کیا تصوف صرف ابن عربی رحمہ اللہ کے کلام اور وحدۃ الوجود پر قائم ہے؟

Published On October 14, 2024
تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ شهادت علی الناس:۔ شہادت علی الناس کا سیدھا اور سادہ معروف مطلب چھوڑ کر غامدی صاحب نے ایک اچھوتا مطلب لیا ہے جو یہ ہے کہ جیسے رسول اپنی قوم پر شاہد ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ صحابہ پر شاہد تھے ، ایسے ہی صحابہ کو اور صرف صحابہ کو دیگر محدود...

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟  غامدی صاحب کے دلائل کا جائزہ:۔ ویسے تو کسی نظریے کے غلط ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ امت کے اجتماعی ضمیر کے فیصلے سے متصادم ہے، لیکن اگر کچھ نادان امت کے اجتماعی ضمیر کو اتھارٹی ہی تسلیم نہ کرتے ہوں اور اپنے دلائل پر نازاں ہوں تو...

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد غامدی تصور جہاد کی سنگینی اور انوکھا پن:۔ پوری اسلامی تاریخ میں اہل سنت کا کوئی قابل ذکر فقیہ مجتہد، محدث اور مفسر اس اچھوتے اور قطعی تصور جہاد کا قائل نہیں گذرا، البتہ ماضی قریب میں نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمدقادیانی نے اس قبیل کی...

تصورِ جہاد ( قسط اول)

تصورِ جہاد ( قسط اول)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد کچھ عرصہ قبل راقم نے غامدی صاحب کے شاگر در شید اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کے فرزند من پسند جناب عمار خان ناصر صاحب کے نظریہ جہاد کے نقد و تجزیے کے لیے ایک مضمون سپر د قلم کیا تھا، جو ماہنامہ صفدر میں قسط وار چھپنے کے علاوہ "عمار خان کا نیا...

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

حسان بن علی پہلے یہ جاننا چاہیے کہ قرآن نے اصل موضوع سود لینے والے کو کیوں بنایا. اسے درجہ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے ١) چونکا سود کے عمل میں بنیادی کردار سود لینے والے کا ہے لہذا قرآن نے اصل موضوع اسے بنایا. ٢) سود لینے والے کے لیے مجبوری کی صورت نہ ہونے کے برابر...

سود اور غامدی صاحب

سود اور غامدی صاحب

حسان بن علی غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش...

 محمد فیصل شہزاد

دو دن قبل محترم احمد بشیر طاہر صاحب نے غامدی صاحب کے 2014 کے دو بیانات اپ لوڈ کیے… غامدی صاحب نے ان دونوں کلپس میں صوفیاء کرام کی فاش غلطیوں کو واضح کرتے ہوئے مرزا قادیانی کے نبوت کے دعوے اور اس کی بنیادوں کو صوفیاء کے کلام سے اخذ کرنے کی بات کی ہے!
میں آج اسی درس میں غامدی صاحب کے بیان کردہ ایک نکتے پر بحث کرنا چاہتا ہوں۔
بیان کے شروع میں ہی غامدی صاحب حضرت شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کے مکتوبات کو تصوف کی نہایت مقبول اور غیر معمولی کتاب کہتے ہوئے ان مکتوبات سے نقل کرتے ہیں:
“مشایخ کے تین گروہ ہوئے… ایک وہ جو معتقدات میں علمائے اہل سنت کے ساتھ ہیں یعنی جو کہتے ہیں کہ یہ جو عالم ہے اور اس میں جو کمالات و صفات ہیں … ان سب کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے خارج میں وجود بخشا ہے… مشایخ کا یہ گروہ گویا اہل سنت کا ہے!
دوسرا گروہ مشایخ کا وہ ہے جو عالم کو خدا کا سایہ کہتا ہے لیکن اس کا قائل ہے کہ عالم خارج میں موجود ہے… یعنی اس عالم کی کوئی حقیقت نہیں ہے جیسے کہ سائے کی حقیقت نہیں ہے مگر… جیسا کہ سائے کا وجود اصل سے قائم ہے ویسے ہی عالم کا وجود حق کے ساتھ قائم ہے!
پھر حضرت مجدد صاحب لکھتے ہیں کہ تیسرا گروہ مشایخ کا وہ ہے جو وحدت الوجود کا قائل ہے اور یہی سب سے بڑا گروہ ہے( سب سے بڑے گروہ کے الفاظ غامدی صاحب کے ہیں نہ کہ حضرت مجدد صاحب کے)… جو کہتا ہے کہ خارج میں بس “ایک” ہی وجود ہے یعنی کثرت نہیں ہے… وحدت الوجود کا مطلب یہی ہے کہ وجود ایک ہی ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں… “
اس کے بعد غامدی صاحب یہ کہتے ہیں کہ: ” توحید جو قرآن میں ہےاس کا مطلب ہے کہ اس عالم کا الہٰ ایک ہے لیکن وحدت الوجود کے قائلین اس کے برعکس یہ کہتے ہیں کہ عالم کچھ ہے ہی نہیں… بلکہ موجود حقیقی ہے ہی ایک اور وہ حق تعالیٰ کی ذات ہے… باقی کیا ہے؟ وہ اس کے تعینات ہیں… جب کہ حق تعالیٰ کی ذات تو کوئی تعین نہیں رکھتی، نہ اس کی کوئی جہت ہے، نہ اس کا کوئی اوپر ہے نہ کوئی نیچے ہے… نہ اس کا کوئی وجود ہے جس پر انگلی رکھی جا سکے… وہ لاتعین ہے… لیکن بقول صوفیاء کے (ایک گروہ کے) پھر ذات تعینات کو قبول کرتی ہے… اور تعینات قبول کرتے ہوئے وہ نزول کرتی ہے اور پہلا مرتبہ حقیقت محمدی سے ہوتے ہوئے مختلف عالم میں ظہور پاتے ہوئے بالآخر حضرت انسان تک پہنچتی ہے… (یعنی انسان ہی عین خدا ہو جاتا ہے نعوذ باللہ)”
٭
اب چلیے ہم فی الحال وحدۃ الوجود اور اس کی بتائی گئی تفصیل کی صفائی پیش نہیں کرتے کہ کیا واقعی اکابر صوفیاء مثلا ابن عربی رحمہ اللہ نظریہ وحدۃ الوجود کا یہی مطلب سمجھتے اور بیان کرتے تھے یا بعد کے چند زندیق لوگوں نےاسی طرح صوفیاء کا لبادہ اوڑھ یہ کفریہ باتیں (یعنی انسان اور جانور تک عین حق ہیں) وحدۃ الوجود کا لازمہ سمجھیں، جس طرح مرزا زندیق نے مناظر اسلام کے بہروپ میں اسلام پر ہی ڈاکا ڈال دیا…!
مگر چلیے ہم کہتے ہیں کہ یہ تیسرا گروہ غلط ہے… کیوں کہ ابن عربی کی کتابیں شریعت کا مدار نہیں ہیں…مگر صرف تیسرا گروہ ناں!… لیکن باقی جن دو گروہ کا آپ نے ذکر کیا… ان کا کیا قصور ہے؟ جب کہ وہ تعداد میں بھی زیادہ ہیں…
خود حضرت شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ جن کی بات کو آپ نقل کر رہے اور ان کے مکتوبات کو تصوف کی نہایت غیر معمولی کتاب کہہ رہے، نے نظریہ وحدت الوجود کے بالمقابل وحدۃ الشہود کی اصطلاح دی اور وحدۃ الوجود کو ایک درمیانی مقام یعنی فنا فی اللہ بتا کر، ایک اس سے اگلا مقام وحدۃ الشہود یعنی عبدیت کا بتایا ہے… جو مقامات میں سب سے اونچا مرتبہ اور مقام ہے…مقام فنا فی اللہ میں استغراق یعنی ایک اللہ کے اثبات اور ہر شے کی نفی سے آخر یہ بات پیدا ہو جاتی ہے کہ اپنا آپ تک محو ہو جاتا ہے اور آدمی خود اپنی نفی تک کرتے ہوئے پورے یقین سے کہہ اٹھتا ہے کہ وجود صرف ایک ہی ہے… یہ محبت الٰہی اور توحید کے غلبے کی وجہ سے ہوتا ہے جسے خارج میں رہنے والا قبول گر نہیں کرے گا تو برا بھلا بھی نہیں کہے گا، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ محبت کے غلبے نے عارضی طور پر قائل کی عقل مختل کر دی یعنی غلبہ حال ہو گیا!
حضرت شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ پھر اللہ کی توفیق اور داد رسی سے اس کےبندے کو اس مقام سے (یعنی وحدۃ الوجود سے ) عروج حاصل ہوتا ہے اور وہ اگلا اور بلند ترین مقام وحدۃ الشہود یعنی مقام عبدیت تک پہنچتا ہے جو درحقیقت انسانیت کی معراج ہے…مقام عبدیت ہی دراصل اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ عالم اور تمام مخلوقات خارج میں موجود ہے اور خالق کے وجود بخشنے سے ہی موجود ہیں اور سب عبد ہیں اور وہ معبود ہے اور بندوں کو حق تعالیٰ سے اس کی مخلوق ہونے کے نسبت سے تعلق ہے اور کوئی وجہ اتحاد نہیں!
اس مقام پر مخلوق کو اپنی ناپاکی، اپنے عیب، اپنی کمیاں بخوبی نظر آتی ہیں اور خالق ذوالجلال کا ہر عیب سے پاک ہونا یوں واضح ہو جاتا ہے کہ وہ بے اختیار سجدے میں پیشانی ٹیکے اللہ رب العزت کی وہ بڑائی اور وہ پاکی بیان کرتا ہے کہ اللہ اس حالت کو اپنے سب سے قرب کی حالت قرار دیتا ہے!… یہی مقام گویا حقیقت محمدی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیساکامل و اکمل عبد کوئی نہ تھا…!
اب بتائیے ذرا جب یہی شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ ہی خود وحدۃ الوجود کے برعکس وحدۃ الشہود کی تفصیل بتانے والے ہیں اور خود ان کے بقول دو گروہ اہل سنت کے اعتقادات کے قریب ہیں، جسے غامدی صاحب بھی نقل فرما رہے ہیں تو صوفیاء کی اکثریت تو پھر اہل سنت کے اعتقادات پر ہوئی ناں!
غامدی صاحب کا یہ جملہ کہ “بڑا گروہ یہی ہے” ہم کیوں اور کیسے مان لیں؟ اس کا حوالہ کیا ہے؟
جس کو وہ بڑا گروہ کہہ رہے ہیں، ان غالی صوفیا ء کے کلمات کو تو ہر دور کے کبارمحقق صوفیاء رد فرماتے رہے… اور تصوف کے جن بڑے اور معتبر ناموں نے کبھی کوئی متنازعہ بات کہی بھی تو حالت سکر میں کہی، جس کے وہ مکلف نہ تھے… مگر جیسے ہی ہوش میں آئے فورا توبہ بھی کی!
تو مرزا معلون نے اگرصوفیاء کی اتباع میں حالت سکر میں ایسی ہفوات بکیں تو کیا کبھی ان سے رجوع کیا یا توبہ کی؟؟؟
نہیں جناب نہیں… آپ کا مقدمہ ہی غلط بنیاد پر قائم ہے … 
ہمارا کہنا تو یہ ہے کہ چند لوگوں کے مجہول کلمات کو آپ بنیاد بنا کر اہل سنت کے تمام محقق صوفیائے کرام جن میں سے 98 فیصد متبحر عالم بھی تھے کو متنازعہ نہیں بنا سکتے… اور نہ تصوف کو بنیاد بنا کر آپ مرزا کو رعایت بھی نہیں دے سکتے… کیوں کہ دین کے کسی شعبے سے غلط استدلال پر کوئی احمق ہی ہو گا جو یہ کہے گا کہ اس شعبے کو ہی ختم کر دیا جائے!

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…