تراث ، وراثت اور غامدی صاحب : حصہ دوم

Published On October 27, 2024
انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط لگانا روافض و خوارج کی ایجاد ہے۔ اہل علم نے ہمیشہ اس موقف کی تردید کی ہے۔ ان اہل علم کا تعلق صرف اہل ظاہر سے نہیں بلکہ ان میں کثرت سے مذاہبِ اربعہ کے فقہاء بھی شامل ہیں۔ چنانچہ امام بخاری نے اپنی...

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

محمد خزیمہ الظاہری دین کی ہر ہدایت کا تواتر سے منتقل ہونا ضروری نہیں ہے اور نا ہی کسی نقل ہونے والی چیز کے ثبوت کا اکلوتا ذریعہ تواتر ہے.. سب سے پہلی اصل اور بنیاد کسی بات کے ثبوت پر اطمینان ہے اور اسکے لئے ہمہ وقت تواتر کا احتیاج نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی لٹریچر کو...

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

محمد خزیمہ الظاہری منکرین حدیث جس تواتر کا چرچا کرتے ہیں یہ از خود ہمیشہ ان اخبار و روایات کا محتاج ہوتا ہے جسے ظن و آحاد قرار دے کر انکی اہمیت گھٹائی جاتی ہے۔ متواتر چیز سے متعلق جب تک روایات اور اخبار کے ذریعے سے یہ بات معلوم نا ہو کہ گزشتہ تمام زمانوں میں وہ بات...

پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

حسن بن علی

اسی طرح تقسیم میراث کے دوران مسئلہ مشرکہ (حماریہ یا ہجریہ) کا وجود مسلم حقيقت ہے جس کے شواہد روایتوں میں موجود ہیں لیکن غامدی صاحب (سورۃ النساء آيت 12 اور آیت 176) كى خود ساختہ تفسیر کے نتیجے میں یہ مسئلہ سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا. اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ مرنے والی نے شوہر، ماں شریك بھائی اور حقیقی بھائی چھوڑے. (شوہر = 50، ماں = 16.6، ماں شریک بھائی = 33.3، حقیقی بھائی = بچا ہوا حصہ) اب شوہر، ماں، ماں شریک بھائیوں کے حصوں کو جمع کیا جائے تو 100 فیصد بنتا ہے لہذا حقیقی بھائیوں کے لیے کچھ نہیں بچا. اس کا حل یہ نہیں کہ قرآن میں ماں شریک بھائیوں کے حصے کی موجودگی کا انکار کر دیا جائے جیسا کہ غامدی صاحب نے سورۃ النساء 12 میں کیا.

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں اس مسئلہ كا المجتهد فيها ہونا واضح ہو چکا تھا اور اس کے مختلف حل تجویز کیے گئے ایک اجتہاد یہ ٹھہرا کہ اس صورت میں حقیقی بھائیوں کو وراثت سے محروم ركھا جائے کیونکہ جو حصہ انہیں ملنا تھا وہ بطور عصبہ ملنا تھا اور دوسرا حل بعض نے یہ دیا کہ حقیقی بھائیوں کو ماں شریک بھائیوں کے ساتھ ثلث میں شریک کر لیا جائے. واضح رہے کہ غامدی صاحب بخلاف دیگر فقہاء اس مسئلے کا حل نہیں بتا رہے بلکہ ان کے نزدیک یہ مسئلہ پیدا نہیں ہوتا اور دوسرے لفظوں میں سلف نے اسے خود سے ایک مسئلہ بنایا اور پھر اس کے مختلف حل تجویز کیے.

جاننا چاہیے کہ “کلالہ” کا لفظ جیسے وارث کے لیے استعمال ہوتا ہے اسی طرح مورث اس کے لیے بھی جس کا اقرار غامدی صاحب بھی کرتے ہیں ليكن ان کے نزدیک سورۃ النساء کی آیت 12 ميں لفظ کلالہ بمعنى وارث يعنى مرنے والے کے قریبی رشتہ داروں (ما سوى الوالد والولد) کے لیے آيا ہے نہ کہ اس مورث کے لیے جس کے نہ اصول میں کوئی ہو نہ فروع میں (من لا والد له ولا ولد) اور غامدی صاحب كى دليل یہ ہے کہ چونکہ “یوصى” کا فعل مجہول ہے لہذا یہ امر اس میں مانع ہے کہ آیت 12 میں “کلالہ” کو مورث کے لیے مانا جائے.

