تصوف کے حوالے سے چند فکری مغالطے

Published On October 21, 2024
نظم، مراد،متکلم اور متن

نظم، مراد،متکلم اور متن

محمد حسنین اشرف   نظم:۔ پہلے نظم کی نوعیت پر بات کرتے ہیں کہ یہ کس نوعیت کی شے ہے۔ غامدی صاحب، میزان میں، اصلاحی صاحب کی بات کو نقل کرتے ہیں:۔ ۔" جو شخص نظم کی رہنمائی کے بغیر قرآن کو پڑھے گا، وہ زیادہ سے زیادہ جو حاصل کر سکے گا ، وہ کچھ منفرد احکام اور مفرد قسم...

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (3)

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (3)

مولانا مجیب الرحمن تیسری حدیث ، حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ:۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ۔ يكون في هذه الأمة بعث إلى السند والهند، فإن أنا أدركته، فاستشهدت فذلك وإن أنا رجعت وأنا أبو هريرة المحرر قد...

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (2)

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (2)

مولانا مجیب الرحمن دوسری حدیث ، حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ :۔ اس بارے میں دوسری حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس کی سند اور  راویوں پر غور فرمائیں ، امام نسائی فرماتے ہیں: أخبرنا أحمد بن عثمان بن حكيم، قال حدثنا ر كريا بن عدى، قال: حدثنا عبد الله من عمر...

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق

مولانا مجیب الرحمن غامدی صاحب کی ویب سائٹ پر موجود ایک کتاب کا مضمون بعنوان : غزوہ ہند کی کمزور اور غلط روایات کا جائزہ ایک ساتھی کے ذریعہ موصول ہوا ۔ بعد از مطالعہ یہ داعیہ پیدا ہوا کہ اس مضمون کو سامنے رکھ کر حدیث غزوہ ہند پر اپنے مطالعہ کی حد تک قارئین کے سامنے...

سرگذشت انذار کا مسئلہ

سرگذشت انذار کا مسئلہ

محمد حسنین اشرف فراہی مکتبہ فکر اگر کچھ چیزوں کو قبول کرلے تو شاید جس چیز کو ہم مسئلہ کہہ رہے ہیں وہ مسئلہ نہیں ہوگا لیکن چونکہ کچھ چیزوں پر بارہا اصرار کیا جاتا ہے اس لیے اسے "مسئلہ" کہنا موزوں ہوگا۔ بہرکیف، پہلا مسئلہ جو اس باب میں پیش آتا ہے وہ قاری کی ریڈنگ کا...

کیا مسئلہ “ربط الحادث بالقدیم” کا دین سے تعلق نہیں؟  غامدی صاحب کا حیرت انگیز جواب

کیا مسئلہ “ربط الحادث بالقدیم” کا دین سے تعلق نہیں؟ غامدی صاحب کا حیرت انگیز جواب

ڈاکٹر محمد زاہد مغل محترم غامدی صاحب سے جناب حسن شگری صاحب نے پروگرام میں سوال کیا کہ آپ وحدت الوجود پر نقد کرتے ہیں تو بتائیے آپ ربط الحادث بالقدیم کے مسئلے کو کیسے حل کرتے ہیں؟ اس کے جواب میں جو جواب دیا گیا وہ حیرت کی آخری حدوں کو چھونے والا تھا کہ اس سوال کا جواب...

احمد بن الیاس

گزشتہ کافی عرصے سے ایک بات مسلسل مشاہدے میں آرہی ہے۔ دو بظاہر متضاد طبقات یہ تاثر دیتے نظر آتے ہیں کہ تصوف مرکزی دھارے کے اسلام سے علیحدہ مسلم مذہبی روایت ہے۔ ایسا کرنے کے لیے ان دونوں طبقات کے محرکات الگ ہیں۔ ایک طبقہ ایسا تاثر دے کر تصوف کی نفی و مذمت کرتا ہے اور دوسرا طبقہ ایسا کر کہ اس کا اثبات و تعریف۔ یہ دونوں طبقات اسلامی روایت (کی اپنی اپنی خام تفہیم) سے بیزار ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ایک کی بیزاری بنیاد پسندی کے نام پر ہے اور دوسرے کی جدت پسندی کے نام پر۔

اسلام کی شخصیت اس کے عقائد، اسلام کا جسم اس کی شریعت اور اسلام کی روح اس کی روحانیت اور طریقہِ تزکیہ نفس ہے۔ خدائی عقیدے کی بشری تفہیم اسلامی روایت میں علم الکلام کہلاتی ہے۔ عقیدہ ایک ہے مگر اس کی کلامی تشریحات مختلف (اشعری، ماتریدی، معتزلہ، اطہری وغیرہ). یہ سب تشریحات علم الکلام کی شکل میں ہماری روایت اور ورثہ ہیں۔ اسے طرح اسلامی شریعت ایک ہے مگر اس کی تفاہیم یعنی فقہ مختلف (جعفری، زیدی، حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، ظاہری، اباضی). یہ ہماری قانونی روایت ہے۔ یہی تعلق اسلامی روحانیت (یعنی روح دین) اور تصوف کا ہے۔ روحانیت ایک عمارت ہے مگر اس کے دروازے کثیر (چشتی، قادری، نقشبندی، سہروردی، شاذلی، تنجانی، وغیرہ)۔

شریعت کے لحاظ سے ابتدائی دور میں ہی امت صراط مستقیم سے ہٹ گئی. اسلام کے اجتماعی قوانین کی بنیاد یعنی آئینی ڈھانچے پر بنو امیہ کی طرف سے حملہ کی گیا۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے خلافت ملوکیت میں تبدیل کردی. یہ شریعت کی صریح خلاف ورزی تھی۔ یہ اقدام آگے چل کر عقیدے کے بگاڑ کا سبب بھی بنا۔ مادہ پرستی اور ظاہر پرستی کو بھی فروغ ملا۔ مگر ان حالات میں بھی روحِ اسلام محفوظ رہی (یعنی تزکیہ نفس کا عمل جاری رہا)۔ یہ تصوف کی بدولت تھا۔ یوں تصوف اسلام کی سب سے اہم روایت بن کر ابھرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرِون اولیٰ کے اختتام سے لے کر جدید نو آبادیاتی دور کے آغاز تک تصوف اور اسلام عملی طور پر مترادف بن گئے۔ تصوف اسلام پر اس قدر غالب رہا کہ پوری تہزیب کے تمام حوالے تصوف کے رنگ میں تھے۔ زہد اور رندی تصوف کی ہی شاخیں تھیں۔

ادب، فلسفے اور فن کے تمام پہلو تصوف کے زیر اثر تھے۔ امام احمد، امام غزالی، ابن تیمیہ اور شیخ احمد سرہندی جیسے عالم ہوں یا حافظ، بلھے شاہ، شاہ حسین، منصور حلاج جیسے مجذوب ۔۔۔ یا پھر ابن عربی، سعدی اور رومی جیسے حکیم ۔۔۔۔ سب کسی نہ کسی شکل میں تصوف کی روایت سے جڑے تھے۔ تصوف ہی اسلام کا مرکزی دھارا  راسخ العقیدہ دین  اور تمدنی بنیاد تھا. اور اس مرکزی دھارے کے صدر مقام پر سید علی ہجویری، عبدالقادر جیلانی، معین الدین چشتی، بہاؤالدین نقشبند بخاری جیسے بزرگ تھے جو خالص صوفی تھے۔ ان کا چھوڑا ہوا کام ہی اصل میں صوفیانہ ہے۔ باقی سب بظاہر صوفی مظاہر (زہد، رندی، فلسفہ، حکمت، فن) متصوفانہ ہیں یعنی تصوف کے زیر اثر روایت سے اخذ کردہ۔

نوآبادیاتی نظام کی فتح پر جب عالم اسلام کو اپنے زوال کا احساس ہوا تو اسلام میں احیائی تحریکوں کا آغاز ہوا۔ سب سے پہلے بنیاد پسند تحریک ابھری جس نے تصوف، فقہ اور کلام سے قدرے بیزاری کا اظہار کرکہ اسلام کو ظاہری اور بنیادی شکل میں بحال کرنے کی بات کی۔ عرب میں اس تحریک کے بانی محمد بن عبدالوہاب نجدی اور برصغیر میں سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید تھے۔ یہ تحریک وہابیت اور دیوبندیت کی شکل میں فرقوں کی شکل اختیار کرگئی۔

