نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...
اسلام ميں مرتد كى سزا اور جاويد غامدى
جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی
عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...
حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ
ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...
امام النواصب جاوید غامدی
احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...
سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل
محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...
کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟
شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...
محمد رفیق چوہدری
ارتداد كے لغوى معنى ‘لوٹ جانے’ اور ‘پهر جانے’ كے ہيں – شرعى اصطلاح ميں ارتداد كا مطلب ہے: “دين اسلام كو چهوڑ كر كفر اختيار كرلينا-” يہ ارتداد قولى بهى ہوسكتا ہے اور فعلى بهى- ‘مرتد’ وہ شخص ہے جو دين ِاسلام كو چهوڑ كر كفر اختيار كرلے-اسلا م ميں مرتد كى سزا قتل ہے جو صحيح احاديث، تعامل صحابہ اور اجماعِ اُمت سے ثابت ہے-
جناب جاويد احمد غامدى اس منصوص اور اجماعى امر كو نہيں مانتے اور مرتد كے لئے سزاے قتل ہونے كے منكرہيں – اس مضمون ميں سب سے پہلے ہم مرتد كے واجب القتل ہونے كے شرعى اور عقلى دلائل ديں گے ، پهر اس كے بعد غامدى صاحب كے موقف كا جائزہ ليں گے
صحيح احاديث
نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم كے جن مستند فرامين كى بنا پر علماے اُمت كا مرتد كى سزا قتل ہونے پر اجماع ہے، وہ درج ذيل ہيں
صحيح بخارى ميں حضرت عبداللہ بن عباس كى روايت
«من بدّل دينه فاقتلوہ»1
“جو (مسلمان) اپنا دين بدل لے ، اُسے قتل كردو-“
اسى مضمون كى احاديث بعض جليل القدر صحابہ كرام:حضرت ابوبكر صديق، حضرت على، حضرت ابوموسىٰ اشعرى، حضرت خالد بن وليد اور حضرت معاذ بن جبل سے بهى مروى ہيں – مذكورہ حديث صحيح بخارى كے علاوہ سنن ابوداؤد،سنن ابن ماجہ اور موطا ٴاما م مالك ميں بهى موجود ہے
صحيح بخارى اور صحيح مسلم كى ايك متفق عليہ حديث يہ بهى ہے كہ
عن عبدالله قال: قال رسول الله !: «لا يحل دم امرئ مسلم يشهد أن لا إله إلا الله، وأني رسول الله إلا بإحدٰى ثلاث: النفس بالنفس، والثيب الزاني،والمفارق لدينه التارك للجماعة»2
“حضرت عبداللہ (بن مسعود) سے روايت ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا: كسى مسلمان كا خون بہانا جائز نہيں جو يہ گواہى ديتا ہو كہ اللہ كے سوا كوئى معبود نہيں اور يہ كہ ميں اللہ كا رسول ہوں ، ما سوا تين صورتوں كے:ايك يہ كہ اس نے كسى كو قتل كيا ہو، دوسرى يہ كہ وہ شادى شدہ زانى ہو اور تيسرى يہ كہ وہ اپنا دين چهوڑ كر (مسلمانوں كى) جماعت سے الگ ہوجائے-“
يہ حديث صحيح بخارى كے علاوہ صحيح مسلم، سنن ابوداؤد، جامع ترمذى، سنن نسائى، سنن ابن ماجہ، سنن دارمى اور مسنداحمد بن حنبل ميں بهى موجود ہے اور اسے حضرت عبداللہ بن مسعود كے علاوہ حضرت عائشہ اور حضرت عثمان غنى نے بهى روايت كيا ہے-
سنن ابو داؤد كى حديث ہے كہ
عن أبي أمامة بن سهل قال: كنّا مع عثمان وهو محصور في الدار، وكان في الدار مدخل من دخله سمع كلام من على البلاط، فدخله عثمان،فخرج إلينا وهو متغير لونه، فقال: إنهم ليتواعدونني بالقتل آنفا، قال: قلنا يكفيكم الله يا أمير المؤمنين! قال: ولم يقتلونني؟ سمعت رسول الله يقول: «لا يحل دم امرئ مسلم إلا بإحدى ثلاث: كفر بعد إسلام، أو زنا بعد إحصان، أو قتل نفس بغير نفس» فوالله ما زنيت في جاهلية ولا في إسلام قط، ولا أحببت أن لي بديني بدلا منذ هداني الله، ولا قتلتُ نفسا فبم يقتلونني؟ 3