اولا: اس پر عرض یہ ہے کہ کلالہ کو بطور وارث لیے جانے کی صورت میں یہ کہیں لازم نہیں آتا کہ “رجل” بھی وارث ہی ٹھہرے بلکہ “رجل” پھر بھی مورث ہو سکتا ہے. جيسے آیت کی نحوى ترکیب يوں بھی ہو سکتی ہے: كان كو تامہ مانا جائے، رجل كان کا فعل ہے، یورث رجل کی صفت ہے، كلالة محذوف مصدر كى صفت ہو (إرث الكلالة أو وراثة الكلالة). اگر ایسا مرد ہو یا ايسى عورت ہو جس سے وارث ہو كلالة وارث. یہاں رجل مورث ہے اور کلالہ وارث ہے نہ کہ مورث. اسى طرح نحوى ترکیب يوں بھی ہو سکتی ہے: رجل كان کا اسم ہو، یورث رجل کی صفت ہو، كلالة کان کی خبر ہے. آیت کا ترجمہ کچھ یوں ہوگا اگر مرد یا عورت جس سے جو وارث ہو وہ کلالہ ہو. لہذا کلالہ کو قریبی رشتہ دار (ما سوى الوالد ولولد) ماننے کی صورت میں بھی رجل مورث كى صورت برقرار رہ سکتا ہے. لہذا جن مفسرین (جيسے امام طبري) نے کلالہ کو بمعنی میت کے قریبی رشتہ دار لیا بھی ہے ان کے نزدیک بھی “وله اخ او اخت” سے مراد میت (مورث) کا بھائی اور میت کی بہن ہے نہ کہ وارث کی.

غامدی صاحب کا اختیار كرده تركيب کچھ اس طرح ہے. رجل كان کا اسم ہے، یورث کان کی خبر ہے، كلالة مفعول له ہے. آیت کا ترجمہ کچھ یوں ہے. اگر مرد یا عورت وارث بنايا جائے کلالہ ہونے کی وجہ سے (اس کے علاوہ آیت کا ترجمہ یوں بھی درست ہے: وہ مرد اور عورت جس سے وارث ہو اس کے کلالہ ہونے کی وجہ سے. اس صورت میں بھی رجل مورث ٹھہرتا ہے لیکن غامدی صاحب کا اختیار أول الذكر ہے). عربیت کی رو سے غامدی صاحب کى اختیار كرده تركيب اور ترجمہ (جس کے نتیجے میں رجل وارث بنتا ہے نہ کہ مورث) بھی درست ہے (اگر فعل يورث ورث ثلاثی کی بجائے أورث رباعی سے ہو) ليكن تمام دیگر نحوی تراکیب کو چھوڑ کر محض اس نحوى ترکیب اور ترجمہ کو اختیار کرنا جو کہ نہ صرف آیت کے متفقہ مفہوم سے ہم آہنگ نہ ہو بلکہ اس سے اپنی مرضی کا اپنا مفہوم برآمد کرنے میں تکلف بھی برتا گیا ہو جبکہ متعدد نحوی تراكیب موجود ہوں جس میں کلالہ کو وارث ماننے کے باوجود بھی رجل مورث ہی ٹھہرتا ہو.

ثانيا: واضح رہے کہ غامدی صاحب نے باقی ديگر نحوى تراکیب کو ذکر کیے بغیر محض اس بنا پر رد کر دیا کہ اس جملے کے ما بعد یوصى کا فعل مجہول (المبني للمفعول) آیا ہے. حالانکہ اگر “رجل” کو وارث مانا جائے تو يوصى کے فعل مجہول پر تو اشکال کیا جا سکتا ہے لیکن “رجل” کو مورث ماننے کی صورت میں ہرگز نہیں جیسا کہ زمخشری نے “رجل” کو وارث ماننے کی صورت میں تو فعل مجہول کے اشکال کا جواب دیا ہے لا عكسها. کیونکہ وصیت تو مرنے والے کا فعل تھا اب اگر مورث پیچھے موجود ہی نہیں تو اس کو وارث کے ساتھ کیسے جوڑا جائے لہذا زمخشری کے نزدیک یہ امر لائق اشکال ہو سکتا تھا. یعنی جو اشکال غامدی صاحب نے کیا زمخشری کے نزدیک یہ اشکال بنتا ہی نہیں بلکہ زمخشری کے نزدیک غامدی صاحب کا یہ اختیار کہ “رجل” كو وارث لیا جائے لائق اشکال ہو سکتا تھا جس کا زمخشری نے جواب دیا.

