حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

Published On December 2, 2024
جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...

اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی

اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی

محمد خزیمہ الظاہری غامدی حلقہ انکار حدیث کی صاف تہمت سے اس لئے بچ نکلتا ہے کہ بہت سی بنیادی چیزیں (نماز کا طریقہ وغیرہ) حدیث سے نہیں بھی لیتا تو تواتر سے لے لیتا ہے. یعنی یہاں صرف مصدریت میں اختلاف ہے کہ ایک ہی چیز دو طبقے لے رہے ہیں مگر ایک حدیث سے, دوسرا تواتر سے۔...

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی

حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت اور تعصب کا مزید ثبوت دیا ہے – بنو امیہ کی ملوکیت اور ظلم کا دفاع کرنا اسلام اور دین فروخت کرنے کے مترادف ہے۔

اگر فرض کر لیں “حدیث عمار” صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں نہیں ہے (اگرچہ تحقیق کے مطابق حدیث عمار کا بخاری میں ہونا ثابت ہے) تو اس سے حدیث عمار کی صحت پر اور اس کے تواتر پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ یہ لازم نہیں ہے کہ حدیث وہی صحیح ہوگی جو بخاری میں ہوگی جبکہ صحیح مسلم میں بھی حدیث عمار موجود ہے ۔ یہ نواصب کا مغالطہ ہے جو وہ دیتے ہیں تاکہ حدیث عمار کی اھمیت کو کم کیا جا سکے جبکہ اس حدیث کا متواتر ہونا اھل علم کے نزدیک ثابت ہے ۔ الحمدللہ -محدثین نے احادیث متواتر پر جو کتب تالیف کی ہیں ۔ ان میں حدیث عمار رض کو بھی حدیث متواتر میں شمار کیا ہے ۔

محدث الحرمین سید جعفر الحسنی الادریسی الکتانی رح نے اپنی کتاب “نظم المتناثر من الحدیث المتواتر ” میں حدیث عمار کو متواتر حدیث شمار کیا ہے۔

کیا صحیح بخاری میں لفظ ” تقتله الفئة الباغية ” عمار رضى الله عنہ کو باغی گروہ قتل کرے گا ثابت ہے؟

یہ روایت امام بخاری دو مقامات پر لائے ہیں. صحیح بخاری کے متعدد نسخ اور روایات ہیں اسی بنا پر مختلف مقامات میں حذف واضافہ بھی ہوتا ہے اور یہ بھی انہی ایک مقامات میں سے ہے۔

پہلی روایت کتاب الصلاۃ باب التعاون فی بناء المسجد میں ہے۔

اس میں مذکورہ لفظ بعض نسخ اور مطبوعات میں ساقط اور بعض میں ثابت ہے۔

تصویر میں معروف یونینی نسخے سے منسوخ نویری کا نسخہ ہے. اس کے متن میں یہ الفاظ موجود ہیں مگر اس پر علامت “لا ہ ص” ہے. اس كا مطلب ہے کہ یہ الفاظ ابوذر کی روایت اور اصیلی کے نسخے سے ساقط ہیں. اس سے ثابت ہوا کہ یہ ان دونوں میں ساقط ہیں مگر تین دوسرے نسخوں جن میں یونینی کا اصل سماع اسی طرح ابن عساکر اور ابوسعد سمعانی میں موجود ہیں۔

دوسرى روايت كتاب الجهاد والسير باب مسح الغبار عن الرأس في سبيل الله میں ہے۔

مذکورہ نسخے کے متن میں یہ الفاظ موجود ہیں مگر اس پر علامت “لا ه ” کی ہے جس کا مطلب یہ صرف ابوذر کی روایت سے ساقط ہیں۔

اس موضوع سے متعلق ڈاکٹر احمد معبد کریم کی مستقل کتاب ” إرشاد القاري إلى النص الراجح لحديث (ويح عمار) من صحيح البخاري وأثر ذلك في تحقيق معنى الحديث وفقهه ” ہے۔

انہوں نے متعدد روایات اور نسخ اور شراح کی شرح کے تقابل کے بعد ذکر کیا کہ راجح یہی ہے کہ یہ الفاظ صحیح بخاری کی اکثر روایات اور معتمد متداول نسخ میں موجود ہیں اور اسى طرح یہ کہنا صحیح نہیں کہ امام بخاری نے اس عبارت کو اپنی صحیح میں ذکر نہیں کیا یا یہ مدرج ہیں۔

” ومن كل ذلك يظهر لنا أن الراجح هو ثبوت عبارة (تقتله الفئة الباغية) عقب عبارة (ويح عمار) في (صحيح البخاري) ضمن سياق حديث أبي سعيد الخدري وذلك في كلا الموضعين اللذين أخرج البخاري الحديث فيهما۔

وذلك بناء على ثبوتهما في أكثر روايات ونسخ الصحيح الموثقة والمعروفة المتداولة۔

بناء على ما تقدم فإنه يكون القول بعدم ذكر البخارى إطلاقا لهذه العبارة في صحيحه قولا مردودا على قائله بما قدمته من الأدلة المتعددة وكذلك القول بأنها مدرجة في رواية البخاري هذه بواسطة غيره”

حدیث ” عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا ” ۔ اس حدیث کو حافظ ابن عبدالبر ، حافظ مزی ، حافظ ذہبی ، صفدی ، حافظ ابن حجر عسقلانی ، کتانی اور حافظ سیوطی نے حدیث متواتر قرار دیا ہے ۔ اس حدیث متواتر کو 31 اصحاب رسول اللہ نے روایت کیا ہے ۔

سیدنا خزیمہ رض کا نعرہ : ضلالت عیاں ہوگئی !۔

حضرت عمارہ بن خزیمہ بن ثابت بیان کرتے ہیں کہ حضرت خزیمہ بن ثابت رض جنگ جمل میں شریک ہوئے تھے لیکن تلوار کو نہیں کھولا تھا اور پھر صفین میں شریک ہوئے اور فرمایا کہ میں تلوار نہیں کھولوں گا جب تک عمار قتل نہ کئے جائیں تاکہ مجھے ان کے قاتلین معلوم ہوجائیں ، بے شک میں نے رسول اللہ ع کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا۔ پھر جب عمار بن یاسر رض شھید کر دیئے گئے تو خزیمہ رض نے فرمایا : مجھ پر گمراہی واضح ہوگئی ، یہ کہہ کر میدان میں گئے قتال کیا اور شھید ہوگئے ۔

طبقات بن سعد

مصنف ابن ابی شیبہ میں بھی یہ روایت موجود ہے۔

صفین میں اصحاب رسول اللہ (ع) کو حدیث عمار رض کا علم تھا

امام نووی الشافعی لکھتے ہیں :۔

صحیحین میں یہ حدیث ثابت ہے کہ نبی کریم (ع) نے حضرت عمار بن یاسر (رض) کو فرمایا: عمار پر رحمت ہو، اس کو باغی گروہ قتل کرے گا اور صحابہ کرام (رض) جنگ صفین میں حضرت عمار کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے، اس لئے کہ انہیں اس حدیث کی وجہ سے معلوم تھا کہ وہ عادل گروہ کے ساتھ ہیں ۔

تہذیب الاسماء واللغات

امام نووی کی عبارت میں” لهذا الحديث” کے الفاظ پر توجہ رہے کہ یہی نص صریح ہے۔

جاوید غامدی کا اصول حدیث سے جہل کہہ لیں یا پھر اس کی ناصبیت کہ حدیث عمار (رض) کو خبر واحد کہہ رہا ہے جبکہ کبار محدثین کے نزدیک حدیث عمار متواتر ہے اور رسول اللہ (ع) کی علامات نبوت میں سے ہے،یہ الگ بات ہے کہ خامدی دلائل النبوة کا منکر ہو گیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ خامدی صاحب اخلاقیات اور حلم کے امام ہیں ۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر زمانہ جاہلیت کے لوگوں کو بھی استاذ اور امام بنا لو ، وہ بھی بہت زیادہ اخلاق اور حلم والے تھے – جذباتی ہوئے بغیر، دھیمے مزاج سے گفتگو کرنا یقیناً ایک خوبی ہے، لیکن یہ حق پر ہونے کی دلیل نہیں۔

المورد (غامدی کا ادارہ) کا بیانیہ ہے کہ دین رسول اللہ مکمل کر گئے چنانچہ آل رسول سے مودت اور ان پر ظلم دین کا حصہ نہیں ہے تو ہم بھی یہ ہی عرض کرتے ہیں کہ بے شک دین تمام ہوا سیدی دو عالم پر مگر آل رسول کے ساتھ مودت ، ان کی اطاعت کا حکم ،رسول اللہ ص ہی بتا کر گئے ہیں – غامدی بیانیہ کے مطابق خلافت راشدہ اور خلفا کا بھی دین سے کوئی تعلق واسطہ نہیں، دین ان سے پہلے ھی مکمل ھو چکا تھا۔

غامدی کا حدیث ، تاریخ موضوع ہی نہیں ہے اور انسان انحراف کا شکار ہی اس وقت ہوتا ہے جب وہ بغیر علم کے اور اس فن کا امام بننے کی کوشش کرے جس پر اس کو گرفت نہیں -علم الحدیث غامدی کا میدان ہی نہیں ہے۔۔وہ اصولوں کو چھوڑ کر عقلی پیمانوں، اور ظنی تایلوں پر احادیث و اخبار کو رد قبول کرتا ہے۔ غامدی کو مشورہ ھے کہ فلسفہ ادب منطق اور علم الکلام تک محدود رھے اور اپنی بچی کھچی عزت بچائے…علم الرجال سے نابلد ھونا عیب نہیں، علم الحدیث الگ پیچیدہ موضوع ہے۔

غامدی صاحب کو ایسی بے تکی باتیں زیب نہیں دیتی۔اپنے غلط عقیدہ کی وکالت سے بہتر ہے۔ بندہ غیر کا صحیح عقیدہ اپنا لے۔ کیا غامدی صاحب کو پتہ نہیں ہوگا۔

کہ سعد نے نہ جناب ابو بکر کی بیعت کی نہ جناب عمر کی۔حدیث عمار کا انکار تو امیر شام بھی نہ کر سکے . بلکہ اس کی غلط توجیہ کرتے رہے۔خود علی رض نے اس جو جواب دیا وہ غامدی صاحب کے غبار سے ہوا نکلانے کے لئے کافی ہے .-صحابہ جو عمار کو علی کے ساتھ دیکھ کر جنگ سے کنارا کش ہوگے یا علی کے ساتھ شامل ہوگے۔ کیا غامدی صاحب کے علم میں نہیں ہوگا۔

اصحاب رسول اللہ (ع) کے درمیان حدیث عمار (رض) کی شہرت اس قدر زیادہ تھی کہ اھل شام اور خود معاویہ بھی اس کا انکار نہیں کرسکا بلکہ تاویل کی،اس تاویل کا جواب خود مولا علی (ع) نے صفین میں دیا۔ اور کہا کہ اس تاویل کی رو سے احد میں حمزہ رض کی شہادت کی ذمہ داری بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں پر عائد ہو گی کیونکہ لشکر اسلام ہی حمزہ کو میدان جنگ میں لے کر آیا۔

یہ دو رنگی چھوڑ دیں ،اگر شرعی خلیفہ برحق خلیفہ چہارم کے خلاف نکلنے والے مجتھد ، تاویل کرنے والے تھے اور ایک اجر کے مستحق ہونگے تو پھر خلیفہ سوم کے خلاف نکلنے والے اصحاب و تابعین بھی مجتھد تھے اور تاویل کے باعث وہ خلیفہ کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرتے تھے۔عجیب منافقت ہے ۔ علی کے خلاف نکلنے والے مجتھد اور اجر کے مستحق اور عثمان کے خلاف نکلنے والے باغی ، خارجی اور ظالم ۔

خلیفہ سوم کے خلاف نکلنے والے اس وقت وہی تھے جو اس زمانے میں تھے اور وہ اصحاب رسول اور تابعین ہی تھے ۔ سیدنا عمار بن یاسر رض ، سیدنا غفاری رض وغیرہ سب پیش پیش تھے حکومت وقت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج میں ۔ حکومت وقت کی غلط پالیسیوں اور اقرباء پروری کے خلاف تھے سب ۔ اس کے مقابل، مولا علی ع سے قصاص عثمان کا صرف نعرہ لگایا گیا تاکہ حکومت حاصل کر سکیں ورنہ اگر قاتلان عثمان رض سے قصاص اس وقت کیوں نہ لیا گیا جب ان کو خود حکومت مل گئی تھی بلکہ اس وقت تو کہا گیا کہ اب یہ نعرہ نہیں لگے نیز خود اس وقت قاتلان عثمان کو عہدے دئے گئے۔

جس یزید کے تقرر کو حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) نے قیصر و کسری کی سنت کہا ، اس تقرر کو غامدی صاحب نے اس امت پر احسان قرار دے دیا – امریکہ میں بیٹھ کر کس طرح کا اسلام پھیلا رہے ہیں؟

ناصّبیوں کا بغض اہلبیت اپنی جگہ لیکن اصحاب بدر و اصحاب بیعت شجرہ کے بے شمار صحابہ کی موجودگی میں معاویہ کا اپنے فاسق بیٹے کو مقرر کرنا خیانت کی انتہا تھی جبکہ مبینہ عشرہ مبشرہ میں سے بھی سعد بن ابی وقاص زندہ تھے۔

نبیﷺ کے اھل بیت اطہار کا بغض بھی دل میں پیدا ہوجائے تو اللہ دنیا و آخرت میں رسوائیاں لکھ دیتا ھے.اصحاب کساء ایسی ہلکی شخصیات نھیں کہ کوئی ان پر بھونکے اور اللہ اسے چھوڑ دے.- اصحاب کساء کا ذکر اور ان سے مودت، ان کا دفاع انسان کو ظاھری و روحانی لحاظ سے منور کرتا ہے ۔ انسان کے کلام میں جاذبیت پیدا کرتا ہے۔ آپ مولانا اسحاق ، شیخ طاھر القادری، مولانا طارق جمیل صاحب کو سنتے ہیں تو ان کی بات میں جاذبیت ہوتی ہے، انسان ان کی جانب متوجہ ہوتا ہے جبکہ اصحاب کساء (ع) کے ذکر میں کوتاہی کرنے والا ، ان کے عدو کا دفاع کرنے والے کے کلام میں جاذبیت بالکل ختم ہوجاتی ہے ، ان کی کلام میں کراہیت محسوس ہوتی ہے، ظاھری و روحانی لحاظ سے نور ختم ہوجاتا ہے ۔ آپ دیکھ سکتے ہیں ذاکر نائیک ، الیاس عطار ، جاوید غامدی، اسرار احمد وغیرہ کو ان سے علم کے نور کو سلب کر لیا گیا ہے اور زوال کی جانب گامزن ہیں۔

مولا علی (ع) کی بیعت تمام مہاجرین و انصار نے کی تھی۔ اس پر نصوص واضح ہیں البتہ گنتی کے جو سات آٹھ نام اصحاب کے بیان کئے جاتے ہیں اور جن کی طرف غامدی نے اشارہ کیا کہ انھوں نے حضرت علی کی بیعت نہیں کی تھی تو اول یہ دھوکہ ہے۔ ان چند اصحاب نے جنگوں میں شرکت نہیں کی تھی اور گھر پر بیٹھے رہے۔باقی جنگوں میں اصحاب بدر کی ایک خاص تعداد مولا علی ع کے ساتھ شریک ہوئی ۔ اگر باالفرض ان چند کا بیعت نہ کرنا بھی ثابت ہو تو اس سے خلافت علی ع پر کوئی حرف نہیں آتا کیونکہ ایک جم غفیر نے مسجد نبوی میں منبر رسول اللہ ع پر میرے مولا ع کو شرعی خلیفہ اور وصی رسول اللہ ع مانا تھا ۔ سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ خلفاء ثلاثہ اپنی رائے اور چند لوگوں کے اتفاق سے مسند پر آئے، جب کہ مولا علی کو شورش کے ٹائم پر خلیفہ ثالث کے بےرحمانہ قتل کی صورتحال میں ہزاروں صحابہ کرام کی مسلسل منت اور خواہش سے خلیفہ چنا گیا، اور مسجد نبوی ﷺ میں لوگ آتے رہے اور خوشی خوشی بیعت کرتے رہے – ابن کثیر کے مطابق صفین میں درجنوں اصحاب بدر اور کوئی 150 اصحاب شجرہ امام علی کے ساتھ نکلے تھے بشمول عمار ابن یاسر رض

سلفی محدث شیخ مصطفی العدوی سے ویڈیو میں سوال ہوا ہے کہ یزید بن معاویہ اور حجاج ثقفی کے متعلق کیا کہتے ہیں ؟ شیخ جواب میں کہتے ہیں کہ دونوں ظالم تھے – معاصر محدث شیخ مصطفی العدوی سے سوال پوچھا گیا کہ صفین میں باغی گروہ کون تھا ؟ انھوں نے جواب دیا کہ امیر شام کا گروہ باغی گروہ تھا اور اس پر حدیث عمار دلالت کرتی ہیں ۔اب ہم ان محدثین کی بات مانیں جو اس فیلڈ کے ماھر ہیں یا پھر خامدی کی بات مانیں جس کے دل میں کجی اور ناصبیت ہے ۔

علامہ زبیدی نے احادیث متواتر پر کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے

لقط اللآلئ المتناثرة في الأحاديث المتواترة

اس میں انھوں نے احادیث متواتر کو جمع کیا ہے ۔ حدیث عمار رض کو بھی انھوں نے حدیث متواتر شمار کر کے اپنی کتاب کی زینت بنایا ہے ۔

کیا جناب طلحہ و زبیر (رض) نے مولا علی (ع) کی بیعت زبردستی اور تلوار کے خوف کی وجہ سے کی تھی ؟ 

اس حوالے سے اکثر نواصب سخت ضعیف اخبار سے استدلال کرتے ہیں کہ مولا علی ع کی بیعت اصحاب رسول اللہ سے باالخصوص طلحہ و زبیر سے زبردستی لی گئی اور تلوار کے خوف انھوں نے بیعت کی ۔افسوس ، نواصب ، بغض علی (ع) میں ضعیف اخبار نقل کرتے ہیں مگر صحیح روایات کے مطابق طلحہ و زبیر نے اپنی خوشی و رضا مندی کے ساتھ مولا علی ع کی بیعت کی ۔ اس حوالے سے چند صحیح الاسناد اخبار ملاحظہ فرمائیں ۔

روایت نمبر 1 :۔

مالک اشتر (رض ) کہتے ہیں کہ میں نے طلحہ و زبیر اور کچھ لوگوں کو دیکھا کہ انہوں نے مولا علی (ع) کے ہاتھ پر بغیر کسی اکراہ کے بیعت کی ۔

ألاشتر ،قال : رأيت طلحة والزبير والقوم بايعوا عليا طائعين غير مكرهين

مُصنف ابن أبي شيبة ۔ ح : 38864 ۔ سندہ صحیح

روایت نمبر 2 :۔

طارق بن شباب سے روایت ہے کہتے ہیں کہ جب حضرت عثمان کو قتل کیا گیا میں نے دل میں سوچا کہ مجھے کس شئے نے عراق میں ٹھرایا ہوا ہے حالانکہ جماعت تو مدینہ میں ہے مہاجرین اور انصار کے پاس ، کہتے ہیں میں نکلا مجھے خبر ملی کہ لوگوں نے حضرت علی ع کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے ، کہتے ہیں کہ میں ربذہ کے مقام پر پہنچا تو وہاں مولا علی ع موجود تھے ۔ ان کے لئے ایک شخص نے بیٹھنے کے لئے نشست رکھی۔ پس مولا علی ع کھڑے ہونے کی حالت میں تھے ، انہوں نے اللہ کی حمد و ثناء بیان کی ، پھر فرمایا: طلحہ اور زبیر نے بیعت خوشی خوشی کی تھی نہ کہ حالت اکراہ میں

طارق بن شهاب قال: لما قتل عثمان قلت: ما يقيمني بالعراق، وإنما الجماعة بالمدينة عند المهاجرين والأنصار، قال: فخرجت والأنصار، قال: فخرجت فأخبرت أن الناس قد بايعوا عليا، قال:۔

فانتهيت إلى الربذة وإذا علي بها، فوضع له رجل فقعد عليه، فكان كقيام الرجل، فحمد الله وأثنى عليه ثم قال إن طلحة والزبير بايعا طائعين غير مكرهين

مُصنف ابن أبي شيبة ۔ ح : 38954۔ سندہ حسن

روایت نمبر 3 :۔

حضرت احنف بن قیس سے منقول ہے کہ ہم مدینہ پہنچے ہمارا حج کرنے کا ارادہ تھا ۔۔۔۔ احنف کہتے ہیں کہ میں چلا اور حضرت طلحہ اور زبیر کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ اب آپ مجھے کس چیز کا حکم دیتے ہیں ؟ اور میرے لئے کس کو پسند کرتے ہو؟ کیونکہ ان کو (حضرت عثمان) شھید ہوتے دیکھ رہا ہوں ۔ دونوں نے جواب دیا ہم آپ کو حضرت علی ع سے بیعت کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔ میں نے پھر عرض کیا آپ حضرت علی ع کے بارے میں حکم دے رہے ہیں اور آپ میرے لئے ان پر راضی ہیں ، دونوں نے جواب دیا : ہاں ۔

پھر میں حج کے لئے مکہ روانہ ہوا کہ اس دوران حضرت عثمان کے قتل کی خبر پہنچی ۔ مکہ میں حضرت عائشہ بھی قیام فرما تھیں ۔ میں ان سے ملا اور ان سے عرض کیا کہ اب میں کن سے بیعت کروں ، انہوں نے بھی حضرت علی ع کا نام لیا ۔ میں نے عرض کیا آپ مجھے علی ع سے بیعت کا حکم دے رہی ہیں اور آپ اس پر راضی ہیں ، انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔

عن الأحنف بن قيس قال: قدمنا المدينة ونحن نريد الحج….قال الأحنف: فانطلقت فأتيت طلحة والزبير فقلت: ما تأمراني به ومن ترضيانه لي، فإني لا أرى هذا إلا مقتولا، قالا

نأمرك بعلي، قال: قلت: تأمراني به وترضيانه لي؟ قالا: نعم، قال: ثم انطلقت حاجا حتى قدمت مكة فبينا نحن بها إذ أتانا قتل عثمان وبها عائشة أم المؤمنين، فلقيتها فقلت لها: من تأمريني به أن أبايع؟ فقالت: عليا، فقلت أتأمرينني به وترضينه لي؟ قالت: نعم۔

مُصنف ابن أبي شيبة ۔ ح 38953 ۔ سندہ صحیح

 

 

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…