جمعہ کی نماز اور غامدی صاحب

Published On November 7, 2024
تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ شهادت علی الناس:۔ شہادت علی الناس کا سیدھا اور سادہ معروف مطلب چھوڑ کر غامدی صاحب نے ایک اچھوتا مطلب لیا ہے جو یہ ہے کہ جیسے رسول اپنی قوم پر شاہد ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ صحابہ پر شاہد تھے ، ایسے ہی صحابہ کو اور صرف صحابہ کو دیگر محدود...

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟  غامدی صاحب کے دلائل کا جائزہ:۔ ویسے تو کسی نظریے کے غلط ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ امت کے اجتماعی ضمیر کے فیصلے سے متصادم ہے، لیکن اگر کچھ نادان امت کے اجتماعی ضمیر کو اتھارٹی ہی تسلیم نہ کرتے ہوں اور اپنے دلائل پر نازاں ہوں تو...

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد غامدی تصور جہاد کی سنگینی اور انوکھا پن:۔ پوری اسلامی تاریخ میں اہل سنت کا کوئی قابل ذکر فقیہ مجتہد، محدث اور مفسر اس اچھوتے اور قطعی تصور جہاد کا قائل نہیں گذرا، البتہ ماضی قریب میں نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمدقادیانی نے اس قبیل کی...

تصورِ جہاد ( قسط اول)

تصورِ جہاد ( قسط اول)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد کچھ عرصہ قبل راقم نے غامدی صاحب کے شاگر در شید اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کے فرزند من پسند جناب عمار خان ناصر صاحب کے نظریہ جہاد کے نقد و تجزیے کے لیے ایک مضمون سپر د قلم کیا تھا، جو ماہنامہ صفدر میں قسط وار چھپنے کے علاوہ "عمار خان کا نیا...

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

حسان بن علی پہلے یہ جاننا چاہیے کہ قرآن نے اصل موضوع سود لینے والے کو کیوں بنایا. اسے درجہ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے ١) چونکا سود کے عمل میں بنیادی کردار سود لینے والے کا ہے لہذا قرآن نے اصل موضوع اسے بنایا. ٢) سود لینے والے کے لیے مجبوری کی صورت نہ ہونے کے برابر...

سود اور غامدی صاحب

سود اور غامدی صاحب

حسان بن علی غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش...

ناقد : شیخ عبد الجبار بلال

تلخیص : زید حسن

ایک سوال کیا گیا کہ بیرون ملک مقیم افراد کے لئے جمعہ کا کیا حکم ہے ؟

غامدی صاحب نے جو جواب عنایت فرمایا اس پر ہمارے کچھ ملاحظات ہیں ۔

غامدی صاحب نے تین باتیں کیں جو درج ذیل ہیں ۔

اول ۔ ” جمعہ ریاست پر فرض ہے “۔

اگر اس سے انکی یہ مراد ہے کہ ریاست  فرائض کی ادائیگی میں شہریوں کی مدد اور خدمت کرے تو یہ بات بالکل درست ہے ۔ سورۃ نور آیت نمبر 55 ، 56  میں خلافت کی بات کی گئی ہے اور ساتھ ہی حکم دیا گیا ہے کہ شرک نہ کرو، نماز قائم کرو ، زکوۃ دو ۔اسلئے جب ریاست قائم ہو جائے تو تمام احکامات کو لاگو کرنا ریاست ہی کی ذمہ داری ہے ۔ اس میں جمعہ کی تخصیص نہیں ہے ۔

لیکن اگر انکی مراد یہ ہے کہ جمعہ فرض ہی ریاست پر ہے تو یہ بات درست نہیں ہے ۔ ابو داود اور ابن ماجہ میں مذکور ہے کہ سب سے پہلا جمعہ سیدنا اسد بن ضرارہ نے مدینہ میں پڑھایا لیکن آپﷺ اس وقت مکہ میں تھے اور وہاں بھی جمعہ فرض کر دیا گیا تھا ۔ ابن عباس رض فرماتے ہیں جمعہ مکہ میں فرض کر دیا گیا تھا لیکن اسے دشمن کے خوف سے قائم نہیں کیا گیا تھا (دارقطنی) عمر بن خطاب رض کے دور میں انہیں ایک خط ملا جس میں پوچھا گیا کہ ہم جمعہ کیسے قائم کریں ؟ تو آپ نے فرمایا ” تم جہاں ہو اسے قائم کرو”۔

دوم ۔ ” جمعے کا خطبہ سربراہِ ریاست دے سکتا ہے ،علماء اس بارے میں شدید غداری کے مرتکب ہیں “۔

یہ عقلا اور شرعا ممتنع ہے ۔ہمارے پاس احادیث کی کتب موجود ہیں جن میں جمعہ کی شرائط مذکور ہیں ۔ کسی کتاب میں یہ شرط لاگو نہیں کی گئی کہ جمعے کا خطبہ صرف ریاست کا سربراہ دے گا ۔ عقلا اس کا امتناع اسلئے ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک خلیفہ کے پیچھے ساری آبادی جمعہ ادا کرے ۔ انکی اقتدا میں چند لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں ۔ کیا جمعہ کے فضائل انہیں لوگوں کے لئے ہیں اور کیا اس قدر ترغیب صرف چند لوگوں کے لئے دی گئی ہے ؟

غامدی صاحب فرماتے ہیں : کیا آپ نے کبھی سنا کہ امام ابوحنیفہ یا شافعی ، مالک یا احمد بن حنبل نے جمعہ کا خطبہ دیا ہو ؟

عرض ہے کہ سنا تو ہم نے انکی بابت یہ بھی نہیں کہ انہوں نے عام دنوں کی نمازوں کی امامت کروائی ہو ؟ کیا انکی امامت کا علم نہ ہونا ان نمازوں کی جماعت کے ساتھ فرضیت ساقط کر دے گا ؟

سوم ۔ “اگر کہیں کسی کو جمعہ مل جائے  تو پڑھ لینے میں حرج نہیں کیونکہ مسلمانوں کے غلط فیصلوں بھی انکے ساتھ شامل رہنا چاہئیے “۔

اس بات سے غامدی صاحب نے اپنے پہلے دونوں مقدمات کی خود تردید کر دی ہے جس پر ہم انکے شکر گزار ہیں ۔

ویڈیو دیکھنے کے لئے درج ذیل لنک کو کلک کریں ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…