ثالثا: یوصى کے فعل کو خارجی يا اضافى قرینہ تو کہا جا سکتا ہے لیکن اس سے پہلے کلالہ کے لفظ کی مختلف اعرابی صورتیں اس کے معنی کا تعین کریں گی اور غامدی صاحب کے نزدیک بھی اصول یہی ہے کہ لفظ کا معنی جملے کی تالیف سے طے کیا جائے گا لیکن یہاں انہوں نے اپنے اصول کو پوری طرح برتنا ضروری نہ سمجھا جيسے وہ پہلے سے ہی کسی خاص معنی کا ارادہ کر چکے تھے.

رابعا: یہ کہ یوصى کے اس فعل کی معروف انداز (المبني للفاعل) میں متواتر قراءات بھی موجود ہے (قرأ بها سبعة من عشرة القراء) اور حفص (عن عاصم) کی قراءات کی پابندی کو غامدی صاحب نے خود پر لازم کیا ہے جبکہ دیگر جو حفص کے علاوہ بھی متواتر قراءات کے قرآن ہونے کے قائل ہیں تو ان پر غامدی صاحب کی دلیل کیسے حجت بن سکتی ہے. لہذا اتفاقى موقف کہ کلالہ کو یہاں بطور مورث لیا جائے نہ کہ وارث مزيد قوی ہو جاتا ہے.

خامسا: آیت کا سیاق اس چیز کا تقاضا کرتا ہے کہ یہ آیت بہن بھائیوں کے حصوں سے متعلق ہو کیونکہ شروع میں بیٹوں کے حصے بیان ہوئے، اس کے بعد ماں باپ کے، اس کے بعد زوجین کے، اس کے بعد بہن بھائی ہی آتے ہیں. اب یہ بہن بھائی کون سے ہیں اس اطلاق میں تقيید حدیث اور اجماع سے ثابت ہے کہ یہ ماں شریک بہن بھائی ہیں. رہی سورۃ النساء کی آیت 176، تو وہ حقیقی اور باپ شریک بہن بھائیوں سے متعلق ہے. اگر بات کریں آیتوں کی ترتیب میں موجود حکمت كى کہ ماں شریک بہن بھائیوں کے حصے کو مقدم ذکر کیا گیا (سورة کے شروع میں باقی حصوں کے ساتھ ذکر کرنا) جبکہ حقیقی بہن بھائی اور باپ شریک بہن بھائیوں کے حصے کو مؤخر ذکر (سورة کے آخری حصے میں ذکر کرنا) تو اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ عرب ماں شریک بہن بھائی کے حصے میں کوتاہی کرتے تھے اور سورۃ النساء کے نام النساء سے واضح ہے کہ اس سورة میں اهل عرب عورتوں کے حقوق کے معاملے میں جن کوتاہیوں کے مرتکب تھے اسے نہ صرف بخوبی واضح کیا گیا ہے بلکہ اس کے تدارک کے لیے احکام دیے گئے ہیں. جبکہ غامدی صاحب کے اختیار کردہ مفہوم کی روشنی میں زیر نظر آیت میں ماموں اور پھوپھی کے بہن بھائی مراد ہیں نہ کہ مرنے والے کے بہن بھائی اور يہ بات آیات کے سیاق سے مطابقت نہیں رکھتی. رہی بات حقیقی بہن بھائیوں کے حصے کو سورة کے آخر میں علیحدہ سے ذکر کرنے کی تو وہ بھی سورة کے نظم میں جمال لیے ہوئے ہیں وہ اس طرح کے سورة النساء کے شروع میں نسل انسانی کی ابتدا کی بات تھی (يا أيها الناس اتقوا ربكم الذي خلقكم من نفس واحدة وخلق منها زوجها وبث منهما رجالا كثيرا ونساء) اور سورت کے آخر میں نسل انسانی کے اختتام کی طرف اشارہ ان الفاظ میں موجود ہے: إن امرؤ هلك ليس له ولد.

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…