اس کے بعد جدت پسند تحریک کا آغاز ہوا۔ اس تحریک نے بھی روایت کو مسترد کیا مگر ‘بنیاد’ کی طرف جانے کے بجائے مغرب کے زیر اثر نئی روایت قائم کرنے کی بات کی۔ برصغیر میں سرسید اور مشرق وسطیٰ میں محمد عبدہ جیسے بزرگ اس تحریک کے نمائندہ تھے۔ آج بھی غلام احمد پرویز، ملک فضل الرحمٰن یا جاوید احمد غامدی جیسے اصحاب کے زیر سایہ یہ تحریک جاری ہے۔

ان تحریکوں کے رد عمل میں برصغیر کے اندر روایت کی دفاع کی ایک تحریک بریلی سے اٹھی۔ امام احمد رضا خان اس کے روح رواں تھے۔ اس جماعت نے بھی امام موصوف کے بعد اپنے رنگ ڈھنگ کے اعتبار سے اہلسنت والجماعت کے مرکزی صوفی دھارے سے الگ ہو کر ایک شاخ یا فرقہ کی شکل لے لی۔ یہ مُلاّئی فرقہ تصوف کا حمایتی اور متصوفانہ تو ہے مگر صوفی نہیں۔ حقیقی صوفی سّنی دھارا اس سے علیحدہ ہے۔ وہ دھارا بریلوی کے ٹائٹل قبول کرتا ہے نا اس نام پر جاری خرافات کو۔

عصر حاضر میں جب تہزیبوں کے تصادم کے نام پر مغرب نے اسلام کو اپنا دشمن نمبر ایک بنا لیا تو اس دشمنی کا جواب دشمنی سے دینے کا فیصلہ صرف بنیاد پسندوں نے کیا۔ اہل روایت نے مغرب کے اس پاگل پن کا جواب پاگل پن سے دینا دانائی نہیں جانا۔ ان حالات میں مغرب نے روایتی اسلام یعنی تصوف کو اپنے بنیاد پسند دشمن کو کمزور بنانے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ سیاسی تھا اور خلوص نیت پر مبنی نہیں۔ چنانچہ ادھورا علم رکھنے والے مستشرقین اور مقامی روایت سے لاعلم کچھ مسلمانوں نے تصوف کو اسلام کے متوازی تقریًبا ایک علیحدہ مذہب کے طور پر متعارف کروانا شروع کردیا۔ بمشکل دو سے چار فیصد مسلمانوں کے عقیدے یعنی بنیاد پسندی کو مرکزی دھارے کے راسخ العقیدہ اسلام کے طور ہر متعارف کروایا گیا۔

یوں تصوف کے بارے میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ یہ مرکزی دھارے سے کٹا ہوا اور غیر راسخ  اسلام ہے جو اسلام کے برعکس امن اور محبت کا داعی ہے۔ اس مقصد کے لیے متصوفانہ روایت کی ایک شاخ یعنی رندی کو ہی کُل تصوف کے طور پر پیش کیا گیا۔ حالانکہ رندی خالص اور حقیقی تصوف نہیں بلکہ تصوف کی تہزیب سے اخذ کردہ علیحدہ روایت ہے۔ عبدالقادر جیلانی اور معین الدین چشتی جیسے حقیقی صوفی بزرگوں کو یکسر فراموش کرکہ صرف منصور حلاج اور بھلے شاہ سرکار جیسے رندوں کی من مانی تفہیم کو بہ طور تصوف پیش کیا گیا۔ کیونکہ اس عمل سے سیاسی مفادات پورے ہوتے تھے۔ اس بیانیے کو بنیاد پسندوں اور اسلامی جدت پسندوں کے موقف سے تقویت ملی جو تصوف کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔

تصوف اسلام کے متوازی یا علیحدہ کوئی چیز ہے نہ اسلام کی کئی تشریحات میں سے بس ایک تشریح۔ دراصل تصوف ہی مرکزی دھارے کا راسخ العقیدہ اسلام ہے۔ (تاریخی لحاظ سے بھی اور عوامی طور پر بھی). اس سے ہٹ کر ہر تحریک (دیوبندیت، بریلویت، جدیدیت، وہابیت، سلفیت وغیرہ) ثانوی یا ظلیّ ہیں، یہ اساسی اور حقیقی۔ تصوف کے بغیر کوئی اسلام نہیں اور اسلام کے بغیر کوئی تصوف نہیں۔ تصوف کے نام کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا تصوف کے لیے بھی نقصان دہ ہے اور مسلم معاشرے کے لیے بھی۔ اہل تصوف کا فرض ہے کہ وہ اس بات کا شعوری ادراک کرکہ مناسب اقدام کریں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…