محمد خزیمہ الظاہری منکرین حدیث جس تواتر کا چرچا کرتے ہیں یہ از خود ہمیشہ ان اخبار و روایات کا محتاج ہوتا ہے جسے ظن و آحاد قرار دے کر انکی اہمیت گھٹائی جاتی ہے۔ متواتر چیز سے متعلق جب تک روایات اور اخبار کے ذریعے سے یہ بات معلوم نا ہو کہ گزشتہ تمام زمانوں میں وہ بات...
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر
پردہ اور غامدی صاحب
حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...
غلبہ دین : غلطی پر غلطی
حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)
حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...
مولانا عند الحمید تونسوی
اہلِ اسلام کا متفقہ عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے بغیر باپ کے پیدا فرمایا اور انہیں سولی پر نہیں چڑھایا گیا، بلکہ زندہ ہی آسمانوں پر اُٹھالیا گیا، قیامت کے قریب وہ آسمان سے زمین پر نازل ہوں گے، چالیس یاپینتالیس برس زمین پر رہیں گے، پھر اُن کا انتقال ہوگا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک میں دفن ہوں گے۔
متعدد روایات میں یہ مضمون وارد ہے کہ اسی حجرۂ مبارک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات شیخین رضی اللہ عنہ کی تین قبورِ مبارکہ کے ساتھ چوتھی قبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بھی ہوگی اور وہ روزِ حشر انہی کے ساتھ محشور ہوں گے۔
اول ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
’’ینزل عیسی بن مریم إلی الأرض فیتزوج ویولد لہٗ ویمکث خمسا وأربعین سنۃ ثم یموت ، فیدفن معي فی قبري، فأقوم أنا وعیسی بن مریم فی قبر واحد بین أبی بکرؓ وعمرؓ۔‘‘ (مشکوۃ ،رقم الحدیث:۵۵۰۸۔ وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰ لابن جوزی،باب لا ینبغی رفع الصوت فی المسجد:۲/۳۲۵ بحوالہ کنزالعمال للہندیؒ۔ شرح مشکاۃ للطیبی الکاشف عن الحقائق للسنن، کتاب الفتن باب نزول عیسیٰ :۱۱/۳۴۸۰۔مرقاۃ شرح مشکوۃ :۸/۳۴۹۶، تحفۃ الاحوذی، کتاب المناقب،باب ماجاء فی فضل النبی: ۱۰/۶۲۔ المواہب اللدنیہ :۲/۳۸۲۔زرقانی علی المواہب:۸/۲۹۶۔۔۔۔ ’’ویدفن عیسی ابن مریم ؑ مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی روضتہ ۔۔۔۔ الخ‘‘ (علامہ عبد الوہاب شعرانیؒ) مختصر تذکرۃالقرطبی :۱۷۵، طبع مصر)
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام (قربِ قیامت میں آسمان سے) زمین پر اُتریں گے تو وہ نکاح کریں گے اور ان کی اولاد ہوگی، دنیا میں ان کی مدتِ قیام (تقریباً) پینتالیس (۴۵) برس ہوگی، پھر اُن کی وفات ہو جائے گی اور وہ میری قبر یعنی میرے مقبرہ میں میرے پاس دفن کیے جا ئیں گے (چنانچہ قیامت کے دن) میں اور عیسی ابن مریم علیہ السلام دونوں ایک ہی مقبرہ سے ابو بکرؓ اور عمرؓ کے درمیان اُٹھیں گے ۔‘‘
دوم ۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
’’مَکْتُوبٌ فِی التَّوْرَاۃِ صِفَۃُ مُحَمَّدٍ وَعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ یُدْفَنُ مَعَہٗ قَالَ: فَقَالَ أَبُو مَوْدُوْدٍ: وَقَدْ بَقِيَ فِی البَیْتِ مَوْضِعُ قَبْرٍ، ہٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ غَرِیْبٌ۔‘‘ (ترمذی، ابواب المناقب، رقم الحدیث: ۳۶۱۷۔ قصص القرآن للسیوہاروی: ۴/۳۹۶، طبع: دارالاشاعت کراچی)
’’تورات میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف مذکور ہیں ( ان میں یہ بھی ہے) اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپ کے ساتھ دفن کیے جائیں گے۔‘‘
سوم ۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اپنے آباء واجداد سے روایت نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
’’یُدْفَنُ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَصَاحِبَیْہِ فَیَکُوْنُ قَبْرُہُ الرَّابِعُ۔‘‘ (معجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث:۳۸۴)
چہارم ۔ ایک موقع پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسی مقام پر اپنے لیے تدفین کی خواہش ظاہر کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہرضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ
’’قَالَ:وأنی لَک ذَلِک الْموضع مَا فِیہِ إلاَّ قَبْرِی وقبر أبی بکر وَعمرؓ، وَفِیہ عِیسَی بن مَرْیَم عَلَیْہِمَا الصَّلَاۃ وَالسَّلَامُ۔‘‘ ( عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، کتاب الجنائز، باب ماجاء فی قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ج:۸، ص:۲۲۸)
’’تیرے لیے یہ کہاں ممکن ہے؟ اس مقام پر تو صرف میری اور ابوبکرؓ اور عمر ؓ کی قبریں ہوں گی اور عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام بھی اسی جگہ مدفون ہوں گے ۔‘‘
پنجم ۔ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ’’روضۂ اقدس میں ایک قبر کی جگہ موجود ہے، اس میں عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام دفن ہو ں گے۔‘‘ (اخبارِ مدینہ: ۱۳۵)
ششم ۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ
’’ حضرت عیسیٰ علیہ السلام [دوبارہ آسمان سے زمین پر ناز ل ہوں گے] اس کے بعد آپ کی وفات ہو جائے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اطہر میں چوتھی قبر آپ کی ہوگی۔‘‘ (ختم نبوت:۴۷۶، بحوالہ الاشاعۃ للبرزنجی، رقم الحدیث:۵۵)
٭…حضرت مولانامفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ [اہلِ اسلام کے اجماعی عقیدہ کی وضاحت میں] لکھتے ہیں کہ
’’یہودیوں کایہ کہناہے کہ عیسیٰ علیہ السلام مقتول ومصلوب ہوکر دفن ہوگئے اور پھر زندہ نہیں ہوئے اور ان کے اس خیال کی حقیقت قرآن کریم نے سورۂ نساء کی آیت:’’وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰـکِنْ شُبِّہَ لَہُمْ‘‘میں واضح کردی ہے اور اس آیت میں بھی ’’وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰہُ‘‘ ۔۔۔۔۔ نصاریٰ کا کہنا یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام مقتول ومصلوب تو ہوگئے، مگر پھر دوبارہ زندہ کر کے آسمان پر اُٹھالیے گئے۔ مذکورہ آیت میں ان کے اس غلط خیال کی بھی تردید کردی اور بتلادیا کہ جیسے یہودی اپنے ہی آدمی کو قتل کرکے خوشیاں منارہے تھے، اس سے یہ دھوکہ عیسائیوں کوبھی لگ گیا کہ قتل ہونے والے عیسیٰ ؑ ہیں، اس لیے ’’شُبِّہَ لَہُمْ‘‘ کے مصداق یہود کی طرح نصاریٰ بھی ہوگئے۔ ان دونوں گروہوں کے بالمقابل اسلام کا وہ عقیدہ ہے جو اس آیت اور دوسری کئی آیتوں میں وضاحت سے بیان ہوا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کو یہودیوں کے ہاتھ سے نجات دینے کے لیے آسمان پر زندہ اُٹھالیا۔ نہ ان کو قتل کیا جاسکا، نہ سولی پر چڑھایا جاسکا، وہ زندہ آسمان پر موجود ہیں اور قربِ قیامت میں آسمان سے نازل ہوکر یہودیوں پر فتح پائیں گے اور آخر میں طبعی موت سے وفات پائیں گے۔ ‘‘(معارف القرآن ،ج: ۲،ص:۷۸-۷۹)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اسی عقیدہ پر تمام اُمتِ مسلمہ کااجماع نقل کیاہے۔ (تلخیص الحبیر:۳۱۹)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اورعلامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اس معاملہ میں متواتر ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قبلِ قیامت نازل ہونے کی خبر دی ہے۔ (نووی شرح مسلم، ج:۲، ص:۴۰۳۔ تفسیر ابن کثیر: تحت آیت :’’وَإِنَّہٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ‘‘۴۳:۶۱) نیزعصر حاضرکے علمائے عرب کا فیصلہ بھی اسی کے موافق ہے:
’’ذھب أہل السنۃ والجماعۃ إلی أن المسیح عیسٰی علیہ الصلوۃ والسلام لم یزل حیاً، وأن اللّٰہ رفعہٗ إلی السماء وأنہٗ سینزل آخر الزمان عدلاً یحکم بشریعۃ نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ویدعوا إلٰی ماجاء بہٖ من الحق ، وعلٰی ذٰلک دلت نصوص القرآن والأحادیث الصحیحۃ۔‘‘ (فتاویٰ علماء البلدالحرام، ص:۴۶۰، طبع: ریاض سعودی عرب)
مگردورِ حاضر کے متجدد جاوید احمد غامدی صاحب کابیان یہ ہے کہ
’’سیدنا مسیح کے بارے میں جوکچھ قرآن سے میں سمجھ سکا ہوں، وہ یہ ہے کہ ان کی روح قبض کی گئی اور اس کے فوراً بعد ان کا جسد مبارک اُٹھا لیا گیا تھا کہ یہود اس کی بے حرمتی نہ کریں۔ یہ میرے نزدیک ان کے منصبِ رسالت کا ناگریز تقاضا تھا۔‘‘ (ماہنامہ اشراق : ۴۵، اپریل ۱۹۹۵ء)
قارئین کرام! غامدی صاحب کا مذکورہ خودساختہ نظریہ کتاب وسنت کے سراسر خلاف اور اُمتِ مسلمہ کے اجماعی عقیدہ سے متصادم ہے، کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور ان کے نزول کا عقیدہ کتاب اﷲکے واضح حکم اوراحادیثِ متواترہ سے ثابت ہے، جس کا انکار کفر ہے۔(دیکھئے! ہمارا رسالہ’’غامدی صاحب کا منہجِ فکر‘‘ :۵۵-۵۶)
امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: حضرت عائشہt کے کمرے میں جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کیا گیا وہاں ایک قبر کی جگہ خالی ہے۔ اس میں حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو دفن کرنے پر حضرت عائشہt بھی راضی تھیں، لیکن بنو امیہ مانع ہوئے۔ پھر حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو دفن کرنے پر بھی آپ راضی تھیں، لیکن انہیں وہ جگہ نہ ملی، پھر حضرت عائشہ t سے کہا گیا کہ آپ کو یہاں دفن کریں گے، مگر اس پر بھی وہ راضی نہ ہوئے، بلکہ دوسری ازواجِ مطہراتؓ کے ساتھ جنت البقیع میں سیدہ عائشہ tکو دفن کیا گیا۔ شاید ان سب کاموں میں یہ حکمت تھی کہ یہ جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر کے لیے ہوگی۔ (اشعۃ اللمعات، ج:۴، ص:۳۷۶۔ مرقاۃ شرح مشکوۃ، ج:۸، ص:۳۴۹۶، تحت رقم الحدیث:۵۵۰۸)
’’(وقد بقي فی البیت) أی فی حجرۃ عائشۃؓ (موضع قبر) فقیل بینہٗ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وبین الصدیقین وہو الأقرب إلی الأدب، وقیل بعد عمرؓ وہو الأظہر، فقد قال الشیخ الجزري: وکذا أخبرنا غیر واحد ممن دخل الحجرۃ، ورأی القبور الثلاثۃ علی ہٰذہ الصفۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مقدم، وأبوبکرؓ متأخر منہ رأسہٗ تجاہ ظہر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ورأس عمرؓ کذٰلک من أبی بکرؓ تجاہ رجلي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وبقي موضع قبر واحد إلی جنب عمرؓ وقد جاء أن عیسٰی علیہ السلام بعد لبثہٖ فی الأرض یحج ویعود، فیموت بین مکۃ والمدینۃ، فیحمل إلی المدینۃ فیدفن فی الحجرۃ الشریفۃ إلی جنب عمرؓ ، فیبقی ہٰذان الصحابیان الکریمانؓ مصحوبین بین ہٰذین النبیین العظیمین علیہما الصلاۃ والسلام، ورضي اللّٰہ عنہما إلٰی یوم القیامۃ۔ (رواہ الترمذی) ۔‘‘
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے، ایک قول یہ ہے کہ وہ (جگہ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیقینؓ (حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہ ) کے درمیان ہے اور یہی قول ادب کے زیادہ مناسب ہے۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ (وہ خالی جگہ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قبر کے بعد ہے، اور یہ قول زیادہ قرینِ قیاس ہے۔ شیخ جزریؒ فرماتے ہیں کہ: حجرے میں داخل ہونے والوں اور تینوں قبور کی زیارت کرنے والوں میں سے بہت سے حضرات نے ہمیں یہی بتلایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر سب سے آگے ہے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سر مبارک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر مبارک کے سامنے ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قبر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قبر کے سامنے اسی کیفیت میں ہے( یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا سر مبارک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کمر مبارک کے سامنے ) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک کے سامنے ہے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے۔ اور (حدیث شریف میں) آیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زمین میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد حج بھی کریں گے اور واپس لوٹیں گے، پھر مکہ اور مدینہ کے درمیان وفات پائیں گے، پھر انہیں مدینہ لایا جائے گا، پھر انہیں حجرۂ شریفہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن کیا جائے گا، چنانچہ یہ دو معزز صحابیؓ قیامت تک ان دو عظیم نبیوں کے درمیان ہوں گے۔‘‘ ( مرقاۃ شرح مشکوۃ، کتاب الفضائل، باب فضائل سید المرسلین صلوات اللہ وسلامہ علیہ، ج:۹، ص:۳۶۹۳)
’’وأخرج الترمذي من حدیث عبد اللّٰہ بن سلام قال: مکتوب فی التوراۃ صفۃ محمد وعیسی بن مریم علیہما السلام یدفن معہٗ ، قال أبو داود: أحد رواتہٖ وقد بقي فی البیت موضع قبر وفی روایۃ الطبراني یدفن عیسٰی مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأبی بکرؓ وعمرؓ فیکون قبرا رابعا۔‘‘ (فتح الباری لابن حجر عسقلانیؒ، کتاب الفتن، باب ماذکر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ج:۱۳، ص:۳۰۸۔ تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی، کتاب المناقب، باب ماجاء فی فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ج:۱۰، ص:۶۲)
’’ترمذیؒ نے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی ہے، فرماتے ہیں کہ: توراۃ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدفون ہوں گے۔ اس حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی ابوداؤد کہتے ہیں کہ: حجرۂ شریفہ میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے۔ طبرانی ؒ کی روایت میں ہے کہ: حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدفون ہوں گے تو یہ چوتھی قبر ہوگی۔‘‘
مذکورہ دلائل وبینات سے جہاں یہ بات روزِروشن کی طرح واضح ہوگئی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پرزندہ ہیں اور قربِ قیامت میں وہ آسمان سے زمین پر نازل ہوں گے اور تقریباًپینتالیس سال زمین پر رہنے کے بعدان کاانتقال ہوگا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ انور میں حضرات شیخین رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدفون ہوں گے اورحجرۂ عائشہ ؓ میں چوتھی قبر آپ ؑ کی ہوگی، وہاںاس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ منکرینِ ختمِ نبوت کا یہ دعویٰ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوچکی [نعوذباﷲ] اور ان کی قبر سرینگر [کشمیر] میں ہے، سراسر جھوٹ اور غلط ہے ۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط
محمد خزیمہ الظاہری منکرین حدیث جس تواتر کا چرچا کرتے ہیں یہ از خود ہمیشہ...
پردہ اور غامدی صاحب
حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ...
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا...