حضرت عمر رض کی ولی عہدی : غامدی صاحب کی رائے پر تبصرہ

Published On December 4, 2023
انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط لگانا روافض و خوارج کی ایجاد ہے۔ اہل علم نے ہمیشہ اس موقف کی تردید کی ہے۔ ان اہل علم کا تعلق صرف اہل ظاہر سے نہیں بلکہ ان میں کثرت سے مذاہبِ اربعہ کے فقہاء بھی شامل ہیں۔ چنانچہ امام بخاری نے اپنی...

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

محمد خزیمہ الظاہری دین کی ہر ہدایت کا تواتر سے منتقل ہونا ضروری نہیں ہے اور نا ہی کسی نقل ہونے والی چیز کے ثبوت کا اکلوتا ذریعہ تواتر ہے.. سب سے پہلی اصل اور بنیاد کسی بات کے ثبوت پر اطمینان ہے اور اسکے لئے ہمہ وقت تواتر کا احتیاج نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی لٹریچر کو...

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

محمد خزیمہ الظاہری منکرین حدیث جس تواتر کا چرچا کرتے ہیں یہ از خود ہمیشہ ان اخبار و روایات کا محتاج ہوتا ہے جسے ظن و آحاد قرار دے کر انکی اہمیت گھٹائی جاتی ہے۔ متواتر چیز سے متعلق جب تک روایات اور اخبار کے ذریعے سے یہ بات معلوم نا ہو کہ گزشتہ تمام زمانوں میں وہ بات...

پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

ڈاکٹر زاہد مغل

محترم غامدی صاحب نے مسئلہ ولی عہدی پر جاری بحث پر ایک ویڈیو میں سوال کے جواب میں فرمایا ہے کہ حضرت عمر کی جانشینی کو ولی عہدی کی نظیر قرار دیتے ہوئے ولی عہدی کو جائز قرار دینا متکلمین و فقہاء کا ایک محل نظر استدلال ہے۔ چونکہ غامدی صاحب بھی انعقاد امامت میں آیت امرھم شوری بینھم کے تحت مولانامودودی رحمہ اللہ کے استدلال کے اس پہلو سے متفق ہیں کہ “اسلام کا اصلی طریقہ انعقاد امامت جمہوری ہے”، لہذا ان کے لئے ولی عہدی کو اصولاً جائز قرار دینا ایک مشکل بات ہے (تاہم وہ مولانا کی سیاسی فکر کے تمام پہلووں سے متفق نہیں)۔ غامدی صاحب کا مزید فرمانا ہے کہ انعقاد خلافت کے طریقے دراصل دو ہی ہیں: (1) مشورہ اور (2) تغلب۔ ان کے مطابق جسے ولی عہدی کہتے ہیں، یہ تغلب ہی کی ایک صورت ہے۔ آپ کے مطابق یہ تغلب و ولی عہدی اگر مشورے کے مقابلے پر ہو تو ناجائز ہے مگر انتشار و طوائف الملوکی کے مقابلے پر ہو تو جائز بلکہ بسا اوقات مستحسن ہوتی ہے۔ آپ کے مطابق حضرت امیر معاویہ کی جانب سے ولی عہد مقرر کیا جانا اس لئے جائز تھا کہ وہ انتشار کے خدشے کے باعث تھا نہ کہ مشورے کے مقابلے پر۔

ہمارے نزدیک یہ مقدمہ محل نظر ہے کہ قرآنی آیت وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ میں انتخاب حکمران کے بارے میں عوامی جمہوریت نما کوئی وجوبی نوعیت کا اصول بیان کیا گیا ہے، تاہم فی الوقت یہ ہمارا موضوع نہیں۔ آپ کا کہنا ہے کہ علامہ ابن سعد (م 230 ھ ) کی کتاب “طبقات ابن سعد”میں باقاعدہ ان صحابہ کے نام درج ہیں جن سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جانشین مقرر کرتے ہوئے مشورہ فرمایا۔ تاہم ہم یہ نہیں سمجھ سکے کہ اس بات سے حضرت عمر کا ولی عہد ہونا کیسے غلط ثابت ہوا؟ اس حوالے سے درج ذیل نکات قابل غور ہیں

