شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ شهادت علی الناس:۔ شہادت علی الناس کا سیدھا اور سادہ معروف مطلب چھوڑ کر غامدی صاحب نے ایک اچھوتا مطلب لیا ہے جو یہ ہے کہ جیسے رسول اپنی قوم پر شاہد ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ صحابہ پر شاہد تھے ، ایسے ہی صحابہ کو اور صرف صحابہ کو دیگر محدود...
حضرت عیسی علیہ السلام کا رفع الی السماء اور غامدی موقف
تصورِ جہاد ( قسط سوم)
شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ غامدی صاحب کے دلائل کا جائزہ:۔ ویسے تو کسی نظریے کے غلط ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ امت کے اجتماعی ضمیر کے فیصلے سے متصادم ہے، لیکن اگر کچھ نادان امت کے اجتماعی ضمیر کو اتھارٹی ہی تسلیم نہ کرتے ہوں اور اپنے دلائل پر نازاں ہوں تو...
تصورِ جہاد ( قسط دوم)
شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد غامدی تصور جہاد کی سنگینی اور انوکھا پن:۔ پوری اسلامی تاریخ میں اہل سنت کا کوئی قابل ذکر فقیہ مجتہد، محدث اور مفسر اس اچھوتے اور قطعی تصور جہاد کا قائل نہیں گذرا، البتہ ماضی قریب میں نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمدقادیانی نے اس قبیل کی...
تصورِ جہاد ( قسط اول)
شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد کچھ عرصہ قبل راقم نے غامدی صاحب کے شاگر در شید اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کے فرزند من پسند جناب عمار خان ناصر صاحب کے نظریہ جہاد کے نقد و تجزیے کے لیے ایک مضمون سپر د قلم کیا تھا، جو ماہنامہ صفدر میں قسط وار چھپنے کے علاوہ "عمار خان کا نیا...
سود ، غامدی صاحب اور قرآن
حسان بن علی پہلے یہ جاننا چاہیے کہ قرآن نے اصل موضوع سود لینے والے کو کیوں بنایا. اسے درجہ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے ١) چونکا سود کے عمل میں بنیادی کردار سود لینے والے کا ہے لہذا قرآن نے اصل موضوع اسے بنایا. ٢) سود لینے والے کے لیے مجبوری کی صورت نہ ہونے کے برابر...
سود اور غامدی صاحب
حسان بن علی غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش...
مولانا محبوب احمد سرگودھا
اسلامی عقائد انتہائی محکم ، واضح اور مدلل و مبرہن ہیں ، ان میں تشکیک و تو ہم کی گنجائش نہیں ہے۔ ابتدا ہی سے عقائد کا معاملہ انتہائی نازک رہا ہے، عقائد کی حفاظت سے اسلامی قلعہ محفوظ رہتا ہے۔
عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم ہی سے کئی افراد اور جماعتوں نے عقائد کے معاملہ میں اعتزال، رفض اور خروج کا راستہ اختیار کیا اور امت کے اجتماعی دھارے سے کٹ کر الگ ہو گئے۔ اس خروج و اعتزال کا سلسلہ قرن اول سے تاہنوز جاری ہے، خیر خواہانِ دین وملت نے ہر دور میں حکمت و بصیرت اور دلیل سے انہیں قومی دھارے میں لانے کی ہر ممکن کوشش کی ، اس سعی ِپیہم اور جہد ِمسلسل کا تسلسل آج بھی جاری ہے۔ مجلہ صفدر کا یہ خصوصی نمبر ایسی ہی کاوش کا ایک مظہر ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرما کر نافع و مفید بنائے ۔ آمین
حال ہی میں مشہور متجدد جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے اسلامی عقائد و اعمال میں جمہور امت کے تسلسل سے جدا ہو کر تفرد کا راستہ اختیار کیا ، اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک مستقل فرقے اور نظریے کا روپ دھار گئے ۔