“حضرت ابو اُمامہ بن سہل روايت كرتے ہيں كہ ميں اور دوسرے لوگ حضرت عثمان كے پاس موجود تهے، جب وہ اپنے گهر ميں محصور تهے- اس گهر كا ايك راستہ تها جس كے اندر كهڑا آدمى گهر كى بالكونى پر كهڑے لوگوں كى بات آسانى سے سن سكتا تها- حضرت عثمان وہاں تشريف لائے، ان كے چہرے كا رنگ بدلا ہوا تها- وہ باہر نكلے اور فرمايا: ابهى يہ لوگ مجهے قتل كردينے كى دہمكى دے رہے تهے- ہم نے عرض كيا: اے اميرالمومنين! ان كے مقابلے ميں اللہ آپ كے لئے كافى ہے- پهر فرمايا: يہ لوگ مجهے كيوں قتل كردينا چاہتے ہيں ؟ ميں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم كو يہ فرماتے سنا ہے كہ كسى مسلمان كا خون حلال نہيں ،سوائے اس كے كہ تين صورتوں ميں سے كوئى ايك صورت ہو- وہ اسلام لانے كے بعد كفر اختيار كرے- (مرتد ہوجائے) يا شادى كے بعد زنا كرے، يا كسى كو ناحق قتل كردے- اللہ كى قسم! ميں نہ تو جاہليت ميں زنا كا مرتكب ہوا اور نہ اسلام لانے كے بعد- دوسرے يہ كہ ميں نے اپنا دين بدلنا كبهى پسند نہيں كيا جب سے اللہ نے مجهے ہدايت عطا فرمائى ہے- تيسرے يہ كہ ميں نے كسى كو ناحق قتل بھى نہيں كيا- پهر يہ لوگ كس بنا پر مجهے قتل كرنا چاہتے ہيں ؟”
مذكورہ بالا صحيح احاديث سے يہ امر بالكل واضح ہوجاتا ہے كہ اسلام ميں مرتد شخص مباح الدم اور واجب القتل ہوتا ہے- چنانچہ انہى احاديث ِصحيحہ كى بنا پر تمام فقہاے اسلام كا اس پر اجماع ہے كہ اسلامى شريعت ميں مرتد كى سزا قتل ہے-
كتب ِاحاديث(جن ميں صحيح بخارى بھى شامل ہے) اور معتبر كتب ِتاريخ سے ثابت ہے كہ چاروں خلفاے راشدين نے اپنے اپنے دور ِخلافت ميں مرتدين كو ہميشہ قتل كى سزا دى ليكن طوالت كے خوف سے ہم يہاں ان واقعات كى تفصيل نہيں دے رہے-
اسى طرح خلفاے بنواُميہ اور خلفاے بنو عباس نے بهى مرتد پر سزاے قتل نافذ كى
ائمہ مجتہدين كا بهى اس پر اتفاق ہے كہ مرتد كى سزا قتل ہے
ائمہ مجتہدين كا بهى اس پر اتفاق ہے كہ مرتد كى سزا قتل ہے اور اس پراجماعِ اُمت ہے كہ اسلام ميں مرتد كى سزا قتل ہى ہے- اس سلسلے ميں درج ذيل حوالے ملاحظہ ہوں
اول ۔ ائمہ اربعہ كے فقہى مسائل پر مبنى كتاب الفقه على مذاهب الأربعة (از عبدالرحمن جزيرى) ميں ہے كہ
واتفق الأئمة الأربعة عليهم رحمة الله تعالىٰ على أن من ثبت ارتداده عن الإسلام والعياذ بالله وجب قتله، وأهدر دمه 4
“ائمہ اربعہ كااس پر اتفاق ہے كہ جو شخص اسلام سے پهر جائے … اللہ بچائے… اُس كا قتل واجب ہے اور اُس كا خون بہانا جائز ہے-“
دوم ۔ اسلامى فقہ كے اجماعى مسائل پر مشتمل انسا ئيكلوپيڈيا موسوعة الإجماع ميں ہے كہ مرتد كا خون بہانا جائز ہے :
اتفقوا على أن من كان رجلا مسلما حرًّا … ثم ارتد إلى دين كفر…أنه حل دمه. 5
“اس پر تمام فقہاے اسلام كا اتفاق ہے كہ آزاد مسلمان مرد مرتد ہوجائے تو اس كا خون بہانا جائز ہے- “
سوم ۔ اسلامى فقہ كى مشہور كتاب الفقه الإسلامي وأدلته ميں ڈاكٹر وہبہ زحيلى بهى أحكام المرتد كے تحت مرتد كى سزا قتل ہونے پر اجماعِ اُمت نقل كرتے ہوئے لكهتے ہيں
اتفق العلماء على وجوب قتل المرتد لقولهﷺ:«من بدّل دينه فاقتلوه» وقوله عليه السلام: «لايحل دم امرىٴ مسلم إلا بإحدٰى ثلاث: الثيب الزاني،والنفس بالنفس،والتارك لدينه المفارق للجماعة» وأجمع أهل العلم على وجوب قتل المرتد. 6
“علما كا اس پر اتفاق ہے كہ مرتد كا قتل واجب ہے كيونكہ رسول اللہﷺ كا فرمان ہے كہ جو مسلمان اپنا دين بدل لے، اسے قتل كردو- نيز آپ نے يہ بهى فرمايا ہے كہ كسى مسلمان شخص كا خون حلال اور مباح نہيں ہوتا مگر تين صورتوں ميں : ايك يہ كہ وہ شادى شدہ زانى ہو، دوسرے يہ كہ وہ كسى جان كا قاتل ہو اور تيسرے يہ كہ وہ دين كو چهوڑ دے، يعنى مسلمانوں كى جماعت سے الگ ہوجائے اور اہل علم كا اس پر اجماع ہے كہ مرتد واجب ِقتل ہے-“
مذكورہ بالاشرعى دلائل كى تفصيل سے يہ بات پورى طرح واضح ہوجاتى ہے كہ اسلامى شريعت ميں مرتد كى سزا قتل ہے-
مرتد كى سزا كے عقلى دلائل