ا۔ حضرت ابوبکر کی جانب سے مشورہ کرنے سے یہ کیسے لازم آیا کہ ان پر ان صحابہ کا مشورہ ماننا قانوناً و شرعا لازم تھا؟

2۔ یہ کیونکر فرض کرلیا گیا ہےکہ امام وقت ولی عہد بناتے ہوئے مشورہ نہیں کرتا؟ بادشاہوں کے باقاعدہ وزراء ہوتے ہیں جو انہیں مشورہ دیتے ہیں اور وہ متعلقہ شعبوں کے ماہرین کے مشوروں ہی سے پالیسیاں بناتے ہیں۔ قرآن بتاتا ہےکہ فرعون جیسے بادشاہ کی بھی ایک کابینہ تھی جن سے وہ مشورہ کرتا اور ان کے مطابق عمل بھی کرتا تھا۔ چنانچہ جب یہ بات سامنے آئی کہ ایک بچہ اس کی سلطنت کو ختم کردے گا تو کسی نے اسے مشورہ دیا کہ سب بچوں کو قتل کرو اور اس نے یہ تجویز مان لی۔ اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے دور میں جو ملک تھا اس نے بھی قحط سالی کے مسئلے سے نبٹنے کے بارے میں مشورہ قبول کیا۔ اسی طرح ولی عہد مقرر کرتے ہوئے بھی بادشاہ وقت مشورہ کیا کرتے ہیں۔ خود حضرت امیر معاویہ نے بھی اس معاملے میں مشورے کئے تھے۔ ایک ادارے کا عقل مند سربراہ ، یہاں تک کہ گھر کا سربراہ، بھی فیصلے کرتے ہوئے متعلقہ لوگوں سے مشورہ کرتا ہے اور یہ ایک اچھی عادت ہے، لیکن اس سے یہ کیسے لازم آتا ہے کہ اس پر مشورہ قبول کرنا قانوناً واجب بھی ہے؟ الغرض مشورہ اور ولی عہدی کو ایک دوسرے کے مقابلے پر لانا خلط مبحث ہے، الا یہ کہ مشورے کا مطلب “اکثریت کی بات ماننے کا وجوب” مراد لیا جائے۔ ظاہر ہے لغت و عقل کی رو سے مشورے کے مفہوم میں ایسی کوئی بات شامل نہیں۔

3۔ پھر “طبقات ابن سعد ” کی طرف رجوع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے چند صحابہ سے مشورہ کیا تھا۔ آخر ان چند لوگوں کا مشورہ پوری امت کی رائے و مشورے کے ہم معنی کیسے ہوگیا تھا؟

4۔ حضرت ابوبکر کے سامنے جب حضرت عمر کی سخت مزاجی کی بات لائی گئی تو طبقات ابن سعد کے مطابق یہ گفتگو ہوئی

وسَمعَ بعضُ أصحاب النّبيّ – صلى الله عليه وسلم – بدخول عبد الرّحمن وعثمان على أبى بكر وخَلْوَتِهِما به فدخلوا على أبى بكر فقال له قائلٌ منهم: ما أنت قائلٌ لربّك إذا سألك عن استخلافك عُمَرَ علينا وقد تَرى غِلْظَتَه؟[1]

مفہوم: بعض اصحاب نبیﷺ کو حضرت عبد الرحمن و عثمان کا (اس معاملے میں) حضرت ابوبکر کے ساتھ تنہائی میں ملاقات کا علم ہوا تو وہ آپ کے گھر آئے اور ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا: آپ اپنے رب کو کیا جواب دیں گے جب وہ آپ سے حضرت عمر کے ہم پر استخلاف (ولی عہد بنانے) کا پوچھیں گے، جبکہ آپ کو معلوم ہے کہ ان کے مزاج میں سختی ہے؟

حضرت ابوبکر نے جواب دیا

فقال أبو بكر: أجْلِسونى، أبالله تُخَوفوني؟ خابَ مَنْ تَزَوّدَ من أمركم بظُلم، أقولُ اللهمّ استخلفتُ عليهم خير أهلك، أبْلِغ ما قلت لك مَنْ وَرَاءَك

مفہوم: آپ نے فرمایا کہ مجھے اٹھا کر بٹھادو اور فرمایا: کیا تم مجھے (اس معاملے میں) خدا کا خوف دلاتے ہو؟ جس نے تمہاری امارت سے ایک خوشہ بھی ظلم و زیادتی سے لیا وہ تباہ ہوا۔ میں خدا کو جواب دوں گا کہ میں نے ان پر تیرے بندوں میں سے سب سے بہتر کو خلیفہ مقرر کیا تھا۔ تم میری یہ بات انہیں بھی پہنچا دو جو تمہارے پیچھے ہیں

ملاحظہ کیجئے، آپ یہ نہیں فرمارہے کہ “بھائی مجھ پر کیوں ناراض ہوتے ہو، میں نے تو وہی کیا ہے جو تمہاری اکثریت کا مشورہ تھا اور مجھ پر ان کا مشورہ ماننا واجب ہے”۔ اس کے بعد آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو یہ وصیت لکھوائی

ثمّ اضطجع ودعا عثمان بن عفّان فقال: اكتب بسم الله الرّحمن الرّحيم، هذا ما عَهِدَ أبو بكر بن أبي قُحافة في آخر عهده بالدنيا خارجًا منها وعند أوّل عهده بالآخرة داخلًا فيها حيث يؤمن الكافر ويوقن الفاجر ويَصْدُقُ الكاذب، إنى استخلفتُ عليكم بعدى عمر بن الخطّاب فاسمَعوا له وأطيعوا

مفہوم: پھر آپ لیٹ گئے اور حضرت عثمان کو بلا کر کہا :  لکھو کہ اللہ کے نام سے شروع جو رحمان و رحیم ہے، یہ وہ وصیتی تحریر ہے جو ابو قحافہ نے دنیوی زندگی کے اخیر میں رخصت ہوتے ہوئے اور اخروی زندگی کی ابتداء میں داخل ہوتے ہوئے لکھوائی، وہ اخروی زندگی جہاں مومن و کافر نیز سچا و جھوٹا ہر ایک ایمان لاتا ہے، کہ میں نے تم پر عمر بن خطاب کو جانشین بنایا (یعنی ان کا استخلاف کیا) ہے لہذا ان کی بات سننا اور ان کی اطاعت کرنا

بتائیے اس پوری گفتگو میں ایسی کونسی بات ہے جس میں “مشورے کے قبول کئے جانے کے وجوب ” کے مفہوم کی وجہ سے حضرت عمر کے انتخاب کو “جمہوری انتخاب” کا عنوان دیا جاسکے؟ صاف الفاظ میں یہ ولی عہدی کا معاملہ ہے اور یہ بات سمجھنے میں مشکل اس لئے آتی ہے کیونکہ مشورے کو غلط طور پر ولی عہد کا مد مقابل فرض کرلیا جاتا ہے۔

کیا ولی عہدی تغلب کی صورت ہے؟

محترم غامدی صاحب کی جانب سے ولیعہدی کو تغلب قرار دینا بھی درست نہیں کیونکہ متکلمین و فقہاء کے نزدیک ولی عہدی امام وقت پر کئے جانے والے اعتماد اور اس کے بارے میں گمان غالب کا قانونی نتیجہ ہے، یعنی جس شخص پر اعتماد کرتے ہوئے اسے امت کے معاملات سونپ دئیے اور اس بارے میں اس کے فیصلے نافذ العمل اور واجب الاتباع ہیں، اسی شخص کے بارے میں یہ ماننے میں قانونا کیا چیز مانع ہے کہ اگر وہ امت کی بھلائی دیکھتے ہوئے کسی کو ولی عہد بنادے تو یہ بھی درست ہوسکتا ہے؟ مسئلہ ولی عہدی پر ہماری گفتگو سے واضح ہوچکا کہ فقہا کا امام کے بارے میں یہی مفروضہ ہے۔ یہاں ہم ولی عہدی سے متعلق اس پہلو کو سمجھنے کے لئے ان متکلم و اصولی کی عبارت پیش کرتے ہیں جن کا متکلمین و اصولیین کی روایت پر انتہائی گہرا اثر ہے۔ ہماری مراد قاضی ابوبکر الباقلانی مالکی (م 403 ھ) ہیں۔ آپ کتاب “تمہید الاوائل” میں حضرت ابو بکر کی جانب سے حضرت عمر کی ولی عہدی کے موضوع کے تحت ناقد کا اعتراض نقل کرتے ہیں

فَإِن قَالَ قَائِل فَمَا أنكرتم من تَحْرِيم الْعَهْد من الإِمَام لغيره لموْضِع التُّهْمَة من العاهد وتجويز ميله إِلَى الْمَعْهُود إِلَيْهِ وإيثاره لولايته[2]

مفہوم: اگر کوئی کہے کہ اس رائے پر آپ کو کیا اعتراض ہے کہ چونکہ ولی عہد بنانے والے پر تہمت و بد گمانی ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ وہ جسے ولی عہد بنا رہا ہے اس کی طرف اس کا جھکاؤ و میلان ہو اور اس لئے اسے (اہل پر) فوقیت دے لہذا امام کی طرف سے ولی عہدی حرام ہو؟

سوال کی اٹھان بتارہی ہے کہ ناقد کو ولی عہدی کے بارے میں اسی نوع کے خدشات و سوالات کا سامنا تھا جو آج بھی لوگوں کو لاحق ہوتے ہیں۔ آپ جواب دیتے ہیں

قيل لَهُ هَذِه التُّهْمَة مَعْصِيّة لله مِمَّن جناها وظنها بِإِمَام الْمُسلمين إِذا كَانَ عفيفا مَشْهُورا ظَاهر الْعَدَالَة منصفا للْأمة لم تكن مِنْهُ خِيَانَة لَهُم فِي مُدَّة أَيَّام نظره وَلَا مخاتلة وَلَا جبرية فَهُوَ بألا يتهم بعد الْمَوْت ويحتقب عَظِيم الْإِثْم فِي تسليط ظَالِم عَلَيْهِم أَو جَاهِل بأمورهم أولى وَفِي هَذَا مَا يُوجب أَن يكون ظن الْمُسلمين بإمامهم الَّذِي لم يعرفوه إِلَّا بالصلاح والاستقامة والتهمة لَهُ ذَنبا مِنْهُم تجب التَّوْبَة وَالِاسْتِغْفَار مِنْهُ۔ وَلَا يجوز أَن يبطل الْعَهْد مِنْهُ إِلَى من عهد إِلَيْهِ

مفہوم: اسے کہا جائے گا کہ یہ بدگمانی اللہ تعالی کی نافرمانی ہے کہ مسلمانوں کے ایسے امام کے بارے میں کی جا رہی ہے جو پاک دامن، (اچھی خصلتوں میں) مشہور اور ظاہری عدالت سے متصف ہے۔ اس کی مدت خلافت میں خیانت، دھوکا اور ظلم وجبر اس میں نظر نہیں آیا۔ لہذا یہ فرض کرنا زیادہ قرین قیاس ہے کہ وہ امت پر کسی ظالم یا معاملات سے بے خبر کسی شخص کو مسلط کرنے جیسا بڑا گناہ اپنے سر مول نہ لے لہذا مرنے کے بعد اس سے بدگمانی نہ کی جائے۔ اس سے ثابت ہوا کہ مسلمانوں کا اپنے ایسے امام سے بدگمانی کرنا، جس میں انہوں نے نیکی واستقامت پائی ہو، گناہ ہے جس سے توبہ واستغفار ضروری ہے۔ پس یہ ناروا ہے کہ اس گمان کی وجہ سے اس کی ولی عہدی کو کالعدم قرار دیا جائے۔

اس سے معلوم ہوا کہ متکلمین و فقہاء کے نزدیک امام کے بارے میں یہ قانونی مفروضہ ہے کہ وہ عادل و امت کا خیرخواہ ہے اور اسی خیر خواہی کی بنا پر اس کی زندگی میں اس پر اعتماد کرتے ہوئے مسلمانوں کے امور اس کے سپرد کئے جاتے ہیں۔ پس ایسے شخص کے بارے میں یہی فرض کیا جائے گا کہ اگر وہ کسی کو ولی عہد بنائے تو امت کی خیرخواہی کے لئے ہی ہوگا۔ درحقیقت یہ قانونی مفروضہ مانے بغیر دنیا کا کوئی اجتماعی و قانونی نظام قائم و دائم نہیں رہ سکتا، اسی قانونی مفروضے کی بنیاد پر حکمرانوں کو قانون سازی نیز عوام کی زندگی میں تصرف کے حقوق عطا کئے جاتے ہیں۔ حضرت عمر کی ولی عہدی کی وصیت لکھواتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما نے جو الفاظ فرمائے وہ بھی اسی اصول کی جانب اشارہ کررہے ہیں کہ یہ وصیت وہ شخص کررہا ہے جو دنیا کی زندگی کی آخری منزل اور آخرت کے پہلے زینے پر کھڑا ہے، ایک ایسا وقت جب کوئی شخص اس چیز کی تمنا نہیں کرتا کہ وہ برا کام کر کے جائے! پھر فرمایا کہ میں تم پر حضرت عمر کو مقرر کررہا ہوں، ان کی اطاعت کرنا۔

اس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ علمائے اسلام کے مطابق ولی عہدی اور تغلب اخلاقا و قانونا دو الگ امور ہیں، ولی عہدی امام وقت پر اعتماد کے اظہار کا قانونی نتیجہ ہے جبکہ تغلب میں یہ مفہوم شامل نہیں۔ چنانچہ علامہ سعد الدین تفتازانی (م 793 ھ) اسی لئے انعقاد امامت کے تین طرق کا الگ ذکر کرتے ہیں: (1) اھل حل و عقد کی بیعت ، (2) امام وقت کی جانب سے استخلاف، امام کی جانب سے کسی معین شخص کو امام مقرر کئے بغیر چند لوگوں کی شوری بنادینا بھی اسی مفہوم میں ہے، (3) بذریعہ طاقت غلبہ جس کی پھر دو صورتیں ہیں: جبکہ متغلب شرائط امامت کا جامع ہو اور جبکہ وہ فاسق و جاہل ہو، اس آخری صورت میں وہ گنہگار ہوتا ہے۔ آپ کی عبارت ملاحظہ ہو

وتنعقد الإمامة بطرق: أحدها بيعة أهل الحل والعقد من العلماء والرؤساء ووجوه الناس الذين يتيسر حضورهم من غير اشتراط عدد ولا اتفاق من في سائر البلاد بل لو تعلق الحل والعقد بواحد مطاع كفت بيعته۔ والثاني استخلاف الإمام وعهده وجعله الأمر شورى بمنزلة الاستخلاف إلا أن المستخلف غير متعين فيتشاورون ويتفقون على أحدهم وإذا خلع الإمام نفسه كان كموته فينتقل الأمر إلى ولي العهد۔ والثالث القهر والاستيلاء فإذا مات الإمام وتصدى للإمامة من يستجمع شرائطها من غير بيعة واستخلاف وقهر الناس بشوكته انعقدت الخلافة له وكذا إذا كان فاسقا أو جاهلا على الأظهر إلا أنه يعصى بما فعل [3]

الغرض ولی عہدی کو قانوناً تغلب کے معنی میں مراد لینا فقہائے اسلام کی رو سے درست نہیں اور نہ علم و عقل کے مسلمات اس بات کو قبول کرتے ہیں۔

حوالہ جات

[1] طبقات ابن سعد (3 / 183)

[2] تہمید الاوائل و تلخیص الدلائل (504)

[3] شرح المقاصد (5 / 233)

۔۔۔۔۔۔۔۔

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…