غامدی صاحب نے درجنوں مسائل میں جمہور امت سے اختلاف کیا ہے، ذیل میں حیات عیسی علیہ السلام کے بارے میں غامدی صاحب کے نظریے کا قرآن وسنت کی روشنی میں جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔ ہمارا یہ مضمون دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں حضرت عیسی علیہ السلام کے رفع الی السماء کے بارے میں غامدی موقف پر بحث کی جائے گی اور دوسرے حصے میں حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول الی الارض سے متعلق غامدی نقطہ نظر کا جائزہ لیا جائے گا۔ ان شاء اللہ العزیز
حضرت عیسی علیہ السلام کا رفع الی السماء اور غامدی موقف :۔
غامدی صاحب حضرت عیسی علیہ السلام کے زندہ آسمان پر اٹھائے جانے کا انکار کرتے ہوئے ماہنامہ اشراق اپریل ۱۹۹۵ کے ص: ۴۵ پر لکھتے ہیں :۔
سیدنا مسیح علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ قرآن مجید سے میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ ان کی روح قبض کی گئی اور اس کے فور ا بعد ان کا جسد مبارک اٹھا لیا گیا تھا کہ یہود اس کی بے حرمتی نہ کریں۔ یہ میرے نزدیک ان کے منصب ِرسالت کا ناگزیر تقاضا تھا، چنانچہ قرآن مجید نے اسےاسی طرح بیان کیا ہے ۔ “إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى”. اس میں، دیکھ لیجیے تو فی“ وفات کے لیے اور رفع اس کے بعد رفع جسم کے لیے بالکل صریح ہے۔“۔
نیز ماہنامہ اشراق جولائی ۱۹۹۶ ، ص: ۳۲ پر لکھتے ہیں: حضرت مسیح کو یہود نے صلیب چڑھانے کا فیصلہ کر لیا تو فرشتوں نے ان کی روح ہی قبض نہیں کی
ان کا جسم بھی اٹھا کر لے گئے کہ مبادا یہ سر پھری قوم اس کی تو ہین کرے۔“ ان دو حوالوں میں غامدی صاحب نے ایسا عقیدہ اور نظریہ بیان کیا ہے جو ابتداء امت سے آج تک کسی مسلمان فرقہ نے اختیار نہیں کیا۔ مرزا غلام احمد قایانی بھی اس عقیدہ پر پینترے بدلتا رہا، آخر میں اس عقیدہ پر کار بند ہو گیا کہ : ”حضرت عیسی علیہ السلام وفات پاگئے ہیں اور کشمیر میں مدفون ہیں ۔
غامدی صاحب کا نظریہ یہ ہے کہ: ا۔ صلیب کے موقع پر حضرت عیسی علیہ السلام کو اولا موت دی گئی۔ 2 ۔پھر ان کے جسم کو بھی آسمانوں پر اٹھا لیا گیا۔
غامدی صاحب نے قرآن کریم کی آیت کریمہ بطور استدلال پیش کی ہے، آیت یہ ہے: إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ثُمَّ إِلَى مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ [آل عمران: ۵۵]
اس سے اُن کا استدلال دو طرح سے ہے: آیت کریمہ میں توفی“ کا معنی موت ہے۔
متوفيك ورافعک الی میں واؤ ترتیب کا فائدہ دے رہی ہے کہ پہلے وفات ہوئی ، پھر رفع ہوا۔ غامدی صاحب کا یہ استدلال ، دیکھا جائے تو بالکل بے بنیاد اور قواعدِ عربیت کے خلاف ہے۔
تفصیل سے قبل آیت کریمہ کا مکمل ترجمہ ملاحظہ فرما لیجیے! جس وقت اللہ نے کہا: اے عیسیٰ! میں تجھے پورا پورا (مکمل طور پر اپنی حفاظت میں ) لے لوں گا
اور تجھے اپنی طرف اٹھالوں گا۔ اور تجھے کافروں سے پاک رکھوں گا۔ اور ان لوگوں کو جو تیرے پیروکار ہیں ، قیامت تک منکروں پر غالب رکھوں گا ۔ پھر تم سب نے میری طرف آتا ہے اور میں تمہارے اختلاف میں فیصلہ کروں گا ۔“
قرآن پاک میں مذکورہ بالا آیت سے پہلے وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ “ ہے، جس میں عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف یہود کی خفیہ تدبیر کا ذکر ہے۔ جو خدا تعالی کی تدبیر کے مقابلے میں ناکام ہوگئی۔ اس آیت میں حق تعالیٰ نے اپنی اسی محکم تدبیر کی خبر دی ہے جو یہود کے مکر کے خلاف صادر فرمائی۔
یہود ِبے بہبود کی تدبیر حضرت عیسی علیہ السلام کو قتل کرنے اور پھانسی دینے کی تھی، یہ تدبیر انتہائی خفیہ تھی، اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے بھی ایک خفیہ تدبیر کی ۔ ماقبل میں دونوں طرف کی تدبیروں کے ذکر کے بعد حق تعالی نے اگلی آیت میں حضرت عیسی علیہ السلام کو یہودیوں کے قبضے سے پورا پورا ( مکمل طور پر ) بچا کر روح مع الجسد اپنی طرف اٹھانے کی خبر دی، یہی حق تعالی کی جوابی تد بیر تھی۔
حضرت عیسی علیہ السلام کو یہودیوں سے بچانے کو “تو فی “ میں بیان کیا گیا ، جو تد بیر الہی کا مبدا تھا۔ اور آسمان پر اٹھائے جانے کو” رفع ” سے بیان کیا جو اس تدبیر کامنتہی تھا۔ پھر مُطھرک مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ” میں آپ کے رفع کی شان کو بیان فرمایا گیا کہ ان یہودیوں کے ناپاک ہاتھ آپ کو چھو بھی نہ سکیں گے۔
ہم نے آیت کریمہ کے ترجمے میں “متوفیک” کا معنی پورا پورا لینا ” کیا ہے ، اس لیے کہ لفظ” توفی ” باب تفعل سے ہے، اس کا مادہ “وفی” ہے، جس کا معنی: پورا کرنا ” اور ” وفا کرنا ہے۔ اہل لغات نے تصریح کی ہے کہ توفی کا اصل معنی: “أحد الشئ وافیا “ ( کسی چیز کو پورا پورا لے لیتا ) ہے۔
اور موت اس کا مجازی معنی ہے حقیقی معنی نہیں۔ چنانچہ قاضی بیضاوی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: التوفي: أخذ الشيء وافیا والموت نوع منه ( توفی کا معنی کسی چیز کو پورا پورا حاصل کر لینا ہے۔ اور موت اس کی ایک نوع ہے۔ ) ( تفسیر بیضاوی )۔
موت اور تونی کے درمیان قرآنی اطلاقات کے پیش نظر ایک بہت واضح فرق یہ بھی ہے کہ قرآن عزیز نے جگہ جگہ موت ” اور ” حیات کو تو تقابلا بیان کیا ہے لیکن ” تو فی” کو کسی ایک مقام پر بھی حیات کا مقابل نہیں ٹھہرایا۔ لہذا ” توفی” اور “موت” مرادف نہیں۔ البتہ چونکہ “موت” پر بھی مجازا “تونی“ کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ اس لیے جہاں قرینے اور حمل کا تقاضا ہو کہ توفی سے موت کا معنی مراد لینا چاہیے، وہاں موت کا معنی ہی مراد ہوگا ۔ لیکن اگر قرینہ اور حمل حقیقی معنی کا متقاضی ہو تو پھر وہاں حقیقی معنی متعین ہوگا اور مجازی معنی مراد لینا درست نہ ہوگا۔
اسی بات کی امام اللغت ابو البقاء رحمۃ اللہ علیہ نے تصریح فرمائی ہے کہ عوام میں توفی کا معنی اگر چہ موت ہے۔ لیکن خواص کے نزدیک اس کا معنی پورا پورا لینا اور قبض کرنا ہے۔ کلیات ابو البقاء ہیں: اس پوری تفصیل سے جب یہ بات پوری طرح واضح ہو گئی کہ توفی کا حقیقی معنی پورا پورا لینا ہے اور موت اس کا مجازی معنی ہے۔ اور مجازی معنی تب ہی مراد ہو سکتا ہے جب حقیقی معنی مراد لینا متعذ رہو اور مجازی معنی پر کوئی قرینہ بھی پایا جائے۔
اب ذیل میں آیت “إِذْ قَالَ اللهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَی کی مختصر تفسیر پیش کی جاتی ہے۔
مفسرین کرام نے اس آیت کریمہ میں “متوفیک ” کا معنی دو طرح کیا ہے:۔
جمهور صحابه کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ، تابعین اور جمہور سلف و خلف اس طرف گئے ہیں کہ آیت میں “توفی” سے موت کا معنی مراد نہیں، بلکہ توفی کا اصلی اور حقیقی معنی مراد ہے، یعنی پورا پورا لیتا کیونکہ اصل اس مقام پر حضرت عیسی علیہ السلام کی تسلی اور تسکین مراد ہے کہ : اے عیسی ! تم گھبراؤ نہیں ! میں تمہیں دشمنوں کے ہجوم اور نرغے سے پورا پورا روح اور جسم سمیت اٹھالوں گا، یہ نا قدرے اور ناسپاس اس قابل نہیں کہ آپ کے وجود با سعود کو اس میں رہنے دیا جائے ۔“۔
نيز ” وَمَكَرُوا ومكر الله “سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ “توفی ” سے پورا پورا لینا اور آسمان پر اٹھایا جانا مراد ہو، کیونکہ “و مکرو ا “سے حضرت عیسی علیہ السلام کے قتل اور صلیب پر چڑ ھانے کی تدبیریں مراد ہیں۔ اور مکر اللہ سے حضرت عیسی علیہ السلام کی حفاظت کی تدبیر مراد ہے۔
اس پر قریب قریب مفسرین کا اجماع ہے تفصیل کے لیے درج ذیل تفاسیر ملاحظہ فرمائیں ا تفسیر کبیر ۴۶۳/۲ تفسیر ابن کثیر ۲۲۹/۲۰ روح المعانی: ۱۱۵۸/۲۔
بعض مفسرین نے “متوفيك ” کا معنی “ممیتك ” کے ساتھ کیا ہے اور علی بن طلحہ بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے “متوفيک ” کی تفسیر “ممیتك” النقل کرتے ہیں۔ لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کا مطلب بھی منقول ہے کہ آیت میں تقدیم و تاخیر ہے۔ جیسا کہ آپ کے شاگر د ضحاک کہتے ہیں کہ : ” ابن عباس رضی اللہ عنہما متوفيك ورَافِعُكَ کی تفسیر میں یہ فرماتے تھے کہ: حضرت مسیح کا رفع مقدم ہے اور ان کی وفات اخیر زمانہ میں ہوگی ۔ تفسیر در منشور : ۳۶/۲)
لہذا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جیسے مُتوفیک کی تفسیر ممیتك مروی ہے، ایسے ہی ان سے تقدیم و تاخیر بھی مروی ہے۔ اور تفسیر ابن جریر، ابن کثیر اور فتح الباری میں ” وان مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوتہ میں قبل موتہ کی ضمیر حضرت عیسی کی طرف لوٹ رہی ہے۔ امام قرطبی رحمہ اللہ علیہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ صحیح یہی ہے کہ اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام کو بغیر موت اور بغیر نیند کے آسمانوں پر اٹھالیا۔ اور ابن عباس کا صحیح قول یہی ہے۔ [ روح المعانی ]۔
مولانا بدر عالم مہاجر مدنی، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا کی ممیتک والی تفسیر پر کیا خوب لکھ گئے۔ پس اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ابن عباس سے متوفیک کی تفسیر مُمِيتُك مروی ہے تو زیادہ سے زیادہ اس سے یہی ثابت ہوگا کہ عیسیٰ علیہ السلام کو بھی موت آتی ہے۔ مگر اس کا انکار کس کوہے؟ زیر بحث تو یہ ہے کہ وہ موت اُن کو آچکی (یا نہیں) اور کیا وہ فی الحال مردوں میں شامل ہیں؟ اور اب دوبارہ نہیں آئیں گے ؟ دعوے سے کہا جاسکتا ہے کہ نہ یہ حضرت ابن عباس سے منقول ہے اور نہ امت مسلمہ میں کسی اور معتمد عالم ہے۔ بلکہ ابن عباس سے باسنا د قوی یہ ثابت ہے کہ عیسی علیہ السلام (زندہ) اٹھا لیے گئے اور نزول کے بعد پھر وفات پائیں گے۔ اور ٹھیک ہی تمام امت کا عقیدہ ہے۔ احتساب قادیانیت : ۳۱۰/۴]۔
خلاصہ یہ ہوا کہ متوفیک کا معنی موت نہیں، اور اگر موت کا معنی مراد لیا جائے تو پھر آیت میں تقدیم و تاخیر کو مانا جائے گا۔ کیونکہ دوسری نصوص قطعیہ میں رفع مسیح کا صریح ذکر ہے۔
اس بحث سے غامدی صاحب کے استدلال کے پہلے جز کا بطلان بالکل واضح اور مفصل طور پر ثابت ہوا۔ نیز اس سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ اگر متوفيك ” سے موت کا معنی ہی مراد لیا جائے ( گو یہ ایک مجازی معنی ہے تو پھر بھی یہ ہمارے عقیدے کے خلاف نہیں۔ کیونکہ عربی میں واومطلق جمع کے لیے آتا ہے، ترتیب کے لیے نہیں ۔ جیسے حق تعالی نے حضرت مریم علیہا السلام کو حکم فرمایا:
واسعدی واركعي مع الراکعین اور تو سجدہ کر اور رکوع کر رکوع کرنے والوں کے ساتھ۔”
اب ظاہر ہے کہ سجدہ، رکوع کے بعد ہوتا ہے، اور رکوع اس سے پہلے۔ لیکن آیت میں ترتیب کے بغیر حکم دیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں اس کی اور بھی کئی مثالیں ہیں ۔ لیکن فی الوقت اس پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
اس تمام تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالی نے یہودیوں سے مکمل طور پر محفوظ رکھا اور انہیں زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا، وہ اب بھی زندہ ہیں اور قیامت کے قریب نازل ہوں گے۔
لہذاغامدی صاحب کا یہ کہنا کہ: “فرشتوں نے ان کی روح ہی قبض نہیں کی ان کا جسم بھی اٹھا کر لے گئے کہ مبادا یہ سر پھری قوم اس کی توہین کرے۔ بالکل بے بنیاد ہے۔ سوال یہ ہے کہ تو ہین سے بچانے کے لیے جسد مع الروح لے جانے میں کیا اشکال ہے؟ اسی طرح تو ہین سے بچانے کے لیے روح کو جسم سے نکال لینا ہی کیوں ضروری ہے؟ جبکہ قرآن میں بالکل صراحت سے بیان کیا گیا ہے : وفا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ ” اور ” وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينَا بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ”.
ان آیات میں بالکل واضح بتلایا گیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو روح مع الجسد زندہ آسمانوں پر اٹھایا گیا ہے۔ کیونکہ وما قتلوه ، وَمَا صَلَبُوه يقينا اور بل رفعہ میں تمام ضمیریں حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف راجع ہیں۔ جو کہ آپ کے جسم اور ذات کی طرف راجع ہیں، روح بلا جسد کی طرف نہیں۔ کیونکہ یہو د روح کے قتل کے مدعی نہیں تھے ، بلکہ وہ جسم مع الروح کے قتل کے مدعی تھے۔ تو بَلْ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ میں اس کی تردید کی گئی۔ لہذا رفعہ کی ضمیر بھی عیسی علیہ السلام کی ذات ( جسم مع الروح) کی طرف راجع ہے۔جسے یہودی قتل نہیں کر سکے، پھانسی نہیں دے سکے ۔ اس کو اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا۔
اس لیے کہ کلمہ ” بل ” کلام عرب میں ماقبل کے ابطال کے لیے آتا ہے۔ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل اور صلب کے دعویدار تھے، اللہ تعالی نے اس کے ابطال کے لیے بل رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِہ فرمایا ۔ یعنی تم غلط کہتے ہو کہ تم نے ان کے جسم کو قتل کیا یا صلیب پر چڑھا دیا ۔ بلکہ اللہ تعالی نے انہیں زندہ وصحیح سالم آسمان پر اٹھا لیا ۔ وکانَ اللهُ عَزِيزًا حَكِيمًا، سے وضاحت فرمادی کہ عیسی علیہ السلام کو زندہ آسمانوں پر اٹھائے جانے کو نا ممکن مت سمجھنا، کیونکہ اللہ تعالیٰ غالب حکمت والے ہیں۔ یہ اللہ تعالی کی قدرت کاملہ کے لیے بالکل ممکن ہے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
تصورِ جہاد ( قسط چہارم)
شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ شهادت علی الناس:۔ شہادت علی الناس کا سیدھا...
تصورِ جہاد ( قسط سوم)
شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ غامدی صاحب کے دلائل کا جائزہ:۔ ویسے تو کسی...
تصورِ جہاد ( قسط دوم)
شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد غامدی تصور جہاد کی سنگینی اور انوکھا پن:۔ پوری...