واضح ہے کہ رضاعی ماں کے دوسرے رشتوں کو بھی یہ حرمت لازما حاصل ہوجائےگی ۔ دودھ پینے میں شراکت کسی عورت کو بہن بناسکتی ہے تورضاعی ماں کی بہن کوخالہ ، اس کے شوہر کو باپ ، شوہر کی بہن کو پھوپھی ، اوراس کی پوتی اور نواسی کو بتھیجی اور بھانجی کیوں نہیں بناسکتی؟ لہذایہ بالکل قطعی ہے کہ یہ سب رشتے بھی حرام ہیں۔ یہ قران کا منشا ہے ، اور ،، و اخواتکم من الرضاعة ،، کے الفاظ اس پراس طرح دلالت کرتے ہیں کہ قران پر تدبر کرنے والا کسی صاحبِ علم سے اس کا یہ منشا کسی طرح مخفی نہیں رہ سکتا ( میزان ص38)یہ بات جناب غامدی نے کہاں اورکس سے لی ہے ؟ اوراس میں کس قدر وزن ہے اس کی حقیقت ہم اگے کے مباحث میں واضح کریں گے ، ان شاءاللہ
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
پردہ اور غامدی صاحب
حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ...
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی...