مولانا مجیب الرحمن
تیسری حدیث ، حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ:۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ۔
يكون في هذه الأمة بعث إلى السند والهند، فإن أنا أدركته، فاستشهدت فذلك وإن أنا رجعت وأنا أبو هريرة المحرر قد أعتقني من النار
مسند احمد : ۸۸۰۹ – ج: ۳۲۹/۲)
اس امت میں سندھ اور ہند کی طرف لشکر بھیجا جائے گا، تو اگر میں نے اس کو پالیا اور شہید ہو گیا تو بہتر اور اگر میں واپس لوٹا تو اس حال میں کہ میں آزاد ابو ہریرہ ہوں کا مجھے اللہ نے جنم سے آزاد کر دیا ہوگا۔
اس حدیث کی سند یوں ہے:۔
حدثنا يحيى بن إسحاق، حدثنا البراء عن الحسن عن أبي هريرة، قال: حدثي الصادق رسول الله صلى الله عليه و سلم
رواة حديث:۔
۔1۔حسن بصری رحمہ الله
یہ حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے حضرت حسن بصر ی رحمہ اللہ ہیں ، حضرت حسن بصری ثقہ اور معتبر راوی ہیں، جن کے متعلق کسی محدث کے قول کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ حضرت حسن بصری نے حضرت ابو ہریرہ سے حدیث سنی ہے یا نہیں ؟ زیادہ تر محدثین کی رائے یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ سے ان کا سماع نہیں ہے، لیکن امام ابن حجر رحمہ اللہ سنن نسائی کے حوالے سے عن الحسن عن أبي هريرة حدیث روایت کرتے ہیں اور اس میں ہے: قال الحسن لم أسمع من أبي هريرة غير هذا الحديث حضرت حسن فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ سے اس حدیث کے سوا کوئی حدیث نہیں سنی۔ پھر فرماتے ہیں: یہ روایت تائید کرتی ہے کہ حضرت ابو ہریرہ سے حسن بصری کافی الجملہ سماع (ثابت) ہے۔ تہذیب ۱۳۴/۲) امام طبرانی رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں جس میں حضرت حسن کے حضرت ابوہریرہ سے سماع کی صراحت ہے۔ روایت یہ ہے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے ( وہ فرماتے ہیں) کہ ہمیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر خطبہ دیا اور فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرمان سنا الخ ۔ حدیث لکھ کر امام طبرانی فرماتے ہیں: “وهذا الحديث يؤيد قول من قال إن الحسن قد سمع من أبي هريرة بالمدينة “. يه حديث ان محد ثین کے قول کی تائید کرتی ہے جو فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مدینہ طیبہ میں حدیثیں سنی ہیں ۔ | المعجم للطيراني : ۱۳۲۰۳۱/۲ اور فرماتے ہیں: “قد قيل: إن الحسن لم يسمع من أبي هريرة، وقال بعض أهل العلم: أنه قد سمع منه” کہا گیا کہ حضرت حسن بصری نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث نہیں سنی اور بعض علماء نے فرمایا کہ حسن بصری نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث سنی ہے۔ طبرانی صغیر : ۱۱۳۹/۱گر یہ بات لے لی جائے کہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےحدیث نہیں سنی تو حضرت حسن بصری کی یہ روایت منقطع ہو گی اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کی مرسلات کے متعلق امام علی بن مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “مرسلات الحسن التي رواها عند الثقات صحاح تهذیب :۳ ۱۳۱۰ حسن بصری کی وہ مرسل روایات جو ان سے ثقہ راویوں نے روایت کیں صحیح ہیں ۔ اور جو حکم مرسل کا ہے وہی منقطع کا ہے۔ علامہ ملاعلی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” فإن التابعي إذا استبان له الاسنادد بطرق أرسل وإذا قال بطريق أسند”. تابعی کے سامنے جب روایت کئی سندوں سے معلوم ہو تو وہ مرسل بیان کرتا ہے اور جب ایک سند سے ( اس کو ) راوی حدیث بیان کرے تو پھر وہ سند بیان کرتا ہے۔ اسند الأنام شرح مسند الإمام الأعظم : ۵۹۳ ،تو ہو سکتا ہے کہ حضرت حسن بصری وغیرہ جیسے اکابر تابعین متعد دراویوں سے مروی روایت کو مرسل اور منقطع بیان کرتے ہوں۔
۔2۔ براء بن عبد اللہ بن یزید بصری
حضرت حسن بصری سے روایت کرنے والا راوی براء بن عبداللہ بن یزید بصری قاضی ہے۔ امام ابو داؤود فرماتے ہیں: لا باس یہ (ثقہ) ہے ۔ امام بزار ایک قول میں لا باس بہ ” کہتے ہیں۔ تہذیب: ۱۴۲۹/۱ – امام یحییٰ بن معین کا ایک قول یہ ہے کہ: لاباس بہ ہے۔ (میزان: ۳۰۱۷۱) کچھ محد ثین نے اس میں کلام بھی کیا ہے۔
۔3۔ یحیی بن اسحاق بجلی
براء سے روایت کرنے والا یحی بن اسحاق بجلی ابوز کریا ہے ۔ امام احمد اس کو شیخ صالح ، ثقہ اور سچا کہتے ہیں، امام یحییٰ بن معین بھی سچا بیان کرتے ہیں۔ ابن سعد کہتے ہیں: ثقہ، حافظ حدیث ہے۔تہذیب : ۵۱۶/۷]
۔4۔ امام احمد رحمه الله
اور یحییٰ بن اسحاق سے امام احمد رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں۔
یہ سند بھی شدید کمزور نہیں ، حسن درجہ کی ہے۔ صرف براء کی وجہ سے اس سند میں معمولی درجہ کا ضعف آیا ہے جو قابل برداشت ہے، کیوں کہ براءبھی اتنے گئے گزرے راوی نہیں ہیں۔ حسن بصری کیوجہ سے روایت پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