غامدی صاحب اور شرعی پردہ

Published On October 18, 2024
پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)

حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...

عور ت کے پردے کے بارے میں جناب جاوید احمدغامدی صاحب کا کوئی ایک موقف نہیں ہے بلکہ وہ وقت اور حالات کے مطابق اپنا موقف بدلتے رہتے ہیں :کبھی فرماتے ہیں کہ عورت کے لئے چادر، برقعے، دوپٹے اور اوڑھنی کا تعلق دورنبوی کی عرب تہذیب و تمدن سے ہے اور اسلام میں ان کے بارے میں کوئی شرعی حکم موجود نہیں ہے۔کبھی ارشاد ہوتا ہے کہ سورة الاحزاب کی آیت 56 … جس میں ازواجِ مطہرات، بناتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور عام مسلمان خواتین کو جلباب یعنی بڑی چادر اوڑھ کر اور اس کا کچھ حصہ چہرے پر لٹکا کر گھر سے باہر نکلنے کا حکم ہے… یہ حکم ایک عارضی حکم تھا اور ایک وقتی تدبیر تھی جو مسلم خواتین کو منافقین اور یہودیوں کی طرف سے چھیڑنے اور ایذا پہنچانے سے بچانے کے لئے اختیار کی گئی تھی۔ یہ قرآن کا مستقل حکم نہیں تھا جو بعد میں آنیوالی مسلمان خواتین پر بھی لاگو ہو۔کبھی فرماتے ہیں کہ حجاب کا تعلق صرف ازواجِ مطہرات کے ساتھ خاص تھا۔۔
قرآن و حدیث  میں تو پردہ کے متعلق واضح احکامات موجود ہیں اور  ان پر سینکڑون کتابیں اور آرٹیکلز انٹرنیٹ پر بھی موجود ہیں ۔  ہم انکے بجائے غامدی صاحب  کے  استاد اور امام امین احسن اصلاحی صاحب  کا اس بارے میں موقف پیش کئے دیتے ہیں جنکے علمی مرتبہ کے متعلق  غامدی صاحب خود  ایک جگہ لکھتے ہیں کہ باقی علماء  کے مقابلے میں     امین احسن اور ان کے استاد حمیدالدین فراہی کا درجہ  وہی ہے کہ
غالب نکتہ داں سے کیا نسبت   خاک کو آسماں سے کیا نسبت
 امین اصلاحی صاحب  سورہ احزاب کی آیت 59 کی تفسیر کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں “اس ٹکڑے (ذَٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ) سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ ایک وقتی تدبیر تھی جو اشرار کے شر سے مسلمان خواتین کومحفوظ رکھنے کے لئے اختیار کی گئی اور اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اول تو احکام جتنے بھی نازل ہوئے ہیں ، سب محرکات کے تحت ہی نازل ہوئے ہیں لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ محرکات نہ ہوں تو وہ احکام کالعدم ہوجائیں ۔ دوسرے یہ کہ جن حالات میں یہ حکم دیا گیا تھا، کیا کوئی ذی ہوش یہ دعوی کرسکتا ہے کہ اس زمانے میں حالات کل کی نسبت ہزار درجہ زیادہ خراب ہیں ،البتہ حیا اور عفت کے وہ تصورات معدوم ہوگئے جن کی تعلیم قرآن نے دی تھی۔”( تدبرقرآن: جلد6، ص270) مزید لکھتے ہیں کہ ”قرآن نے اس جلباب (چادر) سے متعلق یہ ہدایت فرمائی کہ مسلمان خواتین گھروں سے باہر نکلیں تو اس کا کچھ حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کریں تاکہ چہرہ بھی فی الجملہ ڈھک جائے اور انہیں چلنے پھرنے میں بھی زحمت پیش نہ آئے۔ یہی ‘جلباب’ ہے جو ہمارے دیہاتوں کی شریف بوڑھیوں میں اب بھی رائج ہے اور اسی نے فیشن کی ترقی سے اب برقعہ کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اس برقعہ کو اس زمانہ کے دل دادگان اگر تہذیب کے خلاف قرار دیتے ہیں تو دیں لیکن قرآن مجید میں اس کا حکم نہایت واضح الفاظ میں موجود ہے، جس کا انکار صرف وہی برخود لوگ کرسکتے ہیں جو خدا اوررسول سے زیادہ مہذب ہونے کے مدعی ہوں ۔”(  تدبرقرآن: جلد6، ص269)
معلوم ہوا کہ دن رات اختلاف امت اور فرقہ واریت کو لعنت کہنےوالا اپنے استاد کے ساتھ بھی متفق نہیں ۔ مکتب فراہی کے  آپس میں اتنے اختلافات ہیں کہ  دونوں دو فرقے بنائے بیٹھے ہیں۔ ان  امت کو ایک  اسلام پر  جمع کرنے کے نام پر متفقہ مسائل میں  کنفیوزین پیدا کرنے والوں  نے  امت کو سوائے ذہنی خلفشار کے کچھ نہیں دیا۔

بشکریہ ویب سائٹ

بنیاد پرست

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…