’’میری تعمیر میں مضمر ہے اِک صورت خرابی کی‘‘

Published On September 16, 2024
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...

بشکریہ ادارہ ایقاظ

 

سماع ٹی وی کا یہ پروگرام بہ عنوان ’’غامدی کے ساتھ‘‘مورخہ  27 دسمبر 2013 کو براڈکاسٹ ہوا۔ اس کا ابتدائی حصہ یہاں من و عن دیا جارہا ہے۔ ذیل میں[1] اس پروگرام کا ویب لنک بھی دے دیا گیا ہے۔

ہمارے حالیہ شمارہ کا مرکزی موضوع چونکہ ’’جماعۃ المسلمین‘‘ ہے، جس کی اصل بنیاد ہے ہی ’’دین‘‘ (جس کو غامدی صاحب اور ان کی ہوسٹ خاتون ’مذہب‘ کے نام سے ذکر فرماتے ہیں)… اور چونکہ ہمارے اِن مضامین میں جدید مغربی پیراڈائم سے متاثر ہونے والی اسلامی عقول کا جابجا ذکر ہے… لہٰذا اس کی ایک مثال قائل کے اپنے ہی الفاظ میں یہاں دے دی جانا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ البتہ ہے یہ محض ایک مثال؛ یہ ’’فکر‘‘ بڑی بڑی گندھی عبارتوں میں تقریباً روز ہی پیش کی جارہی ہوتی ہے۔ درمند اصحاب فی الوقت جیو کے ’’امن کی آشا‘‘ سے ہی پریشان رہتے ہیں، ان کو اگر المورد کے اِس فکری پراجیکٹ کی سنگینی معلوم ہو جس کو بیک وقت کئی کئی نشریاتی چینل میسر ہیں، اور جس کا ایک خاصا مرکزی نقطہ ہے ہی یہ کہ ملک کی بنیاد ’مذہب‘ نہیں ہوسکتا… تو ان کو اندازہ ہو کہ ’مذہب‘ کے نام پر بننے والے عالم اسلام کے اِس واحد ملک کو گرانے پر جو بیشمار پراجیکٹ مختلف جہتوں اور مختلف انداز سے اِس وقت سرگرمِ عمل ہیں ان میں خطرناک ترین پراجیکٹ شاید یہی ہو؛ کیونکہ مذہب کو مذہب کی دلیل سے ہی گرا دیا جائےتو وہ ملک جو اپنے وجود میں آنے کی بنیاد ہی ’مذہب‘ بتائے سو فیصد گر جاتا ہے۔

سقوطِ ڈھاکہ اور موجودہ ملکی حالات (سماع ٹی وی)

ہوسٹ خاتون :      السلام علیکم غامدی صاحب

غامدی صاحب:   وعلیکم السلام

خاتون:    غامدی صاحب ویسے تو بہت سارے فیکٹرز ہوں گے جن کی وجہ سے نوبت یہاں تک آئی  کہ انہوں نے علیحدگی کی بات کر دی۔ لیکن اگر ایک مین فیکٹر ہم کہیں جس کی وجہ سے نوبت  یہاں تک آئی تو وہ کیا وجہ تھی؟

غامدی صاحب:   میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ایک بڑی بنیادی چیز  جس کو کہتے ہیں نا

میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت  خرابی کی

وہ یہ تھی کہ ہم نے جودونوں خطوں کو ملانے کے لئے  وجہ بیان کی وہ مذہب تھا۔ مذہب بڑی مقدس چیز ہے۔  میرا نظریہ ہے، آپ کا نظریہ ہے ، ہم اس کے لئے جان دینے کے لئے بعض اوقات  تیار ہو جاتے ہیں۔ لیکن دنیا میں جینے کے لئے اور باہمی ربط قائم کرنے کے لئے  دنیا کی بعض تلخ حقیقتیں ہیں جن کا ادراک کرناچاہئے۔

یعنی جب آپ کسی قوم کے ساتھ معاملہ کر رہے ہوتے ہیں  تو جس طرح فرد اپنی ذاتی شناخت رکھتا ہے ہر قوم بھی اپنی ایک ذاتی شناخت رکھتی ہے۔ میں بحثیت فرد اپنی ذاتی شناخت  کو خدا کے سامنے سرنڈر کرتا ہوں۔  میں جب مذہب کو قبول کرتا ہوں  تو میں یہ مانتا ہوں کہ میرا ایک پروردگار ہے اور  مجھے اسکے ماتحت ہو کر رہنا ہے۔ مجھے اسکی حکومت اپنے اوپر تسلیم کرنی ہے۔  وہ میرا رب بھی ہے، میرا معبود بھی ہے اور میرا بادشاہ بھی ہے۔ لیکن یہ جو میری کیفیت ہے، یہ جو میرا   احساس ہے  یہ کم و بیش ہوتا رہتا ہے۔ اس کو قرآن مجید بیان کرتا ہے نا کہ ایمان کی کیفیتیں اوپر  بھی جاتی ہیں اور نیچے بھی جاتی ہیں۔[2]

خاتون: گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔

غامدی صاحب:   زندگی کی جو تلخ حقیقتیں ہیں وہ اپنی جگہ پر کھڑی رہتی  ہیں ۔ تو میری ذاتی شناخت  یہ جس طرح انفرادی زندگی میں  بنیادی کردار ادا کرتی ہے قوم بھی شناخت بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔  وہ بنیادی کردار  زبان سے بھی  ادا ہوتا ہے، لباس سے بھی ، رہن سہن سے بھی، ملنے جلنے سے بھی، معاشرت، تہذیب، ثقافت کے بیشمار مظاہر ہیں  جو مل کر مجھے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔  ایک مظاہر بالکل کنکریٹ ہوتے ہیں، واقعی ہوتے ہیں ، یہ سامنے نظر آرہے ہوتے ہیں ، یعنی نظریاتی پہلو کبھی اوپر جاتا ہے کبھی نیچے جاتا ہے ۔

میری ایمان کی کیفیتیں کبھی اوپر ہوتی ہیں کبھی نیچے ہوتی ہیں ۔ ایک برتر چیز ہے کوئی شک نہیں، مذہب،  لیکن وہ میرے لئے جو بائنڈنگ فورس  کی حیثیت اختیار کرے  یہ ہر وقت ایک صورت میں کر نہیں سکتا۔  اس میں کسی بھی نظریے کو لے  لیجئے

خاتون: ٹھیک اس میں اور چیزیں بھی آتی ہیں، اس میں کلچر بھی آتا ہے

غامدی صاحب:   وہ چیزیں بنیادی ہوتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ  وہ میری ذاتی شناخت کا ذریعہ ہیں

خاتون:    حصہ ہیں

غامدی صاحب:   دیکھیں نا  میرا ایک وجود ہے ، میری کچھ جبلتیں ہیں۔ میں کھاتا ہوں ، میں پیتا ہوں ، میرے اندر جنس کے داعیات ہیں اور  بے شمار چیزیں ہیں  یہ تو ہر وقت موجود ہوتی ہیں نا۔ لیکن میں کسی فکر کو مانتا ہوں، کسی نظریئے کو مانتا ہوں ، میرا ایک نقطہ نظر ہے۔ نقطہ نظر استدلال پر مبنی ہو گا، شعور پر مبنی ہوگا۔  اس کی کیفیات بدلتی رہتی ہیں۔

خاتون: صحیح

غامدی صاحب:   یعنی جبلتیں اپنی  جگہ قائم رہتی ہیں  تو جبلی تقاضوں کی بنیاد پر  جو آپ کا رشتہ قائم ہوتا ہے یہ زیادہ قوی ہوتا ہے ہمیشہ۔ اس کو لوگ سمجھتے ہیں کہ  یہ کوئی اجنبی سی بات ہے لیکن  حقیقی بات یہی ہے۔ لہٰذا اس حقیقی بات کی بنیاد پر ہی آپ اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ مذہبی بنیاد آپ کے اندر ایک شعور اخوت پیدا کر سکتی ہے ۔ چنانچہ دیکھئے قرآن مجید میں  بڑی خوبصورت تعبیر اختیار کی ہے ۔ اس نے یہ نہیں کہا  انما المؤمنون قومٌ واحد: مسلمان ایک قوم ہیں۔ یعنی ان کی قومیت ایک ہے یہ نہیں کہا۔ انما المؤمنون اخوة : مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ تو مراکش میں رہتا ہوا آدمی میرا بھائی ہے مذہبی بنیاد پر، بنگلہ دیش میں رہتا ہوا آدمی بھی میرا بھائی ہے  لیکن جو میری  جو بنیادیں رشتے کو قائم کریں گی وہ مادی بنیادیں زیادہ حقیقی ہوں گی۔ یہ انسان کی فطرت ہے۔

چنانچہ  پہلی چیز یہ ہے کہ ہم نے اس چیز کو نظر انداز کیا۔ ہمارے مقابلے میں اگر آپ دیکھیں  تو ہم ادھر پڑے ہوئے تھے ، شمال مغربی ہندستان میں وہ  بالکل مشرقی حصہ میں پڑے ہوئے تھے۔ انکا کلچر اور تھا ، ان کی تہذیب اور تھی ، انکے سوچنے کے انداز اور تھے ، انکا تعلیمی پس منظر اور تھا۔ بنگال کے لوگ سیاسی لحاظ سے ، تعلیمی لحاظ سے ہم سے بہت آگے تھے۔ ہمارے ہاں جاگیر دارانہ نظام تھا  انکے ہاں یہ چیز اس صورت میں موجود نہیں تھی ، یعنی اگر تھی بھی کہیں تو بہت کمزور تھی۔  اور بے شمار عوامل تھے جو ان کو ہماری شناخت سے  مختلف کر دیتے تھے۔ تو شناخت کی وہ بنیادیں جو بالکل  جبلی بنیادیں ہیں ، یعنی جو انسان کے وجود سے  پھوٹتی ہیں  ان میں اتنا زیادہ تفاوت کے ساتھ آپ کو  قریب لانے والی چیز کون سی ہے ؟ ایک ملک بنانے والی چیز کونسی ہے؟ وہ تنہا مذہب تھا۔

اس بنیاد کے اوپر پہلی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کا اقدام کرنا ہی نہیں چاہئے تھا۔ پہلی چیز یہ۔ لیکن جب  آپ نے کر لیا تو  پھر یہ ضروری تھا کہ ان بنیادوں کو مستحکم تر کیاجائے۔ جو حقیقی بنیادیں ہیں  ان کے درمیان اچھے رابطے پیدا کیے جائیں۔  اور وہ شناخت کی چیزیں  ہمیشہ ملحوظ رہیں کہ ہم ان کو کبھی نظر انداز نہ کریں۔ چناچہ آپ دیکھئے کہ ان کے ہاں سب سے پہلا مسئلہ ان کی زبان سے پیدا ہوا۔  یعنی وہ ہم سے تعداد میں زیادہ تھے، اس کے باوجود جب ہم نے اس بات پر اسرار کیا کہ اردو ہماری قومی زبان ہو گی تو یہ کوئی حکیمانہ بات نہیں تھی۔  یعنی اپنی جگہ اس کے  بے شمار دلائل دئے جا سکتے ہیں  لیکن اس طرح در حقیقت آپ ایک جبلی تقاضے  کی نفی کر رہے ہیں۔ میری زبان میری شناخت ہے  جس طرح میرا چہرہ میری شناخت ہے ، میرا لباس میری شناخت ہے ، میرا خاندان میری شناخت ہے  بالکل اسی طرح میری زبان میری شناخت ہے۔  میں اپنی تہذیبی روایات کو کم تر ماننےکے لئے تیار نہیں ہوتا۔ یعنی اس وقت دیکھیں نا دنیا پر مغربی تہذیب کا غلبہ ہے   اس کے باوجود میں یہ کہتا ہوں کہ میری شناخت میری تہذیب، میری ثقافت ، اس کی عزت ہونی چاہئے ہر حال میں۔

تودوسری چیزکیا بنی، زبان اور زبان کے بعد: ثقافت اور تہذیب کے مظاہر، رہن سہن کے طریقے۔  یہ چیزیں جو ہیں یہ بھی احترام کا تقاضا کرتی ہیں اب ان کو زیادہ احترام ملنا چاہیئے تھا اس کے بعد۔  پھر  حقوق، دیکھیں نا آپ کے سیاسی حقوق ہیں آپ کے معاشرتی  حقوق ہیں  ہم اس وقت جس دنیا میں جی رہے ہیں یہ بادشاہی زمانے کی دنیا نہیں ہے۔  اس کے اندر یہ نہیں ہے کہ ایک بار بادشاہ سلامت  آ گئے ہیں تو اس کے بعد آپ بزور لوگوں کو ایک قاعدے کے اندر رکھیں گے۔ ان کا سیاسی شعور ہم سے بہتر تھا۔ اس کا وہ اظہار کرتے تھے۔  اس سیاسی شعور کے تقاضوں کے ساتھ ہم ہم آہنگ نہیں ہو سکے۔   اس وجہ سے ایک برتری کا احساس ان کے اندر پیدا ہوا کہ یہ لوگ غالبا ہم پر حکومت کر رہے ہیں۔  اس کو آپ مذہب کا نام دیں کسی اور چیز کا نام دیں  عام طور پر انسان اس کو قبول نہیں کرتا۔ یعنی اگر آپ مذہب کے لحاظ سے بھی غور کریں تو سوال یہ ہے کہ مغربی پاکستان کے لوگوں کو کوئی مذہبی برتری حاصل تھی۔  وہ بھی مسلمان ہی تھے۔

خاتون:    غامدی صاحب مذہب بھی تو  کہتا ہے کہ آپ equality قائم کریں ۔ اگر صرف ہم مذہب کی ہی  بات لے لیں تو مذہب بھی یہ سب کچھ کہتا ہے۔ جس کی ہم بات کر رہے ہیں جدید  دور کے لحاظ سے۔

غامدی صاحب:   مذہب تو دراصل انہی چیزوں کی تبلیغ کرے گا  نا، وہ یہ کہے گا آپ دوسروں کے حقوق ادا کریں۔  دیکھیں مذہب نے جب سیاست پر گفتگو کی ہے تو قرآن مجید نے سیاسی قانون بیان  کرنے سے پہلے کیا کہا؟  پہلے یہ کہا:  أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إلَى أَهْلِهَا۔ یعنی آپ یہ نظام  میرٹ پر قائم کریں گے۔ پہلی بات یہی کہی۔ تو اگر میرٹ کہیں مجروح ہو جائے گا کسی بھی طرح  تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جبلی تقاضے  احتجاج کریں گے ۔ انسان اپنی شناخت کو مجروح محسوس کرے گا۔ جو سبق ہمیں اس سے حاصل ہوتا ہے وہ سبق یہی ہے کہ انسان جیسے کہ وہ ہے پہلے اس کو پہچاننا چاہئے۔  اسکے ساتھ اپنے کوئی معاملہ کرنا ہے ، دو آدمی مل کر کوئی کاروبار کریں ، کوئی گھر بنائیں ، چند آدمی  مل کر کوئی ادارہ بنائیں  اسکے اندر محض یہ بات کافی نہیں ہے کہ آپ کا مذہب ایک ہے۔  وہ مقاصد کیا ہیں؟ کیسے اکٹھے ہوئے ہو؟  کیا آپ کے جبلی تقاضے  ایک جگہ پر آگئے ہیں؟  ان کے درمیا ن کوئی مساوات قائم ہو گئی ہے؟  آپ کے مفادات مجتمع ہو گئے ہیں  ؟ آپ کی سیاسی امنگیں مجتمع ہو گئی ہیں؟ یہ چیزیں دیکھنا ضروری  ہیں۔

 