اب تك ہم نے ايسے شرعى دلائل پيش كرديئے ہيں جن سے يہ ثابت ہوجاتا ہے كہ اسلامى شريعت ميں مرتد كى سزا قتل ہے اور اس كى بنياد احاديث ِصحيحہ، تعامل صحابہ اور اجماعِ اُمت پر ہے- ان شرعى دلائل كو جان لينے كے بعد ايك صاحب ِ ايمان كا دل تو مطمئن ہوجاتا ہے كہ اسلام ميں ارتداد كى يہى سزا ہے- مگر كيا كيجئے، آج كل بہت سے اہل ايمان كے دلوں كو كسى شرعى حكم كے بارے ميں محض شرعى دلائل سے اطمينان حاصل نہيں ہوتا بلكہ وہ اس كے علاوہ عقلى دلائل چاہتے ہيں تاكہ اُنہيں شرحِ صدر ہو- اس لئے ہم ذيل ميں مرتد كى سزاے قتل كے بارے ميں چند عقلى دلائل بهى پيش كرتے ہيں
اول ۔ سب سے پہلے يہ حقيقت پيش نظر ركهنا ضرورى ہے كہ اسلام دوسرے مذاہب كى طرح كا كوئى ايسا مذہب نہيں ہے جو انسانى زندگى كا محض ايك جزو يا ضميمہ بن كر رہے اور جو ہر شخص كا ايك ذاتى اور نجى معاملہ ہو- وہ كوئى لباس بهى نہيں جسے كوئى شخص آج پسند كركے پہنے اور كل اُسے ناپسند كركے اپنے جسم سے اُتار پهينكے- وہ دراصل ايك دين اور ايك نظامِ زندگى ہے- ايك مكمل ضابطہ حيات ہے- وہ انسانوں كى انفرادى اور اجتماعى زندگى پر محيط ايك منظم معاشرہ قائم كرنا چاہتا ہے- وہ عبادت، معاشرت، معيشت، سياست اور اخلاق، غرض انسانى زندگى كے تمام شعبوں پر حاوى ہے، وہ ايك ايسى منظم و منضبط رياست كى تشكيل كا خواہاں ہے جس كا ہر شہرى اس كے جملہ احكام و قوانين كى پابندى كرے اور ان كى خلاف ورزى سے باز رَہے-
اب اگر اسلامى رياست كا كوئى شہرى اس كے كسى قانون كو توڑتا ہے تو وہ اپنے شہرى كو اپنے قانون كے مطابق سزا دينے ميں حق بجانب ہے- جب كوئى مسلمان شہرى مرتد ہوجائے گا تو اسلامى رياست ايسے شخص كو ارتداد كے جرم كا ارتكاب كرنے پر موت كى سزا دے گى- يہ اسلامى رياست كا قانون ہے اور دنيا كى دوسرى رياستوں كى طرح اسے بهى اپنے قانون كے نفاذ كا اختيار ہے-
اول ۔ اسلام نے اپنے دائرے ميں داخل نہ ہونے والوں اور اس ميں داخل ہوكر نكل جانے والوں ميں فرق كيا ہے- وه پہلے گروہ كو ‘كفار’ اور دوسرے كو ‘مرتدين’ كہتا ہے- وہ پہلے گروہ كو برداشت كرتا اور كچھ حقوق بهى ديتا ہے، مگر دوسرے گروہ كو برداشت نہيں كرتا اور اُسے ہر حق سے محروم ركهتا ہے- پہلا گروہ بيگانوں كا ہے اور دوسرا بے وفا يگانوں كا- اُسے بيگانوں كى بے مروّتى پر كوئى شكوہ نہيں ، مگر اپنوں كى بے وفائى اُسے گوارا نہيں – وہ بيگانوں سے محتاط رہتا ہے اور اُن كو اپنا راز دان نہيں بناتا- اس لئے بيگانے اُسے زيادہ نقصان بهى نہيں پہنچا سكتے- مگر اپنوں سے اُس كى رازدارى ہے جن كے چهوڑ جانے سے اُس كا دل كڑہتا ہے اور اُن كى طرف سے اُسے بہت زيادہ نقصان پہنچنے كا انديشہ لاحق ہوجاتا ہے كہ كہيں وہ سازش كركے اُسے كسى بڑے خطرے سے دوچار نہ كرديں ، كيونكہ ‘گهر كا بہيدى لنكا ڈہائے’ ہے-
دوم ۔ مرتد كا معاملہ اسى دوسرى قسم سے متعلق ہے، وہ اسلام كا رازداں ہوتا ہے- جب وہ ارتداد كا مرتكب ہوكر دين اسلام سے الگ ہوتا ہے تو اپنے ساتہ اسلام اور مسلمانوں كے خلاف نفرت اور دشمنى كے جذبات لئے اہل كفر كى صف ميں شامل ہوجاتا ہے- اُس كے يہ منفى جذبات كفار كى طرف سے اسلام اور اسلامى رياست كے خلاف كسى بڑے خطرے اور سازش كا پيش خيمہ بنسكتے ہيں ، جس كے انسداد كے لئے اسلام نے مرتد كو موت كى سزا سنائى ہے-
سوم ۔ اسلام نے دنيا كے سامنے سوا چودہ سو برس پيشتر سے يہ اعلان كرركها ہے كہ اس كے دائرے ميں داخل ہونے يا نہ ہونے كى ہر شخص كو كھلى آزادى حاصل ہے- اس كے لئے كسى كو مجبور نہيں كيا جائے گا-
لَآ إِكْرَاهَ فِى ٱلدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ ٱلرُّشْدُ مِنَ ٱلْغَىِّ ۚ…﴿٢٥٦﴾…سورة البقرة
ليكن اس دائرے ميں داخل ہونے كے بعد اس سے باہر نكلنے پر پابندى عائد ہے اور جو كوئى اس پابندى كو توڑے گا اُسے موت كے گهاٹ اُتارا جائيگا-
اب اگر كوئى شخص اسلام كا يہ اعلان سن لينے كے بعد اپنى آزاد مرضى سے اس كے دائرے ميں داخل ہوتا ہے- پهر اپنى آزاد مرضى كے ساتھ اس سے باہر نكلنے پر عائد پابندى كو توڑتا ہے اور پهر اپنى اس حركت پر اپنے كئے كى سزا پاتا ہے تو بتائيے اس ميں اسلام كا كيا قصور ہے؟
چہارم ارتداد كو اسلام كے خلاف سازش كا ذريعہ بهى بنايا جاسكتا ہے اور مدينے كے يہوديوں نے مسلمانوں كے خلاف يہ ہتهيار فى الواقع استعمال كيا تها، جيسا كہ قرآن مجيد ميں ہے كہ
وَقَالَت طَّآئِفَةٌ مِّنْ أَهْلِ ٱلْكِتَـٰبِ ءَامِنُوا بِٱلَّذِىٓ أُنزِلَ عَلَى ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا وَجْهَ ٱلنَّهَارِ وَٱكْفُرُوٓاءَاخِرَهُۥ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴿٧٢﴾…سورة آل عمران
“اہل كتاب كا ايك گروہ (اپنے لوگوں سے) كہتا ہے: تم جاكر صبح كو اس (دين) پر ايمان لے آؤ جو مسلمانوں پر اُترا ہے اور پهر شام كو انكار كردو تاكہ اس طرح اور (مسلمان) بهى (اپنے دين سے) پهر جائيں -“
اس كى تفصيل يہ ہے كہ يہوديوں نے يہ سازش كى تهى كہ اپنے ہاں كے كچھ پڑهے لكهے معتبر لوگوں كو مسلمانوں كى جماعت ميں شامل كيا جائے، وہ بظاہر دائرہ اسلام ميں داخل ہوجائيں – پهر جلد ہى اسلام كو چهوڑ كر اس سے بيزارى كا اظہار كريں – اس كى ‘خرابياں ‘ دوسرے لوگوں تك پہنچائيں ، اس طرح مسلمانوں بالخصوص نو مسلموں كا ايمان متزلزل كيا جاسكے اور وہ اسلام سے برگشتہ ہوجائيں كہ جب پڑهے لكهے معقول حضرات بهى اسلام كے قريب جاكر اس سے بدك جاتے ہيں تو ضرور اس دين ميں كچھ خرابياں ہيں – اس كے علاوہ اس طريقے سے عام لوگوں ميں اسلام اور اہل اسلام كے لئے كوئى كشش اور ترغيب باقى نہ رہے گى-اگرچہ يہوديوں كى يہ سازش بوجوہ ناكام رہى، تاہم آج بهى ارتداد كى كسى سازش كے ذريعے كمزور ايمان والے مسلمانوں كے لئے كسى مقام پر بهى كوئى فتنہ كهڑا كيا جاسكتا ہے-
پنجم -آج كى مہذب رياستوں كے فوجى قانون كى رُو سے كسى شخص كو فوجى ملازمت اختيار كرنے پر مجبور نںيم كيا جاسكتا- مگر جب كوئى شخص اپنى مرضى سے فوجى ملازمت اختيار كرليتا ہے تو اُسے ايك خاص مدت سے پہلے نوكرى چهوڑنے كى اجازت نہيں ہوتى- اگر وہ اپنى مرضى سے وقت سے پہلے نوكرى چهوڑ دے تو اسے مجرم قرار ديا جاتا ہے – اُس كا كورٹ مارشل كركے اسے سزا دى جاتى ہے اور اگر وہ مفرورہوجائے تو اسے سزاے موت كا مستحق قرار ديا جاتا ہے-
آخر ايسا كيوں ہے اور اس پر اعتراض كيوں نہيں كيا جاتا؟اس لئے كہ فوج بهيڑوں كا گلہ نہيں ہوتا، وہ ايك منظم ادارہ ہوتا ہے- وہ اجتماعى ذمہ داريوں كا ايسا نظام ہے جو نظم و ضبط كى سختى كے بغير قائم نہيں رہ سكتا-يہى وجہ ہے كہ سول ميں جن كاموں كو بالكل معمولى سمجها جاتا ہے، وہى كام فوج ميں جرائم قرار پاتے ہيں – وقت پر حجامت نہ بنوانا، اپنے بوٹ پالش نہ كرنا، اُن كے تسمے نہ باندهنا، وقت پر كهانا نہ كهانا، اپنا بستر درست نہ ركهنا، سول ميں كوئى جرائم نہيں مگر يہى كام فوج ميں جرائم شمار ہوتے ہيں – يہى معاملہ اسلامى رياست كا ہے، وہ بهى كوئى بكريوں كا ريوڑ نہيں ہوتى كہ جس بكرى كا جب جى چاہا ريوڑ سے الگ ہوگئى اور جب چاہا اس ميں پهر شامل ہوگئى- اسلامى رياست ايك خدائى فوج (حزب اللہ) ہے جس كے نظم و ضبط ميں بهى سختى ہے، اس لئے وہ ارتداد كو جرم قرار ديتى اور مرتد كو سخت ترين سزا ديتى ہے تاكہ اس كا اندرونى نظم و ضبط قائم رہے- وہ ايك مرتد كو سزا دے كر اسى طرح اپنے لاكہوں كروڑوں مسلمانوں كے ايمان كا تحفظ كرتى ہے جس طرح كسى قاتل كو سزا دے كر پورے معاشرے كى زندگى كو تحفظ ديا جاتا ہے- لہٰذا اسلامى رياست كے اس نظم وضبط كى سختى پر اعتراض كرنيوالوں كو پہلے اپنے ہاں كے فوجى نظم و ضبط كى سختى پر غور كرنا چاہئے
اس مقام پر بعض لوگ (جن ميں غامدى صاحب بهى شامل ہيں ) يہ اعتراض بهى كرتے ہيں كہ جب كوئى مرتد مسلح ہوكر بغاوت كرے تو صرف اسى صورت ميں وہ واجب القتل ہوتا ہے اور اگر وہ اسلامى رياست كے خلاف مسلح جدوجہد اور بغاوت نہ كرے تو اُسے قتل كى سزا نہيں دى جاسكتى
اس اعتراض كا شرعى جواب تو يہ ہے كہ جن احاديث ِصحيحہ كى بنياد پر مرتد كے واجب القتل ہونے پر اجماع ہے، اُن احاديث ميں يہ بات مذكور نہيں ہے كہ مرتد جب تك مسلح بغاوت نہ كرے، وہ قتل كامستحق نہيں ہے بلكہ ان احاديث ميں مرتد كے محض مرتد ہونے پراس كے لئے قتل كى سزا كا ذكر ہے
اور اس اعتراض كا عقلى جواب يہ ہے كہ جس طرح دنيا بهر ميں كسى مفرور فوجى كو محض مفرور ہوجانے پر فوجى قانون كى رُو سے موت كى سزا كا مستوجب قرار ديا جاتا ہے اور اسے يہ سزا دينے كے لئے اُس كى طرف سے مسلح بغاوت ہونا كوئى شرط نہيں ، بالكل اسى طرح ايك اسلامى رياست بهى اپنے شرعى قانون كے مطابق مرتد كو، اس كى طرف سے مسلح بغاوت كئے بغير بهى موت كى سزا دے سكتى ہے
مرتد كى سزا كے بارے ميں غامدى صاحب كے موقف كا جائزہ
جناب غامدى صاحب مرتد كے لئے قتل كى شرعى سزا كو نہيں مانتے- اس بارے ميں اُن كا موقف يہ ہے كہ مرتد كے لئے قتل كى سزا كا حكم تو ثابت ہے مگر يہ صرف رسول اللہﷺكے زمانے كے اُن مشركينِ عرب كے ساتھ خاص ہے جو اسلام قبول كرلينے كے بعد ارتداد اختيار كريں ، باقى اور كسى قسم كے مرتد كے لئے قتل كى شرعى سزا كا كوئى وجود نہيں – غامدى صاحب اپنے اس موقف كو اس طرح بيان كرتے ہيں
“ارتداد كى سزا كا يہ مسئلہ محض ايك حديث كا مدعا نہ سمجهنے كى وجہ سے پيدا ہوا ہے- ابن عباس كى روايت ہے- يہ حديث بخارى ميں اس طرح نقل ہوئى ہے
«من بدل دينه فاقتلوه» (جو شخص اپنا دين تبديل كرے، اسے قتل كردو)
ہمارے فقہا اسے بالعموم ايك حكم قرار ديتے ہيں جس كا اطلاق ان كے نزديك ان سب لوگوں پر ہوتا ہے جو زمانہٴ رسالت سے لے كر قيامت تك اس زمين پر كہيں بهى اسلام كو چهوڑ كر كفر اختيار كريں گے- ان كى رائے كے مطابق ہر وہ مسلمان جو اپنى آزادانہ مرضى سے كفر اختياركرے گا، اسے اس حديث كى رُو سے لازماً قتل كرديا جائے گا- اس معاملے ميں ان كے درميان اگر كوئى اختلاف ہے تو بس يہ كہ قتل سے پہلے اسے توبہ كى مہلت دى جائے گى يا نہيں اور اگر دى جائے گى تو اس كى مدت كيا ہونى چاہئے؟ فقہاے احناف البتہ، عورت كو اس حكم سے مستثنىٰ قرا ر ديتے ہيں – ان كے علاوہ باقى تمام فقہا اس بات پر متفق ہيں كہ ہر مرتد كى سزا خواہ وہ عورت ہو يا مرد، اسلامى شريعت ميں قتل ہے-“ 7
وہ مزيد فرماتے ہيں كہ
“ليكن فقہا كى يہ رائے كسى طرح صحيح نہيں ہے- رسول اللہﷺكا يہ حكم تو بے شك ثابت ہے مگر ہمارے نزديك يہ كوئى حكم عام نہ تها بلكہ صرف انہى لوگوں كے ساتھ خاص تها جن ميں آپ كى بعثت ہوئى اور جن كے لئے قرآن مجيد ميں اُمّيين يا مُشركين كى اصطلاح استعمال كى گئى ہے- ” 8
وہ مزيد لكھتے ہيں كہ
“ہمارے فقہا كى غلطى يہ ہے كہ اُنہوں نے قرآن و سنت كے باہمى ربط سے اس حديث كا مدعا سمجهنے كے بجائے اسے عام ٹھہرا كر ہر مرتد كى سزا موت قرار دى اور اس طرح اسلام كے حدود و تعزيرات ميں ايك ايسى سزا كا اضافہ كردياجس كا وجود ہى اسلامى شريعت ميں ثابت نہيں ہے-” 9
ارتداد كى سزا كے بارے ميں غامدى صاحب كے اس موقف كا جائزہ ليا جائے تو ان كے استدلال كا خلاصہ يہ ہے كہ
اول ۔ فقہاے اسلام نے صحيح بخارى كى حديث
«من بدل دينه فاقتلوه» (جو مسلمان اپنا دين بدل لے تو اُسے قتل كردو)
كو غلطى سے ايك عام حكم سمجها ہے جبكہ يہ ايك خاص حكم ہے-
دوم ۔ فقہاے اسلام نے مذكورہ بالا ايك ہى حديث كى بنا پر ہر قسم كے مرتد كے لئے قتل كى سزا بيان كردى ہے-
سوم ۔ مذكورہ حديث كى اصل قرآن مجيد كى ايك آيت سورة التوبہ :٥ہے، جس كے بعد اس حديث كا حكم خاص ہوجاتا ہے-
چہارم ۔ اسلام كے حدود و تعزيرات ميں مرتد كے لئے قتل كى سزا كا كوئى وجود نہيں –
اب غامدى صاحب كے اس موقف كا ہم تجزيہ كرتے ہيں
اول -كيا حديث ِمذكورہ كا حكم عام نہيں ؟
غامدى صاحب مذكورہ حديث كے حكم كو عام نہيں مانتے جب كہ عربيت كا تقاضا يہ ہے كہ اسے عام مانا جائے-
اس حديث
«من بدل دينه فاقتلوه» (جو مسلمان اپنا دين بدل لے تو اُسے قتل كردو)
ميں مَنْ موصولہ كا اُسلوب وہى ہے جو درج ذيل حديث كا ہے :
«من غش فليس منا»10
“جس نے دھوكہ ديا، وہ ہم ميں سے نہيں -“
اس حديث ميں بہى مَنْ(جو ، جو كوئى، جس نے) موصولہ آيا ہے- اور اس كا حكم عام ہے- اس سے ہر دهوكہ دينے والا شخص مراد ہے- يہ نہيں كہا جاسكتا كہ اس سے دهوكہ دينے والا كوئى خاص فرد مراد ہے-
غامدى صاحب نے حديث «من بدّل دينه فاقتلوه»ميں مَنْ موصولہ كو اس كے عام معنوں ميں لينے كى بجائے ‘مشركين عرب’ كے خاص معنوں ميں ليا ہے جو كہ عربيت كے بالكل خلاف ہے اور قرآن و حديث كا جو مفہوم بهى عربيت كے خلاف ليا جائے، وہ غلط ہے كيونكہ يہ قرآن و حديث كى معنوى تحريف ہے جو قرآن و حديث كے انكار كے مترادف ہے اور اس حربے سے سارے دين كو دورِ نبوى تك محدود كركے پورى شريعت ِاسلاميہ كا تياپانچا كيا جاسكتا ہے اور يہ كارنامہ ہمارے زمانے كے منكرين حديث، بالخصوص غامدى صاحب بڑى ديدہ دليرى سے سرانجام دے رہے ہيں – ع چہ دلاور است دزدے كہ بكف چراغ دارد
البتہ اس مقام پر عربيت كى رُو سے ايك سوال يہ اُٹهايا جاسكتا ہے كہ كيا اس مَنْ (جو) ميں كافر بهى شامل ہے تو اس سوال كے جواب كى وضاحت خود نبىﷺ نے اپنى دوسرى احاديث ميں فرما دى ہے كہ اس سے مسلمان مراد ہے- مثال كے طور پر ايك متفق عليہ حديث ہے، جو پيچهے بهى گزر چكى ہے
عن عبدالله قال: قال رسول الله !: «لا يحل دم امرئ مسلم يشهد أن لا إله إلا الله، وأني رسول الله إلا بإحدٰى ثلاث: النفس بالنفس، والثيب الزاني،والمفارق لدينه التارك للجماعة» 11
“حضرت عبداللہ (بن مسعود) سے روايت ہے كہ رسول اللہﷺ نے فرمايا: كسى مسلمان كا خون بہانا جائز نہيں جو يہ گواہى ديتا ہو كہ اللہ كے سوا كوئى معبود نہيں اور يہ كہ ميں اللہ كا رسول ہوں ، ما سوا تين صورتوں كے:ايك يہ كہ اس نے كسى كو قتل كيا ہو، دوسرى يہ كہ وہ شادى شدہ زانى ہو اور تيسرى يہ كہ وہ اپنا دين چھوڑ كر (مسلمانوں كى) جماعت سے الگ ہوجائے-“
اس سے معلوم ہواكہ ہر مسلمان كے مرتد ہوجانے پر اُس كے لئے قتل كى سزا ہے، قطع نظر اس سے كہ وہ مسلمان ہونے سے پہلے عرب كا مشرك تها يا عجم كا كافر، دونوں صورتوں ميں ايك ہى سزا ہے-
دوم -كيا مرتد كى سزا كا مبنىٰ اور بنياد صرف ايك ہى حديث ہے؟
غامدى صاحب كا كہنا ہے كہ فقہاے اسلام نے صرف صحيح بخارى كى ايك حديث «من بدل دينه فاقتلوه»كى بنياد پر مرتد كے لئے قتل كى سزا بيان كردى ہے- حقيقت يہ ہے كہ غامدى صاحب كا يہ دعوىٰ علمى خيانت پر مبنى ہے اور وہ يہ بات عام لوگوں كو دھوكہ دينے كے لئے فرما رہے ہيں – فقہائے اسلام كے اس اجماعى فيصلے كى بنياد صرف ايك حديث پر نہيں بلكہ متعدد احاديث ِصحيحہ پر ہے جن كو ہم اس مضمون كے شروع ميں بيان كرچكے ہيں –
غامدى صاحب كا يہ ‘طريق واردات’ كہ كسى مسئلے پر بحث و استدلال كے لئے اس سے متعلق تمام احاديث كو پيش نظر ركهنے كى بجائے بعض حديثوں كو لے لينا اور بعض كو چهوڑ دينا معروف ديانت دارانہ طريق بحث و استدلال نہيں ہے بلكہ يہ كام اُن كے استاد ‘امام’ مولانا امين احسن اصلاحى كے بقول كسى ‘نہايت بيوقوف’ شخص كا ہوسكتا ہے جو ‘ايك فتنے’ سے كم نہيں – مولانا اصلاحى صاحب نے لكها ہے كہ