[1]   http://www.samaa.tv/programdetail.aspx?v=9068&ID=114&dt=12%2F27%2F2013

[2]   گویا اسلامی ریاست ’مذہبی اپیلوں‘ سے چلتی ہے! (’مذہبی چندوں‘ کی طرح؛ جن کا کچھ پتہ نہیں گھٹ جائیں یا بڑھ جائیں!) پس ثابت ہوا کہ ’مذہب‘ ریاست کی بنیاد نہیں ہوسکتا! اس پر ہم ابن تیمیہ کی ’’خلافت و ملوکیت‘‘ کی دوسری فصل (جو آئندہ شمارہ میں آرہی ہے) کے تحت تعلیق میں کچھ بات کریں گے، یہاں ہم ساتویں صدی ہجری کے ایک عالم کی ایک مختصر عبارت شیئر کریں گے جو انہوں نے خلافتِ عباسیہ کی بابت دی ہے اور جس سے معلوم ہوگا کہ ’’ریاست‘‘ ایسی سنجیدہ حقیقتیں ہمارے ہاں کیسے دیکھی گئی ہیں

واعلم- علمت الخير- أنّ هذه دولة من كبار الدّول، ساست العالمَ سياسةً ممزوجةً بالدّين والملك، فكان أخيارُ الناس وصلحاؤهم يطيعونها تديُّناً، والباقون يطيعونها رهبةً أو رغبةً، ثمّ مكثت فيها الخلافة والملك حدود ستمائة سنة

(الفخری فی الأحکام السلطانیۃ والدول الإسلامیۃ، مولفہ محمد بن علی بن طباطبا۔ طبع دار صادر۔ بیروت۔ صفحۃ 140۔ ویب لنک: http://ia601207.us.archive.org/11/items/faadsufaadsu/faadsu.pdf )

جان لو، خدا تمہیں خیر سمجھنے کی توفیق دے، یہ (خلافتِ عباسیہ) نہایت عظیم ریاستوں میں سے ایک ریاست رہی ہے جو اپنی سیاست سے پورے جہان کو چلاتی رہی ہے۔ اس کی سیاست دین اور بادشاہت کا امتزاج تھی؛ جس کا نتیجہ یہ کہ لوگوں میں سے نیکوکار اور صالحین تو اس کی اطاعت کرتے تھے دین اور عبادت سمجھ کر، جبکہ باقی لوگ اس کی اطاعت کرتے کوئی خوف سے تو کوئی طمع سے۔ خلافت اور بادشاہت اس کے ہاں لگ بھگ چھ سو سال چلی۔

’’ایمان کے گھٹنے بڑھنے‘‘ کے مسئلہ سے ’’ریاست‘‘ کے مسئلہ پر دلیل پکڑ کر واقعتاً ان صاحب نے کمال کردیا ہے! ’’جدید ریاست‘‘ کو بھی سمجھا ہوتا تو یہ ’دلیل‘ نہ دیتے۔ یہاں ’’دین‘‘ تو پھر لوگوں کو جوڑنے کی کوئی بنیاد ہے (بلکہ قوی ترین بنیاد ہے) جدید ریاست تو کسی بھی بنیاد کے بغیر لوگوں کو جوڑ تی ہے اور ایک اٹوٹ مملکت کھڑی کرکے دکھا دیتی ہے۔ (مزید دیکھئے اِس شمارہ میں ہماری گفتگو بہ عنوان ’’جبر ایک انسانی ضرورت اور صلاح و فساد کا میدان‘‘) حیرت کی بات ہے، اِس سلسلہ میں ان کو ’’بھارت‘‘ ایسا چوں چوں کا مربّہ نظر نہیں آیا، پنجابی اور بنگالی کو ’’اسلام‘‘ کے رشتے سے جوڑنے پر اعتراض ہوا ہے۔ ’’دین‘‘ تو (جس کو یہ صاحب ’مذہب‘ کہنا پسند کرتے ہیں) ایک ایسا مضبوط رشتہ ہے کہ ریاستی سطح پر اس کے کم از کم تقاضے بھی پورے کر لیے جائیں تو اس کے مقابلے کا کوئی رشتہ نہیں۔ ہاں ’مذہب‘ کے نام پر ملک بنا کر خود ہی ’مذہب‘ کی خاک اڑائیں اور بدترین گوورننس  دیں تو جس چیز کو مرضی توڑ لیں

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…