“احاديث پر غور كرنے سے پہلے احاديث كے متعلق ايك اُصولى حقيقت پيش نظر ركهنى چاہئے وہ يہ كہ جس طرح اللہ كے رسولوں كے درميان تفريق ناجائز ہے، ہم يہ نہيں كہہ سكتے كہ كسى پر ايمان لائيں اور كسى كا انكار كرديں جس طرح قرآن كى آيتوں ميں فرق كرنا حرام ہے، ہم كو يہ حق نہيں ہے كہ اس كے كچھ حصے كو بحث و استدلال كے لئے اختيار كريں اور كچھ كو چهوڑ ديں ، اسى طرح يہ بات بهى بالكل ناجائز ہے كہ رسول ﷺ كے اقوال و ارشادات ميں كسى كو ہم اپنے عمل يا استدلال كے لئے اختيار كرليں اور كچھ كو نظرانداز كرديں – ان تمام صورتوں ميں بعض كو چهوڑنا سب كو چهوڑنے كے ہم معنى ہے اور نہايت بيوقوف ہے وہ مسلمان جو اللہ اور اس كے رسولﷺ كى تعليمات ميں اس طرح كى تقسيم كرتا ہى ليكن افسوس ہے كہ اس طرح كا تفريق و تقسيم كا فتنہ آج عام ہے-” 12
سوم – مذكورہ حديث كا قرآن سے ربط كا معاملہ
غامدى صاحب كہتے ہيں كہ فقہاے اسلام نے حديث «من بدل دينه فاقتلوه» (جو مسلمان اپنا دين بدل لے، تو اُسے قتل كردو)كو قرآن كى اصل سے متعلق نہيں كيا اور قرآن وسنت كے باہمى ربط سے اس حديث كا مدعا اور مطلب سمجهنے كى كوشش نہيں كى جس كے نتيجے ميں اُنہوں نے مرتد كے لئے ايك ايسى سزا (قتل) قرار دے دى جس كا اسلامى حدود وتعزيرات ميں كوئى وجود نہ تها- اس كے بعد اُنہوں نے اس حديث كا ربط قرآنِ مجيد كى سورة التوبہ كى اس آيت ٥ سے جوڑا ہے جسے ہم اُن كے ترجمے كے ساتھ يہاں درج كرتے ہيں
فَإِذَا ٱنسَلَخَ ٱلْأَشْهُرُ ٱلْحُرُمُ فَٱقْتُلُوا ٱلْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَٱحْصُرُوهُمْ وَٱقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَوُا ٱلزَّكَوٰةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٥﴾…سورة التوبہ
“پهر جب حرام مہينے گزر جائيں تو ان مشركين كو جہاں پاؤقتل كردو اور اس كے لئے ان كو پكڑو اور ان كو گہيرو اور ہر گهات ميں ان كے لئے تاك لگاؤ- ليكن اگر وہ كفر و شرك سے توبہ كرليں اور نماز كا اہتمام كريں اور زكوٰة ادا كرنے لگيں تو اُنہيں چهوڑ دو- بے شك اللہ مغفرت كرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے-“
آخر مرتد كے بارے ميں مذكورہ حديث اور اس قرآنى آيت ميں كيا ربط و اشتراك ہوسكتا ہے؟ اسے ہر وہ شخص جان سكتا ہے جس نے زندگى ميں كبهى ايك مرتبہ بهى قرآنِ مجيد كو كہلے ذہن كے ساتھ سمجھ كر پڑها ہو- قرآنِ مجيد كى اس آيت كو جيسا كہ اس كے مضمون سے ظاہر ہے، مفسرين حضرات نے مشركين كے خلاف جہاد و قتال سے متعلق قرار ديا ہے جبكہ مذكورہ حديث مرتد كے بارے ميں حكم بيان كرتى ہے- اب ارتداد كى سزا اور جہاد و قتال كے درميان كيا باہمى ربط ہے؟ اس عقدے كى گرہ كشائى صرف غامدى صاحب كى عقل و منطق ہى كرسكتى ہے جو قرآن و حديث كى عبارات ميں اپنے خيالات پڑهنے كى عادى ہوچكى ہے-علمى ديانت كا تقاضا تو يہ تها كہ مرتد كے بارے ميں آمدہ حديث كو قرآن مجيد كى ان آيات سے جوڑا جاتا جن ميں ارتداد اور مرتدين كا ذكر آيا ہے مگر ايسا دانستہ طو رپر نہيں كيا گيا، كيونكہ
ع خود بدلتے نہيں قرآن كو بدل ديتے ہيں
قرآنِ مجيد ميں ارتداد اور مرتدين كا ذكر درج ذيل مقامات پر موجود ہے اور جن كو مولانا اصلاحى صاحب نے بهى اپنى تفسير ميں بيان كيا ہے : سورة البقرة كى آيت 217 اور سورة المائدة كى آيت 54- اپنى بات كى وضاحت كے لئے اس جگہ ہم ان ميں سے صر ف ايك ہى حوالے پر اكتفا كرتے ہيں :
وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِۦ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَـٰٓئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَـٰلُهُمْ فِى ٱلدُّنْيَا وَٱلْءَاخِرَةِ ۖ وَأُولَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلنَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ ﴿٢١٧﴾…سورة البقرة
“اور جو كوئى تم ميں سے اپنے دين سے پهرے گا اور كفر كى حالت ہى ميں مرے گا تو اس كے سارے اعمال دنيا اور آخرت ميں ضائع ہوجائيں گے- ايسے لوگ دوزخى ہوں گے اور ہميشہ دوزخ ميں رہيں گے-“
قرآن مجيد كا يہ مقام اور دوسرے مذكورہ مقامات ايسے ہيں جن كو ارتداد اور مرتدين كے حوالے سے اُن احاديث سے جوڑا جاسكتا ہے جن مںب مرتد كے بارے ميں كوئى حكم آيا ہے اور غامدى صاحب كے استاد ‘امام’ مولانا اصلاحى صاحب نے بهى اپنى تفسير تدبر قرآن ميں ان قرآنى مقامات كى وضاحت ميں ارتداد اور مرتدين كا ذكر كيا ہے مگراُنہوں نے سورة التوبہ كى آيت نمبر5 ميں مرتدين كا كوئى تذكرہ نہيں كيا، جسے غامدى صاحب خواہ مخواہ مرتد سے متعلق حديث كے ساتھ جوڑ رہے ہيں –
چہارم -كيا مرتد كے لئے قتل اسلامى سزا نہيں ؟
غامدى صاحب كے موقف كا آخرى نكتہ يہ ہے كہ اسلام كے حدود و تعزيرات ميں مرتد كے لئے سزا كا كوئى وجود نہيں ہے- يہ تمام فقہاے اسلام كى مشتركہ اور متفقہ غلطى ہے كہ اُنہوں نے اسے اسلامى حدود و تعزيرات ميں شامل كرركھا ہے-
اس سلسلے ميں پہلى بات تو يہ ہے كہ غامدى صاحب كے استاد ‘امام’ مولانا امين احسن اصلاحى صاحب مانتے ہيں كہ اسلامى تعزيرات ميں مرتد كے لئے سزا مقرر ہے- چنانچہ وہ لكهتے ہيں :”تكفر كا اصلى مفہوم تو يہ ہے كہ كسى شخص كو مرتد قرار دے كر اس كو وہ سزا دى جائے جو اسلام ميں ارتداد كے لئے مقرر ہے-“ 13
اور سب جانتے ہيں كہ اسلام ميں ارتداد كے لئے قتل ہى كى سزا مقرر ہے-
اس كے علاوہ مولانا اصلاحى صاحب نے اپنى تفسير ميں لكها ہے كہ”جو شخص مرتد ہوجاتاہے، وہ اسلامى رياست ميں جملہ شرعى حقوق سے محروم ہوجاتا ہے، رياست پر اس كے جان و مال كى حفاظت كى ذمہ دارى باقى نہيں رہتى- چنانچہ اسى اُصول پر اسلامى تعزيرات كا وہ قانون مبنى ہے جو مرتدوں كى سزا سے متعلق ہے-“ 14
اس سے معلوم ہوا كہ مولانا اصلاحى صاحب كے نزديك اسلامى تعزيرات ميں مرتدوں كى سزا كا قانون بهى موجود ہے- اور يہ بات كسى صاحب ِعلم سے پوشيدہ نہيں كہ وہ قانون يہى ہے كہ مرتد كے لئے قتل كى سزا ہے-
ہم گذشتہ صفحات ميں مرتد كى سزاے قتل كے بارے ميں احاديث ِصحيحہ كے نصوص، تعامل صحابہ، ائمہ مجتہدين اور تمام فقہاے اسلام كے اجماع سے ثابت كيا ہى- اس كے بعد بهى اگر كوئى شخص يہ كہتا ہے كہ اسلام كے حدود و تعزيرات ميں مرتد كے لئے قتل كى سزا كا كوئى وجود نہيں ہے تو وہ اجماعِ اُمت كا منكر ہے اور ايسا منكر شخص يقينا گمراہ ہے-
سوال يہ ہے كہ كيا يہ سلف سے خلف تك عرب و عجم كے تمام مجتہدين اور فقہاے اسلام عربيت سے ناآشنا، قرآن و حديث كو سمجہنے سے عارى اور شريعت كے احكام سے ناواقف اور جاہل تهے كہ سب نے مل كر يہ غلطى كر ڈالى كہ مرتد كے لئے سزاے قتل قرار دے دى اور اسلام ميں اپنى طرف سے بدعت كے طور پر ايك ايسى شرعى حد داخل كردى جس كا اسلامى حدود وتعزيرات ميں كوئى وجود نہ تها؟ ايسى بات كہنے كى جسارت صرف وہى شخص كرسكتا ہے جس كا دماغ درست نہ ہو، جس كے دل ميں ذرا بهى خدا كا خوف نہ ہو اور جسے آخرت كا كوئى ڈر نہ ہو-
معاف كيجئے، ہمارے لئے يہ بات زيادہ معقول اور قابل فہم ہے كہ اس بارے ميں چودہ صديوں كے جملہ علماے اسلام كو غلط ٹھہرانے كى بجائے صرف ايسے نوزائيدہ عجمى شخص كو غلط بلكہ برخود غلط قرار ديں جو مرتد كے لئے سزاے قتل كو نہيں مانتا اوركئى دوسرے اِجماعى اُمور كا انكار كرتا ہے
حوالہ جات
1. صحيح بخارى
2. صحيح بخارى
3. سنن ابو داؤد، كتاب الديات
4. جلد5/ ص423
5. انسا ئيكلوپيڈيا موسوعة الإجماع جلد اوّل 436
6. كتاب الفقه الإسلامي وأدلته 186
7. برہان: صفحہ 127، مطبوعہ ستمبر 2001ء
8. برہان
9. برہان
10. جامع ترمذى
11. صحيح بخارى
12. حقيقت دين 334
13. حقيقت ِدين 145
14. تدبر قرآن: جلد اوّل/ ص513 زير تفسير البقرة، آيت 217
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ
ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص...
اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی
محمد خزیمہ الظاہری غامدی حلقہ انکار حدیث کی صاف تہمت سے اس لئے بچ نکلتا...
انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض
محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط...